غلام عباس کا افسانہ اس کی بیوی کا خلاصہ اور فنی و فکری جائزہ | از پروفیسر جمیل احمد انجم : افسانوی نثر اور ڈرامہ

غلام عباس کا افسانہ اس کی بیوی کا خلاصہ اور فنی و فکری جائزہ

افسانہ اس کی بیوی کا خلاصہ

غلام عباس کا افسانہ اس کی بیوی ان کے افسانوں کے مجموعہ ” جاڑے کی چاندنی میں شامل ہے۔ اس میں کل چودہ افسانے شامل ہیں اور یہ مجوعہ جولائی 1956ء میں پہلی بار کراچی سے سجاد کامران نے شائع کیا۔ اور اس پر پاکستان رائٹرز گلڈ کی طرف سے پہلا انعام میں ہزار روپے دیا گیا اور آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔

اس کی بیوی کی پہلی بار اشاعت کے بارے میں سعادت حسن منٹو اپنے 3 نومبر 1948ء کے غلام عباس کے نام لکھے غیر مطبوعہ خط میں لکھتے ہیں : تمہارا افسانہ دوسری بیوی (شاید عنوان کچھ اور ہے ( اس کی بیوی ) خوب تھا۔ مجموعہ مرتب کر رہا ہوں، اس میں تمہاری شرکت بے حد ضروری ہے۔

تمہارے قریب قریب سارے افسانے ہیں اچھے ہوتے ہیں، جو بھی نیا لکھا ہو، بھیج دو ممنون ہوں گا۔ لاہور کب آؤ گے؟“اس خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ افسانہ 3 نومبر 1948ء سے پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ اس افسانے کی تعریف و توصیف حسنعسکری منٹو کی زبانی یوں کرتے ہیں؛آپ نے اُردو ادب کو جو افسانہ دیا ہے، وہ منٹو کو بے حد پسند آیا ہے، وہ تو ایک دن یہاں تک کہنے لگے کہ بس عسکری صاحب میں تو افسانہ نگار ہوں ہی نہیں ۔

اس افسانے کے سامنے میرا افسانہ ” کالی شلوار بکواس ہے۔ غرض وہ آپ کے افسانے کی اکثر تعریف کرتے رہتے ہیں ۔ غلام عباس کے نام ایک خط ( غیر مطبوعہ ) 30 اکتوبر 1948ءاس خط کے مندرجات سے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ افسانہ 1948ء میں لکھا گیا تھا۔ اس افسانے کا انگریزی میں”For the love of her کے نام سے میں شائع ہوا۔

اس افسانے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ موت کی جس انسان کو آپ نہایت دل و جان سے چاہتے ہیں وہ بھی آپ سے اس شدت اور خلوص سے پیار کرتا ہو۔ دوسری بات یہ کہ اوائل عمر کی محبت کو کسی دور، اور کسی حال میں بھی بھولنا بہت مشکل ہے۔ یہ افسانہ ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتا ہے، جسے اپنی خوبصورت بیوی سے یہ جاننے کے باوجود کہ وہ بے وفا ہے اور اس کے ساتھ مخلص نہیں ہے، عشق کی حد تک محبت ہے۔

حتیٰ کہ جب وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہوتی ہے تو نوجوان کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اسے کچھ کہنا چاہتی ہو مگر جوان طرح دیا جاتا ہے بلکہ برابر دلجوئی اور تشفی کے کلمات سے اس کی ڈھارس بندھاتا رہتا ہے۔ بیوی کے فوت ہو جانے کے باوجود وہ اس کی یاد کو دل سے محو نہیں کرپاتا۔

گزرے ہوئے دن اس کے دل و دماغ کا احاطے کیے رہتے ہیں، اور اپنی یادوں کو وہ اپنا سرمایہ حیات سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی یاد میں ساری زندگی گزار دے کہ اس کا سامنا ایک ایسی لڑکی سے ہوتا ہے جس کی شکل متوفیہ بیوی سے ملتی ہے، مگر وہ اس بازار سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے باوجود وہ اس لڑکی جس کا نام نسرین ہے، کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے وہ کچھ سرمایہ جمع کرتا ہے اور دو راتوں کے لیے اسے خرید لیتا ہے۔

وہ نسرین کو دیکھ کر اپنی متوفیہ بیوی نجمی کے حوالے سے مخاطب کر کے اس کے حسن و جمال کی تعریف کرتا ہے اور اپنی بیوی کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی اسے بتاتا ہے۔ نسرین اس کی یہ باتیں پہلے تو دلچسپی سے سنتی ہے، پھر خاموش ہو جاتی ہے ۔

بعد ازاں بے زار ہو جاتی ہے اور مکمل میک آپ کے ساتھ اس کے سامنے آتی ہے۔نسرین کا مقصد اپنا حسن و جمال اور عشوہ و ناز دکھا کر اس کی متوفیہ بیوی کی یادوں کو نحو کر کے اپنی طرف راغب کرنا تھا مگر نوجوان اس کی طرف ملتفت نہیں ہوتا اور بدستور اپنی بیوی کی باتیں اسے سناتا رہتا ہے تو نسرین بے زار ہو کر اسے پوچھتی ہے:تو گویا بہت محبت تھی :

آپ کو اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ ۔” نوجوان نسرین کے اس طنز یے جملے کا مطلب نہ سمجھ سکا اور جواب دیا : ” ہاں بے حد وہ کہتی ہے :

” واہ صاحب اور کیسی محبت تھی جو اس کے مرنے کے بعد مہینے میں ختم ہو گئی اور حسرت بھری انگڑائی لے کر باہر چلی جاتی ہے۔

وہ میک اپ اور زیور اتار کر جب واپس کمرے میں آتی ہے تو نو جوان جو چوبیس پچیس سال کا جوان تھا اور شکل وصورت اور ڈیل ڈول سے کسی کالج کا طالب علم لگتا تھا پلنگ پر چت لیٹا ہوا تھا اس کے سامنے ایک پتنگا ٹیبل لیمپ کی حرارت سے جل کر سامنے چت پڑا ہوا تھا،

مگر اس میں زندگی کی حرارت باقی تھی اور وہ اپنی کمزور ٹانگوں اور ادھ جلے سر کی مدد سے اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

تو جوان اسے بڑی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا، بلکہ جب وہ پتنگا اپنی اُٹھنے کی کوشش میں کامیاب ہو جاتا ہے تو نوجوان اسے بھجی ہوئی دیا سلائی کی تیلی کی مدد سے دوبارہ چت کردیا ہے کہ نسرین چپکی سے کمرے میں داخل ہوئی نوجوان چونکا اور اس نے پتنگے کو پرے پھینک دیا۔ جیسے اسے اپنے اس فعل پر شرمندگی ہو۔ نسرین ایک دفعہ پھر نوجوان سے پوچھتی ہے۔

‘بیگم صاحبہ کے مرنے کا رنج تو بہت ہوا ہو گا آپ کو ؟ نوجوان ایک لمحہ تامل کے بعد بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا ہے: نہیں شروع شروع میں کچھ ایسا غم نہیں ہوا تھا، یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ایسا ہو گیا ہے،

مگر زیادہ دن خود کو فریب نہ دے سکا اور بیمار ہو گیا اور مہینہ بھر میری حالت بہت خراب رہی اور میں نے اپنی امی اور زہری کی پریشانی دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ ابھی مجھے نہیں مرنا چاہئے، سو میں تندرست ہونا شروع ہو گیا ۔”

نسرین نوجوان کے زندہ رہنے کے اس استدلال سے بہت متاثر ہوئی اور اس کی طبیعت کا چلبلا پن اور شوخی دوبارہ لوٹآئی، اس نے نوجوان سے پوچھا: ابھی آپ نے کہا تھا کہ میری شکل بیگم صاحبہ سے بڑی ملتی جلتی ہے۔“تو جوان جواب دیتا ہے:

ہاں تمہاری آنکھیں نجمہ سے بہت زیادہ ملتی ہیں۔ ویسی ہی سیاہ گہری ، دوسرے نمبر پر ٹھوڑی، ویسی ہی پتلی اور تیسرے نمبر پر۔۔۔۔۔”نسرین کہتی ہے چلیئے بیٹے بنائے نہیں ۔

آدھ گھنٹے بعد بجلی بند کر دی جاتی ہے اور دونوں بستر پر لیٹ جاتے ہیں اور نو جوان جلدی ہی سوجاتا ہے اور نسرین آسمان کو دیر تک دیکھتی رہتی ہے، اسے ویسے بھی آسمان پر ستاروں سے دلچسپی تھی ، اسی سوچ میں اسے اپنا ماضی یاد آجاتا ہے جب اس کا باپ ریل گاڑی کے ایک طویل سفر کے بعد سے ایک آدمی کو اس کا ہاتھ تھما کر چپکے سے کھسک گیا تھا اور آج تک اس نے دوبارہ اپنے باپ کی شکل نہیں دیکھی تھی۔

انہی سپنوں اور خیالوں میں نہ جانے اسے کب نیند آگئی، صبح جب جاگ گئی تو تو جوان کو پہلو سے غائب پایا۔کچھ دیر بعد جب وہ بازار سے واپس آتا ہے تو اس کے پاس دو پہر کے لیے سبزی، گوشت وغیرہ ہوتے ہیں اور بڑی محنت اور محبت سے دوپہر کی ہنڈیا پکاتا ہے اور اسے بڑے شوق سے کھلاتا ہے۔ ن

سرین نو جوان کے اس عمل سے بہت خوش ہوتی ہے۔ شام کو نو جوان اسے شاپنگ کے لیے لے جاتا ہے اور اس کی پسند کی چھوٹی موٹی چیزیں خرید کر دیتا ہے اور بازار میں اس کی ٹھنڈے اور گرم ماکولات اور مشروبات سے تواضع بھی کرتا ہے۔

گھر آکر اس کے پاس ہی چاندنی پر لیٹ جاتا ہے اور کچھ دیر تامل کے بعد نسرین سے کہتا ہے کہ میں نے تمہیں نجمی کی بہت سی باتیں بتائی ہیں، مگر ایک بات ابھی تک نہیں بتائی کہ بے وفا تھی، نسرین متعجب ہو کر پوچھتی ہے کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا۔ نوجوان اسے بتاتا ہے کہ ایک دن اس کے نام آیا ہوا خط کھولا تو معلوم ہوا کہ وہ کسی اور کو چاہتی ہے۔ یہ کہہ کر نوجوان بے حد افسردہ ہو گیا اور ندامت سے گردن جھکالی –

نسرین کے اس استفسار پر کہ تم پھر بھی اس سے محبت کرتے رہے ہو؟ نوجوان بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیتا ہے :

اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا نسرین پھر پوچھتی ہے کہ کیا وہ جانتی تھی کہ تم اس کی اس کمزوری سے واقف ہو۔

نوجوان نے اسے بتایا کہ میں نے آخری دم تک اس پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں اس کے اس راز سے واقف ہوں، البتہ علم نزع کے وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی بات مجھ سے کہنا چاہتی ہے مگر میں نے قصداً اس سے آنکھ ملانے سے احراز کیا اور برابر اس کو تسلی دیتا رہا اور اس کا حوصلہ بڑھاتا رہا اور وہ دل کی بات دل ہی میں لے کر اگلے جہان کو سدھار گئی۔

اس اثنا میں روشنی گل کردی گئی نو جوان سوگیا اور نسرین حسب عادت کھڑکی میں سے ستاروں کی تعمیل جھلمل کا نظارہ کرتی رہی اور اس کی سانسیں تیز ہوگئی ۔

نسرین قریب آتی ہے، اس کا سر اٹھا کر دیکھتی ہے اور کچھ تامل کے بعد جسے کوئی بچہ سوتے میں ڈر جائے تو ماں اسے چھاتی سے لپٹا لیتی ہے۔ نسرین بھی بلکل اسی طرح اس کے سر کو بازوؤں میں لے کر اسے اپنی آغوش میں کھینچ لیتی یے۔

افسانہ اس کی بیوی کا فنی و فکری جائزہ

غلام عباس کا یہ افسانہ حقیقت پسندی اور رومانیت کا حسین امتزاج ہے، اس میں وفا اور رحم کے جذبوں کو اس موثر انداز میں پیش کیا ہے کہ نسرین اپنے آپ کو نجمہ تصور کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اس کی ممتا بیدار ہو کر سکاریاں بھرتے ہوئے نو جوان کو ایک مہربان ماں کی طرح اپنی گود میں بھر لیتی ہے۔

افسانے کا آغاز مختصر مگر جامع انداز میں ہوا ہے۔ آغاز میں چونکا دینے والا عنصر موجود نہیں ہے ۔ درمیان میں جزئیات نگاری، کردار نگاری یا منظر نگاری کے ذریعے حقیقت نگاری کی گئی ہے، جس سے افسانے میں لطافت پیدا ہوگئی ہے ۔ آغاز کی طرح انجام بھی مختصر مگر جامع انداز میں ہوا ہے۔

اختتام سے پہلے نسبتاً لمبے واقعات پیش کیے جانے کی وجہ سے قاری کو انتقام کی رفتار تیز معلوم ہوتی ہے، اس لیے قاری میں حیرت کا تاثر ابھرتا ہے۔ آغاز اور انتقام مختصر ہونے کے باوجود درمیان میں واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ اس سے منطقی طور پر بہاؤ پیدا ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری کو وقفوں کی طرح واقعات کا تسلسل نظر آتا ہے۔ افسانہ میں مفصل انداز ( تشریحی اور تفصیلی انداز ) اختیار کیا گیا ہے۔

اس کی بیوی میں فلیش بیک (Flash Back) کی تکنیک استعمال نہیں کی گئی، بلکہ زمان و مکان کی تبدیلی مناسبت کے ساتھ ہوئی ہے۔ اس افسانے میں نسرین ستاروں کے حوالے سے ماضی کو یاد کرتی ہے۔ دونوں دفعہ جب نو جوان سو جاتا ہے تو نسرین ستاروں کی جھلمل سے دل بہلاتی ہے اور اس کا ماضی اس کی آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔

گو یا زمان و مکان کی تبدیلی فلیش بیک کی بجائے ستاروں کی نسبت سے ہوئی ہے۔

کیونکہ اس کے بچپن میں جب اس کا باپ ایک دیہاتی ریلوے سٹیشن پر رات کے وقت اترا تھا تو وہ ایک موٹے ننگ دھڑنگ فقیر کی لال انگاروں جیسی آنکھوں سے ڈر کر باپ کی ٹانگوں سے چمٹ گئی تھی ، اس لمحے اس کی سبھی ہوئی آنکھوں نے آسمان پرستاروں کو ڈھونڈ نکالا تھا اور ان کو دیکھ کر اس کا خوف کم ہوا تھا۔سویامانے یاسر نے لکھا ہے :

"غلام عباس کے افسانوں میں اکیلا کردار کہیں نہیں ہوتا بلکہ دو سے زیادہ ضرور پیش کیے جاتے ہیں …

بیشتر افسانے بیانیہ انداز میں ہیں ان میں مرکزی کردار "میں” ہے۔ بعض کرداروں کو نام نہیں دیا گیا ۔ جیسے اس کی بیوی کا مرکزی کردار نو جوان ہے اور اسے نام نہ دیا جاتا ، کردار میں پر اسراریت پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے اور ایک گمنام کردار کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔”

افسانہ اس کی بیوی میں منظر کی جزئیات نگاری اور کردار کی جزئیات نگاری کے بارے میں سویا مانے یا سر لکھتے ہیں: "اس کی بیوی میں منظر کی جزئیات نگاری زیادہ ہے، کرداروں کی جزئیات نگاری دوسرے افسانوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے، مگر پھر بھی جزئیات نگاری صرف مرکزی کردار نوجوان لڑکے کی ہوتی ہے۔ دوسرے ضمنی کرداروں کی نہیں ۔

“غلام عباس کے افسانوں کے اسلوب کے بارے میں سو یا مانو یا سر لکھتے ہیں: "

غلام عباس کے افسانوں کی ایک خصوصیت اسلوب ہے اور غلام عباس کے اسلوب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیدھا سادہ ہوتا ہے اور بیانیہ انداز میں کہانی آگے چلتی ہے۔ کرداروں کی حیثیت کی مناسبت سے مکالمہ بازی بھی ہوتی ہے۔

ویسے غلام عباس نے بچپن سے سلیس اور سادہ اسلوب اختیار کیا۔ بہر حال اس سے واضح ہوتا ہے کہ غلام عباس کے پاس اسلوب کی سلاست کی اہمیت کا شعور تھا ۔ اور یہ بات غلام عباس کے افسانے اس کی بیوی کے بارے میں بھی صحیح ہے۔”

مکالمہ نگاری کے لیے بنیادی عصر یہ ہے کہ مکالمہ کردار کی حیثیت کے مطابق ہو، یعنی ہر کردار اپنے معاشرے، طبقے اور حیثیت سے گہرا تعلق رکھتا ہو، اس کے مکالمے میں اپنے پورے پس منظر کی نمایندگی نظر آتی ہو۔ غلام عباس کی مکالمہ نگاری میں یہی خصوصیت نظر آتی ہے۔ اس کی بیوی سے ایک مکالمہ ملاحظہ ہو:

"سب سے زیادہ تمہاری آنکھیں نجمی سے ملتی ہیں ۔“یہ کہتے وقت اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی مگر لہجے سے بھی افسردگی کا اثر دور نہیں ہوا تھا۔”ویسی ہی سیاہ اور گہری دوسرے نمبر پر ٹھوڑی ویسی ہی نیلی اور تیسرے نمبر پر…”

غلام عباس کے مکالموں میں صرف کرداروں کی معاشی حیثیت کی عکاسی نہیں ہوتی، بلکہ کرداروں کی نفسیاتی کیفیت کا انداز بھی شامل کیا جاتا ہے۔

اس کی بیوی میں پہلے اقتباس کے مکالمے میں ”معجم“ کا لفظ مستعمل ہے، جو نو جوان لڑ کا نجمہ کو پیار سے اس طرح پکارتا تھا اور یہ نوجوان دوسری عورت کے سامنے بھی یہی لفظ نسرین کی شکل نجمہ سے ملتی تو ہے مگر اسے پڑھتے ہوئے قاری کو اس لڑکے کا طفلانہ انداز نظر آتا ہے، جیسے وہ ابھی تک ماں کا دودھ پینے والا بچہ ہو۔ اس افسانے کے آخر میں مصنف نے یہ لکھا ہے:

پچھلے پہر اچانک نوجوان نے سوتے میں سسکی لی اور پھر تیز تیز سانس لینے شروع کر دیئے۔ نسرین نے سر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا، کچھ چھاتی سے چمٹا لیتی ہے،۔۔۔ کوئی بچہ سوتے سوتے ڈر جائے تو ماں اسے سے اپنی آغوش میں کھینچ لیا۔”

تشبیہ و استعارہ ایک ایسی تکنیک ہے جس سے اسلوب میں خاصی لطافت پیدا ہوتی ہے، اسے فن خطابت کا بنیادی عنصر کہا جاتا ہے۔ غلام عباس کے افسانوں میں یہ دونوں عناصر میں گر تشبہ کا استعال نسبتاَ زیادہ ہے۔ اس کی بیوی سے اقتباس ملاحظہ ہو:

"چھوٹا سا کمرہ اپنی ہلکی نیلی روشنی کے ساتھ باہر سے یوں دکھائی دیا، گویا ٹرین کا کوئی ٹھنڈا ڈبہ ہے جس طرح ریلوے والے گرمی کے موسم میں "فردوسی” یا "خواب یا کمین وغیرہ شاعرانہ نام رکھ کر بعض گاڑیوں میں جوڑ دیتے ہیں۔ (اس کی بیوی، جاڑے کی چاندنی طبع دوم، کراچی 1968ء)”

جب سڑک پر چلتی تھی تو وہ اس کے آگے پیچھے راستہ صاف کرتا ، اسے آنے جانے والی گاڑیوں ، موٹروں اور ہجوم کی ھائی سے بچاتا ، یوں اپنی حفاظت میں لے جاتا، گویا وہ بھی کوئی بہت مقدس چیز ہے۔“

اگلا موضوع:غلام عباس حیات اور ادبی خدمات مقالہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں