غزل غالب میں فارسیت کا عمل دخل

کتاب کا نام….. میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کورڈ نمبر…..5612
صفحہ نمبر….53 تا55
موضوع…..غزل غالب میں فارسیت کا عمل دخل
مرتب کردہ…..حسنٰی

غزل غالب میں فارسیت کا عمل دخل

مرزا غالب اردو اور فارسی دونوں کے مسلم الثبوت استاد تھے انھوں نے دونوں زبانوں میں نظم و نثر کے دقیع مجموعے یادگار چھوڑے ہیں، ان کے اس ادبی سرمائے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے، شاعر یا ادیب کے لیے اس کی نگارشات اولاد معنوی کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ اسے بلا تخصیص گہری وابستگی ہوتی ہے یا ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: مرزا غالب: اردو ادب کا نایاب گوہر

لیکن مرزا غالب کو اردو کے مقابلے میں اپنی فارسی نظم و نثر زیادہ عزیز تھی ، ان کے مختصر مگر سراپا انتخاب اردو دیوان کو تقدس میں دید اور حسن و عظمت میں تاج محل کے برابر ٹہرایا گیا ہے لیکن وہ خود اپنے فارسی کلام کو نقش ہائے رنگ رنگ سے معمور اور اردو دیوان کو محض بے رنگ قرار دیتے ہیں۔ غالب کے خطوط اردو نثر کا ایک عظیم شاہکار ہیں لیکن وہ اپنے فارسی رقعات پر فدا ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مونوگراف: مرزا غالب شخصیت اور شاعری | PDF

فارسی کے ساتھ غالب کے اس شدید تعلق اور اس کے دوسرے مظاہر کو ان کی فارسیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے وہ فارسی کے صرف دلدادہ ہی نہ تھے۔ بلکہ ان کے ہاں فارسیت ایک غالب رجحان کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے اثرات ان کے ادبی کارناموں اور زندگی دونوں میں صاف نظر آتے ہیں۔

اردو ادب پر فارسی کے اثرات

فارسی برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے ساتھ آئی اور تقریباً آٹھ سو سال تک یہاں کی سرکاری اور ادبی زبان رہی۔ مغلوں کے زوال سلطنت کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت کا آفتاب بھی ڈھلتا گیا۔ شمالی ہندوستان میں مغلوں کے اقتدار کی وجہ سے اردو در بارمیں جگہ نہیں پاسکی تھی لیکن غالب کے زمانے میں اردو، فارسی کی ایک کامیاب حریف ثابت ہو چکی تھی۔

اور اس نے مغل دربار میں ملک الشعرائی کی مسند اپنے لیے خالی کروالی تھی ۔ ہندوستان میں فارسی کے اس دور انحطاط میں غالب کا اس شد ومد اور سنجیدگی سے فارسی نظم ونثر کی جانب توجہ دینا فارسی کے ساتھ ان کی شدید ذہنی وابستگی کا ثبوت ہے تیس سے پچاس برس کی عمر تک ان کی ادبی زبان فارسی ہی رہی۔

اس عرصہ میں انھوں نے اردو میں بہت کم کہا۔ ۷ ۱۸۴ء کے بعد دربار سے تعلق قائم ہو گیا۔ تو غالب نے انبساط خاطر حضرت کے لیے پھر سے اردو میں کہنا شروع کیا۔ بر صغیر کے آٹھ سوسالہ فارسی دور میں یہاں کئی باکمال فارسی شاعر پیدا ہوئے ۔

اور بہت شعرا کو ہندوستان کی کشش ایران سے یہاں کھینچ لائی لیکن مرزا کی فارسیت ملاحظہ ہو کہ انھوں نے ہندوستان کے فارسی گو شعرا میں صرف امیر خسرو کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ اور ملک الشعر فیضی کی فارسی شاعری کا اعتراف بڑی دلی سے کیا ہے۔ مرزا کے ذہنی روابط در اصل ایرانی شعرا کے ساتھ قائم تھے۔

انھوں نے اپنی شاعری میں ان ایرانی شعراء کی تقلید کی جو ہندوستان چلے آئے تھے۔ ان میں ظہوری تبریزی نظیری نیشاپوری صاحب تبریزی اور کلیم کاشانی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ہندوستان کے فارسی گو شعراء کے ساتھ ان کی یہ بے اعتنائی اور ایرانی شعراءکے ساتھ ان کا تعلق خاطر بھی ان کی فارسیت ہی کا ایک مظاہرہ ہے۔ غالب فارسی کے بلند پایہ انشاپرداز بھی تھے۔

انھوں نے نثر میں بقول مولانا حالی متاخرین میں ابوالفضل، ظہوری، طاہر وحید اور جلا لائے طبا طبائی و غیر ہم سے استفادہ کیا ۔

حالی کا خیال ہے کہ مرزا کے اسلوب میں ابوالفضل اور بیدل کی بعض خصوصیات نمایاں ہیں۔ مرزا کی نثر کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی فارسی نثر میں عربی الفاظ بہت کم استعمال کرتے ہیں اور دستنبو میں انھوں نے یہ الزام کیا تھا۔

کہ اس میں کوئی عربی لفظ نہ آنے پائے ۔ جس طرح دعوے کے باوجود شاہنامہ فردوسی میں عربی لفظ مل جاتے ہیں۔ اسی طرح دستنبو میں بھی چند عربی لفظوں کا سراغ لگایا گیا ہے ۔ بہر حال نثر میں عربی سے پاک خالص فارسی لکھنے کا خیال بھی غالب کی مخصوص فارسیت کا اظہار ہی ہے۔

غالب فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر اور انشا پردازی نہ تھے ۔ بلکہ وہ اس زبان کے نکتہ داں اور محق بھی تھے۔
اور بقول مولانا حالی ، فارسی زبان اور فارسی الفاظ اور وضاحت کی تحقیق اور اہل زبان کے اسالیب بیان پر مرزا کو اس قدر عبور تھا کہ اہل زبان میں بھی مستثنا کو ایران کے مستند شعرا کی زبان پر اس قدر عبور ہوگا۔ حالی کے اس بیان سے مرزا کی فارسی دانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

حکیم فرزانه ۹۹ – ۱۰۰ (1)

(۲) یادگار غالب : ۸۸۴

(۳) ایضًا: ۹۸۴

(۴) ایضًا : ۵۰۸ ص ( حاشیه: از خلیل الرحمن داؤ دی)

طرز بیدل میں ریختہ گوئی

اردو نے اپنی نشو ونما کی بہت سی منزلیں فارسی کے زیر سایہ طے کیں ۔ اس طرح اور شاعری نے اپنے ارتقاء کے بیشتر مراحل فارسی شاعری کے زیر اثر طے کیے۔ اصناف سخن ، بحور حتٰی کے مضامین تک فارسی سے اردو میں منتقل ہوئے ، اس لیے اردو شاعری کو فارسی شاعری کا وجود نظامی کہا گیا ہے۔

یوں تو اردو کے سبھی شعر ا مضمون اور اسلوب بیان میں فارسی شعرا کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ لیکن بعض شعراء کے کلام پر زبان و بیان کے اعتبار سے فارسی کے اثرات دوسرے شعرا کی نسبت کچھ زیادہ ہیں۔ ان میں ولی دکنی سودا، ناسخ اور غالب قابل ذکر ہیں۔

بلکہ غالب اس اعتبار سے ان سب پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ان کے اردو اشعار میں فارسیت ایک غالب عنصر کی حیثیت سے موجود ہے۔ انھوں نے طر ز بیدل میں ریختہ کہہ کر اپنی شاعری کا آغاز کیا۔ اور پھر ریختہ کو رشک فارسی بناتے رہے۔

غالب کی شاعری کے ابتدائی دور میں ان کے اردو کلام پر فارسی کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے انھوں نے اپنے اس دور میں ہندوستان کے متآخرین شعرائے فارسی کو زیادہ قبول کیا ہے۔

وہ خود ایک خط میں لکھتے ہیں۔ قبلہ ابتدائے فکرسخن میں بیدل واسیر ، شوکت کے طرز پر ریختہ لکھتا تھا۔

پندرہ برس کی عمر سے پچیس برس کی عمر تک مضامین خیالی لکھا گیا۔ دس برس میں بڑا دیوان جمع ہو گیا۔ آخر جب تمیز آئی، تو اس دیوان کو دور کیا، اوراق یک قلم چاک کیے، دس پندرہ شعر واسطے نمونہ کے دیوان حال میں رہنے دیے ۔

فارسی کے ساتھ مرزا کے لگاؤ کی شدت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ نومشقی کے زمانہ میں بھی اردو شعرا کی بجائے فارسی کے مشکل پسند شعر ا مرزا کے زیادہ پیش نظر رہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں