کتاب کا نام ۔۔۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ ۔۔۔
کورس کوڈ ۔۔۔۔5612
موضوع ۔۔۔۔ تسکین کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے کی تشریح
صفحہ نمبر ۔۔۔۔291 231
مرتب کردہ ۔۔۔۔الیانا کلیم 🌼
غزل (۱۰)
1۔۔۔تسکین کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
حوران خلد میں تری صورت مگر ملے
مطلب : کہتے ہیں کہ یہ تو سچ ہے کہ جنت میں تیرے بغیر ہمیں تسکین قلب نصیب نہیں ہو سکتی لیکن اگر وہاں ہمارے ذوق نظر کی تسکین کا سامان مہیا ہو سکے تو شاید ہم تسکین قلب سے محرومی پر صبر کر سکیں یعنی اتنا تو ہو کہ حوران خلد تیری ہم شکل ہوں مگر افسوس ہے کہ سیرت تو در کنار صورت کے اعتبار سے کوئی حور تیری ہم سر نہیں ہے۔
بنیادی تصور : بیان عدیم الثانی محبوب
2…اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
مطلب : محبوب سے کہتے ہیں کہ قتل کرنے کے بعد مجھے اپنی گلی میں دفن مت کچیو ۔ کیونکہ میں اس بات کو گوار نہیں کر سکتا کہ میری قبر کی وجہ سے لوگوں کو تیرے گھر کا پتا معلوم ہو جائے اور وہ بآسانی تجھ تک پہنچ سکیں۔ خوبی شعر کی یہ ہے کہ غالب نے رشک کے مضمون میں جدت طرازی کی ہے یعنی مرنے کے بعد بھی جذبہ ورشک برقرار ہے۔
بنیادی تصور : به بیان رشک
نوٹ :۔ اس قافیہ میں مومن اور آباد نے بھی قابل داد شعر نکالے ہیں۔ مومن کہتے ہیں :
آباد کہتے ہیں :
رہنے دے اے تصور جاناں، نہ کر خیال
ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے دشمن کے گھر ملے
آباد کہتے ہیں
آباد مرکے کوچہ جاناں میں رہ گیا
دی تھی دعا کسی نے کہ جنت میں گھر ملے
3 ۔۔۔ساقی گری کی شرم کرو آج ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں سے جس قدر ملے
مطلب : محبوب سے کہتے ہیں کہ تھوڑی بہت شراب تو ہم ہر شب کو اپنے گھر بھی پی لیا کرتے ہیں ۔ آج تم ساتی ہو ، اس لیے اگر ہماری خاطر منظور نہیں تو کچھ اپنی ساقی گری ہی کی لاج رکھو ۔ اگر ناپ تول کے پلاؤ گے تو ہم رندان بلانوش تمھیں کیا یا د کریں گے۔
بنیادی تصور : ترغیب عطائے بے حساب۔
4 ۔۔۔۔تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہو اگر نامه پر ملے
مطلب :۔ اس شعر کا مطلب غالب نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ مضمون کچھ آغاز چاہتا ہے یعنی عاشق کو ایک قاصد کی ضرورت ہوگئی۔ مگر کھٹکا یہ ہے کہ قاصد کہیں معشوق پر عاشق نہ ہو جائے ۔ بہر حال اس عاشق کا ایک دوست ایک شخصوضع دار اور معتمد علیہ ( قابل اعتماد ) ہے۔ میں ضامن ہوں کہ ایسی حرکت نہیں کرے گا کہ تمھارے معشوق پر خود عاشق ہو جاتے خیر اس کے ہاتھ خط بھیجا گیا مگر عاشق کا گمان بچ نکلا ، قاصد معشوق کو دیکھ کر والہ و شیفتہ ہو گیا ۔ کیسا خط اور کیسا جواب؟ دیوانہ بن کپڑے پھاڑ جنگل کو چل دیا۔ اب عاشق ندیم سے کہتا ہے کہ غیب دان تو خدا ہی ہے اس لیے اے ندیم! تجھ سے تو کچھ شکایت نہیں لیکن اگر وہ قاصد سے تجھے کہیں مل جائے تو اس کو میر اسلام کہنا کیوں کہ کیوں صاحب !
تم کیا کیا دعوے عاشق نہ ہونے کے کر کے گئے تھے۔ اور انجام کا ر کیا ہوا؟
ه:
5۔۔۔تجھ کو بھی ہم دکھا ئیں کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشاکش تیم پنہاں ہے گر ملے
مطلب :- اگر ہمیں غم پنہاں کی کشمکش سے فرصت نصیب ہو جائے تو ہم بھی وہ سب کام کر کے دکھا سکتے ہیں جو مجنوں نے لیلیٰ کی محبت میں کیے مثلاً صحرانوردی محویت ، منت قاصد ، ترک خواب و خورش، و ارتنگی، سرگشتگی و غیره
بنیادی تصور : ۔ دعائے ہمسری مجنوں
6۔۔۔لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ہے
مطلب :۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ خضر ایک بزرگ آدمی ہیں جو حسن اتفاق سے ہمارے ہم سفر ہیں۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ہم ان کو اپنا ر ہنما ر یا پیشوا مان لیں ۔ ہمار ا رتبہ ان سے کم تو نہیں ہے۔
بنیادی تصور : ۔ دعائے ہمسری مغضر
7۔۔۔اے ساکنان کوچہ دلدار ! دیکھنا
تم کو کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے
مطلب : شاعر ، کوچہ معشوق میں رہنے والوں سے کہتا ہے کہ اگر تمھیں غالب آشفتہ سر کہیں مل جائے تو اس کا خیال تو رکھنا یا اس سے اظہار ہمدردی کرنا ۔
بنیادی تصور : – ما تم بد نصیبی عاشق ۔۔