کتاب کا نام …..میر و غالب کا خصوصی مطالعہ 2
کورس کوڈ۔۔۔۔۔5612
موضوع ۔۔۔دلی میں قیام ۔۔۔غالب کی عشقیہ زندگی ۔۔۔
صفحہ نمبر۔۔۔۔ 12 ۔۔13
مرتب کردہ۔۔۔۔ الیانا کلیم 🌼
غالب کا دلی میں قیام
دلی میں غالب اپنے علیحدہ مکان میں رہے۔ مگر نواب احمد بخش خان اور میرزا الہی بخش خان کی عزیز داری نے ان کے دوستوں کا حلقہ وسیع کر دیا تھا۔ یہ احباب بھی اونچے طبقے کے لوگ ہوں گے۔ ونچے طبقے کے لوگ ہوں گے۔
نواب الہی بخش خان معروف ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ حال وقال والے فقیر قادرالکلام اور صوفی بھی تھے۔ غالب جب بھی ان کے ہاں کسی مجلس میں شریک ہوئے ہوں گے، وہاں ان کے کان میں یا تو شعر وسخن کی بات پڑی ہوگی ، یا مذہب و تصوف کی ۔ شعر و شاعری سے دلچپسی انھیں پہلے ہی سے تھی، یہاں تصوف کا بھی کچھ علم ہوا، جس کے بارے میں فارسی شاعر علی حزیں نے کہا ہے کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است ۔ تصوف فارسی اور اردو شاعری کا مستقل موضوع رہا ہے۔
دلی میں غالب کی ملاقات مولوی فضل حق خیر آبادی سے ہوئی۔ رفتہ رفتہ دونوں کے تعلقات نہایت گہرے اور دوستانہ ہو گئے ۔ مولوی فضل حق مسلمانوں کے علمی عروج کے آخری دور کے بڑے عالم اور معقولات ( اسلامی علوم کی وہ شاخ جس میں منطق اور فلسفے سے بحث کی جاتی ہے ) کے امام تھے۔ علاوہ ازیں انھیں شعر و شاعری سے بھی دلچسپی تھی۔ انھوں نے غالب کو بیدل ، شوکت اور امیر کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی، کیونکہ یہ راستہ بے راہ روی کا راستہ تھا۔ مولوی فضل حق نے غالب کو اس بے راہ روی سے متنبہ کیا ۔ چونکہ غالب کے دل میں ان کی بڑی وقعت تھی اور وہ ان کے خلوص اور خن سنجی کے یا۔ قائل تھے ، اس لیے انھوں نے مولوی فضل حق کی باتوں اور مشوروں کو قابل توجہ سمجھا ، ورنہ وہ دوسرے نکتہ چینوں کے اعتراضات کی پروا نہیں کرتے تھے :
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
7- غالب کی عشقیہ زندگی
غالب کی عمر پانچ برس سے کم تھی، جب ان کے والد کا انتقال ہوا تھا اور نو برس سے کم تھی جب ان کے چچا وفات پائی۔ وہ اپنی والدہ کے پاس ننھیال میں رہتے تھے۔ وہی ان کی کفیل تھیں۔ ان کے نانا میرزاغلام حسین خان ان کی جوانی تک زندہ رہنے، مگر انھوں نے غالب کے معاملات میں کبھی کوئی دخل نہیں دیا۔ روپے پیسے کی فراوانی ، آزادی اور جوانی دیوانی ، غالب بھی اپنے زمانے کے عام ریکسوں کی طرح راہ راست سے بھٹک کر لہو و لعب میں پڑ گئے ۔ انھوں نے اس زمانے کی رنگ رلیوں کی طرف اپنی تحریروں میں کئی جگہ اشارہ کیا ہے۔ کہیں فرومایوں اور اوباشوں کی ہم نشینی کا ذکر ہے، تو کہیں فسق و فجور اور عیش و عشرت میں غرق ہونے کا۔ ایک محط میں ” شور سودائے پری چہرگان کا افسانہ ہے تو دوسرے میں ستم پیشہ ڈومنی کا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ” بھی مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں۔ جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ میں بھی مغل بچہ ہوں۔ عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے۔
مرثیہ لکھا:
یہ واقعہ لگ بھگ ۱۸۱۸ – ۱۸۲۰ کا ہونا چاہیے، جب ان کی عمر ۲۲۔ ۲۳ برس کی رہی ہوگی۔
یہ ڈومنی، نہ کوئی طوائف تھی، نہ کوئی بازاری عورت ۔ شاید اس نے غالب کی محبت میں خود کشی کر لی ، جس پر غالب نے
درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم ! تری غفلت شعاری ہائے ہائے
شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے
مالک رام جو غالب کے مشہور محققوں میں سے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب ذکر غالب میں لکھا ہے کہ غالب اپنی سلیم الطبعی کے علاوہ جس طرح اپنے بعض دوستوں کے مشوروں سے شاعری میں بے راہ روی سے باز آگئے ، اسی طرح اپنے اخلاقی کردار کے معاملے میں بھی اپنے دوستوں خصوصاً مولوی فضل حق کی صحبتوں سے اثر پذیر ہوئے اور سنبھل گئے۔۔۔۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں