علی گڑھ کی تحریک

کتاب کا نام۔۔۔۔تاریخ ادب اردو
کورس ۔۔۔۔5602
صفحہ۔۔۔117
موضوع۔۔۔ Aligarh ki Tehreek
مرتب۔۔۔اقصی طارق

علی گڑھ کی تحریک

یونٹ نمبر 16 میں سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی نثر کا جائزہ در اصل علی گڑھ تحریک سے متعلق تھا اس لئے اس یونٹ میں اور خاص علی گڑھ تحریک کا مطالعہ نہیں کیا جا رہا ہے تاہم اس امر پر تھی یا زور دیا جا سکتا ہے کہ جب کبھی بھی پر صغیر میں مسلم نشاہ الثانیہ التعلیمی ترقی مذہب میں عقلیت معاشرہ میں اصلاح ، تعلیم نسواں اور گلشن ادب میں نئی اصناف کے برگ وقار کا تذکرہ ہو گا تو بات سر سید احمد اور ان کی تحریک سے شروع ہو گی۔ اصلاح پسندی اور جدیدیت سرسید احمد خان کی تحریک میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سرسید احمد خان تاریخ کے محقق تھے اور تاریخ سے ہی انہوں نے یہ سبق سیکھا کہ حاکم قوم محکوم قوم سے بہتر ہوتی ہے اور نہ وہ حاکم شکست کی پیدا کر دو پر سردگی نے مسلمانوں میں انگریزوں سے نہ بنتی۔ ادھر انہوں نے نظرت کو جنم دیا جبکہ تاریخی حالات کا یہ تقاضا تھا کہ انگریزوں اور ان کی حکومت کی حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے اس لئے انہوں نے جدید علوم کی تعلیم کے لیے علی گڑھ میں 1875ء میں ایک مدرسہ کا آغاز کیا جو دور س بعد محمد ن کا لج نا اور پھر 1921ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گیا۔ یہ محض یونیورسٹی نہ تھی بلکہ جہالت میں گھرے ہوئے مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے روشنی کا پیار تھی۔ قیام پاکستان تک اس یو نیورسٹی سے تعلق ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا اور یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ اپنے نام کے ساتھ ملیگ لکھتے تھے۔
جو تحریک سرسید کے نام سے موسوم ہوئی یو نیورسٹی کی بدولت وہ علی گڑھ تحریک قرار پائی۔ انکار نو کی حامل تحریک سرسید احمد خان اور علی گڑھ تحریک کے بارے میں گزشتہ ایک صدی میں بہت کچھ لکھا گیا تاہم طلبہ مولانا حالی کی تحریر کردہ سرسید احمد خان کی سوانح عمری حیات جاوید (1901ء) کا ضرور مطالعہ کریں جس کے پڑھنے سے سرسید کے احوال و کوائف کے ساتھ ساتھ سماجی صورت حال کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے اور جس میں سرسید نے اپنی اسلامی تحریک کا آغاز کیا تھا۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں