سرسید اور علی گڑھ تحریک

سرسید اور علی گڑھ تحریک

سرسید اور علی گڑھ تحریک بنیادی مباحث

نام سید احمد خان تھا اور خطاب جواد الدولہ عارف جنگ۔

سرسید 5 ذوالحجہ 1233ھ مطابق 17 اکتوبر 1817 کو اپنے نانا خواجہ فرید کی حویلی واقع دلی میں پیدا ہوئے۔

سرسید کا انتقال 27 مارچ 1898 کو علی گڑھ میں ہوا اور دارالعلوم کی مسجد کے شمالی گوشے کے احاطہ میں دفن ہوئے ۔

سرسید کا جب انتقال ہوا تو محسن الملک نے ان کے ملازم عظیم کو پچاس روپے دیے جن سے ان کی تجہیز و تکفین ہوئی۔

اور کہا کہ یہ سید صاحب کا آخری چندہ ہے پھر کب مانگنے آئیں گے۔

سرسید کے والد کا نام میر تقی تھا اور والدہ کا عزیز النسا بیگم۔

نانا کا نام خواجہ فرید الدین تھا جنھیں مغلیہ دربار سے دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین احمد خان بہادر مصلح جنگ کا خطاب ملا تھا۔

سرسید کے دادا سید ہادی تھے۔

عزیز الدین عالمگیر ثانی نے 1168ھ میں انھیں ” جواد علی خاں اور منصب ہزاری ذات و پانصد سوار دو اسپہ دسہ اسپہ” کے خطاب سے نوازا تھا۔

اور شاہ عالم ثانی نے اس خطاب میں جواد الدولہ کا اور اضافہ کیا تھا۔

سرسید کے بڑے بھائی کا نام سید محمد خان تھا جنھوں نے 1836 میں سید الاخبار نکالا تھا ۔

سرسید کے والد کا انتقال 1838 میں ہوا اس وقت سرسید اکیس سال کے تھے ۔

سرسید نے اسلامی تعلیم مولوی فیض الحسن مولوی نوازش علی اور مولا نا مخصوص اللہ سے حاصل کی تھی۔

سرسید کی شادی پر شا بیگم سے ہوئی تھی۔

1861 میں مراد آباد میں سید احمد خان کی بیوی کا انتقال ہوا تھا اس وقت سید احمد خان کی عمر 44 برس تھی۔

جن سے دولڑ کے سید حامد اور سید محمود اور ایک لڑکی تھی ۔

سرسید احمد خان نے منصفی کا امتحان 1840 میں پاس کیا تھا۔

سرسید نے سائنٹفک سوسائٹی غازی پور میں 1862ء میں قائم کی تھی اور ترجمے کا کام شروع کرایا تھا۔

اور سرسید اس کے اعزازی سکریٹری منتخب ہوئے تھے ۔

سرسید نے غازی پور میں ایک انگریزی مدرسہ 1863 میں قائم کیا تھا۔

سرسید سائنٹفک سوسائٹی کا سارا سامان اور عمل علی گڑھ 1864 میں لے گئے تھے۔

سرسید نے علی گڑھ برٹش انڈین ایسوسی ایشن 10 مئی 1866 میں قائم کیا تھا۔

سرسید نے سائنٹفک سوسائٹی سے ہفتہ وار اخبار کا اجراء علی گڑھ میں 1866 میں کیا تھا۔

جس کا نام بعد میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ رکھا گیا تھا۔

سرسید 15 اگست 1867 کو حج کی حیثیت سے جب علی گڑھ سے بنارس گئے تھے تو علی گڑھ میں سائٹی فک سوسائٹی کی ساری ذمہ داری راجہ جے کشن ایس سی ایس آئی کے سپرد کی تھیں ۔

سرسید نے اردو کے ترسیلی امکانات اور اس کے ابلاغی قوتوں کا احساس دلایا تھا۔

حکومت نے 1868ء میں ہندوستانیوں کی تعلیم کے لیے 9 اسکالرشپ منظور کیے تھے اور اضلاع شمال مغرب سے سید محمود کا انتخاب کیا تھا۔

سرسید نے بھی بیٹے کے ساتھ ولایت جانے کا ارادہ کیا۔

اپنے سفر خرچ و قیام کے لیے سرسید نے اپنا کتب خانہ فروخت کر دیا اور ساتھ ہی گھر کو بھی گروی رکھ دیا۔

سرسید دفتر سے چھٹی لے کر چار افراد یعنی اپنے دونوں بیٹے سید حامد ، سید محمود ، خدا داد بیگ خدمت گار چھجو کے ساتھ یکم اپریل 1869 کو بنارس سے انگلستان کے لیے روانہ ہوئے تھے ۔

سرسید نے انگلستان میں ملکہ وکٹوریہ، ڈیوک، چارلس ڈکنز ، کارلائل سے ملاقات کی تھی ۔

سرسید ایک سال پانچ ماہ یعنی سترہ مہینے لندن میں قیام کر کے 4 ستمبر 1870 کو ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے تھے۔

سرسید 2 اکتوبر 1870 کو بمبئی پہنچے تھے اور اس مہینے میں بنارس پہنچ کر اپنا سرکاری منصب سنبھال اور لیا تھا۔

سرسید نے مسلمانوں کو جدید تعلیم دینے کی تیاری کے لیے کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان بنارس میں قائم کی تھی۔

سرسید نے لندن ہی سے تدابیر ترقی تعلیم مسلمانان کی اشاعت کے لیے ایک اشتہار چھپوا کر اپنے چلنے سے پہلے محسن الملک سید مہدی علی کو بھجوادیا تھا۔

سرسید نے انگلستان سے واپس ہونے کے بعد لوگوں کی اصلاح اور تہذیب و تربیت کے لیے اسپیکٹیٹر اور ٹیلر کے اخبار اڈین اور اسٹیل سے متاثر ہو کر تہذیب الاخلاق جاری کیا تھا۔

تہذیب الاخلاق کا پہلا شمارہ 24 دسمبر 1870ء کو بنارس سے اس لوح اور بیل کے ساتھ جو مدہ لندن سے بنوا کر لائے تھے شائع ہوا تھا۔

تہذیب الاخلاق کے ایڈیٹر اور منیجر سرسید احمد خان تھے۔

تہذیب الاخلاق، تین بار بند ہوا تھا۔

پہلی بار تہذیب الاخلاق 1876 میں بند ہوا تھا ۔

تہذیب الاخلاق کا دوبارہ اجراء 1879 میں ہوا تھا۔

تہذیب الاخلاق دوبارہ بند 1881ء میں ہوا تھا۔

تہذیب الاخلاق کا تیسری بار اجراء 1894 میں ہوا تھا ۔

تہذیب الاخلاق، تیسری بار بند ہو کر انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں ضم 1897 میں ہوا تھا ۔

تہذیب الاخلاق کی مخالفت میں مولوی امداد علی پیش پیش تھے۔

جنھوں نے اس کے جواب میں امداد الآفاق نام کا رسالہ نکالا تھا۔

تہذیب الاخلاق کے جواب اور رد میں مولوی علی بخش خان بہادر کے دو رسالے شہاب ثاقب اور تائید الاسلام، نور الآفاق، انجی گزٹ ( مراد آباد)، لوح محفوظ ( مراد آباد)، تیرہویں صدی (آگرہ) ،

منجم الاخبار، ( مراد آباد ) ، الحمل الاخبار وغیرہ رسائل واخبارات نکلے تھے ۔

دسمبر 1870ء میں سرسید نے انعامی اشتہار شائع کیا تھا اور 26 دسمبر 1870 کو کمیٹی خواستگار ترقی مسلمان کا پہلا اجلاس بلایا تھا جس میں سرسید سکریٹری منتخب ہوئے تھے۔

سرسید نے مدرسۃ العلوم کی بنیاد 1875ء میں رکھی تھی۔

اور 24 مئی 1875ء کو ملکہ وکٹوریہ کی سال گرہ کے دن مدرسہ کا افتتاح ہوا تھا اور یکم جون 1875 سے تعلیم شروع ہو گئی تھی ۔

8 جنوری 1877ء کو سہ پہر کے وقت لارڈلٹن وائسرائے و گورنر جنرل الہند کے محمڈن اینگلو
اور نینٹل کالج کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

اور ایک سال بعد یکم جنوری 1878ء کو کالج میں کلاس شروع ہوئی تھی اس طرح مدرستہ العلوم ترقی کر کے محمڈن اینگلو اور نینٹل کالج ہو گیا۔

محمڈن اینگلو اور نینٹل کالج کا الحاق کلیہ الہ آباد یونیورسٹی سے ہوا تھا۔

محمڈن اینگلو اور نینٹل کالج 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا تھا۔

سرسید 1876 میں پنشن لے کر علی گڑھ آگئے تھے ۔

سرسید ایجو کیشن کمیشن کے رکن 1882 میں مقرر ہوئے تھے ۔

سرسید نے محمڈن سروس فنڈ ایسوسی ایشن 1883 میں قائم کی تھی ۔

سرسید محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس 1886 میں قائم کی تھی ۔

سرسید سرسید کولارڈ ڈفرن نے پبلک سروس کمیشن کا ممبر 1897 میں مقرر کیا تھا۔

اکبرالہ آبادی نے سرسید اور علی گڑھ تحریک کی کھل کر مخالفت کی تھیں۔

غیر متوازن روحانی تصورات کے خلاف سرسید نے آواز اٹھائی تھی ۔

یہ بھی پڑھیں: علی گڑھ تحریک عمل اور رد عمل اردو ادب کے حوالے سے مقالہ pdf

اعزازات و خطابات

حکیم احسن اللہ خان کے کہنے پر بہادر شاہ ظفر نے سرسید کے موروثی خطاب جوادالدولہ میں
عارف جنگ کا اضافہ 1842 میں کیا تھا ۔

سرسید کو سی ایس آئی کا خطاب اور تمغہ انڈیا آفس لندن کی ایک تقریب میں 6 اگست 1869 کو دیا گیا تھا۔

علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں منعقد ایک جلسے میں سید احمد کو 1888ء میں نائٹ کمانڈ ر طبقہ اعلیٰ ستارہ ہند دیا گیا۔

اور سید احمد سرسید احمد ہو گئے ۔

سرسید احمد خان کو ایڈنبرا یو نیورسٹی نے ڈاکٹر آف لا“ کی اعزازی سند 1889 ء میں دی تھی ۔

یہ بھی پڑھیں: علی گڑھ تحریک ایک مطالعہ pdf

سرسید اور علی گڑھ تحریک کے متعلق مختلف آرا و خیالات

سرسید نے آورد اور تصنع سے بچنے کے لیے گرامر کی بھی پروانہ کی ۔ (حالی)

حالی نے اردو نثر کا مورث اعلیٰ سرسید کو قرار دیا ہے۔

بعض لوگ سرسید کو اخوان الشیاطین کا نمائندہ کہتے تھے ۔

اردو انشا پردازی کے مجدد اور امام سرسید ہیں ۔ ( شبلی)

پنجاب کے مسلمان سرسید کے منادی پر اس طرح دوڑے جیسے پیاسا پانی پر ۔ (حالی)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں