عصمت چغتائی کے ناولوں میں عورت کا تصور
نام :عصمت خانم چغتائی
قلمی نام: عصمت چغتائی
پیدائش: ۲۱ اگست ۱۹۱۵ء ( بمقام بدایوں ، انڈیا )
متوفی: ۲۴ را کتوبر ۱۹۹۱ء
ناول:
ضدی: چوہدری اکیڈمی، لاہور (س ن )
ٹیڑھی لکیر: مکتبہ اردو، لاہور، ۱۹۷۵ء
معصومه: روہتاس بکس، لاہور ، ۱۹۹۲ء
سودائی:چوہدری اکیڈمی، لاہور (سن )
عصمت چغتائی کا مطمح نظر نہ سماجی اصلاح ہے نہ قوم کی خدمت۔ البتہ ان کا موضوع معاشرے کی خرابیاں اور اس کے افراد کی چھپی ہوئی کمزوریاں ہیں۔ اس دور میں ایسی بے رحم حقیقت نگاری کسی اور کے ہاں نظر نہیں آتی۔ وہ نو جوانوں کی خصوصاً نوجوان لڑکیوں کی فطرت کے ایسے ایسے گوشوں کو بے نقاب کر دیتی ہیں جنہیں چھونے تک سے دوسرے لوگ گریز کرتے تھے۔
ہمدردی اور رعایت کا ان کے ہاں کوئی گزر نہیں ۔ نیلم فرزانہ لکھتی ہیں:
"آزادی سے سوچنے کی عادت اور صاف گوئی نے عصمت سے ایسی کہانیاں اور ناول لکھوائے جن کے لئے بیک وقت وہ بد نام بھی ہوئیں اور نام بھی کمایا۔ غرض عصمت کی پرورش کچھ اس طرح ہوئی کہ تجسس کے مادے کے ساتھ ساتھ
موضوعات کی بے باکی اور لہجے کی تیزی اور طراری ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی ۔[2]
ان کے ناولوں کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی نظر صرف انسان کی فطرت کے تاریک گوشوں پر ہی پڑتی ہے، ان کے ہاں انسانی فطرت کی وہ صفات نظر نہیں آتیں جن کی بناء پر انسان اشرف المخلوق گردانا گیا۔
عورت کے حوالے سے عصمت کے ناولوں میں جنسی حقیقت نگاری کا پہلو سامنے آتا ہے۔ عصمت خود بھی متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ لہذا انہوں نے زیادہ تر متوسط مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی جنسی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ ایسے گھرانوں کی نوعمر لڑکیاں اگر چہ ڈرپوک ، بزدل اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی ہوتی ہیں لیکن زندگی کے دکھوں کا مقابلہ وہ مردوں کی نسبت زیادہ جوانمردی سے کرتی ہیں ۔ عصمت کا سب سے بڑا نشانہ ان لڑکیوں کا دوہرا معیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عصمت چغتائی شخصیت اور فن pdf مقالہ
"عورت؟ وہ کتنی مختلف ہوتی ہے، اس کا دل ہر وقت سہما
ہوا رہتا ہے۔ ہنستی ہے تو ڈر کر مسکراتی ہے تو جھجک کر، قدم قدم پر اسے اپنے راز کے ہی کھلنے کا ڈر لگا رہتا ہے، کیا ہوگا؟
کیسے ہو گا؟ یہ ہوا تو ؟ وہ ہوا تو ؟ اور پھر کم بخت ناقص العقل ہے.”(3)
عصمت چغتائی کی یہ ناقص العقل عورت ان کے ناول ”ضدی“ کی ہیروئن آشا کے روپ میں سامنے آتی ہے جو اپنے محبوب کی ضد اور چاہت کے آگے جھک کر اس کی چتا میں خود بھی جل مرتی ہے۔
عصمت نے اپنے ناول ” ٹیڑھی لکیر” میں عورت کی نفسیات کے ارتقاء کو موضوع بنایا ہے۔ ایک نوجوان لڑکی میں جب جسمانی تبدیلیاں واقعہ ہو رہی ہوں اور اس کی مناسب رہنمائی نہ کی جائے ، اس کی جذباتی اور ذہنی کیفیت کا اظہار عصمت نے بہت حقیقی اور فطری انداز میں کیا ہے ۔
ایک شوہر کی خاطر افسانے از عصمت چغتائی | pdf
” اس کی تو ہر بات کو ٹالا جاتا تھا، دوسرے منجھلی بہن نے تو اسے ایک دفعہ اس قسم کی بات کرنے پر بہت بے شرم کہہ کر ڈانٹ دیا تھا اپنے دکھوں میں وہ آپ ہی گھلا کرتی تھی۔ اس نے بھاگنا دوڑ نا کم کر دیا تھا۔ جیسے ہوا سے بھی ٹیسیں سی چھبتی تھیں ۔ جسم پکا پھوڑا ہو گیا تھا اور پنڈلیوں میں
اینٹھن ہوتی تھی ۔[4]
عصمت کے دور میں خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے مشنری سکول کھل چکے تھے اور تعلیم نسواں عام ہو چکی تھی لیکن مسلمان شرفاء کے متوسط گھرانوں میں بیبیاں وہی پرانے خیالات کی حامل تھیں ۔ ماں بیٹی کے تعلقات تو دور کی بات بڑی چھوٹی بہنوں میں بھی فاصلہ رکھا جاتا تھا۔
نظام تربیت کی عدم موجودگی کے باعث یہ خوف کی ماری ہوئی بچیاں اپنے گھروں کے تنگ و تاریک ماحول سے نکل کر مشن سکولوں کی آزاد فضا میں پہنچتی تھیں تو ناشائستہ حرکات اور ہم جنس پرستی کا شکار ہو جاتی تھیں۔ ٹیڑھی لکیر میں شمن کا کردار ایسی لڑکیوں کی ہی نمائندگی کرتا ہے۔ ڈاکٹر سید علی حید ر اس کردار کے بارے میں لکھتے ہیں:
” ٹیڑھی لکیر میں عصمت نے شمن کے کردار کی پیش کش میں سماجی اور معاشی عوامل کے تجزیے کے علاوہ نفسیاتی پیچیدگیوں کو بھی موضوع بنایا ہے اور اسے اس حسن و خوبی سے پیش کیا ہے کہ وہی اس ناول کی جان ہو گیا ہے۔
شمن کا کردار اپنے حالات کارد عمل ہے۔ جس میں وہ پیدائش سے لے کر جوانی تک گھری رہنی ہے۔ شمن صیح معنوں میں متوسط طبقے کی بے
"شمار لڑکیوں کی زندگی، حالات اور نفسیات کی آئینہ دار ہے۔”(5)
عصمت کے ہاں جنس ایک فطری عمل ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کا دلچسپ اور کہیں کہیں خصوصاً ان نوجوان لڑکیوں کے ہاں جو ہوٹل میں رہتی ہیں ۔ ایک مضحکہ خیز کھیل بن جاتا ہے۔ ان میں اگر چہ بہت گہرائی نہیں لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے متوسط طبقے کی لڑکیوں کے جذ بات اور احساسات کو سب سے پہلے زبان دی ۔
عصمت کے ہاں گونگی اور احساس سے عاری عورت کا تصور نہیں ملتا۔ وہ معاشرے کو بتاتی ہیں کہ وہ عورت جو صرف خدمت کرنا اور خاموش رہنا جانتی ہے، درحقیقت اس کے اندر بھی طوفان مچلتے ہیں ، اس کی بھی کچھ خواہشات اور تمنائیں
ہیں۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی لکھتی ہیں:
"اپنی تمام تر بے سمتی اور بے مقصدیت کے عصمت نے ایک ایسے عہد میں جہاں عورت کو جنس کا نام لینے کی بھی اجازت نہ تھی۔ بڑی جرات کے ساتھ اس موضوع کو استعمال کیا ۔
عورت کی بے زبانی کو زبان عطا کی اور ایک مخصوص طبقے کی عورتوں کے بعض جنسی مسائل سامنے لائیں ۔ لوگوں کو عورتوں کے مسائل کے بارے میں آگاہ کیا۔ ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا ۔[6]
یہی وجہ ہے کہ عصمت کے ہاں عورت کا تصور فکشن میں ابھرنے والے قدیم تصور سے انحراف کا درجہ رکھتا ہے ۔ ڈپٹی نذیر احمد سے لے کر راشد الخیری کے دور تک عورت جسمانی یا نفسیاتی اوصاف سے بے بہرہ دکھائی دیتی ہے۔
جب کہ عصمت کی عورت ان اوصاف سے متصف ہے۔ ان کے ہاں عورت خواہ پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ، نچلے طبقے کی ہو، طوائف ہو، بدصورت ہو یا دلکش، تمام کی تمام جنسیت کا حقیقی شعور رکھتی ہے۔ عصمت کے دور کی عورت اپنے اصل منصب سے
واقف ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
"عصمت چغتائی کے بیشتر کرداروں کے پس منظر میں ایک ایسی عورت موجود ہے، جو گھر کی مشین میں محض ایک بے نام سا پرزہ بن کر نہیں رہ گئی بلکہ جس نے اپنے الگ وجود کا اعلان کرتے ہوئے ۔ ماحول کی سکہ بند قدروں اور رواجوں کو اگر منہدم نہیں کیا تو کم از کم لرزه بر اندام ضرور کر دیا ہے۔(7)
یہ الگ بات ہے کہ عصمت کے ناولوں میں عورت اکثر و بیشتر اپنی منفی قوت کے بل پر ابھرتی اور کہرام برپا کرتی ہے۔ جس کی مثال ” ٹیڑھی لکیر کی شمن، ”معصومہ کی نیلوفر اور "
ضدی کی شانتا بائی ہیں۔
خصوصاً ” ٹیڑھی لکیر کی شمن کے کردار کی کج روی اس کے ماحول کی مرہون منت ہے۔ شمن کا کردار ایک نہایت مکمل کردار ہے۔ جس پر بعض اوقات خود نوشت ہونے کا گمان گزرتا ہے۔
اگر ایسا ممکن نہیں تو بھی عصمت نے اپنے آس پاس گھر اور خاندان کے ماحول میں دیکھی بھالی لڑکیوں کی گھٹن ، نفسیاتی دباؤ، جنسی ضرورتوں ، آلودگیوں اور ذہنی الجھنوں کو محسوس کیا ہے اور اسی کو انہوں نے اپنے فن میں حقیقت نگار کی طرح بیان کر دیا ہے ۔
طبقہ اناث میں عزت اور بزرگی کے بلند ترین مقام پر جو ہستی فائز ہے، وہ ماں ہے۔عصمت کے ہاں ماں کا روایتی پاکیزہ اور قربانی دینے والا روپ ابھر کر سامنے نہیں آتا ۔
حالاں کہ عورت نے بحیثیت ماں ہر قسم کے آسائش و آرام کو بالائے طاق رکھ کر بچے کی پرورش میں ایثار و قربانی کی عدیم النظیر مثال چھوڑی ہے۔ عصمت کے ہاں وہ ماں اپنے فطری منصب سے آنکھیں چرانے کی کوششیں کر رہی ہے اور اپنی خواہشات کے آگے ہار مان لیتی ہے بلکہ کبھی کبھی اولاد کو اپنی خواہشات کی بھینٹ بھی چڑھا دیتی ہے۔ یہ ماں شمن کی ماں کے روپ میں سامنے آتی ہے، جو صرف اولاد پیدا کرنا جانتی ہے ،
ان کی پرورش کرنا اس کا دردسر ہیں ۔ ماں کا یہی تصور "معصومہ” میں بھی سامنے آتا ہے۔ جو اپنی پُر آسائش زندگی کے لیے اپنی بیٹی کی عصمت کو خود اپنے ہاتھوں قربان کرتی ہے۔ یہی ماں ضدی میں ایک اور روپ میں سامنے آتی ہے۔ جب وہ اپنے بیٹے
کی خوشیاں چھین لینا اپنا حق سمجھتی ہے۔
"ما تا جی جب جلال میں آتی تھیں تو کالی مائی بن جاتی تھیں ۔ انہوں نے اس کے بال پکڑ کر منہ اٹھایا۔ [8]
عصمت کے ناولوں میں انسانی فطرت کی کجی کے پیچھے جس شخصیت کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے وہ عام طور پر اس کی ماں ہے۔ اس لئے نہ تو شمن کو اپنی ماں سے محبت ہے اور نہ نیلوفر کو اپنی ماں۔۔۔
بشکریہ ضیائے اردو نوٹس
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں