موضوعات کی فہرست
عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری
عصمت چغتائی کا تعارف
عصمت چغتائی ۲۱ اگست ۱۹۱۵ء کو بدایوں (بھارت) میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد مرزا قسیم بیگ چغتائی سرکاری ملازم تھے۔
عصمت چغتائی کی ابتدائی تعلیم روایتی اور گھریلو انداز سے شروع ہوئی لیکن عصمت مزا جا باغی خاتون تھیں۔ اس لیے کسی مولوی سے گھر پر پڑھنے کے لیے راضی نہ ہوئیں۔
لہذا ان کا داخلہ دھن کورٹ اسکول آگرہ میں چوتھی جماعت میں کروا دیا گیا۔ عصمت کا خاندان آگرہ سے علی گڑھ منتقل ہو گیا تھا۔ انھوں نے علی گڑھ سے مڈل پاس کیا۔
حالات کی گردش کے باعث انھیں لکھنو آنا پڑا۔ از بیلا تھوبرن کالج میں داخلہ لیا اور بی اے پاس کیا۔ لکھنو سے علی گڑھ واپس آکر بی ٹی کا کورس کیا۔ گرلس اسکول میں بطور ہیڈ مسٹریس ملازمت کا آغاز کیا۔
اس کے بعد جودھ پور گرلس کالج میں پرنسپل ہو گئیں۔ ۱۹۴۱ء میں انسپکٹر میونسپل اردو اسکول بنیں اور بمبئی آگئیں۔ یہاں انھیں پر موشن بھی ملا اور سپر نٹنڈنٹ آف آف میونسپل . آف اسکول بنا دی گئیں ۔
اس دوران ان کی شاہد لطیف سے شادی ہو چکی تھی وہ ان کے ایما پرفلموں سے وابستہ ہوگئیں۔ ان کے سات افسانوی مجموعے بالترتیب کلیات (۱۹۴۱ء) ایک بات (۱۹۴۲ء) ، چوٹیں (۱۹۴۲ء) ، دو ہاتھ (۱۹۵۲ء) چھوئی موئی (۱۹۵۲ء)، بدن کی خوشبو (۱۹۹۷ء) اور لحاف شائع ہوئے۔ عصمت چغتائی کا ۱۹۹۱ء میں انتقال ہوا ۔۱۰۲
یہ بھی پڑھیں: عصمت چغتائی شخصیت اور فن pdf مقالہ
عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری
بے باک لب ولہجہ
عصمت چغتائی کی ابتدائی پہچان ان کے جرات مندانہ اور بےباکانہ لب و لہجے اور موضوعات کی وجہ سے بنی ۔ وہ ڈاکٹر رشید جہاں کی پیروی کرنے والی اولین خاتون ہیں۔ ان کے افسانوں میں مروجہ روایات اور مسلمہ اقتدار سے انحراف ملتا ہے۔ عصمت چغتائی نے سماج کی ان کہی باتوں کا برملا اظہار ببانگ دہل کیا ہے ۔ یہی احتجاج اور بغاوت کی لہر ان کے افسانوں کا نمایاں وصف بن جاتی ہے۔
مسلم گھرانوں کی عائلی زندگی کا بیان
عصمت چغتائی کے افسانوں میں مسلم گھرانوں کی عائلی
زندگی، مرد و زن اور بچوں کی نفسی الجھنیں ، قدامت پرستی اور جنس خاص موضوع ہیں۔ انھوں نے روز مرہ زندگی کے تجربات و مشاہدات کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔
جنس نگاری
عصمت چغتائی کے افسانہ لحاف“ کی اشاعت نے انھیں متنازع شخصیت بنا دیا ۔ یہ افسانہ نسائی ہم جنسیت کے متعلق لکھا گیا ہے۔ اس افسانے کی وجہ سے ان پر فحاشی اور عریانی کے الزامات لگے۔ یہی افسانہ ان کی شہرت دوام کا باعث بنا۔ پطرس بخاری لکھتے ہیں:
"جنس کے اعتبار سے انھیں ( عصمت کو) بھی وہی مرتبہ حاصل ہے جو ایک زمانے میں انگریزی ادب میں جارج ایلیٹ کو نصیب ہوا۔”
عصمت چغتائی کو اس افسانے کی وجہ سے مطعون وملعون ٹھہرایا گیا اور لحاف کے بعد کی تخلیقات کی اہمیت و وقعت اس
افسانے کی وجہ سے پس منظر میں چلی گئی ۔ عصمت اپنے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں:
"اسی بد نام زمانہ افسانہ لحاف سے جسے لوگ آج بھی نہیں بھولے۔ میں نے اس وقت تک ہم جنس پرستی پر کوئی لٹریچر نہیں پڑھا تھا۔ میں نے کالج اور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی لیکن اس کے بارے میں میرا کتابی علم صفر تھا۔
میں سمجھتی تھی کہ یہ عورتوں کی بات ہے ، اسے صرف عورتیں ہی جانتی ہیں۔ میں نے جب یہ افسانہ لکھا تو اس میں کوئی لفظ ایسا نہیں تھا جس پر گرفت کی جاسکے ۔“ ۱۰۴
گھریلو ماحول کے اثرات
عصمت چغتائی کا باغیانہ لب و لہجہ متعین کرنے میں ڈاکٹر رشید جہاں کی شخصیت کے اثرات کے علاوہ ان کے گھریلو حالات کا بھی اہم حصہ رہا ہے۔ انھوں نے خانگی زندگی کی بدمزگیاں اور گھٹن قریب سے دیکھی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں عورت کی نفسیاتی ضروریات اور جذبات و احساسات کے مختلف رنگ ملتے ہیں ۔ عورت کی نفسی الجھنوں کی پیش کش اور معاشرتی اصول وضوابط کے خلاف شدید رد عمل بغاوت کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ جنسی بھوک اور فطری جذبوں کے نکاس میں حائل رکاوٹیں منفی راہیں خود بخود کھول دیتی ہیں ۔
عصمت چغتائی معاشرتی جبر اور عورتوں کے حوالے سے منافقانہ روش کے خلاف ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
"عصمت چغتائی نے اپنی کہانیوں کے ذریعے متوسط طبقے کی اُن عورتوں کی ترجمانی کی ہے جواب تک گونگی اور بے نام تھیں انھوں نے اُن کے باطن کی ان کہی کہانیاں ایسے دلچسپ انداز اور انھیں کی زبان، روز مرہ و محاورہ میں، ایسی بے باکی سے سنائی ہیں کہ اس سلسلے پہلے ایسی کہانیاں اس طور پر نہیں لکھی گئی تھیں۔
ان عورتوں میں کنواریاں بھی شامل ہیں اور شادی شدہ بھی ، بے اولاد بوڑھیاں بھی ہیں اور بھرے پرے گھر میں حکمرانی کرنے والی ساسیں، دادیاں اور نانیاں بھی” ۔ ۱۰۵
ہندوستانی معاشرے میں عورت گھر کی چار دیواری میں مقید باندی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ عورت کو آزادی اظہار کا کوئی موقع نہیں ملتا تھا۔ وہ مکمل طور پر رشتوں کے دائرے میں گم تھی۔ عورت اور مرد کے حقوق و فرائض میں عدم توازن تھا۔
زمانے کے کڑے معیار صرف عورت کے لیے تھے ۔ عصمت چغتائی کو عورت کے حوالے سے زمانے کا دوہرا معیار اور دوغلا پن ایک آنکھ نہیں ؟ بھاتا تھا۔ ان کے افسانوں کے نسوانی کردار کہتے ہیں:
"راحت کبھی یہ بھی سوچتی ہوں کہ ہم کب تک ظالم مردوں کی حکومت سہیں گے۔ کب تک وہ ہمیں اپنی لونڈیاں بنائے چار دیواری میں قید رکھیں گے۔ کب تک یوں ہم دبے مار کھاتے رہیں گے۔۔۔ اور پھر خدا کو اس "اب” کے ساتھ عورت کیوں پیدا کرنی تھی۔
کیا بنا عورت کے دنیا نہ چلتی؟ ہاں ذرا بچوں کا سوال ٹیڑھا سا تھا۔ سو وہ بھی کیا تھا مردوں ہی کی پسلیوں سے کھٹا کھٹ بچے پیدا ہوتے اور کچھ کھا پی کر پل ہی جایا کرتے ” ۔
"غیر مذہب میں شادی کرنا جرم ہی نہیں بلکہ ایک آفت ہے ۔ ہماری قوم کے لڑکوں کو اجازت ہے کہ وہ ہندو عیسائی جس سے چاہیں شادی کر لیں لیکن لڑکیوں کو نہیں اور آج تک فخر سے کہا جاتا ہے کہ مسلمان لڑکی عیسائی سے شادی نہیں کرتی ۔ ۱۰۸
جنس عصمت چغتائی کا اہم موضوع رہا ہے ۔ انھوں نے جنسی گھٹن ، جنسی جبر اور نفسی الجھنوں کو انفرادی حیثیت سے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے ایک اہم سماجی مسئلے کے طور پر پیش کیا ہے ۔
عصمت چغتائی کے بعد کے دور کے افسانوں میں سماجی ناہمواریوں اور زندگی کی گھناؤنی حقیقتوں کا اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے نام نہاد سماجی اور اخلاقی ضابطوں اور رویوں کے انہدام کی کوشش کی ہے۔
عصمت چغتائی کے ہاں استحصالی نظام، سماجی تضادات اور منافقت کے خلاف جارحانہ اور تند و تیز لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔ عصمت کے بعد کے دور کے افسانوں میں فسادات ، سرمایہ دارانہ نظام، تصنع ، ریا کاری، بدکاری اور جہالت پر شدید چوٹ ملتی ہے۔
عصمت چغتائی کے اسلوب میں زبان کا چارہ اور تہذیبی رچاؤ نظر آتا ہے ۔ انھیں زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل ہے۔ عصمت چغتائی کے ہاں تشبیہات و استعارات کی مدد سے جذبات و احساسات کی مکمل عکاسی کا انداز ملتا ہے۔
وہ بعض اوقات تشبیہات کی مدد سے کرداروں کی کیفیت اور حالات و واقعات کو اُجاگر کرنے میں مدد لیتی ہیں۔
"وہ گرم پانی کی بوتل کی طرح گرم اور پسیجی ہوئی تھی ۔”
مجموعی جائزہ
مجموعی لحاظ سے عصمت چغتائی نے ایسے جنسی اور سماجی مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے جن کا اس دور میں ذکر کرنا جرات مندی کی علامت ہے ۔ عصمت چغتائی سماجی اور جنسی حقیقت نگاری کے حوالے سے افسانے کی تاریخ کا وہ نام ہے جس کے ہاں انفرادیت اور دوسروں کو متاثر کرنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے ۔
ماخذ: اردو افسانے کی روایت اور پاکستانی خواتین افسانہ نگار مقالہ | pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں