عصر حاضر میں عصمت چغتائی کے فن پاروں کی اہمیت وافادیت، افسانہ گیندا، جوانی، نھنی کی نانی،چھوئی موئی،چھوتی کا جوڑا اور دو ہاتھ کے تناظر میں
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ معاشرے کی تشکیل میں عورت ، مرد کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلتی رہی ہے لیکن نہ جانے کیوں سماج نے اسے برابری کا درجہ نہیں دیا۔ شاید مرد کی انا نے کائنات کے ساتھ اپنے رفیق سفر پر بھی بالا دستی اور برتری قائم رکھنے کی کوشش کی اور سائے کی طرح ساتھ رہنے والی عورت کو لاشعوری طور پر احساس کمتری میں مبتلا کر دیا۔
صدیوں کے اس عمل نے تفریق کی دیوار کو اور بلند کیا۔ ستم یہ ہوا کہ فریق ثانی نے سخت قدم اٹھانے کے بجائے صبر وتحمل اور اطاعت و فرماں برداری کا ثبوت پیش کیا۔
اس امید کے سہارے کہ آنے والے کل میں حالات بدل جائیں گے۔ کبھی کبھی حالات بدلے مگر مزاج ، نیت اور حصلت نہیں۔ نتیجتاً ساتھ ساتھ چلنے والی شریک سفر ذہنی طور پر دور ہوتی چلی گئی ۔ اضطراری کیفیت نے رفتہ رفتہ اسے احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جس کے سبب بچیوں کی تربیت میں جنسی تفریق کے مراحل بالواسطہ طور پر مرد اساس ذہنیت کا اظہار بن گئے۔ ایک طویل عرصہ بعد جب سائنسی مزاج ،
علوم وفنون کی ترقی اور عوامی فکر نے اس جانب توجہ دلائی تو رد عمل نے باغیانہ شکل اختیار کر لی جسے ورجینیا وولف ، خالدہ ادیب اور عصمت چغتائی نے ادبی پیراہن عطا کیا۔عصمت چغتائی کی تخلیقات کا بنیادی موضوع دبے کچلے ہوئے طبقے کی خواتین کی نفسیات ہے۔ جسے ابھارنے کے لیے انھوں نے مخصوص فضا، ماحول، روزمرہ اور محاوروں کا استعمال کیا ہے۔
ان کے ناولوں اور افسانوں میں انسانی رشتوں اور رابطوں کی پیچیدگیاں خصوصاً مرد اور عورت کے درمیان ربط و تعلق کی جو متعدد حسیاتی سطحیں ہیں ، ان کا سیکھا بیان ہمارے روایتی تصور اخلاق و معاشرت پر ضرب لگاتا ہے۔ترقی پسندوں میں ہی نہیں بلکہ اردو فکشن کی تاریخ میں عصمت کا نام فکری بالیدگی کے ساتھ طرز بیان ،
طرز تخاطب اور فنی برتاؤ کی بدولت نمایاں ہے ۔ ان کے فن پاروں کی اہمیت و افادیت جدید اور مابعد جدید دور میں بھی برقرار رہی ہے۔ ان کے افسانوی ادب سے نہ صرف معاصرین متاثر ہوئے بلکہ آج بھی ان کے فن پاروں کو آئیڈیل سمجھا جارہا ہے۔ میں یہاں صرف لحاف، تیل ، گیند ، نننی بھی کی نانی ، چوتھی کا جوڑا ، چھوئی موئی اور دو ہاتھ پر گفتگو کروں گا
کیوں کہ یہ افسانے نہ صرف خواتین پر طرح طرح سے ہونے والے استحصال پر مبنی ہیں بلکہ فنی اعتبار سے بھی شاہ کار تسلیم کیے گئے ہیں۔ ان میں عصمت نے جو گھریلو ، با محاورہ اور رچی بسی زبان استعمال کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی ہے ۔ عصمت چغتائی کے ۵۳ سالہ ادبی سفر کا تجزیاتی مطالعہ کریں تو ان کی تمام تخلیقات کا مرکز و محور مظلوم طبقہ ہے جسے عرف عام میں عورت کہا گیا ہے ۔
وہ نسائی احتجاج کا نقش اول تو نہیں ، کیوں کہ انھوں نے یہ لقب خود ڈاکٹر رشید جہاں کو دیا ہے تا ہم وہ ایک عہد ساز افسانہ نگار ضرور ہیں جن کی اتباع ہر دور میں ہوتی ہے۔
ڈپٹی نذیر احمد سے پریم چند، رشیدۃ النساء سے رشید جہاں تک کے افکار کی روح کو سمیٹے ہوئے عصمت چغتائی نے معاشی، اقتصادی ، سماجی ، نفسیاتی اور جنسی گھٹن کے خلاف باغیانہ رویہ اختیار کیا ہے ۔ انھوں نے محسوس کر لیا تھا کہ حبس زدہ ماحول میں اکتاہٹ بڑھتی ہے ۔ انسان کو اپنے آپ سے بیگانگی اور بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ اعتبار و اعتماد سے ڈر لگاتا ہے۔ شک و شبہات تناؤ میں مبتلا کرتے ہیں۔ کھٹن کے ماحول میں صحت مند معاشرے کا خواب محض خواب بن کر رہ جاتا ہے ۔
لہذا انھوں نے ہر زاویے سے زمینی رشتوں سے ہم آہنگ ہو کر ماحول میں بیداری کے جتن کیے ۔ سب سے زیادہ توجہ انھوں نے تعفن بھری فضا پر دی۔ لحاف، تل، گیندا ، ننی کی نانی ، چوتھی کا جوڑا ، چھوٹی موئی اور دو ہاتھ میں عصمت نے جنسی تلزز کو اجاگر نہیں کیا ، ہوس انگیز مناظر سے بھی کام نہیں لیا بلکہ کرداروں کی نفسیات کے پس منظر میں بے باک حقیقت نگاری کی ہے۔
اب اگر لحاف کے کونے سے کسی کو شہوانی لذت حاصل ہو تو اس میں فنکار کا قصور نہیں کہ اس نے تو پہلی بار عورت کا وہ روپ پیش کیا ہے جو لحاف سے پہلے اردو افسانے میں نظر نہیں آتا ہے۔ اس میں بیگم جان اور نواب صاحب کی کڑیوں کو جوڑنے والی کم سن ملازمہ "ربو” کا کردار ہے جو حرکات و سکنات کی دھمک تو محسوس کرتی ہے مگر دونوں کے غیر فطری عمل کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہے۔
دبی دبی اور سہمی ہوئی خواہشوں کی بنا پر رونما ہونے والے غیر فطری حرکات کے عمل و ردعمل کی یہ نفسیاتی کہانی اس وقت نیا موڑ لے لیتی ہے، جب ربو، بیگم جان کے غیر مہذب عمل کو جان لیتی ہے مگر قاری اس رد عمل کو بھی محسوس کر لیتا ہے جو فطری خواہش کی نا آسودگی کے طور پر ابھرتا ہے اور معاشرے کے گھناؤنے چہرے سے نقاب اتارتا ہے۔
آسودگی اور نا آسودگی کی طرح اندھیرے اور اجالے کے کھیل بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ نیک صفت انسان کے اندر جب کرب اور بے چینی پنپتی ہے تو وہ اسے بے راہ روی کی طرف بھی راغب کر سکتی ہے کیوں کی جنسی مسائل اکثر اقتصادی مسائل کی بداعتدالیوں اور بدعنوانیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس کی جھلک تل میں نظر آتی ہے۔ اس افسانہ میں چودھری اور رانی کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا انوکھا اظہار ہے۔
عصمت نے طنز ملیح میں سوالات قائم کیے ہیں کہ رانی کو بچپن سے جنسی کج روی کی طرف کس نے مائل کیا ؟ وہ کیوں شرم و حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چودھری کے رو برو خود کو عریاں کرتی ہے؟ قاری یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوتا ہے کہ دونوں کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کا اصل سبب کیا ہے؟ کہیں بے نیازی اور بے پروائی بے رخی کی وجہ تو نہیں ہے؟ غربت ف و جہالت میں جوانی کیا رنگ دکھاتی ہے، یہ افسانہ گیندا ، جوانی اور ننی کی نانی کا مرکز ومحور ہے۔
گیندا میں معصوم بچی کے جذبات و احساسات ، مرد کی بالا دستی اور سماج کی مصلحت پسندی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ جوانی میں نو عمری کی شرارتوں اور جنسی تشدد کو اس طرح مدغم کر دیا گیا ہے کہ خوشگوار فضا میں پروان چڑھنے والی کہانی عبرتناک ماحول کی عکاس بن جاتی ہے۔
ننی کی نانی میں بے بس ولا چار عورت کے ساتھ مظلوم و معصوم بچی کی عبرتناک داستان اس پیرائے میں رقم کی گئی ہے کہ حساس ذہن کانپ اٹھتا ہے۔ نانی زہر آلود دنیا اور کھو کھلے سماجی بندھنوں کو پہچانتی ہے لہٰذا پر وان چڑھ رہی معصوم ننی کی حفاظت کی ممکن جتن کہا کرتی ہے مگر عیاری اور مکاری کے آگے خود کو مجبور پاتی ہے ۔
یہ نانی اور نواسی کا ہی نہیں در اصل عورت کا المیہ ہے۔ عصمت چغتائی کے یہاں ایک اور المناک پہلو چوتھی کا جوڑا کے رنگ میں نظر آتا ہے جہاں ارمانوں بھر لباس نحوست کے سایہ سے گزرتا ہوا کفن کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ عصر حاضر میں مذکورہ افسانوں کی اہمیت اس لیے بھی برقرار ہے کہ مختلف اسباب کی بنا پر آج بھی معصوم بچیوں کی عزتوں کو پامال کر دیا جاتا ہے ۔
گیندا، جنو اور ننی ایسی ہی لڑکیاں ہیں جنھوں نے خواب دیکھنے ہی شروع کیے تھے کہ ایک ایک کر کے ٹوٹتے گئے، بکھرتے گئے۔چھوئی موئی میں عورت کی وہ شبیہ ابھاری گئی ہے جس میں وہ شادی کے بعد زندگی کے تلخ تجربات کو برداشت کرتی ہے اور اپنے اوپر گزرنے والی جان لیوا تکلیف کو جھیل کر قدرت سے انعام پاتے ہوئے ماں کا رتبہ حاصل کرتی ہے تاہم افسانہ کے اہم کردار احسن بیگم کو عجیب کشمکش میں مبتلا دکھایا گیا ہے ۔
وہ مختص ماں بننے کی خواہش ہی نہیں رکھتی ہے بلکہ تصور میں فخر محسوس کرتی ہے مگر زچگی کے تکلیف دہ مرحلہ کے تصور سے ماں بننے سے توبہ کر لیتی ہے۔ان افسانوں کے توسط سے عصمت چغتائی نے خوف حرااس کے ماحول کو نشان زد گکیا ہے۔ ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد پر تیکھا وار کرتے ہوئے طبقہ نسواں کے لیے جنسی اظہار کی آزادی کا مطالبہ بھی کیا بلکہ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور دبی دبی سہمی سہمی
آرزوؤں کو بھی افشاں کیا جن سے مظلوم خواتین شاید خود بھی واقف نہیں تھیں۔ اس منظم اور مستحکم کامیاب پہل نے انھیں افسانے کی دنیا میں بہت جلد متعارف کروایا۔ ان کی جدت پسندی ، بے باکی اور دور بینی کا بھی سبھی نے اعتراف کیا اور ان کے اسلوب بیان کے معاصرین قائل ہوئے۔ پروفیسر آل احمد سرور اس بابت لکھتے ہیں :
"عصمت نے ہندوستان کے متوسط طبقے اور مسلمانوں کی شریف خاندانوں کی بھول بھلیاں کو جس جرات اور بے باکی سے بے نقاب کیا ہے، اس میں ان کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ ایک باغی کا ذہن، ایک شوخ عورت کی طاقت لسانی، ایک فنکار کی بے لاگ اور بے رحم نظر کھتی ہیں ۔ وہ عورت ہیں مگر اس سے زیادہ ایک فن کار ہیں ۔
(تنقیدی اشارے ص۴۲)
ایسی حساس اور بیدار مغز فنکار جس نے اخلاقی اور سماجی رویوں پر سخت چوٹ کی اور معاشرہ کو احساس دلایا کہ ہر شخص خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اس میں عزت نفس اور پر سکون زندگی کی خواہش ہوتی ہے۔ لہذا اس کی مجبوری کو کمزوری نہ سمجھا جائے کہ وہ اکثر حالات میں حقائق کو جانتے ہوئے بھی سچائی سے گریز کرتا ہے،
اس کی واضح فنکارانہ مثال افسانہ دو ہاتھ میں نظر آتی ہے۔دو ہاتھ پلاٹ، کردار، صورت حال اور اپنے محدو د سیاق و سباق کے اعتبار سے مربوط اور کامیاب افسانہ ہے۔ واقعات میں تسلسل ، ربط حیرت ، استعجاب اور دلچسپی ہے ۔ کرداروں کے اعتبار سے ہر کردار اپنی الگ شناخت رکھتا ہے ۔ اُن کے برتاؤ اور غور و فکر میں منطق ہے۔ زبان مخصوص معاشرے کی ذہنیت کی عکاس ہے ۔
اظہار میں کہیں بھی تصنع نہیں۔ محاورے اور مکالمے مکمل ہیں۔ راوی کی موجودگی بر ملا اظہار بیانیہ میں اور بھی جان ڈال دیتی ہے بلکہ وحدت تاثر کو برقرار رکھنے میں بھی معاون ہوتی ہے ۔ دراصل عصمت اس افسانہ میں بے باک اور بے رحم حقیقت نگار بن کر سامنے آتی ہیں۔ افسانہ میں جائز اور نا جائز ، حلال اور حرام ، اخلاق اور بد اخلاق ، شرم اور بے شرمی ضمیر اور بے ضمیری کے گرد تمام تانے بانے بنے گئے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس میں دو ہاتھ کو بطور استعارہ ،
طرز تلیح کے توسط سے پیش کیا گیا ہے۔ جملے طنزیہ، ہول تیکھے، مکالمے بے باک، اچھوتی اور نادر تشبیہات ہیں۔ رتی رام ، بوڑھی ماں (مہترانی ) سے ملنے آتا ہے جو رشتے میں اس کی تائی ہے ۔ وہ بھاوج ( گوری) کے قریب پہنچتا ہے اور پھر گوری اس کے بیٹے کی ماں بن جاتی ہے۔ لعن طعن ختم ، خوشیاں رقص کرتی نظر آتی ہیں ۔ گوری کا شوہر رام او تار نا کارہ ہے مگر یہ بچہ اب اس کا سہارا ہے۔
پس پشت سماج کا ایسا مظلوم طبقہ جو برسہا برس کے استحصال کے نتیجے میں غیر محسوس طور پر جانوروں کی طرح زندگی گزار رہا ہے، اسی لیے بے حس ہے مگر معاشرے کا وہ طبقہ جو دولت مند ہے، صاحب ثروت ہے، حساس ہے ان کے سفید لباس بھی کسی حد تک داغدار ہیں۔ اس کا اظہار مصنفہ نے ضعیفہ کی زبان سے اشاروں اشاروں میں کروایا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عصمت چغتائی نے کرداروں کی نفسیات کے وسیلے سے معاشرے کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔قاری کو ہم نوا بنانے کے ہنر سے عصمت چغتائی خوب واقف تھیں ۔
ان کے یہاں فلمیانہ انداز میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات قاری کو حیرت و استعجاب میں مبتلا رکھتے ہیں۔ وہ مخصوص انداز میں پرتجسس ماحول کے اسرار اس طرح کھولتیں ہیں کہ طبقاتی ، نفسیاتی اور جنسی تباہ کاریوں سے قاری دم بخود رہ جاتا ہے۔ ان کے اس منفرد اسٹائل کے بارے میں سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں:”عصمت کا قلم اور اس کی زبان دونوں بہت تیز ہیں وہ لکھنا شروع کرے گی تو کئی مرتبہ اس کا دماغ آگے نکل جائے گا اور الفاظ پیچھے ہانپتے رہ جائیں گے ۔”
عصمت چغتائی کے موضوعات کا دائرہ جتنا وسیع، پر پیچ اور تناؤ بھرا ہے، انداز بیان اتنا ہی دلکش ہے۔ ان کے افسانوں کی بنت میں انسانی درجہ بندی تخصیص اور تمیز ہے تو سیاسی و سماجی پہلو اور اقتصادی و معاشی صورت حال بھی ہے۔ نفسیاتی اور جنسی پیچیدگیاں ہیں تو فطری جبلت اور ذہنی خلفشار بھی ۔
رقابت ، حسد، انتشار، توہمات ، تعصبات، اخلاقی گراوٹ غرض کہ استحصال کے ہر زاویے کو عصمت نے اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ طرز تحریر کے اعتبار سے دیکھیں تو اُن کے انداز بیان میں شوخی ، نزاکت ، چلبلا پن ، تیزی اور طراری ہے۔ انھوں نے بول چال ، روزمرہ کو اپنا اسلوب بنایا جس میں محاورے، طعنے ، کو سنے اور دعائیں ہیں۔ خوبی یہ کہ موضوع اور زبان دونوں مل کر معاشرے کی حقیقی عکاسی کرتے ہیں۔
وہ واقعات کو بے حد رواں دواں انداز میں بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔ کہیں کوئی تصنع نظر نہیں آتا ۔ اکثر افسانوں کا غیر یقینی موڑ غیر مساوی نظام حیات کے خلاف نہایت سخت لہجہ میں کچھ کہنے کے لیے فضا ہموار کرنے کی کاوش ہے جس میں وہ ہمیشہ کامیاب رہی ہیں۔ عصمت چغتائی کو ہم سے رخصت ہوئے تین دہا ئیں گزر چکی ہیں ۔ اس عرصے میں ہم بہت ترقی کر چکے ہیں لیکن صارفیت کے اس دور میں بھی عورت کے تعلق سے متعدد مسائل کسی نہ کسی زادیے سے ہمارے سماج میں موجود ہیں۔
ان کی نوعیت اور تقاضے ضرور بدلے ہوئے ہیں مگر استحصالی ذہنیت اختتام کو نہیں انچ سکی ہے۔ جس کے خلاف عصمت چغتائی نے مورچہ قائم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے پرتشدد اور تناؤ بھرے ماحول میں عصمت چغتائی کے افسانوں کی اہمیت اور افادیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
(تحریر از پروفیسر صغیر افراہیم،عصمت چغتائی تانیثیت کی پہلی آواز، ص 52)
اس موضوع کے متعلق مزید یہ بھی پڑھیں : عصمت چغتائی شخصیت اور فن pdf مقالہ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں