عرش صدیقی کی شخصیت اور ادبی خدمات

عرش صدیقی کی شخصیت اور ادبی خدمات

1955 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا ۔ دسمبر 1955ء سے اکتوبر 1975ء تک محکمہ تعلیم پنجاب میں انگریزی کے استاد رہے ۔ اکتوبر 1975ء سے 1978ء تک بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں شعبہ انگریزی کے پہلے چیئر مین اور بعد میں 1990 تک رجسٹرار رہے۔ 1991 میں انہوں نے ورلڈ یونیورسٹی اری زونا امریکہ سے ادب میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں اکادمی ادبیات کی تاحیات فیلوشپ سے بھی نوازا گیا ۔

9 اپریل 1997 کو ملتان میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر عرش صدیقی ایک شگفتہ اور مرنجاں مرنج قسم کی شخصیت کے مالک تھے انھوں نے ملتان جیسے تہذیبی اور ادبی شہر میں شعر و ادب کے فروغ کے لیے نہایت بے پایاں خدمات انجام دیں اپنے بچپن کے بارے میں انھوں نے "میزان” ملتان کو انٹرویو دیتے ہوئے کچھ یوں بتایا:

” اس زمانے میں سکولوں میں ہندی لازمی تھی ۔ میں نے ابتدائی تعلیم کانگڑہ سے حاصل کی۔ کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ جو کتابیں سب سے پہلے پڑھیں ۔ ان میں رامائن اور مہا بھارت سرفہرست ہیں۔ اس وقت گھروں میں قصص الانبیاء قسم کی کتابیں ہوتی تھیں ۔ وہ بھی پڑھ لیں۔

ساتویں جماعت تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ماحول کوئی خاص نہ تھا۔ تو اسے آپ اتفاق ہی سمجھ لیں۔ میرے تایا کا ایک بیٹا جو بھوانی شہر میں رہتا تھا اس کی ایک لائبریری تھی وہاں پہلی کتاب "طلسم ہو شر با ” پڑھی اس نے ذہن میں انقلاب برپا کر دیا۔ وہیں سے ”فسانہ آزاد“ اور دوسری کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بعد ازاں والد صاحب کی تبدیلی لدھیانہ ہو گئی ۔

چنانچہ وہاں جماعت نہم میں داخلہ لے لیا ۔ اس وقت فرسٹ ڈویژن کا انعام دس روپے تھا۔ جب میں نے کالج میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی تو مجھے دس روپے انعام میں ملے۔ میں کتابوں کی دکان پر چلا گیا ۔ وہاں اختر شیرانی کی کتاب پڑی ہوئی تھی۔ میں نے اٹھا کر کھولی تو اس میں یہ نظم دیکھی ۔ او! دیس سے آنے والے بتا ! کس حال میں ہیں یاران وطن ۔ میں نے وہ خریدی ۔ یوسف ظفر کی کتاب زندان احسان دانش کی دو کتابیں اور اصغر گونڈوی کی ایک کتاب خرید لی۔

باقی جو پیسے بچے ان سے علامہ اقبال کی کتابیں خرید لیں ۔ اس وقت بھی بڑی شخصیات سے مرعوبیت ہوتی تھی۔ اور انھیں دیکھنے کا شوق ہوتا تھا۔ کالج میں ساحر لدھیانوی ہمارا سینئر تھا۔ اس وقت شاعروں میں ساحر ، آغا خاموش ، ظہیر کاشمیری اور اعجاز اکرم وغیرہ بھی ہوتے تھے۔ وہ رومان کا زمانہ تھا۔ نثر میں ادیب کی ” صحرا نورد کے خطوط” نے بہت متاثر کیا۔ یوسف کی شاعری بہت اچھی لگی لیکن ان کی شخصیت نے بالکل متاثر نہ کیا_”

(میزان اگست 1996 ء )

بعض شعراء کے معاملے میں دور کے ڈھول سہانے والی بات ہوتی ہے۔ یوسف ظفر نے فکری اعتبار سے عرش صدیقی کو متاثر کیا۔ لیکن جب انھوں نے عرش صدیقی سے ملاقات پر ان سے سرد مہری پرمبنی رویہ اختیار کیا تو ان کی شخصیت عرش صدیقی کے لیے اتنی متاثر کن نہ رہی۔ اس کے ہاں منظر میں کیا واقعہ ہے۔ اس پر روشنی ہوں پاتی ہے، خود عرش صدیقی کہتے ہیں:

” یہ 1948ء کے اواخر کی بات ہے جب ہم لاہور آئے ۔ ہم نے اس گلی میں رہائش اختیار کی جس میں یوسف ظفر بھی رہتے تھے۔ میں ان کی کتاب "زندان” پڑھ چکا تھا۔ ایک دن میں انھیں ملنے کے لیے ان کے مکان پر چلا گیا ۔ وہ اپنی بیٹھک میں لحاف اوڑھ کے لیٹے ہوئے تھے۔ انھوں نے مجھے اندر بلایا لیکن ان سے مل کر مجھے سخت مایوسی ہوئی ۔

وہ اپنی شاعری کے برعکس بہت خشک مزاج نکلے۔ انھوں نے مجھے حلقہ ارباب ذوق میں آنے کی دعوت دی جب میں وہاں گیا تو چونکہ یوسف ظفر سے میری ملاقات ہو چکی تھی اس لیے انہیں چاہیے تھا کہ میرا وہاں تعارف کراتے لیکن انھوں نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ اس وقت وہاں قیوم نظر، امجد الطاف اور اعجاز بٹالوی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔

ان لوگوں نے مجھ پر کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ وہیں پر حسن عسکری ، عارف عبد المتین اور نازش کا شمیری سے ملاقات ہوئی۔ حلقے کے بانیوں میں سے ایک شخص شیر محمد اختر میرے گہرے دوست بن گئے اور یہ دوستی ان کی موت تک جاری رہی۔”

(میزان – اگست . 1996 ء )

عرش صدیقی ایک طویل عرصہ لاہور میں مقیم رہے۔ اس دوران ان کا متعدد ادیبوں سے دوستی کا گہرا رشتہ بنا۔ ان کی شخصیت میں خود نمائی نہیں تھی ۔ بلکہ ایک طرح کی نرمی تھی ۔ اردو ادب میں اپنی پہچان کے سفر آغاز میں حلقہ شعرا سے متعارف ہونے کے لیے جب وہ حلقہ ارباب ذوق کے ماہانہ جلسے میں گئے تو عارف عبدالمتین کے بقول

نازش کا شمیری نے انھیں اس وقت دوستوں سے ملوایا جب وہ لاہور میں چھوٹی چھوٹی ملازمتوں اور دو روپے سے دس روپے ماہانہ ٹیوشنوں کے ذریعے مہاجرت کے اقتصادی زخموں کو مندمل کرنے کی عاجزانہ مگر دیانت دارانہ کوشش کر رہے تھے۔”نازش کا شمیری کی دوستی انھیں ہم تک لائی۔

نہیں کہا جاسکتا کہ اگر وہ یوں اپنے محدود حلقہ احباب سے باہر نہ نکلتے تو ان کی شخصیت اس بلندی تک پہنچتی یا نہ پہنچتی جہاں وہ اس وقت متمکن ہیں۔ یاد ہے کہ جب نازش کا شمیری نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ان سے ملیے، یہ ہیں عرش صدیقی تو میں نے محسوس کیا گویا مجھے Love at first Sight کا تجربہ ہو رہا ہے ۔ میری روح نے عرش صدیقی کی باوقار شخصیت کی بظاہر خوبیوں اور باطنی حسن کا آنا فانا اودراک کیا اور پہلا خیال جو میرے ذہن میں کوندے کی طرح لہرایا وہ یہ تھا کہ عرش صدیقی میں واقعی عرش کی کی رعنائیاں ہیں۔”

(دنیائے ادب کا عرش . ص 11 )

عرش صدیقی نے اپنی عمر کا سنہری دور شہر اقبال لاہور میں گزارا۔ یہاں کی دوستیاں اور تعلقات ساری عمر ان کا اثاثہ رہے۔ ملازمتی امور کے سلسلے میں وہ ملتان چلے آئے ۔ ان کی بقیہ تمام عمر اسی شہر میں گزر گئی۔

عارف عبدالمتین نے لکھا تھا: "عرش صدیقی نے ملتان کو اپنی مستقل سکونت کے لیے منتخب کر لیا ہے ۔ اب وہ لاہور کی طرف بہت کم رخ کرتے ہیں ۔ انھوں نے اپنا ایک مکان بنا لیا ہے۔ جس کا نام انھوں نے المنزہ رکھا ہے اور ایسا کرتے ہوئے شعوری یا لاشعوری طور پر وہ خود اس لازوال محبت کی پناہ میں چلے گئے ہیں جو منزہ کی صورت میں کبھی ان کی پناہ میں تھی-”

(دنیائے ادب کا عرش . ص 17 )

عرش صاحب کا گھر المنزہ ان کی مرحوم بیٹی کے نام پر رکھا گیا۔ عرش صدیقی ساری عمر اپنی مرحومہ بیٹی کی وفات کا دکھ اپنے دل میں لیے پھرے۔ یہ الگ بات کہ دنیا کے کام بھی خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ جاوید اختر بھٹی اپنے ایک مضمون ” عرش صاحب کی باتیں اور یادیں” میں لکھتے ہیں:

"میری ایک بڑی بہن خون کے سرطان میں مبتلا تھی ۔ وہ سکول میں بیگم عرش صدیقی کی شاگرد تھی اور وہ اکثر عرش صاحب کی مرحومہ بیٹی منزہ کا ذکر کیا کرتی تھی ۔ ایک دن اس نے مجھے منزہ کی دو تصویریں دیں۔ یہ تصویریں اس نے خود کیمرے سے بنائی تھیں۔ اس نے کہا یہ تصویر میں بیگم عرش صدیقی کو دے آؤ میں تصویریں لے کر عرش صاحب کے گھر گیا

اور وہ انہیں لے کر اندر چلے گئے اور آوازیں دینے لگے غوثیہ ا یہ دیکھو، بھٹی منزہ کی تصویریں لے کر آیا ہے۔ اس کی بہن تمھاری شاگرد ہے کیا تمہیں یاد ہے ؟ ۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد کمرے میں واپس آئے اور کہا۔ میری بیگم کو یاد ہے اور اس نے آپ کی بہن کا نام ممتاز بتایا ہے۔ کیا درست ہے؟ میں نے کہا جی درست ہے”۔

(عرش صاحب کی باتیں اور یادیں. ص 242 )

اسی طرح سید فخرالدین بلے کے صاحبزادے اور جواں مرگ شاعر آنس معین کے بھائی ظفر معین بھی اپنی یاداشتوں کو یوں کھنگالتے ہیں:

"مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آنس معین کی اچانک وفات کے بعد ہم لوگ کسی قیامت سے گزرے تھے۔ انھی دنوں عرش صاحب نے میرے آنسو پونچھتے ہوئے کہا تھا کہ آپ میں سے کسی کی حالت مجھے سے دیکھی نہیں جاتی ۔ آپ مجھے دیکھیں بظاہر میں کسی قدر مطمئن نظر آتا ہوں مگر میرے سینے پر کتنا بڑا گھاؤ ہے۔ میں آپ کو دکھا نہیں سکتا۔

منزہ بیٹی کی اچانک موت کے بعد ہم پر کیا گزری کسی کو نہیں معلوم ۔ ہاں واقعی جوان موت اور جوان اولاد کی موت والدین کو جیتے جی مار ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے بلے صاحب سے یہ تک نہیں کہا کہ صبر کیجیے کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ کہنا میرے بس کی بات نہیں اور ایک میں کیا ہر دوسرے شخص کو ٹٹول کر دیکھیں وہ اپنے اندر دکھوں اور غموں کے طوفان کو چھپائے پھر رہا ہوگا”

(دنیائے ادب کا عرش ص 30)

عرش صدیقی کی اکثر نظمیں بیٹی ” منزہ” کے موت کا نوحہ لگتی ہیں۔ لیکن ایک نظم تو اس کے نام سے موسوم ہے۔ دیکھیں اس نظم میں کتنا گہرا درد محسوس ہوتا ہے۔

میری ننھی بچی منزہ کہ جس کو

ابھی اس کی امی بہت پیار کرتے سوگئی ہے

مجھے میرے ماضی کی قندیل لے کر

کسی آنے والے زمانے کی تصویر دکھلا رہی ہے

کہ ہو کر جواں جو وہ امی کے حسن سکوں بخش کی یاد تازہ کرے گی

۔۔۔

اور اپنے خدا سے

مرا ہو کے مجھ سے جدا رہنے والے خدا سے

فقط اک دعا ۔۔۔

ایک اتنی دعا مانگتا ہوں

کہ اس اجنبی کا بھی میرا سادل ہو

عرش صدیقی کی محبت صرف ان کی اپنی اولاد تک ہی محدود نہ تھی بلکہ وہ نئی نسل کی ایک خاص انداز میں تربیت چاہتے تھے ان کی گفتگو کا موضوع نوجوان ہوا کرتے تھے۔ کسی ادبی انجمن کے اجلاس میں ایک نوجوان کو سیکرٹری منتخب کیا گیا تو کوئی ادیب بھی اس کا نائب سیکرٹری بننے کے لیے تیار نہ تھا کہ تمام شرکاء اس نوجوان سے سینئر تھے۔

عرش صاحب نے خود کو اس منصب کے لیے پیش کیا اور ہر لحاظ سے اس نوجوان کی معاونت کرتے رہے۔ اگر کوئی نیا شاعر ، ادیب ان کے دولتکدے پر حاضر ہوتا تو اسے پورا پروٹوکول ملتا۔ اپنے تنقیدی مضامین کی کتاب "محاکمات” کا نام انھوں نے ایک نو جوان شعیب ابراہیم کے مشورے پر رکھا۔ بقول جاوید اختر بھٹی:

"عرش صاحب واپسی پر ہمیشہ دروازے تک چھوڑنے آتے تھے اور اس وقت تک گھر کی طرف واپس نہیں جاتے تھے۔ جب تک مہمان گلی سے اوجھل نہ ہو جاتا تھا۔”

(عرش صاحب کی باتیں اور یا دیں, ص 242 )

مبین مرزا, عرش صدیقی کی شخصیت کے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

"میں عرش صاحب کا با قاعدہ سٹوڈنٹ تو کبھی نہیں رہا لیکن، ان سے کسب فیض کے مواقع مجھے ایک شاگرد ہی کی طرح حاصل رہے۔ بلکہ شاید اس سے بھی کچھ سوا۔ وہ اکثر پوچھا کرتے تھے، کیا پڑھ رہے ہو یا اس کتاب سے کیا ملا ؟

وہ کتاب اب تک کیوں نہیں پڑھی ، فوراً پڑھ ڈالو۔ ریڈیو پر میرے پروگرامز، فیچر رائٹنگ ، مشاعروں میں شرکت اور تقریباتی مصروفیات سے وہ خوش تو ضرور ہوتے تھے لیکن گاہے بگا ہے اس تشویش کا اظہار بھی کرتے رہتے کہ یہ سب Activities کہیں life Educational‏ ” اور Career Planning پر تو نہیں ہورہی”

(اک چراغ اور بجها . ص 171)

اس طرح کا ایک واقعہ افتخار شفیع کی یاداشت کا بھی حصہ ہے۔ جب ان کے احباب مختار علی ، شناور اسحاق اور شاہد ملک وغیرہ نے اردو اکیڈمی ملتان کے ہفتہ وار اجلاس میں ان کی نظم تنقید کے لیے رکھوائی اور وہ جب نظم پیش کر کے واپس آئے تو لوگوں نے جو آراء دیں ان میں سے عرش صاحب کی رائے سب سے مختلف تھی اپنے ایک مضمون مشمولہ "ماہ نامو” لاہور میں وہ لکھتے ہیں:

” کسی نے نظم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس پر امجد اسلام امجد کے گہرے اثرات ہیں۔ اصغر ندیم سید اور انور جمال نے اس بات کی شدید مخالفت کی اور اس نظم کو کہیں بلند فکر قرار دیا۔ ایک بزرگ ، سفید بالوں کی چاندی کے ساتھ براجمان تھے۔

چہرے پر تکلیف کے آثار تھے۔ گلے میں کالر لگا تھا۔ مسلسل خاموش بیٹھے رہے۔ اجلاس کے اختتام پر انھوں نے میرا بازو پکڑا اور ایک طرف علیحدہ لے جا کر اپنی بیماری کا عذر پیش کیا اور کہا کہ لکھنا جاری رکھو۔ میں زیادہ گفتگو نہیں کر سکتا لیکن تمھیں تھکی ضرور دے سکتا ہوں ۔ یہ بزرگ عرش صدیقی تھے۔”

(دسمبر کیا گیا ؟ . ص 72 )

عرش صدیقی خوش لباس تو تھے ہی، شروع میں کالج آنے جانے کے لیے وہ سائیکل کو بطور سواری استعمال کرتے تھے پھر بتدریج سائیکل کی جگہ سکوٹر اور کار نے لے لی۔ خالد پرویز نے عرش صدیقی پر لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں بڑے خوبصورت پیرائے میں اس کا تذکرہ کیا ہے:

” گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں ہمیں اس دور میں بدیسی زبان کے اسرار ورموز بتایا کرتے تھے جب آپ سر پر فیلٹ ہیٹ ، ہاتھ میں زلفی رنگ کا بیگ ، بغل میں عسکری سٹک اور ٹائی فینغا سٹک پہنتے تھے ۔ ۔ ۔ البتہ سواری کے لیے مرزا کی بائیسکل کے قبیلے کی موٹر سائیکل استعمال کرتے تھے۔”

(دنیائے ادب ص 32)

ایک ہی شہر کی دو بڑی شخصیات ( عرش صدیقی اور اسلم انصاری) کا باہمی اختلاف سمجھ میں نہیں آتا، بظاہر اس "چشمک” کے پس منظر میں کسی قسم کی علمی نظریات کی موجودگی بھی محسوس نہیں ہوتی ۔ عرش صدیقی اور اسلم انصاری کے باہمی اختلافات کا موضوع بعض یونین کو نسل کی سطح کے ادیبوں کے لیے بڑا موضوع بحث رہا ہے۔

بعض پردہ نشینوں نے اس سے خوب فائدہ بھی اٹھایا۔ مبین مرزا کی اس موضوع پر عرش صاحب سے ایک دفعہ بات چیت ہوئی ۔ انھوں نے اس کا جواب بڑی تفصیل سے دیا۔ مستقبل کے اردو ادب کے طالب علموں کے لیے اجمال اس کا تفصیل یوں ہے:

” وہ ( عرش صاحب ) اکثر واشگاف لفظوں میں کہا کرتے تھے۔ اسلم انصاری کالج میں میرے بچوں کے استاد ر ہے ہیں۔ میں ان کی علمی قابلیت ، مطالعے اور معلمانہ صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ وہ خوب صورت شاعر ہیں ، میں تسلیم کرتا ہوں ۔ میرے ان سے اختلاف ان باتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور بنا پر ہیں ۔۔۔

عرش صاحب جو واقعہ انصاری صاحب کی پی ایچ ڈی اور یونیورسٹی میں ان کی ‏Appointment کے حوالے سے بناتا کرتے تھے اس میں بین السطور اس امر کا اظہار ہوتا تھا کہ لوگ اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرتے رہے ہیں- "

(اک چراغ اور بجها . ص 175 )

عرش صدیقی نے ملتان کو ادبی حوالے سے ایک دبستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ملتان کی قدیم ترین درس گاہ ایمرسن کالج میں استاد رہے ۔ اس کے بعد ملتان یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے صدر بنے اور بعد ازاں انھیں رجسٹرار بنا دیا گیا۔

اپنے اختیارات سے انھوں نے کبھی بھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ملتان اور اس کے مضافات میں اردو ادب کے فروغ کے لیے استعمال کیا ۔ انھوں نے ملتان کے شعر او ادباء کو ملکی سطح پر متعارف کروانے کی بھر پور کوشش کی ۔

ایک دن اپنی بیٹی سے کہنے لگے تم قرۃ العین حیدر بن کر دکھاؤ۔ اس کا باپ علی گڑھ یو نیورسٹی میں رجسٹرار تھا۔ تمہارا بات ملتان یونیورسٹی میں رجسٹرار ہے ۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی عرش صدیقی مرحوم کی ملتان میں ادب کے فروغ کے لیے دی جانے والی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

” عرش صدیقی ملتان کا شجر سایہ دار ہے ۔ کیوں کہ اس نے نئی نسل کے شعراء کی جس طرح تربیت کی ہے اس سے ہمفکر شعراء اور ادباء کا ایک ایسا گروہ پیدا ہوا ہے جو ایک ہی نظریے کا حامی ہے اور وہ ہے ادب میں انسانی اقدار کی نمائندگی اور استحصالی رویوں کے خلاف احتجاج ۔”

(ملتان میں اردو شاعری ، ص 26)

ڈاکٹر عرش صدیقی نے اپنی تمام عمر چند اصول و ضوابط کے تحت گزاری۔ آخری عمر میں جب انہیں گلے کے سرطان نے دبوچ لیا تو اس کے باوجود ان کی شخصیت کے اوصاف قائم رہے۔بقول انور سدید :

"میں نے عرش صدیقی کو دور سے دیکھا تو وہ کچھ ڈگمگاتے سے نظر آئے ۔ میرا خیال تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو پژمردگی اور یاسیت پر بڑے سرکاری افسر پر طاری ہو جاتی ہے ، شاید عرش صاحب بھی اس کا شکار ہو گئے تھے۔

لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ عرش صاحب کے خلوص کا اعتراف وہ لوگ بھی کرتے تھے جو اپنی کتابوں پر ان سے دیباچہ نہیں لکھوا سکتے تھے۔ اس قسم کے لوگوں کے حسد کا رخ ایسے نو عمر ادیبوں کی طرف ہو جاتا جو عرش صدیقی سے پیش لفظ لکھوا لاتے تھے اور منگنی کی انگوٹھی کی طرح بڑے بڑے ادیبوں کو دکھاتے تھے۔“

(محبت لفظ تها اس کا . ص 166)

عرش صدیقی نے بڑی دلیری کے ساتھ سرطان جیسے موذی اور لاعلاج مرض کا مقابلہ کیا ۔ لیکن آخر میں ان کی قوت مدافعت کمزور پڑگئی۔ رجائیت کا رویہ ویسے بھی ان کی طبع کا خاص جزو تھا۔ وہ ہر وقت تازہ دم ، توانا اور چوکس دکھائی دینا چاہتے تھے۔ یاسیت کا ان کی شخصیت پر کم ہی غلبہ ہوتا ۔ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود عمر کا آخری حصہ انہوں نے خاصے کرب میں گزارا۔

ان کے بچے ملک سے باہر رہتے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں بیماری انہیں آہستہ آہستہ گھن کی چاٹ رہی تھی ۔ انہوں نے اپنے بستر کے سامنے کی دیوار پر تمام بچوں کی تصاویر آویزاں کر رکھی تھیں ۔ جب ان کی کمی محسوس کرتے تو ان تصاویر کو دیکھ کر اپنی تشنگی بجھا لیتے ۔

عرش صدیقی کی بیماری کا سن کر بعض لوگوں نے ان کی مدد کے لئے انہیں چیک بھیجے۔ لیکن انہوں نے یہ چیک شکریہ کے ساتھ واپس بھیج دیئے اور کہا کہ میرا علاج اگر حکومت کروائے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں دوستوں کو اس کے لئے تکلیف نہیں دے سکتا۔

کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہونے والے عرش صدیقی بالآخر خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی نماز جنازہ نشتر ہسپتال کے ہاسٹل کے گراؤنڈ میں ادا کی گئی۔ اور انہیں ہسپتال سے متصل قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔

جیتے ہیں تو سب کھل گئے اوصاف جہاں پر

مر جاتے تو اچھا تھا کہ رسوا تو نہ ہوتے

مزید مطالعے کے لیے "عرش صدیقی شخصیت اور فن” ملاحظہ کریں،موجودہ تحریر ص 11۔۔۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں

Scroll to Top