عالمی اور ہندوستانی صورت حال کاتجزیہ اردو افسانے کے تناظر میں
فن اور فن کار ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں اور ایک دوسرے کا آئینہ دار بھی ۔ فن کی نمو اور اس کی تخلیق فن کار کی فکر اور سوچ کے آبگینے ہی نہیں چاہتے ، ان میں رنگ ونور کی جلوہ سامانی کے لیے اس کا خون جگر بھی مانگتے ہیں ، اس لیے فن کاروں کی مقدس دیوانگی ہی ان کی ریاضت بھی ہوتی ہے
اور عبادت بھی فن کی یہ نمو اور تخلیق شعور انسانی اور تہذیب انسانی کی شاہ راہوں کانشان منزل بھی بنتی جاتی ہے۔ اگر چرفن کار عمر طبعی کی قید و بند کے حصار میں رہتا ہے لیکن فن کا فروغ ایک مسلسل عمل ہے، جو سماج اور تمام نوع انسانی کی امانت ہے، جس کی تخلیق کی آخری منزل شاید تہذیب انسانی کی آخری منزل ہوگی۔
بہر حال فن اور فن کار کے رشتہ کی گہرائیوں میں گئے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فن کار کی تخلیقی ساعتیں ہی فن کو زندگی بخشتی ہیں اور اس معیار اور وقار سے ہی اس کی برگزیدگی اور عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ ایسے میں یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے کہ کسی فن کار نے کتنی عمر پائی یا اس نے کتنے عرصے تک فن کی خدمت کی۔
ہندوستانی سماج اس عرصہ میں ایک ایسے انقلاب سے دوچار تھا ، جس کی آہٹیں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی آمد کی اطلاع دے رہی تھیں اور پھر ایسا ہی ہوا۔
یہ بات خدیجہ مستور کے ناولوں اور افسانوں میں صاف طور پر نمایاں ہے۔ ۱۹۲۷ء کے بعد جوسیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے لحاظ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ایک طرف آزادی کے متوالے وطن عزیز کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر رہے تھے تو دوسری طرف جمہوری اورآئینی لڑائی بھی جاری تھی ۔ ہندوستانی مسلمان کشمکش کے شکار تھے۔ ایک طرف تو انگریز تھے جو ہندوستان کو برابر لوٹے جارہے تھے، دوسری طرف ہندوستان کا خوف تھا۔ گو کافی کوشش کانگریس نے اس خوف کو مٹانے کی کی مگر عوام اور خاص طور پر مسلم لیگیوں پر اس کا اثر نہ ہوا۔
انھوں نے ہندوستان کی مکمل آزادی میں کودنے سے پیشتر کچھ مراعات مانگیں۔ کانگریس ان مراعات کو منظوری نہ دے سکی ۔۱۹۳۲ء میں مدن موہن مالویہ نے تمام فرقوں ہندو مسلم اور سکھوں کا ایک کنونشن بلایا جس میں ان کے تیرہ نکات مان لیے گئے۔
مذہبی ، سیاسی لیڈروں کی قلابازیوں سے نئی نسل تنگ آچکی تھی اور دہشت پسندی کی طرف مائل ہوگئی تھی۔ کمیونزم پھیلتا جارہا تھا۔ ۱۹۳۵ء میں حکومت برطانیہ نے سیلف گورنمنٹ ایوارڈ دیا۔ ۱۹۳۶ء میں پورے ملک میں انتخابات ہوئے۔
انتخابات سے قبل لکھنو میں مسلم لیگ اور اکالی کے اجلاس ہوئے ، جس میں کانگریس نے آبادی کے تناسب کے مطابق نمائندگی کو تسلیم کیا۔ کانگریس سات صوبوں میں اکثریت سے کامیاب ہوئی۔
مسلم اور دوسری اقلیتوں کے ووٹ بٹ گئے۔ وزارتیں بن گئیں جن میں مسلم لیگ یا کسی اور جماعت کے نمائندوں کو اس وزارت میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ اس طرح کانگریس کا سب اقلیتوں کی نمائندگی کا دعوی عملی طور پر کھوکھلا ثابت ہوا۔
ان سب حالات اور خدشات کے پیش نظر مسلم رائے عامہ کئی حصوں میں منقسم ہو گئی۔ اس میں عوام آئے دن کے فسادات اور تشدد سے تنگ آچکے تھے اور کسی تصفیے کے حامی تھے، چاہے وہ علاحدہ ریاست ہی کیوں نہ ہو؟ پاکستان کے تصور کو اسی زمانے میں شہ ملی۔
ہندو اکثریت تقسیم کی حامی نہ تھی ، کیونکہ ان کو پتہ چل گیا تھا کہ ان کے مفاد کو غیر منقسم ہندوستان میں ان کی اکثریت کی وجہ سے ترجیح دی جائے گی جب کہ ایک مسلم طبقہ اس ترجیح سے خائف تھا۔
اسی طبقہ کے لیڈر محمد علی جناح، مولانا شوکت علی، حسرت موہانی ، ظفر علی خاں ، لیاقت علی خاں سہروردی وغیرہ تھے جو ۱۹۳۰ء تک کانگریس کے حامی رہے اور اسی پلیٹ فارم سے بولتے تھے۔ دوسر ا مسلم طبقہ کانگریس کے ساتھ رہنے میں اپنی عافیت سمجھتا تھا اور دو قومی نظریے کا مخالف تھا۔
کے ایم منشی کی مسلم دشمنی ۱۹۳۶ء کے ہوم رول میں بہت نمایاں تھی۔ مسٹر جناح نے اس وقت ان زیادتیوں کی جو کانگریسی ریاستیں مسلمانوں کے ساتھ کر رہی تھیں پھر بھی کانگریس کے مسلم دانشوروں میں مولانا آزاد، ڈاکٹر انصاری ،شوکت علی ، رفیع احمد قدوائی محمود الحسن اور مقامی کانگریسی لیڈر تھے۔
تیسرا طبقہ احرار خدام خلق کا تھا جو کبھی کانگریس کی طرف اور کبھی مسلم لیگ کی طرف ہو جاتا ،علامہ مشرقی اس کے واحد لیڈر تھے۔
چوتھا طبقہ ان کمیونسٹوں کا تھا ، جن کا عوام سے تعلق کم تھا۔ گو کہ سرگرمیاں ٹریڈ یونینوں کی صورت میں اور جماعتی طور پر جاری تھی، کیونکہ کمیونزم کے بانی نے مذہب کو افیون سے تشبیہ دی اس لیے مسلمانوں میں یہ طبقہ زیادہ مقبول نہ ہو سکا۔ صرف تعلیم یافتہ طبقہ کا ایک حصہ ہی کمیونزم سے
متاثر ہوسکا۔
پانچواں حصہ ان مولویوں کا تھا جو صرف مذہب ہی کو انسانیت سمجھتے تھے، ان میں صوفی ، پیر فقیر اور مجاور بھی شامل تھے۔ بالغ رائے دہی جب ہندوستان میں رائج کی گئی تو پتہ چلا کہ ہر بالغ آدمی ایک ووٹ ہے۔ کمیونل ایوارڈ کے تحت پسماندہ طبقہ اور پچھڑی ذات کو دوہری نمائندگی دی گئی تو ان کو ووٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔
کانگریس شو در نو از بن گئی۔ نتیجہ پوٹا پیکٹ کی شکل میں سامنے آیا ، جس کے تحت دو ہری نمائندگی ختم کرا کے صرف کچھ مخصوص سیٹوں پر فیصلہ ہوا۔ یہ سارے ووٹ کانگریس کو ملے۔ اس اندرونی کشمکش کے علاوہ بیرونی سیاسی ماحول میں مسلمان ، پارسی اور سکھ بھی مسلم اقلیتیں تھیں۔
سکھوں کو دھرم رکھشک کہہ کر ان کے ووٹ حاصل کر لیے گئے ۔ پارسی یا عیسائی اتنے نہ تھے کہ اثر انداز ہوسکیں۔ مسلمانوں کا مسئلہ کافی سنجیدہ تھا اور غور طلب تھا۔
اس بارے میں اختلاف رائے تھا۔ ایک رائے تو یہ تھی کہ بادشاہوں کی زور زبردستی سے کافی ہندوؤں کو مسلمان بنالیا گیا تھا اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان کی شدھی کرن کر کے ہندو سماج میں داخل کر لیا جائے۔ یہ خیال آریہ سماج طبقہ میں کافی مقبول تھا۔
دوسرا خیال یہ تھا کہ مسلمان ملیچھ ہو جاتے ہیں۔ گوماتا کا مانس کھاتے ہیں ۔ گندے ہوتے ہیں۔ ان سے چھوت چھات رکھنا بہت ضروری ہے اور جتنا ممکن ہو ان سے خریداری نہ کی جائے ان کواچھوت کے درجہ میں رکھا جائے یا ختم کر دیا جائے یا پھر عرب ملکوں کو بھگا دیا جائے۔ یہ طبقہ انتہا پسندوں کا تھا اور مہاسبھائی ذہنیت کا کہلاتا تھا۔
تیسرا خیال یہ تھا کہ مسلمان بھی ہماری طرح ایک مذہبی طبقہ ہے جو ہندوستان میں موجود ہے اور رہنا چاہیے جہاں تک ہو ان کے اپنے معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے بلکہ ان کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے مگر اس خیال کے کم لوگ تھے۔
چوتھا خیال یہ تھا کہ مذہب خواہ ہندوؤں کا ہو یا مسلمانوں کا ، انسانیت کے لیے ایک افیون ہے، جس کو جتنی جلد ہو سکے ترک کر دینا چاہیے۔ یہ کمیونسٹ پارٹی کا طرز فکر تھا۔ یہ طبقہ برہمن نوازی، خدا پرستی ، سب کا انتہائی مخالف رہا۔
اس تحریک کی جڑیں روس میں رہیں اور جس طرح روسی طرز فکر بدلتا گیا اسی طرح یہ بھی بدلتے رہے۔ ہندوستانی طرز فکر سے ان کی طر ز فکر نہ سکی جس کی وجہ سے یہ عوام میں مقبول نہ ہو سکے۔
ان سب انداز فکر کے ساتھ ساتھ جو غالب رائے تھی وہ آزادی یا سوراج کی رائے تھی ۔ اب کانگریس ، مسلم لیگ، جمعیۃ العلماء، احرار خدام خلق سویم سیوک سنگھ ، مہاسبھا، آریہ پرتی ندھی سبھا وغیرہ اس قسم کی تمام تنظیمیں سبھی ظاہراً اسی بات پر مصر تھیں کہ ہندوستان کو آزاد ہونا ہی چاہیے۔
اس میں انتظامیہ، زمیندار ، جاگیردار، راجے مہاراجے اور وہ لیڈر جو انگریزوں کو سایہ رحمت خداوندی سمجھتے تھے ، جد و جہد آزادی کے مخالف تھے اور ہر طرح اس کوشش میں رہتے تھے کہ انگریزوں کی حکومت قائم و دائم رہے تا کہ اپنے عیش وعشرت میں کوئی کمی نہ آئے۔
عالمی سطح پر جنگ کے خدشات ہرلمحہ بڑھتے جارہے تھے۔ جرمنی میں نازی ازم جو فاشزم کا ہی ایک حصہ تھا سر اٹھا چکا تھا۔
انگریز خاص طور پر اس کے مخالف تھے اور چاہتے تھے کہ جرمنی کی ناکہ بندی پھر کر دیں تا کہ اس سے ان کی سلطنت عالیہ کو خطرہ ہی نہ رہے اور وہ دنیا کی منڈیوں اور کچے مال کے ذخیروں پر قابض رہیں۔ اس میں امریکہ ان کا حلیف تھا جو مشرق وسطی میں تیل کے ذخائر کو استعمال میں لارہاتھا۔
مصر، ایران اور ہندوستان جیسی منڈی پر نظر رکھے ہوئے تھا اور گاہے گا ہے غلام دلیش کو انسانی مسئلے کے تحت لاکر لیگ آف نیشن میں اٹھاتا رہتا اس سے انگریز پریشان ہو جاتے تھے۔ مگر بد دل نہیں، کیونکہ وہ بھی جانتے تھے کہ امریکہ کا اصلی مقصد تجارتی منڈیاں ہیں انسانی حقوق نہیں۔اس بحث کےبعداب خدیجہ مستورکی سوانح کی طرف آتےہیں:
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں