عالمگیریت کیا ہے؟

عالمگیریت کیا ہے؟

عالمگیریتپرانے معاشروں کی تشکیل کا دارومدار زیادہ تر خاندان، قبائل، ریاستوں یا بستیوں کے طرز زندگی پر تھا، اس لیے کسی مخصوص خاندان، قبیلے، دیاست یا اہل بستی کے مقرر کردا عقائد و روایات کی پابندی اس علاقے کے تمام افراد کے لیے لازمی تھی۔ ان روایات کی پاسداری ان کے لیے بہت اہمت رکھتی تھی۔

ان روایات و عقائد کو حتمی اور مطلق مانا جاتا، اس لیے کوئی بھی فرد اس کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا تھا۔ رفتہ رفتہ معاشرت کی یہ قدیم صورت جدید صورت میں بدلنے لگی اور شہری زندگی کا آغاز ہوا۔ شہر کی وسعت نے دیہی علاقوں سے ہجرت کرنے والوں کو اپنے اندر سمولیا۔ جدید سہولیات کے حصول کے لیے آبادی کی ایک معقول حصہ شہروں کی جانب منتقل ہونے لگی۔

شہروں میں مختلف نظریات اور عقائد کے حامل لوگوں کا ملاپ ہونے لگا جو ایک دوسرے سے اثر پذیر ہونے لگے اور ان کے نظریات و روایات کی انفرادی تصورات ماند پڑنے لگا۔ مصروف اور تیز رفتار زندگی میں روایات کی پاسداری کا خیال اور کمزور پڑنے لگا۔ اس طرح ملکی سطح پر شہر مرکزی حیثیت حاصل ہونے لگا۔ یوں شہری زندگی نے نظریاتی مطلقیت کو توڑ کر تکثیریت اور قبولیت کی عنصر اور مقامیت کو فروغ دیا۔

یعنی کسی ایک فرد یا علاقے کی سوچ کو دوسروں پر لاگو کرنے کی بجائے تمام نظریات اور تمام روایات کی ایک جیسی پذیرائی کی اور کسی بھی فرد کی فکری آزادی کو مجروح نہیں کیا۔جس طرح ملکی سطح پر شہر مرکزیت کا رجحان بڑھ گیا۔ اسی طرح عالمی سطح پر عالم گیریت Globalization کا رجحان بھی فروغ کرنے لگا۔

عالم گیریت کی رُو سے دنیا کی اقوام کے مابین فاصلے سکڑ چکے ہیں۔ دنیا ایک بستی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اقوام کم وقت میں ایک دوسرے سے زیادہ میل ملاپ کر سکتے ہیں۔ موبائل ،انٹر نیٹ، ٹیلی وژن، کمپیوٹر اور دیگر جدید سائنسی آلات اور ایجادات نے عالم گیریت کے فروغ میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ ترقی یافتہ اقوام عالم گیریت کے فروغ کو انسان دوست اور پسماندہ اقوام کی نجات کا باعث بنا کر پیش کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب کے تمام افراد ایک جیسے مواقعوں سے گزر رہے ہیں لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔

مثال کے طور پر آ امریکہ اور پاکستان کے افراد تو ایک جیسے ہے لیکن صرف انٹرنیٹ کی دنیا تک نہ کہ حقیقت میں، عالمگیریت کے عالم برداروں کا کہنا ہے کہ فاصلے ختم ہو چکے ہیں اور اب دنیا کا کوئی بھی فرد کہں بھی جاسکتا ہے لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ یونان کشتی حادثے میں سیکنڑوں پاکستانی صرف اس لیے موت لا لقمہ بنے کیونکہ وہ یورپ کی زمین پر قدم رکھنا چاہیے تھے۔دراصل عالم گیریت کی آڑ میں طاقتور اقوام اپنے مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔

ان اقوام نے ان ہتھکنڈوں کے ذریعے تمام دنیا کی معیشت پر قبضہ جمایا ہے۔ صنعتی پیداوار میں ہوش ربا اضافہ کر کے اس کی کھپت کو ممکن بنانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بنا کر ترقی پزیر ممالک کو صنعتی اور معاشی لحاظ سے کمزور بنائے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر پیداوار سے زیادہ اس کے صرف پر ہوتا ہے۔عالمگیریت کا فائدہ اٹھا کر وہ انہی ممالک سے خام مال لے کے مصنوعات کی صورت میں انہیں ممالک کو بھیج رہے ہیں ۔ وہ تمام دنیا کو اپنا محتاج بنا کر صارفیت کے کلچر کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔

عالمگیریت سے طاقتور کو فائیدہ اور کمزور کو نقصان ہی ہوا۔ اس لیے ہم کہ سکتے ہیں کہ عالمگیریت کا بظاہر جو نعرہ تھا یا اب بھی ہے کہ عالمگیریت نے دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ہی اور یکساں جگہ پر لائے ہیں تو اس نعرے میں عالمگیریت ناکام رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمگیریت کے پاکستان پر سماجی و سیاسی اثرات مقالہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں