صالحہ عابد حسین کے حالات زندگی اور افسانہ نگاری

سوانحی حالات

صالحہ عابد حسین کی پیدائش ۱۹۱۳ء میں ہوئی ۔ وہ ڈاکٹر عابد حسین کی زوجہ تھیں۔ ان کا اصلی نام مصداق فاطمہ تھا۔ غالباً 9 برس کی عمر میں انھوں نے لکھنا شروع کیا تھا۔ ظاہر ہے ان کی تخلیقی سرگرمیوں کا آغاز کم عمری میں ہی ہوا ۔ ۱۹۳۳ء میں اردو کے نامور ادیب اور عہد ساز مصنف عابد حسین کی شریک حیات ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ شادی کے بعد انھوں نے کئی زبانوں کے ادبا کو پڑھا۔ مختلف ممالک مثلآ یورپ، امریکہ ، عراق، ایران، سعودی عرب وغیرہ کے سفر سے ان کا مشاہدہ و تجربہ میں خاصا اضافہ ہوا۔

صالحہ عابد حسین کی افسانہ نگاری کا فکری جائزہ

صالحہ عابد حسین کی افسانہ نگاری کا آغاز ایسے دور میں ہوا جب ہندوستان میں آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی۔ انھوں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا کیوں کہ وہ دہلی میں رہتی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے آزادی کی جدو جہد اور آزادی ملنے کے بعد فساد کے ظلم وستم کو اپنے افسانوں میں بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیا۔ ان کے افسانوں پر حالی ، نذیر احمد ، پریم چند اور عصمت چغتائی کا بھی اثر پایا جاتا ہے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ نقش اول ۱۹۳۹ء میں شائع ہوا تھا۔ صالحہ عابد حسین نے تقریباً ہر موضوع پر قلم اٹھایا۔ ان کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ بہر حال ڈاکٹر جاوید احمد لکھتے ہیں :”صالحہ عابد حسین متوسط طبقے کی گھریلو معاشرت اور زندگی کے المیہ کو پیش کرنے میں امتیاز رکھتی ہیں۔ ان کے موضوعات گنے چنے ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہندوستانی عورت ، سیاست، تعلیم ، ملک کی حالت، عورت کا گھریلو ماحول وغیرہ جہاں ایک طرف سرور و انبساط کا سبب بنتے ہیں وہیں زندگی کا سلیقہ پیدا کرتے ہیں۔

ان کا قلم صرف گھریلو زندگی کی عکاسی تک محدود نہیں تھا بلکہ ہندوستان کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال، سماجی ماحول ، طبقاتی نظام اور سماج کے تضاد اور آویزش ، اقدار کے ٹکراؤ ان کی شکست و ریخت اور اس پس منظر میں عوامی زندگی کے عمل اور رد عمل وغیرہ پر بخوبی چلتا تھا۔ انسان کا سکھ دکھ خاص طور پر ہندوستانی عورت کی تصویرکشی اور نئے ہندوستان میں اس کے رول سے بھی ان کا قلم بحث کرتا تھا ۔ صالحہ عابد حسین کے افسانے حقیقی زندگی پر مبنی ہیں ۔ انھوں نے دہلی کے مسلمانوں کے متوسط طبقے کی تہذب و معاشرت کو فن کارانہ طور پر پیش کیا۔ نیز انھوں نے مذہبی، سماجی اور سیاسی موضوعات کو اپنے نوک قلم کا نشانہ بنایا۔ ان کی تحریر میں ان کی حقیقی زندگی کی آئینہ دار ہیں۔ اپنے اکثر افسانوں میں آزاد ہندوستان کی عکاسی بھی کی ہے۔ غیر مسلموں کی طرز زندگی کو انھوں نے خوشی کی چند گھڑیاں، ایک عالم ہے اس رنگ و بو میں ، ملاپ، ہمدرد و غیرہ افسانوں میں پیش کیا ہے۔ ان کا مجموعہ "نراس میں آس” کے تمام افسانوں میں مصنفہ کی آپ بیتی نظر آتی ہے اور کئی بار وہ گاندھی جی کا ذکر کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔صالحہ عابد حسین نے سماج کی برائیوں اور خامیوں کو بے نقاب کیا۔ اس لحاظ سے انھوں نے معاشرتی اور اصلاحی افسانے بھی لکھے۔ ڈاکٹر شمع افروز اظہار خیال کرتی ہیں:”بدلتی ہوئی قدریں اور دو نسلوں کے رویوں کا فرق مصنفہ کے خاص موضوعات ہیں۔ ان کا نقطہ نظر اصلاحی ہے۔ صالحہ عابد حسین کے افسانے خاصے رومانی اور جذباتی ہیں مگر نمایاں رنگ اصلاحی اور سماجی حقیقت نگاری کا ہے۔ وہ گاندھی ازم سے کافی متاثر ہیں اور اس کی تبلیغ کی جھلکیاں جابجا ان کے افسانوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ وہ اپنے افسانوں میں پریم چند کی طرح وضاحت اور صراحت سے کام لیتی ہیں اور کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق ضرور ہوتا ہے۔بیشتر افسانوں میں صالحہ عابد حسین نے عورتوں کی دکھی زندگی ، بے چارگی اور سماج میں ان کی حیثیت کو موضوع بنایا ہے۔ وہ عوت کی مظلومی کا نقشہ کھینچتے وقت اس کو اس کی طاقت کا احساس بھی دلاتی ہیں۔ صغرا مہدی مصنفہ کے بارے میں کہتی ہیں:”ایک ادیبہ کو میں نے اس پر ضرور فخر کرتے سنا ہے کہ وہ صرف عورتوں کے لیے لکھتی ہیں اور ان ہی میں پسند کی جاتی ہیں۔ دو تھیں صالحہ عابد حسین -صالحہ عورتوں کے مسائل اور ان کی زندگی ، انسان دوستی مسلم معاشرے کی اصلاح ، مسلمان متوسط طبقے کی معاشرت اور زندگی کے المیے کو پیش کرنے میں خاص امتیاز رکھتی ہیں۔ وہ گھریلو زندگی کے مسائل کو نسبتاً ایک وسیع انسانی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ عورت کی بے چارگی اور سماجی حیثیت تعلیمی نظام سیاست اور اصلاح معاشرہ پر انھوں نے خوب خوب لکھا۔ ان کے افسانوں میں عشق انسان کے دکھ سکھ کی خاص تصویر کشی پر مبنی ہے۔ جذبہ عشق کو انھوں نے اعتدال کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے۔ اکثر ان کے افسانوں میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ معاشرے میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم تر درجہ حاصل ہے۔ نیز انھوں نے اسلامی افکار کا حسن، مشترکہ تہذیبی اقتدار، سماجی بصیرت اور ذاتی تجربوں کی عکاسی کی ہے۔ متوسط اور نچلے طبقوں کی زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے اعلیٰ طبقے کا ذکر طنزیہ لہجے میں کرتی ہیں۔

صالحہ عابد حسین کے افسانوں کا پلاٹ روزمرہ کی زندگی سے متعلق ہے۔ ان میں ایک گھریلو فضا ہے اور طبقاتی کشمکش بھی۔ وہ پلاٹ کے انتخاب میں واقعات کو ترتیب دیتی ہیں جس کی وجہ سے ایک خاص تاثر قائم ہوتا ہے ۔ کردار بھی عام زندگی سے مستعار لیے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک خاص تاثر قائم ہے۔ سماج کے ہر طبقے سے کرداروں کا انتخاب کیا ہے ۔ چاہے وہ درمیانی یا نچلے طبقے کے ہوں۔ صالحہ عابد حسین پروفیسر عنوان چشتی کے ایک انٹرویو میں بتاتی ہیں:

"میری اکثر کہانیاں اور ناول زندگی سے بہت قریب ہیں اور اسی وجہ سے بعض لوگ یہ تہمت لگاتے ہیں کہ فلاں کا قصہ یا کردار پیش کیا گیا ہے۔ مگر یہ تہمت یا الزام تو دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں پر بھی لگایا گیا ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر میرے کردار زندہ انسانوں سے مشابہت رکھتے ہیں تو میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوں۔ مثلاً میری ایک کہانی "پلڑا کدھر کو جھکتا ہے” ۔ ایک لڑکی جو بہت خوبصورت اور ہنر مند تھی محض اس لیے ٹھکرا دی گئی کہ لڑکا ذرا خوش حال تھا۔”

صالحہ عابد حسین کی افسانہ نگاری کا فکری جائزہ

صالحہ عابد حسین کے کردار سادہ ہیں جو کوئی نقش نہیں چھوڑے۔ ان کے افسانوں میں عورتوں کے کردار کو بنیادی جگہ حاصل ہے۔ وہ عورتوں کی مظلومیت اسی طرح پیش کرتی ہیں جس طرح ابتدائی دور کی خواتین افسانہ نگار کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ ایسا ماحول پیش کرتی ہیں جو منظر کشی کی خوبصورت مثال ہے۔صالحہ عابد حسین کے اسلوب پر حالی کی چھاپ نظر آتی ہے۔

ان کی طرز نگارش سیدھی سادی اور پر خلوص ہے۔ ان کی طرز تحریر قدیم وجدید کا سنگم ہے۔ انھوں نے نذیر احمد کے اسلوب کو بھی اختیار کیا ہے۔ اسی لیے ان کا اسلوب پرانا ہے۔ ان کے افسانوں کو پڑھتے وقت ایک طرح کی بے لطفی اور بے رنگی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کی حقیقت نگاری بے رابطہ معلوم ہوتی ہے۔ بہر حال جذبات نگاری پر وہ مکمل عبور رکھتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صالحہ کے افسانوں میں اعلیٰ درجے کی جذبات نگاری اور نفسیاتی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے افسانوں میں کلا ئمکس اور اینٹی کلا ئمکس جذبہ تجس کے سایے میں آتا ہے اور آخر میں قاری کو شدید ڈرامائی کیفیت سے دو چار کر دیتا ہے۔ افسانہ چمپا سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:”دھیرے دھیرے وہ (شمیم) ان بچوں سے دور ہوتی گئی اور دل ہی دل میں اس مبارک دن کا انتظار کرتی رہی جب خود اس کا بچہ اس خلا کو پر کرے گا۔ مدتوں سے یہ تمنا نہاں خانہ دل میں پروان کرتی رہی مگر اس کی گود خالی رہی اس کا گلاب کی طرح کھلا ہوا چہرہ مرجھا گیا۔ اور یہ خوف اسے راتوں کو بیدار رکھنے لگا کہ کہیں وه خشک ٹہنی محل بے ثمر تو نہیں "معاشرتی مسائل اور گھریلو زندگی کی پیش کش میں صالحہ عابد حسین کی شگفتگی بیان اور لطافت فکر ان کی خاص پہچان ہے۔صالحہ عابد حسین روزمرہ زندگی کی زبان کا استعمال کرتی ہیں۔ مکالمے عموماً کرداروں کے تعارف کے طور پر آتے ہیں یا پھر مخصوص نفسیات کی عکاسی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ افسانہ تفریح سے ایک سین پیش ہے:”مگر اب اس مہنگے اسکول کی فیس، کتا یں، کا پیاں ، یونی فارم اور روز روز کے مطالبوں نے اس کا پلیتھن نکال دیا تھا۔ بیوی کے سب زیور بک چکے تھے۔ اس کی کتابوں پر نوبت آگئی تھی مگر اب کیا ہوگا؟ ٹیوشن ملنے کی امید تھی مگر آرزؤں اور حقیقت میں جوفاصلہ ہے وہ اس سے چھپا نہ تھا۔” اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ صالحہ عابد حسین کی زبان سادہ و سلیس ہے۔ علاوہ ازیں ان کی زبان نسوانی جذبات کے اظہار میں بھی معنویت رکھتی ہے۔

ساز ہستی، نقش اول، نونگے ، نراس میں آس ، درد درماں اور تین چہرے تین آوازیں صالحہ عابد حسین کے افسانوی مجموعے ہیں۔ ان کے خاص موضوعات مقدس محبت کا درس، سماج کی اصلاح، ملک کا مخصوص ماحول ، انسانی رشتوں کی تبلیغ وغیرہ ہیں۔ صالحہ عابد حسین کی متعدد تصانیف دنیا کے سامنے آئیں۔ افسانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈرامے، سفر نامے اور سوانح بھی لکھے۔ اس کے علاوہ تنقیدی مضامین کا بھی ایک قابل قدر ذخیرہ چھوڑا ہے مگر سب سے زیادہ شہرت انھیں ناول نگاری کی بدولت حاصل ہوئی۔ بہر حال ان کے افسانے انمول موتی ، آخری سہارا، پیاسی ندی عورت ، دوشالہ ، ایک سوال اور ماں کی ممتا کافی اہمیت کی حامل ہیں۔

قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری ایک تنقیدی جائزہ ،مقالہ برائے پی ایچ۔ڈی، مقالہ نگار: نازیہ بیگم جافو

یہ مقالہ اپنی اصلی حالت میں ٹیم پروفیسر آف اردو کے pdf میں موجود ہے۔ مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں شکریہ ۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں