سودا کی قصیدہ نگاری

سودا کی قصیدہ نگاری کا تنقیدی جائزہ

سودا کی قصیدہ نگاری کا تعارف

مصحفی نے سودا کو قصیدے کا نقاش اول، زبان کا حاکم ، قصیدے اور ہجو کا بادشاہ بتایا ہے۔ اور محمد حسین آزاد نے قصیدہ نگاری میں ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے :-

(اول اول قصائد کا کہنا پھر اس دھوم دھام سے اعلا درجہ فصاحت پر پہنچانا ان کا پہلا فخر ہے۔ وہ اس میدان میں فارسی کے نامی شہسواروں کے ساتھ عناں در عناں ہی

نہیں گے بلکہ اکثر میدانوں میں آگے نکل گئے ہیں۔ ان کے کلام کا زور و شور انوری و خاقانی کو باتا ہے اور نزاکت مضمون میں عرفی و ظہوری کو شرماتا ہے۔)

اعلا درجے کے فن کار کو خود بھی اپنی عظمت کا احساس ہوتا ہے سودا کو اپنی عظمت کا احساس اور اپنی قصیدہ گوئی پر ناز ہے۔ شعر وسخن میں وہ خود کو انوری، سعدی اور خاقانی کا ہم رتبہ خیال کرتے ہیں۔ انوری، سعدی و خاقانی و مداح ترا رتبہ شعرو سخن میں ہیں ہم چاروں ایک سودا نے غزلیں کہیں مرثیے لکھے ، دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کا اصل ہنر قصیدے میں کھلتا ہے

اور قصیدے میں بھی مدح سے زیادہ وہ ہجو میں کامیاب ہیں قصیدے سے انھیں فطری لگاؤ تھا۔ انہوں نے انعام و اکرام کی خواہش میں صاحبان اقتدار کی مدح سرائی ہی نہیں کی بلکہ اظہار عقیدت کے جوش میں بزرگان دین کی شان میں بھی قصیدے لکھے۔مدح گوئی :

سودا اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کے قصیدے لاثانی اور لافانی ہیں۔ یہ تو سوال ہی نہیں کہ اردو قصیدے کا کوئی نمونہ ان کے سامنے ہو البتہ یہ طے ہے کہ انھوں نے فارسی قصیدے کا مطالعہ نہایت توجہ سے کیا تھا۔

سودا نے بعض فارسی قصیدوں کا جواب بھی لکھا اور کتنے ہی ایسے مقامات ہیں جن میں وہ ان سے آگے نکل گئے ۔ قدرت اللہ شوق کی رائے ہے کہ سودا نے خاقانی و عرفی کو قصیدہ نگاری میں پس پشت ڈال دیا۔

مصحفی انہیں انوری کے ہم پلہ ٹھہراتے ہیں۔ سودا غزل اور مرثیے سے زیادہ قصیدے میں کامیاب اس لیے ہوئے کہ ان کے مزاج میں شگفتگی تھی اور دل جوش و امنگ سے معمور تھا۔ زبان پر کامل دستگاہ تھی ۔

فارسی کے علاوہ ہندی الفاظ بھی پوری طرح تصرف میں تھے۔ گویا قصیدہ گوئی کے سارے سامان فراہم تھے جن سے انھوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ سودا کے قصائد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ایک تو وہ جو بزرگان دین اور ائمہ معصومین کی شان میں کہے گئے۔ یہ قصیدے محض رسمی نہیں بلکہ جذبہ عقیدت سے سرشار اور پورے خلوص کے ساتھ کہے گئے ہیں۔

دوسرے وہ قصیدے ہیں جو انھوں نے اپنے سرپرست امراء اور محسنین کی مدح میں لکھے۔ ان کے ممدوحین میں سے بعض یہ ہیں :

بسنت خان خواجہ سرا، عالم گیرثانی، مہربان خان، احمد خان بنگش ، شجاع الدول ، آصف الدولہ ، رچرڈ جانسن رزیڈنٹ لکھنو ۔ ان قصیدوں میں بھی خلوص کی کارفرمائی صاف نظر آتی ہے۔ آئیے اب سودا کے مدحیہ قصائد کا تنقیدی جائزہ لیں ۔

سوادا کی قصیدہ نگاری میں مطلع

قصیدے میں سب سے زیادہ اہمیت مطلعے کی ہے۔ جو قصیدے امرا اور ارباب اقتدار کی شان میں کہے جاتے تھے وہ ان کے روبرو سر عام یعنی در بار یا کسی اجتماع میں پڑھے جاتے تھے تاکہ صلہ اور ستایش دونوں ہی حاصل ہوں ۔ ممدوح کو بھی اصل خوشی اسی وقت حاصل ہوتی تھی جب شاعر شاندار طریقے سے اس کی مدح سرائی کرے اور

سیکڑوں ہزاروں حاضرین اس پر واہ واہ کے نعرے بلند کریں مطلع اگر غیر معمولی ہو، اس میں کوئی نئی بات یا کوئی نرالا خیال پیش کیا گیا ہو، انداز بیان شگفته و پرجوش ہو تو سامعین کا ہمہ تن گوش ہو جانا لازمی بات ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ اب پورا قصیدہ توجہ کے ساتھ سنا جائے گا اور فن کار کو خاطر خواہ دار ملے گی۔

شیخ چاند کا درست ارشاد ہے کہ خیال کی ندرت بیان کی جدت اور زبان کی شگفتگی و برجستگی اگر مطلعے میں نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں سمجھا جاتا ۔ سودا کے مطلع ایسے شاندار اور شگفتہ ہیں کہ سامع یا قاری کی توجہ کو فوراً اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

برج محل میں بیٹھ کے خاور کا تاجدار

کھینتچتے ہے اب خران پر صوف لشکر بہار

سودا کی قصیدہ نگاری میں تشبیب

تشبیب میں بڑی گنجایش ہے اور اس میں طرح طرح کے مضامین پیش کیے جا سکتے ہیں سودا نے اس آزادی سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور تشبیب میں فخر و تعلی، فلسفہ و اخلاق، شکوہ دوراں، معاملات حسن و عشق ، کیفیت بہار اور ان کے علاوہ بھی بہت سے مضامین داخل کر کے قصیدے کے دامن کو وسعت عطا کی ہے۔

اسی لیے بقول قاضی جمال حسین تشبیب جو دراصل قصیدے کے لیے تمہید کی حیثیت رکھتی ہے۔ سودا کے یہاں جلوۂ صد رنگ کی صورت نظر آتی ہے ۔ سودا نے آصف الدولہ کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا ہے۔

اس کی تشبیب میں مکالماتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ خوشی مجسم ہو کر خواب میں شاعر کو اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ دونوں کے درمیان سوال جواب ہوتے ہیں اور تشبیب میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

سودا نے یہ مکالماتی انداز فارسی سے لیا ہے لیکن اسے ایسی دلکشی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اردو تو کیا بقول پروفیسر محمود الہی سوال و جواب کا ایسا دلکش انداز فارسی شاعری میں بھی کم ملتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں۔

فجر ہوتے جو گئی آج مری آنکھ جھپک

دی وہیں آکے خوشی نے در دل پر دستک

پوچھا میں کون ہے؟ بولی کہ میں وہ ہوں غافل

نہ کگے شوق میں جس کے کبھو شائق کی پلک

ہے خوشی نام مرا میں ہوں عزیز دلہا

زندگانی کی حلاوت ہے جہاں میں مجھ تک

کھول آغوش دل اور نے مجھے جلدی ناداں

پھر خدا جانے یہ دن کب مجھے دکھلائے فلک

مندرجہ بالا تشیب میں جس طرح خوشی کو مجسم مان کر اس سے گفتگو کی گئی ہے اسی طرح دوسری جگہوں پر سودا نے عقل اور حرص وغیرہ کو مجسم مان کر ان کی خامیوں اور خوبیوں کو اور ان سے حاصل ہونے والی نصیحتوں کو مکالمے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس مکالماتی اندازہ کی دلکشی میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا ۔

سودا نے بعض جگہ تشبیب میں غزل کو بھی داخل کیا ہے ، مراد غالبا یہ کہ عاشقی و سرمستی کے اشعار سے تشبیب کے لطف میں اضافہ ہو، غزل سودا کے زمانے میں بھی اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف تھی۔ اس لیے بھی سودا نے اسے اپنی تشبیب میں جگہ دی ہوگی۔

دیگر شعرا کی طرح عشق و عاشقی کی طرف سودا کی توجہ بھی رہی۔ اس میں انھوں نے یہاں تک بے اعتدالی سے کام لیا کہ بعض جگہ عشقیہ مضمون کو واسورخت کے درجے تک پہنچا دیا، حضرت فاطمہ کی شان میں جو قصیدہ کہا ہے اس کی تشبیب بھی عاشقانہ ہے جسے شیخ چاند نے بے ادبی ٹھرایا ہے۔

اس طرح ہجو کا رنگ سودا کی طبیعت پر بہت غالب تھا۔ مدحیہ قصیدے میں ہجو کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے لیکن تعلی و خود ستائی کے ساتھ ساتھ انھوں نے تشبیب میں اپنے حریفوں پر وار بھی کیے ہیں۔ یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سودا کے بعض قصیدہ خطابیہ یعنی بلا تشبیب ہیں۔

سودا کی قصیدہ نگاری میں گریز

تشبیب کی طرح گریز میں بھی سودا نے کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ قصیدے میں یہ بڑا نازک مقام ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ مدح کو تشبیب سے پیوست کر دے حالانکہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔

اسی لیے علمائے ادب نے گریز کو ایک ایسے جوئے سے تشبیہ دی ہے جس کے ذریعے دو سرکش بیل ( تشبیب و مدح ) ایک دوسرے سے مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔ سودا اس گر سے خوب واقف ہیں اور تشبیب و مدح کو باہم پیوست کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔

سودا کی ایک تشبیب کی مثال اوپر پیش کی جاچکی ہے جس میں خوشی مجسم ہو کر نمودار ہوتی ہے اور سودا کو سمجھاتی ہے کہ مجھ سے بغل گیر ہو جا اور غم و اندوہ سے کنارہ کرے ۔

اب تو شیشہ ہے اندوہ کا پتھر سے پٹک

لیکن شاعر کا غم و اندوہ سے پرانا رشتہ ہے اسے خوشی سے تعلق قائم کرنا منظور نہیں۔

بے سبب کیونکہ میں اندوہ کی الفت چھوڑوں

کس طرح دوستی غم کی کروں دل سے منفک

اس کے بعد خوشی کہتی ہے کہ آج نواب آصف الدور کی سالگرہ ہے اس لیے تم کو چھوڑا اور مجھے لینی خوشی کو گلے لگا لے یہی اس قصیدے کی گریز ہے۔ اب اصل شعر دیکھیے۔

کرکے دریافت یہ مجھ سے کہا اس نے کہ مگر

سمع میں تیرے یہ مژدہ نہیں پہنچا اب تک

آن اس شخص کی بے سال گرہ کی شادی

کہ بصورت ہے وہ انسان وہ بہ سیرت ہے ملک

اس گریز کے بعد مدح کے لیے میدان ہوا ہو جاتا ہے اور تشبیب کو مدح سے رشتہ جڑایا ہے

سودا کی قصیدہ نگاری میں مدح

قصیدے میں مدح کی مرکزی حیثیت ہے کیونکہ یہ قصیدہ نگاری کا مدعا ہے۔

اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے ۔جس پر مولانا حالی نے شدید اعتراضات کیے ہیں لیکن مبالغے کے بغیر مدح سرائی ممکن ہی نہیں قصیدہ نگار کی اس مجبوری کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

سودا نے بزرگوں کی مدح میں جو قصیدے لکھے ہیں ان میں وہ تمام اوصاف بیان کیے ہیں جو بزرگوں کی شان کے شایاں ہیں مثلا ان کی کشف و کرامات، علم و حیا، شرافت و نیک دلی ، عبادت ریاضت اور اسی طرح کے دوسرے قابل قدر اوصاف ۔

اسی طرح سلاطین و امرا کی سخاوت و دریادلی عدل و انصاف، تدبیر و سیاست ، شجاعت و مردانگی اور جاہ و جلال وغیرہ کا ذکر کیا ہے، جیسا کہ دستور تھا سودا نے مبالغہ آرائی میں کثر نہیں اٹھا رکھی لیکن یہ اس لیے ناگوار نہیں ہوتی کہ ہم قصیدہ نگاروں کی روایت سے باخبر ہیں۔

ممدوحین کے علاوہ سودا نے ان سے متعلق چیزوں کی بھی تعریف کی ہے مثلاً گھوڑے یا جنگی ساز و سامان کی تعریف کسی عمارت کی تعریف یا جنگی ساز و سامان وغیرہ کی تعریف – سودا نے جن اشعار میں حضرت علی کے روضے کی تعریف کی ہے وہ بطور مثال یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

اب کہیں عالم میں اے سودا انظر آتا نہیں

جز پناہ اس آستاں کے موضع امن و اماں

جس کا پا یا قدر ایسا ہے کہ دیکھیں ہیں جسے

تھام کر دستار اپنی عرش کے بانشندگاں

سودا کی قصیدہ نگاری میں مدعا یا دعا

قصیدے کے اس آخری جزو میں بھی سودا نے مہارت کا ثبوت دیا ہے۔ اصل قصیدہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ شاعر ممدوح کے سامنے اپنی عرض پیش کرے لیکن اس طرح کہ اس کا مطالبہ بار خاطر نہ ہو۔

اس لیے قصیدہ نگاروں نے صاف صاف مالی مدعا سے گریز کیا ہے اور اتنا کہہ کر کہ آپ کے قدموں میں جگہ ھی رہے جس کی کافی ہے سبھی کچھ کہہ دیا ہے۔ سرفراز الدولہ کے قصیدے میں سودا اپنا مدعا اس طرح بیان کرتے ہیں۔

مجھے تو گوشہ خاطر میں اپنے دے جاگہ

کہ تا بسر کروں لیل و نہار با آرام

قصیدے کے بالکل آخر میں ممدوح کو دعا دی جاتی ہے اور اس میں ممدوح کے مرتبے کا خیال رکھا جاتا ہے ایک قصیدے میں سودا اپنے ممدوح کے حق میں یوں دعا کرتے ہیں۔

الہی تا ہو جہاں تو ہو اور دنیا ہو

جہاں خوبی ہے تو اے جہانیوں کی پناہ

سودا کی قصیدہ نگاری کے اس جائزے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس میدان میں ان کا کوئی ہمسر نہیں اور بقول شیخ چاند اب چونکہ زمانے کا مذاق بدل گیا ہے اس لیے توقع نہیں کہ اس رنگ میں آئندہ بھی اس کا کوئی جواب پیدا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: اردو قصیدہ آغاز و ارتقاء (اردو قصیدے کی روایت)

سودا کی ہجو نگاری

سودا کے مزاج میں بلا کی شوخی تھی جو بالعموم شرارت کی حد میں داخل ہو جاتی تھی۔ جھیڑ چھاڑ ہمیشہ ان کی عادت رہی۔ نوجوانی میں انھوں نے ایک بزرگ سے ان کا کلام سن کر فرمایا تھا کہ آپ یہ کیا کہتے ہیں ہجو کہا کیجیے۔ یہ سن کر وہ حیران ہوئے کہ میں اور ہجو! آخر میں کیسی کی ہجو کہوں؟

سودا کا سیدھا سا جواب تھا ” یہ کیا مشکل بات ہے میں آپ کی ہجو کہوں آپ میری ہجو کہیے ۔ ان کا مزاج تھا کہ کسی نے ذرا ان کے مزاج کے خلاف بات کی اور انھوں نے بخیہ ادھیڑی کسی سے بگڑ جاتے تو اپنے خادم کو جس کا نام غنچہ تھا، آواز دیتے ، بچے ذرا لانا تومیرا قلم دان۔ دیکھوں تو یہ خود کو کیا سمجھتا ہے پھر اس کی وہ مٹی پلید کرتے کہ تو یہ ہی بھلی۔

انھوں نے جو ہجویں کہیں ان میں سے بعض تو شخصی ہیں جن میں سودا نے اپنے حریفوں کو طنز و تعریض کا نشانہ بنایا ہے اور بعض میں حالاتِ زمانہ کی شکایت ہے شخصی ججویں ایسے بزرگوں کے بارے میں بھی ہیں جن کے بارے میں ایسے سخت کلمات ناروا تھے لیکن سودا اپنی طبیعت سے مجبور تھے کئی ہجویں ہیں جن میں اپنے زمانے کی خرابی اور زبوں حالی کا ذکر ہے۔ گویا یہ شہر آشوب ہیں۔

شہر آشوب میں کسی اجڑے ہوئے شہر کا ذکر ہوتا ہے یا اس کی بربادی پر ماتم کیا جاتا ہے ایسی نظم جس میں زمانے کی ناقدری کا ذکر ہو وہ بھی شہر آشوب کہلاتی ہے اور عام طور پر اسے یجو کہا جاتا ہے

لیکن یہ ایک ادبی مغالطہ ہے۔ ڈاکٹر نعیم احمد نے شہر آشوب کے ایک مطالعہ میں ثابت کیا ہے کہ شہر آشوب ایک الگ اور مستقل صنف ہے۔ اسے ہجویہ قصیدہ سمجھنا غلطی ہے۔

اس لیے یوں کہنا چاہیے کہ سودا نے مدث گوئی اور ہجونگاری کے علاوہ قصیدے کی ہئیت میں شہر آشوب بھی لکھے بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے ہر اعتبار سے صنف قصیدہ کو وسعت عطا کی۔

اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر سنبل نگار

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں