سندھ میں اردو کا نظریہ

سندھ میں اردو کا نظریہ

سندھ میں اردویہ نظریہ سید سلیمان ندوی نے پیش کیا ہے۔جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں طویل عرصے تک اقتدار میں بھی رہی ۔

اس دور میں مقامی لوگوں سے میل ملاپ کے نتیجے میں جو زبان وجود میں آئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں :

"مسلمان سب سے پہلے سندھ میں پہنچتے ہیں اس لئے قرین قیاس(قیاس کیا جا سکتا ہے) یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولی(ابتدائی شکل)

اس وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔”اس بات میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے ۔ مقامی لوگوں کی زبان لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب اور کلچر کے اثرات سندھ میں آج بھی دیکھے اور محسوس کئے جاسکتے ہیں۔

آج تک سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعدا د پاکستان و ہند کی دوسری زبانوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلا واسطہ طور پر متاثر ہوا ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ موجود ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں ۔

مثلاً سندھی میں پہاڑ کو جبل اور پیاز کو بصل کہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ اثرات اس زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس لئے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہوسکی۔

یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوے کا کوئی معقول ثبوت سامنے نہ لاسکے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے الفاظ میں:

"سندھ میں عرب فاتحین بنی امیہ کے عہد حکومت میں میں آئے اور ملتان تک کا علاقہ انہوں نے فتح کر لیا۔ اگر چہ مکران پر مسلمانوں کا قبضہ 644ء میں ہی ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ تک تو یہ علاقے بنو امیہ اور بنو عباس کے زیر نگیں رہے۔ بعد میں منصورہ ( موجودہ بھکر ) اور ملتان میں مسلمانوں کی دو خود مختار حکومتیں قائم ہوئیں جو محمود غزنوی کی فتوحات تک موجود تھیں ۔

اس تین سو سال کے عرصے میں یہاں کیا لسانی تغیر و تبدل ہوا اس کے بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے تھے۔نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر بھی ہوئے۔

اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب(جذب ہونا) مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا ۔ اس سے کسی نئی زبان کی ابتداء کا قیاس(خیال) شاید درست نہ ہوگا۔ اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان کے بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔

البتہ یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتانی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگی ۔ اس آمیزش(ملاپ) کو ہیولیٰ قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے؟ خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔

البتہ پنجابی کی مالتانی شاخ اردو سے مماثلت قریبہ رکھتی ہے۔ اس لئے اردو کی نشو و نما ابتداء اور ارتقاء میں ابتدائی مسلمان فاتحین کے اثرات کو اگر کہیں تلاش کیا جاسکتا ہے تو وہ ملتانی ہے۔ جو ایک طرف سندھی سے قریب ہے اور دوسری طرف پنجابی کی اس شاخ سے تعلق رکھتی ہے جسے بعض ماہرین لسانیات نے لھند اقرار دیا ہے ۔“

یہ بھی پڑھیں: دکن میں اردو کا نظریہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں