براہِ راست اپنے موضوع پر جائیے
اردو ادب میں سفرنامے کے مختلف مشاہدات
۱۔زمینی سفرنامے کے مشاہدے
۲۔ہوائی سفرنامے کے مشاہدے
۳۔بحری سفرنامے کے مشاہدے
زمینی سفرنامے کے مشاہدے
سفر کی اقسام: زمینی سفر جوا نفرادی طور پر پیدل چلنے سے شروع ہو کر اجتماعی سفر کےمشینی دور اور الیکٹرانک سفر کے دور تک جاپہنچتا ہے۔پہلے پہل قافلوں کی صورت میں پیدل سفر کیے جاتے تھے دن کی روشنی میں سفر کا آغاز کیا جاتا اور جہاں رات آتی وہیں پڑاؤ ڈال لیا جاتا تھا کوشش کی جاتی تھی کہ رات سے پہلے پہلے جنگل اور بیابان علاقوں کو عبور کر لیا جائے رات کسی بستی یا آبادی والے علاقے میں بسر کی جائے اگر رات جنگل میں گزار نی بھی پڑتی تو مسافر اپنی حفاظت کے سامان یعنی زادہ راہ میں ساتھ لے لیتے تھے اور باری باری جاگ کر باقی ساتھیوں کی حفاظت کرتے تھے۔
وقت کی رفتار کے ساتھ اور خاص طور پر پہیے کی ایجاد سے سفر میں سہولیات پیدا ہونے لگی ۔گاڑیاں ،ریل گاڑیاں اور جدید ترین تیز رفتار گاڑیاں استعمال ہونے لگیں۔زمینی سفر کرنے والے سیاحوں کی ایک دوسرے سے ملاقات کے بعد مشاہداتی حس کو تیز ہوجاتی ہے۔
مختلف طبقات سے مل کر سوچ اور رویوں کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔جن جن علاقوں سے سیاح گزرتا ہے ان علاقوں کی بدلتی ہوئی فضا دلچسپی کا باعث بنتی چلی جاتی ہے۔ہردس بیس کلو میٹر یا اس سے بھی کم کے فاصلے پر ذریعہ اظہار کے لیے مختلف لہجوں سے واسطہ پڑتا ہے جس کی وجہ سے لہجے اور سوچنے کے انداز بھی جدا ہوتےجاتے ہیں۔
دراصل لہجہ ہی رویوں کو مختلف بناتا ہے۔پاکستان میں علاقائی زبانوں کے مختلف لہجے اور رویے ملتے ہیں۔زمینی سفر کرتے ہوئے سیاح کو مختلف سوچ و فکر کو پرکھنے کا موقع ملتا ہے۔عوامی گاڑیوں میں سفر کرنے والے دلچسپ تجربات سے گزرتے ہیں اور دلچسپ انداز سے ہی اپنے تجربات کا اظہار کرتے ہیں ۔
اجمل نیازی ہندوستان میں اپنے ایک سفر کے دوران عام تجربے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’سرہندجا کر بس رک گئی وہ رکتی ہی تب تھی جب خراب ہوتی تھی۔ورنہ سواریاں اتارنے کے لیے وہ صرف رکنے کا ارادہ ہی کرتی ،،4۔
ایسے بے شمار واقعات زمینی سفر کرنے والوں کے مشاہدے میں آتے ہیں۔زمینی سفر کرنے والے مناظر کو اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں ایسا سفر کرنے والے تخلیق کار اپنے تجربات کو تخلیقیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو سفر کا مشاہدہ سفرنامے کا روپ اختیار کرلیتاہے۔زمینی مناظر بھی سفرنامہ نگار کے ساتھ سفر کرنے لگتے ہیں۔
ہوائی سفر
ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والوں کا طبقہ معاشی اعتبار سے مستحکم ہوتا ہے۔اس طبقہ کے لوگوں کارہن سہن باقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔معاشی حالات سوچ و فکر کے دھارے میں نمایاں تبدیلیاں لاتے ہیں غیر ممالک میں سفر کرنے والوں کی سوچ زبان اور لہجے میں غیر ملکی زبان لہجے اور رویے کی آمیزش آجاتی ہے۔سہل پسندی،احساس تفاخر،خود غرضی جیسے منفی رویے بھی پروان چڑھتے ہیں مگر اس اعلی سطح پر جب مثبت سوچ رکھنے والے افراد موجود ہوں توان کی سوچ کے زاویے مختلف ہو جاتے ہیں وہ اپنے ارد گرد کے مناظر میں مسائل کو تلاش کر کے ان کا حل بھی ڈھونڈلیتے ہیں ۔
وہ آسمانی اور فضائی مناظر میں دلچسپی کے سامان تلاش کر لیتے ہیں۔ فضائی سفر کرنے والے ایک ملک سے دوسر ے ملک کی روایات سے آگاہ ہوتے ہیں۔مختار مسعود اپنے ہوائی سفر کے دوران ہوائی جہاز سے نظر آنے والے منظر کو اس انداز سے دیکھتے ہیں۔
’’ہوائی جہاز اب چترال پر پرواز کر رہا تھا۔۔۔جن پہاڑوں پر اس وقت جہاز اڑ رہا تھا ان میں گھر بسانا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ان علاقوں میں رہنے والے لوگ جفا کش او رفاقہ مست ہو اکرتے ہیں اور خانہ بدوش جیا کرتے ہیں۔‘‘[5]
ہوائی سفر کرنے والے دور سے نظر آنے والے مناظر کو مشاہداتی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے رہن سہن کھانے پینے کے طور طریقے بھی اپنے سفر نامے کا موضوع بناتے ہیں۔
بحری سفر
زمین کے تین اطراف پانی ہونے کے باعث زمین کے بہت سے ٹکڑے جزیروں کی صورت میں زمین پر بکھرے ہوئے ہیں۔پانی میں گھرے ہوئے جزیروں پر آمدروفت اور رابطے کے لیے پانی میں راستے بنائے گئے۔
جس طرح انسان نے فضاؤں میں پرندوں کی طرح اڑنا سیکھا اسی طرح اس نے سمندر کی لہروں اورموجوں سے لڑنا اور تیرنا سیکھاشوق سفر اور ضرورت رابطہ کے تحت پانی میں راستہ دریافت کیا گیا ۔ماضی میں کشتیِ نوح او ر حضرت موسی ؑ کے صندوق نے دریا میں اپنا راستہ تلاش کیا ۔تختہ ،بیڑی،کشتی ، بادبانی کشتی،بحری جہازبنائے گئے جو ضروریات زندگی کی اشیاء کو ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے اور ایک ملک سے دوسرے ملک لے جاتے۔
کولمبس نے بحری راستے سے ہی امریکہ دریافت کیا تھا واسکوڈے گامانے بحری راستے سے ہی برصغیر کو پایا تھا۔کراچی اور گوادر کے درمیان بحری جہاز کے سوا کوئی دوسرا معقول ذریعہ آمدروفت نہیں اس لیے مسافروں کی اچھی خاصی تعداد ہر جہاز سے اترتی اور سوار ہوتی ہے۔[6]ضروریات زندگی کا دائرہ وسیع ہوا تو سفر کے مقاصد میں بھی تنوع آنا شروع ہو گیا ۔
فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے بحری بیڑے استعمال کیے جانے لگے۔بعد میں بحری جہاز اور لانچزکا استعمال بھی شروع ہو گیا بحری سفر کرنے والے اپنی کیفیات کی تبدیلی کے باعث اکثر بیمار ہو جاتے بعض اوقات جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑ جاتا تمام مسافر راستے میں تبدیل ہونے والی کیفیات اوردوسرے مسافروں کے حالات سے بھی بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔مولانا جعفر تھا نسیری اپنے سفر نامہ’’کالا پانی‘‘ میں ان کیفیات کو اس طرح سے دیکھتے ہیں۔
’’جب جہاز سمندر میں پہنچا تو طوفان اور تلاطم سے ہلتا تھا اکثر آدمی قے اورمتلی سے ’’بیمار ہو گئے ایک پنجابی قیدی معیادی ہفت سالہ جس کے پانچ برس اس وقت باقی تھے بیمار ہو کر جہاز میں مر گیا ۔ہم لوگوں نے موافقِ قاعدہ شریعت کے اس کو غسل اور کفن دے کر اور نماز جنازہ پڑھ کر اس کی لاش کے ساتھ بہت سے پتھر باندھ کر سمندر میں چھوڑ دیا۔‘‘[7]
پردیس کی صعوبتیں ،تنہائی زادر اہ کی فکر اورسلسلہ سفر کی رکاوٹ اور خوف سے دو چار ہوناہر مسافر کی تقدیر ہے۔اسے پانی سے اٹھتے مدو جزاور لہروں سے بھی رابطہ پڑ تا ہے ۔
وہ طوفان او رخاموش لہروں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ آبی پرندوں اور آبی نباتات کا مشاہدہ بھی کراس قسم کے افراد پانی کی قوت سے بھی آگاہ ہوتے ہیں اس لئے ماضی اور حال میں لکھے گئے نثری سفر ناموں میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہ اپنے مشاہدے میں موجوں کی روانی اور خاموشی کو بھی محسوس کیا ہے۔
اردو کا پہلا سفر نامہ:میر تقی میر، تحقیق ڈاکٹر ثمینہ گل شعبہ اردو یونی ورسٹی آف لاہور سرگودھا کیمپس
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں