سحر البیان کا خلاصہ اور تنقیدی مطالعہ

مثنوی سحر البیان کا خلاصہ اور تنقیدی مطالعہ

سحر البیان کا تعارف اور خلاصلہ

سحر البيان ایک تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کدو کاوش "سحر البیان ایک تنقیدی مطالعہ” یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے چھپی۔ میر حسن کی لا زوال مثنوی سحر البیان کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اس کا موضوع بے نظیر اور بدر منیر کے عشقیہ معاملات بتایا گیا ہے۔ یہ کہانی ایک عام سی کہانی ہے۔

نظم و ترتیب اس قدر ہے کہ مجموعی طور پر ان میں دلکشی کا احساس ابھرتا ہے۔ اس کا اہم سبب وہ توازن ہے۔ جس کا دامن میر حسن سے کسی حال میں نہیں چھوٹتا ۔ مثنوی میں موجود اہم واقعات کے امتزاج سے کہانی کا بنیادی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے بادشاہ سامنے آتا ہے۔ پھر بے نظیر اور بدر منیر کا واقعہ اور نجم النساء و فیروز شاہ کا واقعہ ہے۔

میر حسن نے اس مثنوی میں انسانی زندگی کے بنیادی معاملات کو نمایاں مقام دیا ہے۔ مثنوی میں پیش آمدہ واقعات میں انسانی اقدار کو ابھارا گیا ہے۔ یہ خصوصیت اس مثنوی کی کہانی اور پلاٹ کی اہم خوبی بن گئی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے جس امر پر نظر پڑتی ہے۔ وہ انسانی زندگی کے ساتھ محبت ہے بادشاہ جو اولاد سے محروم ہے۔

جب اولاد کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو انسانی زندگی سے محبت کا واضح اظہار ہے، نجم النساء کا جوگن بن کر شہزادے کی تلاش میں نکلنا بھی انسانی زندگی کے اہم اقدار محبت دوستی اور خلوص سے اس کی والہانہ وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح مثنوی میں مکمل انسانی فضا کا احساس ہوتا ہے۔ جس سے میر حسن کے انسانی زاويه نظر پر روشنی پڑتی ہے۔

سحر البیان میں مناظر فطرت

میر حسن کہانی کے ہر واقعے کو پیش کرتے ہوئے پہلے مناظر فطرت کی مصوری کرتے ہیں، مثنوی میں پہلے مناظر فطرت کا بیان اس موقع پر ہے، جہاں ںشہزادہ بےنظیر کے تولد ہونے کے بعد محل کی تعمیر کے سلسلے میں باغ کی تیاری ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے میر حسن لکھتے ہیں:

زمین کا کروں واں کی کیا میں بیاں

کہ صندل کا تھا ایک تختہ عیاں

بنی سنگ مرمر کی چوپڑ کی نہر

گئی چار سو اس کے پانی کی لہر

عجب چاندنی میں گلوں کی بہار

بر اک گل سفیدی سے مہتاب زار

سحر البیان میں رومانوی فضا

میر حسن فطرت کے حسن اور مناظر کی دلآویزی سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان مناظر سے مثنوی میں ایک رومانی فضا قائم ہو گئی ہے۔ بے نظیر اور بدر منیر اور نجم النساء کے حسن کے بیان میں تو انھوں نے بقول شخصے قلم توڑ دیا ہے۔ اس بیان سے کچھ ایسی فضا پیدا ہوئی ہے۔ جس سے زیست کو نبھائے ، اس کو برتنے او محفوظ ہونے کا احساس شدید ہوتا ہے۔

اس لحاظ سے یہ حصے سحر البیان کی جان ہیں اور انسانی حواس پر انمٹ نقوش ثبت کرتے ہیں۔ مثلاً بدر منیر کچھ اس طرح جلوه گر ہوتی ہے۔ ع وہ مسند جو تھی موج دریا۔

سحر البیان میں المیے اور طربیے کا امتزاج

حسن۔ میر حسن نے مثنوی میں طربیہ اور المیہ دونوں پہلوؤں کے توازن کو برقرار رکھا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سحر البیان ہلکی پهلکی رومانی داستان کا روپ دھار لیتی۔ کہانی کے آغاز میں المیہ پہلو ملتا ہے۔ اگرچہ سحر البیان کا انجام طربیہ ہے۔

کردار نگاری

کیونکہ اس میں تمام معاملات بخوبی طے ہو جاتے ہیں۔ یہ مثنوی چند واقعات کا مجموعہ ہے۔ لیکن میر حسن نے مثنوی نگاری کے دائرہ میں رہ کر کردارنگاری کو واقعات کے ساتھ جس طرح ہم اہنگ کیا ہے۔ اس کی مثال اردو مثنوی کی روایت میں مشکل ہے۔

وہ کردار کے بابت برابر است بھی کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے کردار کی بنیادی خصوصیات پر روشنی پڑتی ہے۔

سحر البیان کے بنیادی کردار بے نظیر ، بدر منیر، نجم النساء ، ماره رخ پری اور فیروز شاہ ہیں۔ شہزادہ بے نظیر کہانی کا ہیرو ہے۔ اور ان تمام خوبیوں سے مزین ہے۔ جو ایک ہیرو کے حصہ میں ہیں اس کے مزاج میں رومانیت ہے۔ رنگین مناظر سے دل لبھانے کا شائق ہے۔

بدر منیر کو بھی حسن و جمال نے بلا کا رومانیت پسند بنایا ہے۔ وہ اپنی محبت میں کافی جذباتی ہے۔ اسی محبت میں وہ کھانا پینا چھوڑ دیتی ہے۔ نجم النساء کے کردار نے سحر البیان کو دلچسپ بنائے میں خاصا کردار ادا کیا ہے۔ اسے مثنوی کا سب سے دلچسپ اور دلکش کردار کہنے میں جھجھک محسوس نہیں ہوتی وہ زندگی کا شعور بھی رکھتی ہے،

اس کے کچھ معیار بھی اس کے پیش نظر ہیں محبت اخلاص اور ایثار و قربانی اس کردار کی شخصیت کی نمایان خصوصیات ہیں جبکہ نظیر اور بدر منیر محبت کی اولین نگاہ میں غش کھا کر گرتے ہیں تو نجم النسا ہی ان پر گلاب چھڑ کتی ہے۔

سحر البیان میں تشبیہات و استعارات

تشبیبات و استعارات کو محض آرائش اور زیبائش کے خیال ہی نے جنم دیا ہے، انکی بنیاد تو گہرے تجربے کے صحیح ابلاغ پر استوار ہے۔ ان کے پیچھے شاعر کے احساس اور جذبے کا ہاتھ پوری طرح کارفرما نظر آتا ہے۔

میر حسن نے سحر البیان میں شاعرانہ مصوری کو معراج کمال پر پہنچا دیا ہے۔ مثلاً

وہ موتی کی سیلی وہ تن کی دمک

شب تیرہ میں کہکشان فلک ایک نہایت ہی مربوط دلچسپ اور اعلی انسانی جذبات سے بھرپور اور انسانی اقدار کی حامل ایک ایسی نظم ہے۔ جس کو دنیا کی اعلی سے اعلی منظومات کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

مثنوی سحر البیان کا مجموعی جائزہ

ڈاکٹر عبادت بریلوی اردو کے بیدار مغز اور مقتدر نقاد و محقق ہیں ۔ تنقید و تحقيق ان کے خاص میدان ہیں۔ جن میں اپنی انفرادیت کالوہا منوا چکے ہیں۔ سحر البیان ایک تنقیدی مطالعہ ان کے تنقیدی کارنامہ کی اہم مثال ہے۔ مثنوی سحر البیان کی کہانی پلاٹ، مناظر فطرت انسانی فطرت ، کردار ، المیہ اور طربیہ پہلوؤں كوزير بحث لاتے ہیں۔

مثنوی کے زبان و بیان کی خوبیاں تشبیبات و استعارات اور مناسب زبان کا استعمال بھی کیا ہے۔ سحر البیان کو معاشرت، تہذیب اور انسانی جذبات و اقدار کا حسین مرقع قرار دیا ہے۔ موصوف زیر نظر کتاب میں کہیں بھی حوالہ نہیں دیتے۔ شاید وہ حوالہ کے بغیر ہی اپنی بات مستند سمجھتے ہیں۔ زیر نظر کتاب لازوال مثنوی سحر البیان پر اہم تنقیدی سرمایہ ہے۔

ماخذ مزید مطالعے کے لیے: اردو داستان تنقیدی روایت مقالہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں