موضوعات کی فہرست
مجموعہ’ستاروں سے آگے’ کا تعارف
چودہ افسانوں پر مشتمل قرة العین حیدر کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘ستاروں سے آگئے’ ٹھیک تقسیم ہند کے وقت ۱۹۴۷ میں خاتون کتاب گھر دہلی سے شائع ہوا۔ اس وقت قرۃ العین حیدر ہندوستان ہی میں قیام پذیر تھیں۔ جب صادق الخیری نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری لی۔
‘ستاروں سے آگے’ پر ایک فکری نظر
ابتدائی مجموعہ ہونے کے باعث اس میں بعض فنی کمیاں موجود ہیں جو کسی بھی اولین مشق میں ہوسکتی ہیں ۔ ستاروں سے آگئے اس وقت منظر عام پر آیا جب ملک میں ترقی پسند تحریک کا طوطی بول رہا تھا۔ ملک کے تقریباً سارے ادباء ایک ہی مقصد کے تحت ادب کی تخلیق کر رہے تھے۔ اس کے بر عکس قرة العین حیدر کے افسانے اپنے فکر وفن اور طرز بیان کے تحت بالکل نئے تھے۔ ان کے افسانے مقصدیت پر مبنی نہیں تھے۔ افسانوں کا آغاز ، درمیان اور اختتام پہلے سے طے شدہ نکات پر مبنی نہیں تھے۔ ان کے ابتدائی افسانوں کو غالباََ اس وجہ سے زیادہ پسند نہیں کیا گیا کہ وہ اس زمانے کے مزاج کے مطابق نہیں تھے۔ قرۃ العین حیدر اپنے ایک انٹرویو کے دوران اس مجموعے کے متعلق بتاتی ہیں:
"میں نے تو یہ مونولوگ ، درون ذات کا انعکاس, شعور کی رو اور تجریدی خیال آرائی وغیرہ سے ان دنوں استفادہ کیا تھا، جب ۱۹۴۰ میں میری کم عمری کا زمانہ تھا۔ اس طرح دیکھیے تو ان رجحانات کی ابتداء مجھ سے ہوتی ہے۔ تا ہم اب تک کسی نے بھی اس حقیقت کو مان کر نہیں دیا ہے۔ ‘ستاروں سے آگے’ میں میری کہانیاں اسی نئے پن کا عکس پیش کرتی ہیں۔ ان میں ایسے تمام خیالات ملتے ہیں جو اردو میں دوسری نسل کا موضوع بنے ۔ میرے لیے تو اب یہ سب قصہ پارینہ ہے۔ میں بہت پہلے ہی ان مراحل سے گزر چکی ہوں اور یہ سب کچھ میں نے لاشعوری طور پر ہی کیا۔ فیشن کے طور پر نہیں۔۔۔”
‘ستاروں سے آگے’ پر ایک فنی نظر
پلاٹ پر مصنفہ کی گرفت ڈھیلی ہے۔ بیشتر افسانوں میں رومانی آسودگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس مجموعے کے افسانوں پر دوسری جنگ عظیم کی ہیبت ناکیاں چھائی ہوئی ہیں ۔ متعدد کردار جنگ کے میدان میں ہلاک ہو کر اپنے پیچھے درد و غم کی ایک داستان چھوڑ جاتے ہیں۔
ستاروں سے آگے کی کہانیوں میں ایک بھی ایسا کردار نہیں ہے جو دل و دماغ کو متاثر کرے۔ اکثر کردار سوچتے ہوئے یا آپس میں بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تقریباً سبھی کرداروں میں کچی عمر کی بے فکری اور خیالی دنیاؤں کی تمنا تمنائیں ملتی ہیں ۔ یہ اعلیٰ متوسط طبقے کے خوش حال اور بے فکر کردار زندگی کو ایک تفریح یا کھیل سمجھتے ہیں۔ وہ زندگی میں کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن جب حقیقت کا سامنا کرتے ہیں تو ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں ۔ان افسانوں کے کرداروں، واقعات اور منظر ناموں کی فضا تقریباً ایک جیسی ہے جس سے اکتا دینے والی یکسانیت پیدا ہوتی ہے۔ ان میں ایک خواب کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ان میں ایک خواب کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بہر حال ایک تحیر خیر رومانی فضا انفرادیت پیدا کرتی ہے۔ اس مجموعے کے تمام افسانوں کی زبان فطری اور تخلیقی ہے۔
البتہ اس میں انگریزیت غالب ہے۔ حتیٰ کہ اعجاز حسین بٹالوی اس مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اس کتاب کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے لیڈی ماؤنٹ بیٹن ہندوستان سے جاتے وقت اپنی انگریزی زبان مصنفہ کے افسانوں کے لیےچھوڑتی ہیں۔”ٹوٹتے تارے ، آہ اے دوست ، رقص شررا اور دیودار کے درخت میں قرۃ العین حیدر نے سوانثی انداز اپنا یا۔ یہ ان کے اسلوب کی انفرویت ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ان ابتدائی افسانوں کو اردو کے جدید افسانے کا نقطئہ آغاز قرار دیا گیا ہے۔ الفاظ اور اشیاء کے درمیان ایک علامتی وحدت کو تخلیق کرنے کا رویہ سب سے پہلے انھوں نے ہی اختیار کیا ہے۔ بہر حال ستاروں سے آگئے میں شامل افسانوں کی کردار نگاری کمزور نظر آتے ہیں۔ موضوعات بھی محدود ہیں۔ البتہ ان کے موضوعات گہرے رومانی نقوش مرتب کرتے ہیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں