زبان اور معاشرہ
فرد کسی مخصوص معاشرہ میں دیگر افراد کے ساتھ زیست کرتا ہے لہذا مکالمہ مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ فرد کسی ہوا بند بوتل میں مقید ہو تو وہ خود کلامی کرے گا کہ خود کلامی تنہا فرد کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ تحقیقی ترفع پا کر خود کلامی شاعری کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ آج ولی، میر، غالب، اقبال کیوں زندہ ہیں ؟
اس لئے کہ وہ اپنے کلام کے ذریعے ہم سے مکالمہ کرتے ہیں ، اس لئے ہمیں وہ ماضی کے شاعر ہونے کے برعکس اپنے معاصرین محسوس ہوتے ہیں۔تخلیقی ترفع سے محروم فر کی خود کلامی دن سپنوں اور فینٹیسی کا روپ التیار کرلیتی ہے جبکہ پاگل کی خودکلامی ہذیان قرار پاتی ہے۔سارتر نے کہا ہے:Hell is other peopleبجا لیکن اس کے باوجود فرد کا افراد سے مکالمہ لازم ہے،
فرد کسی کے مقابل ہو تو مکالمہ جنم لے گا۔ یہ مکالمہ ہی ہے جو انسانی تعلقات میں رنگ آمیزی کا باعث بنتا ہے اور زبان کا سب سے بڑا اجواز بھی مکالمہ میں مضمر ہے۔زبان کو معاشرہ ایجاد کرتا ہے، معاشرہ ہی اس کے اساسی نقوش متعین کرتا اور ان میں رنگ آمیزی کا باعث بنتا ہے۔ جیسا معاشرہدیسی زبان!دلچسپ امر یہ ہے کہ معاشرہ اور زبان لازم و ملزوم ہونے کے باوجود بھی دونوں کی عمر یکساں نہیں ہوتی ۔ بعض اوقات معاشرہ تو برقرار رہتا ہے لیکن زبان مر جاتی ہے
جیسے عبرانی اور سنسکرت تو مٹ گئیں لیکن یہود و ہنود موجود ہیں۔ اس تناظر میں زبان کی بقا اور فنا کے اصول طے کئے جاسکتے ہیں۔یہ درست کہ زبان کا آغاز مکالمہ سے ہوتا ہے لیکن معاشرہ کی وسعت پذیری ، علوم وفنون کے وسیع تر ہوتے آفاق اور تخلیقی سرگرمیوں کی بنا پر زبان با ثروت ہو کر تشخص حاصل کرتی ہے۔ زبان کی ترقی ہی اس کا تشخص ہے۔زبان کی وسعت پذیری اور بقاء جن امور سے مشروط ہے وہ یہ ہیں:
1- زبان میں نئے نئے الفاظ کی آمیزش ، خون میں سرخ خلیات کی مانند زبان کیلئے حیات بخش ثابت ہوتی ہے، اگر زبان میں نئے الفاظ کے داخلہ کیلئے در بند کر دیا جائے تو یہ جامد پانی جیسے جوہڑ میں تبدیل ہو جائے گی۔ جس طرح دریا کی روانی کیلئے لہر در لہر سلسلہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح زبان میں بھی نئے الفاظ زبان کی روانی کی صورت میں اسے متحرک اور فعال رکھتے ہوئے زبان کو با ثروت بناتے آیا ہے۔ اس رویہ کے برعکس خبر ملاحظہ ہوں:
تهران (آن لائن) ایرانی صدر محمد احمدی نژاد نے سرکاری اور دیگر ثقافتی تظیموں اور اداروں کو حکم جاری کیا ہے کہ فارسی زبان سے تمام غیر ملکی الفاظ ختم کر دیے جائیں۔ خبر رساں ادارے کے مطابق محمد احمدی نژاد نے یہ حکم نامہ رواں ہفتہ کے شروع میں جاری کیا ۔”(روز نامہ جنگ لاہور 30 جولائی 2009 ء ) فرانسیسی زبان میں بھی انگریزی الفاظ کا استعمال قابل تعزیر جرم ہے۔
2: زبان کا حقیقی استعمال زبان کی تخلیق کا اظہار اصناف ادب کی متنوع صورتوں میں ہوتا ہے۔ تحقیقات کی صورت میں الفاظ اپنے محدود لغوی معنی کی مسلح سے بلند ہو کر علامات، استعارات تشبیہات کی صورت میں مفاہیم نو کیلئے سمت نما کا کام کرتے ہیں ۔
الفاظ کے ذریعہ سے اسلوب جو طلسم ہوشر با تیار کرتا ہے اس سے ایک تو زبان کی جمالیاتی اقدار میں استحکام پیدا ہوتا ہے اور دوسرے زبان کا تشخص بھی تخلیقات سے مشروط ہوتا ہے۔ دراصل تخلیق ہی سے زبان بولی کی سطح سے بلند ہو کر صیح معنوں میں زبان کے درجہ پر فائز ہوتی ہے جبکہ فلسفہ منطق سائنس اور فکر اس کے علمی وقار کے ضامن قرار پاتے ہیں۔ ایران اور فرانس کی مانند چین بھی زبان کی طہارت کا قائل ہے۔
اخبار اردو اسلام آباد، جنوری 2011 ء نے یہ اطلاع دی ہے۔”چین کے اشاعت عامہ کے سرکاری ادارے جنرل ایڈمنسٹریشن آف پریس اینڈ پبلی کیشنز نے حال ہی میں جاری کردہ اپنے نئے قواعد وضوابط میں ملک کے اندر چینی اخبارات ، کتابوں اور ویب سائٹوں میں انگریزی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور چینی زبان کو اس سے درپیش لسانی خطرات کے باعث انگریزی الفاظ اور محاورات کے استعمال پر فوری پابندی عائد کر دی ہے۔
نئے چینی قواعد وضوابط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ روز مرہ چینی زبان کے الفاظ اور مختلفات میں انگریزی کا بے جا استعمال انسانی لنسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ادارے کی ویب سائٹ پر موجود اطلاعات کے مطابق واضح کیا گیا ہے کہ انگریزی کے بے صحابہ استعمال سے چینی زبان اور ثقافتی ماحول میں ملکی ہم آہنگی اورنسانی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ سرکاری طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ ان قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے گی ۔
"روز نامہ جنگ (لاہور 24 دسمبر 2010ء) میں بھی یہ خبر شائع ہوئی جنگ (بی بی سی ) چین نے ملکی ذرائع ابلاغ میں غیر ملکی زبان خصوصاً انگریزی زبان کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔
اس پابندی میں اخبارات ، ویب سائٹ اور اشاعت کے دوسرے ادارے شامل ہیں ۔ چین کے سرکاری پریس اور اشاعتی ادارے نے کہا ہے کہ غیر ملکی الفاظ کی ملاوٹ چینی زبان کے خالص پن کو آلودہ کرتی ہے۔ چینی الفاظ کے استعمال کا ایک درست اور معیاری طریقہ ہے۔ پریس اور دوسرے اشاعتی اداروں کو غیر ملکی زبانوں کے مختصر الفاظ سے پر ہیز کرنا چاہیے ۔”
در اصل اس رویہ کے پیچھے انگریزی اور اس کے ذریعہ سے مغربی کلچر کی بالادستی کا خوف ہے۔ اگر قوم کا تشخص اس کی زبان سے مشروط ہے تو پھر ہر قیمت پر اپنی زبان کی حفاظت لازم ہے۔ اس لسانی تعصب کے برعکس قومی مفاد کے مطابق سمجھنا چاہئے ۔ اپنی مثال سامنے ہے۔ اردو کو اس کا جائز مقام نہ ملا اور انگریزی راج کر رہی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں