رپورتاژ کا فن اور موضوع

رپورتاژ کا فن اور موضوع

ہماری نثری اصناف ادب میں ایک نئی صنف داخل ہوئی ہے جسے رپورتاژ کہا جاتا ہے، دپورتاژ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے جس کا براہ راست انگریزی لفظ رپورٹ سے تعلق ہے۔

فرانسیسی میں اس کا تلفظ رپورتاژ اور رومن رسم الخط میں املا Reportage ہے۔ یہ لفظ بڑی حد تک رپورٹ کے معنوں میں ہی مستعمل ہوتا ہے۔ دیگر ترقی یافتہ اصناف کی طرح اس میں موضوع کی اہمیت ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ اس کے فن سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اس صنف کو رپورٹ اور صحافت سے اس کا فن ہی علیحدہ کرتا ہے۔

اس کا موضوع اگر چہ بڑی حد تک صحافتی ہے لیکن فن قطعی ادبی ہے۔ یہ صنف اخارجی عناصر کی ترجمان ہوتے ہوئے بھی داخلی کیفیات اور تاثرات کی حامل ہوتی ہے۔ جہاں تک اس کے موضوع کا تعلق ہے تو خارجی عناصر اس کی تشکیل کے لئے درکار ہوتے ہیں لیکن جہاں فن کا سوال آتا ہے تو اس کے مصنف کی داخلی کیفیات اور تاثرات کی رہنمائی ناگزیر ہو جاتی ہے تبھی اس کے موضوع میں تنوع ، ہمہ گیری اور نکھار اور فن میں حُسن پیدا ہو جاتا ہے۔

مختصر یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں خارجیت اور داخلیت کا ایک حسین امتزاج ہوتا ہے وہ ایک دوسرے سے شیر و شکر ہوتی ہیں اور دونوں ہی اس صنف کے معیار کا تعین کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔

رپورتاژ صرف چشم دید واقعات پر لکھا جا سکتا ہے۔ سنے سُنانے واقعات لکھی گئی کوئی تخلیق افسانہ، ناول یا ڈراما تو ہو سکتی ہے، رپورتاژ نہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ داخلی کیفیات اپنی تمام تر شدت کے ساتھ اسی وقت پیدا کی جا سکتی ہیں، جبکہ مصنف نے واقعات کا بذات خود موقع واردات پر جا کر جائزہ لیا ہو یا وہ واقعات اس کی ذات پر ہی کبھی بیتے ہوں۔

سنے ہوئے واقعات نہ صرف مخصوص داخلی کیفیات کو مجروح ہی کر سکتے ہیں بلکہ واقعات کی صداقت کے بھی ٹھیس پہونچا سکتے ہیں۔ واقعات کی صداقت میں جس ذمہ داری کو آنکھیں پورا کر سکتی ہیں کان نہیں۔ بلکہ وہ اس میں رنگ آمیزی کر کے ایک طرح کی خیانت کے ہی مرتکب ہو سکتے ہیں۔

سنے ہوئے واقعات کو ترتیب دینے سے تخلیق میں خارجی اثرات کا غلبہ ہو جانے کا خدشہ بھی لاحق رہتا ہے جبکہ محض خارجیت ہی تو ایک اچھے رپورتاژ کی تعمیر و تشکیل کے لئے کافی نہیں ہے ،

جب تک اس میں ادیب کے داخلی جذبات اور تاثرات کی کار فرمائی نہ ہو ایک اچھا رپورتاژ نہیں بن سکتا۔ جب ایک ادیب کسی واقعہ یا حادثہ کا واقعہ یا حادثہ کا نفس نفیس مشاہدہ کرنے کے بعد رپورتاژ لکھتا ہے تو اس میں خارجی عناصر ، خارجی عناصر کی تصاویر بڑی صحیح حقیقی اور دلاویز ہوتی ہیں اور خارجیت کی صداقت ہی دراصل داخلیت کی محرک بن جاتی ہے۔

کیونکہ ایک چیز کا بغور مشاہدہ کئے بغیر اس کے بارے میں جذبات اور تاثرات کا پیدا ہونا نا ممکن ہے۔ چنانچہ ایک اچھے رپورتاژ کی تخلیق کے لئے واقعات کی صداقت اور اسی کے ساتھ جذبات و تاثرات کی گہرائی اور خلوص کا ہونا بہت ضروری ہے اور اس کے لئے ادیب کا بہ چشم خود مشاہدہ کرنا ناگزیر ہے۔

رپورتاژ کا ماحول افسانہ اور ناول کے بہ مقابلہ زیادہ حقیقی اور صداقت آمیز ہوتا ہے۔ کیونکہ افسانہ اور ناول کی حقیقت نگاری عام طور سے چند بندھے ٹکے مفروضوں کے پردے میں کی جاتی ہے۔ یعنی ایسے مفروضے جو انسانی زندگی ، معاشرے اور ماحول سے مشابہ اور مماثل ہوں۔ ضروری نہیں کہ ان کافی الواقع وجود بھی ہو، بالفاظ دیگر ایک افسانہ، ناول اور رپورتاژ میں سے بڑا اور بنیادی فرق واقعات کی صداقت اور غیر صداقت، وجودیت اور غیر وجودیت کا ہے۔

رپورتاژ کسی نمائندہ مفروضے کی بجائے اسی واقعہ پر لکھا جائے گا جونی الاصل کبھی وقوع پذیر بھی ہوا ہو مثلاً ایک ناول میں چند منافع خوروں اور سماج دشمن عناصر کو کالا بازاری اور کسی مجرمانہ عمل کا مرتکب ہوئے دکھانا مقصود ہے تو مصنف کسی ایسے واقعہ کی وقوع پذیری کا انتظار نہیں کرے گا کہ عام سماجی ماحول اور معاشرتی جرائم کے پیش نظر اس طرح کا کوئی پلاٹ سوچ کر اپنی کہانی یا ناول کا کنوس تیار کرے گا۔ یہ سب کچھ رپورتاژ نگار نہیں کر سکتا اس کا قلم تو اسی وقت اٹھے گا جب فی الحقیقت اس طرح کا کوئی واقعہ یا حادثہ رونما ہو گا ۔

اس مثال سے یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ افسانہ اور ناول نگار سماج کے حقائق کا پس منظر دکھاتا اور بالواسطہ طور پر اپنی بات قاری تک پہونچاتا ہے جبکہ پورتاژ لکھنے والا سماجی حقائق کا پیش منظر دکھاتا اور براہ راست اپنے مدعا کا اظہار کرتا ہے۔ وجودیت اور غیر وجودیت کی یہ فضا افسانہ، ناول اور رپورتاژ کی کردار نگاری کے فرق کو بھی واضح کرتی ہے ۔ افسانہ اور ناول کے کردار وہ فرضی افراد ہوتے ہیں جو عام انسانی خوبیوں کے حامل ہونے کی وجہ سے ایک مخصوص اور عصری معاشرہ کی اجتماعی ترجمانی کا فرض انجام دیتے رہتے ہیں۔

اس کے برعکس ایک رپورتاژ کے کردار عام انسانی خوبیوں اور برائیوں کے نمائندہ افراد کی بجائے صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا واقعی وجود بھی ہو اس طور پر ناول نگار اور افسانہ نویس کے مقابلے میں رپورتاژ کا مصنف اپنے کرداروں کے نظریات، حرکات و سکنات، احساسات اور شخصیت کے ایک ایک پہلو سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے کہ وہ ان کو بذات خود جانتا ہے اور اکثر اوقات وہ اس کے دوست

عزیز یا قریبی حلقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں۔ رپورتاژ میں مصنف خود ایک مخصوص کردار کی حیثیت سے سامنے آتا ہے اور اکثر حالتوں میں تو وہ مرکزی کردار بھی بن جاتا ہے جبکہ افسانے اور ناول کا مصنف اپنی شخصیت اور اپنے خیالات و نظریات کسی دوسرے کردار کے پردے میں پوشیدہ رکھتا ہے اور اس کردار کی زبان سے ہی بولتا ہے۔

رپورتاژ کا مصنف نہ صرف خود چلتا پھرتا ہے بلکہ اپنے منہ میں زبان بھی رکھتا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے کہ قاری رپورتاژ نگار کی شخصیت سے بہت جلد اور بہ آسانی پوری طرح ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ افسانہ اور ناول نگار کی شخصیت سے ہم آہنگ ہونے میں اسے سوچنا پڑتا ہے اور وقت بھی لگتا ہے۔

مضمون: شمیم احمد

مزید یہ بھی پڑھیں: اردو ادب میں رپورتاژ کی روایت اور اہمیت pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں