رومی اور اقبال کا تصور مرد مومن

رومی اور اقبال کا تصور مرد مومن

اسلامی فکر وجود انسانی کا اثبات کرتی ہے۔ اسی باعث سید عبد الواحد نے اقبال کے تصور خود میں مولانا روم کے تصور خودی کے تین اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

1- مرد مومن کا مقام

-2 مرد مومن کی عرفانیت اور روحانیت

-3 لا حدود خودی (اللہ ) اور خودی (انسان) کا ربط

اقبال نے خود کو مرید ہندی کہہ کر مرشد رومی کی رہنمائی قبول بھی کی ہے۔ رومی کے ہاں بڑے انسان کی آرزو بھی ملتی ہے اور اس کی ضرورت کا احساس بھی ۔
رومی نے کہا تھا

دی شیخ با چراغ همی گشت گرد شهر

کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست

تشریح :_

کل شیخ ہاتھ میں دیا لئے شہر بھر میں گھومتا رہا یہ کہتے ہوئے کہ میں کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں جیسے انسانوں سے بیزار ہو گیا ہوں آدمی کو ڈھونڈتا ہوں ).
اس ساری غزل میں رومی نے بڑی عمدگی سے مرد مومن کی رونمائی کی ہے۔ ویسے بھی رومی کی شعری فضا عشق کی جس مستی سے لبریز ہے۔

اس کے کے حدود بھی اقبال کے تصور عشق سے ملتے ہیں کہ رومی کے ہاں بھی عشق بھی جذب و عمل کی سرخوشی سے عبارت ہے۔
شیخ اکبر محی الدین العربی کے بھی ذات مطلق کے ظہور کے مدارج کے ساتھ انسانی کردار کے ارتقاء کے تصورات ملتے ہیں۔

اسی طرح فلسفی عبد الکریم جیلی کے ہاں بھی انسانی کردار کی ارتقائی صورت کی آرزو ملتی ہے۔
مرد مومن کے لیے لالہ کا استعارہ :
اقبال مرد مومن کی علامت کے طور پر لالہ کے پھول کو کوئی جگہ سامنے لاتے ہیں۔

خیاباں میں ہے خطر لالہ کب سے

اقبال چاہیے اس کو خون عرب سے

تشریح :

لالہ کے پھول سینے میں داغ مرد مومن کے دل داغ داغ کی علامت ہے صاف ماحول میں کھلا ہوا لالہ مرد مومن کے اہل صفا ہونے سے عبارت ہے۔ .

شاہین کی علامت

تاہم شاہین کی علامت مرد مومن کے لیے زیادہ استعمال ہوتی ہے اور یہ علامت تکرار اور مباحث میں بھی بہت آئی ۔

شاہین کی صفات حیرت انگیز طور پر بلندی کردار کا ایک استعارہ بنتی ہیں وہ دور بین ہے بہت بڑے فاصلےسے شکار کو دیکھ سکتا ہے۔

اس کے بازو سب پرندوں سے زیادہ توانا ہوتے ہیں وہ سیدھا نوے درجے کے عمودی زاویے پر بھی اڑان لے سکتا ہے اس کی ذہانت ایسی ہے کہ اپنے سے کئی درجہ بڑے جاندار کو چونچ مار کے اندھا اور اپنی مرضی کے مطابق چلا کر لے آتا ہے۔

شاہین کے رعب کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جس درخت پر آبیٹھے وہیں کوئی دوسرا پرندہ بیٹھنے کا تصور نہیں کر سکتا اور اگر وہاں بیٹھا ہو تو دہشت سے مر جاتا ہے۔ وہ حرام خوری اور مردار خوری سے بچتا ہے دوسرے کا چھوڑا ہوا نہیں کھاتا ۔ خود شکار کرتا ہے دوسرے دن کیلئے چھپا بچا کر نہیں رکھتا وہ صاحب ترک دنیا بھی ہے کہ خود گھونسلہ نہیں بناتا کھلے موسموں میں جی لیتا ہے۔

یہ ساری صفات اقبال کو مرد مومن والی صفات لگتی ہیں

حمام و کبوتر کابھوکانہیں میں

کہ ہے زندگی باز کی راہبانہ

جھپٹنا، پلٹتا پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ

ترقی پسند اہل قلم نے اگر چہ خود طاقت کے فلسفے کو رد نہیں کیا تاہم شاہین کے جھپٹنے پلٹنے کو دوسرے پرندوں کی جاں کے ضیاع کی قیمت پر قبول نہیں کیا اور بعض ایک نے اسے خون آشانی کہا۔ نظریاتی طور پر کتنے ہی لطیف مباحث اس بابت کئے جائیں مگر حقیقت وہی ہے جو اقبال نے بتائی کہ

فطرت لہو ترنگ ہے غافل نہ جلترنگ

زندگی کی بہار میں نرم دلی کی روش کئی بار سخت مقامات کے مقابل آنے پر مجبور ہے ۔ جن دانشوروں نے ؟ شاہین کے جھپٹنے پلٹنے پر اعتراضات کئے انہوں نے عموماً غیر معمولی نازک مزاجی کی وکالت کی۔ جب کہ زندگی کا سوال یہ ہے کہ طاقت کو قانون اور قاعدہ کا پابند کیا جائے نہ یہ کہ طاقت حاصل کرنے سے بھی انکار کر دیں۔

پروف ریڈر نائمہ خان

حواشی

موضوع ۔رومی اور اقبال کا تصور مومن
کتاب کا نام ۔علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ
کورس کوڈ ۔5613
مرتب کردہ ۔فاخرہ جبین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں