رشید احمد صدیقی کی حالات زندگی

رشید احمد صدیقی کی حالات زندگی

پیدائش

رشید احمد صدیقی 25 دسمبر 1894 کو ضلع بلیا کے قصبے پیر یا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام عبدالقدیر تھا۔

ابتدائی تعلیم

آپ نے ابتدائی دینی تعلیم گھر میں حاصل کی، جبکہ قریبی مندر میں بنے اسکول سے رسمی تعلیم کا آغاز کیا۔ بعد میں، 1914 میں جون پور کے ایک اور اسکول سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔

1915ء میں آپ نے ایم اے او کالج، علی گڑھ میں سالِ اول میں داخلہ لیا۔ یہاں آپ ایک سرگرم طالب علم کے طور پر نمایاں ہوئے۔ آپ ڈیوٹی سوسائٹی کے متحرک رکن تھے اور انجمن اتحاد طلبہ کے معتمد کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔

اعلیٰ تعلیم اور سرگرمیاں

علی گڑھ منتھلی، جو بعد میں مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ میگزین کہلایا، اس کے مدیر بھی رہے۔ کھیلوں میں بھی دلچسپی رکھتے تھے، خاص طور پر ٹینس کے شوقین تھے۔ آپ نے 1919ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔


ملازمت

تدریسی سفر

رشید احمد صدیقی نے 1921 میں ایک ہائی اسکول میں تدریس کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ بعد انٹر کالج میں اردو فاضل کی حیثیت سے پڑھانا شروع کیا۔ بعد میں، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں لیکچرار کے طور پر مقرر ہوئے، جہاں مستقل بنیادوں پر تعیناتی ہو گئی۔

1935ء میں آپ کو ریڈر کے عہدے پر ترقی دی گئی، جبکہ 1954ء میں پروفیسر بنا دیا گیا۔ آپ یکم مئی 1958ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔

مشہور شاگرد اور تعلقات

آپ کے شاگردوں میں کئی نامور شعراء شامل ہیں، جیسے:

اسرار الحق مجاز

معین احسن جذبی

اختر الایمان

جاں نثار اختر

خلیل الرحمان اعظمی

آپ اپنے شاگردوں اور دوستوں کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے دوستوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین، سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریابادی، نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم، جگر مراد آبادی، فانی بدایونی، فراق گورکھپوری، ڈاکٹر محی الدین زور، حسرت موہانی جیسے بڑے نام شامل تھے۔


اعزازات

سبکدوشی کے بعد، آپ کو آزاد میموریل لائبریری علی گڑھ میں جنرل ایجوکیشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔

1963ء میں آپ کو بھارت کا اعلیٰ اعزاز "پدم شری” دیا گیا۔ 1964ء میں، آپ کو یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کی پروفیسرشپ ملی اور آپ دوبارہ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ سے وابستہ ہوئے۔

وفات

رشید احمد صدیقی 6 جنوری 1977ء کو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ہی وفات پا گئے اور وہیں سپردِ خاک ہوئے۔


علمی، تنقیدی اور تخلیقی کارنامے

رشید احمد صدیقی نے علی گڑھ کے علمی ماحول میں رہتے ہوئے بے پناہ صلاحیتیں پیدا کیں۔ وہ اردو کے ممتاز مزاح نگار، محقق، اور نقاد کہلائے۔

تنقیدی نظریہ

آپ کو "سائنٹیفک نقاد” کہا جا سکتا ہے کیونکہ آپ نے ادب کے اخلاقی پہلو پر زیادہ توجہ دی۔ آپ نے تاثراتی تنقید سے گریز کیا اور اردو ادب میں نئی راہیں متعارف کرائیں۔

اہم تصانیف

آپ کی تصانیف میں درج ذیل کتب شامل ہیں:

طنزیات و مضحکات (1931)

جدید غزل (1955)

زبان اردو پر سرسری نظر (1970)

غالب کی شخصیت و شاعری (1970)

اقبال کی شاعری (1970)

آشفتہ بیانی میری

گنج ہائے گراں مایہ (1942)

ہم نفسانِ رفتہ (1966)

علی گڑھ کی مسجد قرطبہ (1967)

ہمارے ذاکر صاحب (1973)

علی گڑھ ماضی و حال (1970)


اسلوبِ بیان

رشید احمد صدیقی نے خاکہ نگاری، انشائیہ، تنقید، اور خطبات میں اپنی انفرادیت قائم کی۔

خصوصیات

آپ کی تحریر میں درج ذیل نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں:

شگفتگی اور شستگی

جدت و ندرت

الفاظ کا نیا آہنگ

محاوراتی چابک دستی

طنزیہ و مزاحیہ اسلوب

صوتی اور لفظی ہم آہنگی

رمزیت اور علامتی اظہار

آپ کے طنزیہ و مزاحیہ طرزِ تحریر میں لسانی چابک دستی کا بڑا عمل دخل ہے۔ آپ الفاظ کے تضاد اور تناسب سے مزاح پیدا کرنے کے ماہر تھے۔


"مضامینِ رشید” کا جائزہ

رشید احمد صدیقی کی پہلی تخلیق "مضامینِ رشید” ہے، جو اردو ادب کی کلاسیکی تخلیقات میں شمار ہوتی ہے۔

اہم نکات

اس میں 20 مضامین شامل ہیں۔

کچھ مضامین طنزیہ و مزاحیہ رنگ میں ہیں۔

کچھ پرلطف خاکہ نگاری کے مظاہر پیش کرتے ہیں۔

کچھ میں انشائیہ کا کیف و سرور پایا جاتا ہے۔

ان کی تحریروں میں علامات و اشارات عام ہیں، جنہیں مکمل طور پر سمجھنے کے لیے علم و بصیرت درکار ہے۔

ڈاکٹر سلیمان اطہر کے خیالات

ڈاکٹر سلیمان اطہر نے کہا:
"مضامینِ رشید میں رشید احمد صدیقی کے طنز و مزاح کی تخلیقی اور فطری صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ اس وقت اردو ادب میں طنز و مزاح کا فن ابھی ترقی پذیر تھا، مگر آج بھی "مضامینِ رشید” کی حیثیت مسلم ہے۔”


وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں