رسالہ اور جریدہ معانی ومفاہیم | The Meanings and Concepts of Magazine and Journal
موضوعات کی فہرست
رسالہ اور جریدہ معانی ومفاہیم
رسالہ کےلیے انگریزی میںMagzineکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ رسالہ عربی زبان کا لفظ ہے ریختہ ڈکشنری کے مطابق:
’’۱۔مختصر اور چھوٹی سی کتاب،کتابچہ۔
۲۔نامہ،مکتوب۔
۳۔فوجی سواروں کا دستہ،سوار فوج کا ہردستہ۔
۴۔پانزدہ روزہ،ہفتہ وار،ماہ نامہ یا سہ ماہی شائع ہونے والا پرچہ یا اخبار جس کا سائز بیشترکتاب سے بڑا ہوتا ہے۔‘‘
فرہنگ آصفیہ کے مطابق اس کے معنی نامہ یا مکتوب کے ہیں۔جریدہ کے لفظی معنی ہے:
’’٭اخبار،صحیفہ،رسالہ ٭حساب کا دفتر،حساب کی کتاب،رجسٹر
٭کھجور کی ٹہنی۔۔۔۔۔ ٭فوج کا مختصردستہ۔‘‘
جریدہ کا اصل معنی تنہا ہے۔ساتھ ساتھ یہ ننگا ہونے کے معنوں میں بھی مستعمل ہے۔
رسالہ اور جریدہ
رسالہ اور جریدہ دونوں ہم معنی ہوگئے ہیں ۔آج کل رسالہ اور جریدہ اس اعتبار سے ہم معنی ہیں کہ دونوں سے ہم ایسا اخبار یا کتاب مراد لیتے ہیں جس میں مختلف اصناف پرمبنی تحاریر ہوں اور جوکسی مقررہ وقفے سے نکلتا ہو۔
رسالہ اور اخبار دونوں کا بھی ایک ایک شمارہ مقررہ وقت پر نکلتا ہے لہٰذا رسالے سے ’’اخبار‘‘کا معنی بھی پیدا ہوتا ہے۔پہلےپہل جریدہ ’’صفحہ‘‘اور’’فوجی دستہ‘‘کے معنوں میں مستعمل تھا۔جریدہ بمعنی ’’صفحہ‘‘شاذ ہی نظرآتا ہے۔اب یہ ’’تنہا‘‘کے معنوں میں بہت کم استعمال ہوتا ہے جب کہ ’’فوجی دستہ‘‘کے معنوں میں تو بالکل استعمال ہی نہیں ہوتا۔المختصر جریدہ اب’’جریدۂ عالم‘‘کی ترکیب(حافظ کے ایک شعر کی وجہ سے)میں ہی مستعمل نظرآتا ہے۔
مفہوم
رسالہ ان مطبوعات کانام ہے جو وقفے وقفے سے باربار چھپتے ہیں۔یہ مطبوعات عام طور پر عمومی اور حالات حاضرہ پر مرکوز ہوتی ہیں یا پھرخاص حلقے کے لوگوں تک بھی محدود ہوسکتی ہیں۔مثلاً؛خواتین کےرسائل،جو خواتین اور ان کے مسائل پر مبنی ہوتے ہیں۔اسی طرح بچوں کے رسائل ،ان میں بالعموم بچوں کی رہنمائی ہوتی ہے۔یہ اخلاق سازی اور معلومات فراہمی پر مبنی ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ مذہبی رسائل کسی مذہبی عقیدے،مقدس کتابوں کے دوروس اور مذہب کی رہنمائی وغیرہ پر مرکوز ہوتے ہیں۔
بعض رسائل خاص صنعت سے متعلق ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر برطانیہ کا رسالہ’’آٹوکار‘‘جو برطانیہ کی کارصنعت کا جائزہ لیتا ہے۔اس سے بھارت نے لائسنس حاصل کیا ہے اور اپنےرسالے کو ’’آٹوکارانڈیا‘‘کانام دیا ہے ۔یہ رسالہ بھارت میں کارصنعت کا جائزہ لیتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ تیمارداری کے شعبے کے حوالے سے رسالہ’’جان ہاپکنس نرسنگ میگزین‘‘مقبول ہے۔اس کے علاوہ بعض ادارے بھی اپنے رسالے نکالتے ہیں۔
ادبی رسالہ ایک ایسا رسالہ ہوتا ہے جو ادب کےلیے اس کے وسیع تر معنوں میں معُنون ہو۔ادبی رسالے بالعموم شاعری،ادبی تنقید،افسانے،غزل،کتابوں کاجائزہ کے ساتھ ساتھ مصنیفین کی زندگی پر مبنی خاکے،انٹرویو اور قارئین کے خطوط وغیرہ شائع کرتے ہیں۔ان رسالوں کی نوعیت تجارتی رسائل سے مختلف ہوتی ہے۔
رسائل ہفتہ وار،ماہانہ،سہ ماہی یا سالانہ ہوتے ہیں۔رسائل زیادہ محتاط شائع شدہ ایڈیشن کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر،مثلاً موجودہ معاملات وواقعات سے تاریخ،سائنس یا فنون کے سوالات وغیرہ پر مبنی ہوسکتے ہیں۔یہ اخبارات سے مختلف ہوتے ہیں اسی وجہ سے یہ خاص مضامین پر توجہ روکوز کرتے ہیں۔۱۶۶۳ء (یورپ)تقریباً رسائل کی ابتدا ہے اور آج کے دور میں یہ نہ صرف کاغذ پر بلکہ ڈیجیٹل میڈیا پر بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
اولین رسائل
اردو صحافت کا آغاز ’’جام جہاں نما‘‘۱۸۲۲ء کلکتہ سے ہوچکا تھا تاہم اردورسائل کا آغاز اگست ۱۸۳۷ء میں مرزاپور،بنارس سے ’’خیرخواہ ہند‘‘کے نام سے ہوا۔اس رسالے کو اردو کا پہلا رسالہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ رسالہ ’’پادری ایف جی برایت‘‘نے جاری کیا۔یہ دراصل عیسائی مشنری کا رسالہ تھا جس میں پروٹسٹنٹ فرقے کے تبلیغی مضامین شائع ہوتے تھے۔
یہ رسالہ رومن رسم الخط،فارسی،ہندوستانی(اردو)اور دیوناگری رسم الخط میں چھپتا تھا۔آرسی تُھرو(ہندوستان میں بائبل کے مرتب اور کئی مذہبی کتابوں کےمصنف)کی نگرانی میں یہ رسالہ شائع ہوا۔’’خیرخواہ ہند‘‘۱۸۵۰ء میں بندہوگیا۔گارساں دتاسی(معروف تاریخ دان)نے اپنے ایک خطبے میں اس رسالے کی اشاعت پر سیرحاصل بحث کی ہے اور اس رسالے کے مقصد کو بھی واضح کیا ہے۔اس رسالے کا مقصود تبلیغِ مذہب ہی تھا۔
۱۸۶۱ء میں ’’خیرخواہ ہند‘‘کا دوبارہ اجرا ہوا لیکن اب اسے صرف فارسی اور دیوناگری رسم االخط میں شائع کیا جانے لگا۔اس رسالے کے ابتدائی تیرہ(۱۳) سالہ مضامین کو ترتیب دے کر ’’مفرح القلوب‘‘اور’’منتخب العلم‘‘کے نام سے دوالگ الگ مجموعوں میں محفوظ کیا گیا۔اس رسالے میں پروٹسٹنٹ مضامین کے علاوہ تاریخی،علمی اور جغرافیائی مضامین کو بھی جگہ دی گئی مثلاً:چھاپہ خانوں،انگلستان کی آہنی پڑیوں،بھاپ کی کلوں اور دخانی جہازوں کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے قدیم باشندوں کے حالات وغیرہ پر مضامین اس میں شامل ہیں۔
’’خیرخواہ ہند‘‘کے نام سے ماسٹررام چندر نے بھی ایک رسالہ یکم ستمبر۱۸۴۷ء میں جاری کیا لیکن ان کو اس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ’’خیرخواہ ہند‘‘کے نام سے مرزاپور،بنارس میں بھی ایک رسالہ شائع ہورہا ہے لہٰذا جب ان کو معلوم ہوا تو انھوں نے ’’خیرخواہ ہند‘‘کے تیسرے شمارے سے اس کا نام تبدیل کرکے ’’محبِ ہند‘‘رکھ دیا۔اس حوالے سے ’’فوائدالناظرین‘‘میں ماسٹررام چندر لکھتے ہیں:
’’ہم کو اس کی بالکل اطلاع نہ تھی کہ کوئی اخبار’خیرخواہِ ہند‘ہندوستان میں اجرا ہوتا ہے تواس کے واسطے ہم نے اپنے رسالے کانام ’خیرخواہِ ہند‘رکھاتھا۔اب ہم کو معلوم ہوا کہ اخبارمسمی’خیرخواہِ ہند‘مرزاپورمیں جاری ہوتا ہے توہم کو مناسب نہیں کہ ہم اپنے رسالہ کانام بھی’خیرخواہِ ہند‘رکھیں،اس واسطے ہم نے اس رسالہ کانام تبدیل کیا اور بجائے’خیرخواہِ ہند‘کے’محبِ ہند‘رکھا۔‘‘(۱)
یہ پہلا رسالہ تھا جس میں علمی وتاریخی نوعیت کے مضامین اور شاعری شائع ہوتی تھی۔ابتدا میں اس کے صفحات کی تعداد پچاس(۵۰)تھی جب کہ بعد میں اسے چھپن(۵۶)کردیا گیا۔’’محبِ ہند‘‘میں یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ،مرزاغاؔلب اور شاہ نصؔیرکی غزلیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ماسٹررام چندر ایک اعلیٰ ادبی ذوق کے حامل تھے ان کے مطابق معاشرے میں ادبی،سماجی اور تاریخی تحریریں پیدا کی جاسکتی ہیں لہٰذا فروری ۱۸۴۹ء کے شمارے میں بہادرشاہ ظؔفر کی چھ(۶) غزلوں کو شائع کیاگیا۔اس کے علاہ اور شماروں میں تنقیدی مضامین اور فردوؔسی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ بھی شامل کیا گیا۔
’’محبِ ہند‘‘کی زیادہ تر تحریریں مشرقی علوم کے احیا اور بیداری کے تحت تھیں۔البتہ یہ بات غورطلب ہے کہ اس کےمواد کو پڑھنے اور مندرجات کو دیکھنے کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہےکہ یہ ایک مکمل ادبی رسالہ نہیں تھا۔دوسری بات یہ کہ اس دور کے کسی بھی قابل ذکرشخصیت نے یہ اعتراف نہیں کیاکہ’’خیرخواہ ہندیا محبِ ہند‘‘ادبی رسالہ ہے۔اس لیے چندنظموں وغزلوں کی طباعت پر ہم اسے ادبی رسالہ قرار نہیں دے سکتے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماسٹر رام چندر جوکہ ہندومذہب سے تعلق رکھتے تھے انھوں نے ہندو مذہب ترک کرکے عیسائیت اختیار کی جس کی وجہ سے رام چندر اور ان کے دوست چمن لال کو ہندو جان سے مارنے کےلیے بھی تیار ہوئے لیکن ان کی جان بچ گئی۔ماسٹررام چندر یورپ سے انتہائی متاثرتھے۔
اسی وجہ سے انھوں نے عیسائیت اختیار کی لیکن ساتھ ساتھ وہ مشرقی علوم کے دل داہ تھے اوراس کی احیاکےلیے کوشاں بھی۔یہی وجہ ہے کہ ۱۸۴۵ء میں انھوں نے پندرہ (۱۵)روزہ اخبار’’فوائدالناظرین‘‘کا اجراکیا۔اس اخبار کو تعلیمی وسائنسی نوعیت کے مضامین کے حوالے سے بہت اہمیت حاصل ہے۔ابتدا میں اس کے صفحات کی تعداد چار (۴)تھی جب کہ ۱۸۴۷ء سے یہ اخبارآٹھ صفحات پرمحیط ہوگیا۔یہ اخبار ۱۸۵۲ء میں بندہوگیا۔’’فوائدالناظرین‘‘ہی کے توسط سے علمی وسماجی رسالہ’’خیرخواہ ہند/محبِ ہند‘‘کا اجرا ہوا۔
’’محبِ ہند‘‘کے بعد قارئین کی دل چسپی رسائل کی طرف بڑھتی گئی اور اس کے بعد تواتر کے ساتھ ہندوستان میں رسائل کا اجرا شروع ہوا۔اس کے ساتھ شعبہ جاتی رسائل کی روایت بھی عام ہوئی جن میں مذہبی،عمومی،طبی،قانونی،تہذیبی،تعلیمی،زراعتی اور بچوں کے رسائل،تعلیمی اداروں کے مجلّے،اقتصادی اور ادبی رسائل وغیرہ شامل ہیں۔
اردو کا پہلا مکمل ادبی رسالہ عبدالحلیم شرر کا رسالہ’’دلگداز‘‘گردانا جاتا ہے۔سیدسلیمان ندوی نے بھی اسی رسالے کو اردو کا پہلا مکمل ادبی رسالہ قرار دیا ہے۔اس رسالے کا شمارہ جنوری ۱۸۸۷ء میں لکھنؤ سے جاری ہوا۔حالانکہ اس سے قبل میرناصرعلی دہلوی کا رسالہ’’تیرھویں صدی‘‘آگرہ سے جاری ہوا لیکن اس رسالے کو مکمل ادبی رسالہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔یہ رسالہ جمالیاتی رنگ،زبان وبیان کی لطافت اور انشائیہ پردازی وغیرہ جیسے ادبی عناصر سے مالامال ہے لیکن ساتھ ساتھ اس میں اصلاحی مضامین کی اشاعت نے اسے سیاسی،سماجی اور اصلاحی حیثیت بھی دے دی۔
ادبی حوالے سے اس رسالے میں سرسید اور حالی پر شدید تنقید اور علی گڑھ تحریک پرطنزیہ مضامین بھی لکھے گئے۔بقول انورصدید’’میرناصرعلی کی زبان شبنم سے دھلی ہوئی تھی۔‘‘میرناصرعلی کی تحریر کی ادبی چاشنی ہی ان کی پہچان اور ان کا اسلوب ہے۔’’تیرھویں صدی‘‘کے بجائے ’’دلگداز‘‘نے ادبیات ہی کو موضوع بنایا اور ساتھ ساتھ ادبی چاشنی سے لبریزمضامین،افسانے،شاعری اورتنقید وغیرہ کو بھی دلگداز نے اپنے یہاں جگہ دی۔’’دلگداز‘‘میں خیالی وعاشقانہ مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔اس کے تین جزو تھے۔
۱۔خیالی اور تاریخی نوعیت کے مضامین
۲۔ایک تاریخی ناول(جوکہ عبدالحلیم شرر کا ہی ہوتا تھا)
۳۔غیراردواعلیٰ فن پاروں کے اردوتراجم۔
شرر ایک علی المرتبت انشائیہ نگار تھے ان کے انشائیے کو قارئین دل چسپی سے پڑھتے تھے۔ان کے ’’شہرِخموشاں‘‘اور ’’صحبتِ برہم‘‘انشائیوں نے اردوکلاسیک میں اہم کردار ادا کیا۔شرر کے خیال میں تحقیقی مضامین کی بدولت ’’دلگداز‘‘کی وقعت اوربھی بڑھے گی لہٰذا انھوں نے اس میں تحقیقی مضامین بھی شامل کیے۔
شرر کے منصورموہنا،حسن انجلینا اور فلورافلورانڈا وغیرہ جیسے نالوں نے دلگداز میں مسلسل ناول کی طرح ڈالی۔یہی وجہ ہے کہ اس کے خریداروں کی تعداد بڑھتی گئی اور انیسویں صدی کےآخراوربیسویں صدی کے اوائل میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا رسالہ’’دلگداز‘‘ہی تھا۔اس وقت فکاہیہ رسالوں کا دور دورہ تھا جن میں سے ایک ’’پنچ سیریز‘‘بھی شائع ہوتا تھا جس کی وجہ سے قارئین میں پھکڑپن پیدا ہورہا تھا اسی دور میں’’دلگداز‘‘نے قارئین کا شعور اجاگر کیا۔’’دلگداز‘‘میں لکھنے والوں کا اسلوب ہی ان کی پہچان ہے۔
یہ رسالہ ۲۲مارچ ۱۸۹۷ء کو حیدرآباددکن سے جاری ہوا اور یہاں بھی قارئین نے اس کا بھرپور استقبال کیا۔اس کے علاوہ ۱۸۹۰ء میں شرر نے ہفت روزہ’’مہذب‘‘ کا اجرا بھی کیا تھا۔جس کی بدولت وہ دلگداز کی طرف مائل ہوئے۔دلگداز کے حوالے سے عبدالحلیم شرر اپریل ۱۹۰۵ءکے شمارے میں لکھتے ہیں:
’’مضامین کا کیا رنگ ہو،اس کے بارے میں ہمیں یہی فیصلہ کرناپڑاکہ دلگداز کے خیالی اور شاعرانہ مضامین کی زیادہ ضرورت ہے۔محققانہ وموّرخانہ مضامین کی اُن کے بعد،اس لیے کہ دلگداز جس لٹریچرکا موجد ہے،جس رنگ کے مضامین کے ساتھ اُس کی شہرت ہے اور اُس کے ملاحظہ کرنے والے قدرافزائی کرکے جس قسم کےلٹریچر سے لطف اُٹھانے کی امید کرتے ہیں،وہ خیال اورشاعرانہ مضامین کا لٹریچر ہے۔اسی بناپراب قطعی ارادہ کرلیاگیا ہے،دلگداز کالازمی عنصرقراردئیے جائیں۔اب چونکہ انشاءپردازی کاایک خاص رنگ معیّن کردیاگیا ہے لہٰذا اُمیدہے کہ دلگداز آئندہ وہی پرانا بامزہ اورپُرلطف دلگدازہوگا۔‘‘(۲)
بیسویں صدی اردورسائل کےلیے زرخیزصدی تھی۔علی گڑھ تحریک اور سرسید کی خدمات سے ہندوستان کی قوم بیداری کی طرف آہستہ آہستہ گامزن ہورہی تھی۔سرسید نے تعلیمی اور سائنسی حوالے سے ہندوستانیوں اور بالخصوص مسلمانوں کا شعوراجاگر کیا۔
ساتھ ساتھ راجا رام موہن رائے نے ہندوؤں کے مستقبل کو مدنظررکھتے ہوئے حکمت عملی اختیار کی اور یوں ہندوستانی ذہن جو ضعیف الاعتقادی، دقیانوسیت، جادوٹونا اور پرانے رسوم ورواج میں جکڑا ہوا تھا،
ان سے نکلنے کی سعی کرنے لگا۔بیسویں صدی اردورسائل کے حوالے سے نہایت اہم صدی ہے جس میں رسائل نے ترقی کے منازل طےکیے۔یہاں اس کا مختصراً تحقیقی جائزہ پیش کیا جائے گا۔
۱۹۰۰ءتا۱۹۱۰ء کے دوران بہت اہم رسائل سامنے آتے ہیں جن میں شیخ عبدالقادر کا ’’مخزن‘‘،مولانا ابوالکلام آزاد کا ’’لسان الصدق‘‘،مولاناحسرت موہانی کا ’’اردوئے معلیٰ‘‘، منشی دیانرائن نگم کا ’’زمانہ‘‘،مولوی بدرالزماں کا ’’شمس بنگالہ‘‘،مولانا ظفرعلی خان کا ’’افسانہ‘‘،علامہ راشدالخیری کا’’عصمت‘‘، محمدعبدالسلام کا ’’خلاصہ‘‘اور میرناصرعلی کا’’صدائے عام‘‘وغیرہ اور دیگر رسائل کو اہمیت حاصل ہے۔بیسویں صدی کا اولین رسالہ’‘’مخزن‘‘قرار دیا جاتا ہے۔مخزن کو شیخ عبدالقادر نے لاہور سے شائع کیا جو پورے ہندوستان میں مقبول ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اور رسالہ سیدشاہ حسین نے ماہ نامہ’’نغمہ آرزو‘‘کے نام سے اُترپردیش بہار کے شہر’’گیا‘‘سے جاری کیا۔’’مخزن‘‘اپریل ۱۹۰۱ءسے جاری ہوا۔اس کے صفحات کی تعداد ۶۴ تھی۔اس کی طباعت انتہائی دل کش اور جاذب نظر ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے قارئین میں یہ بہت زیادہ مشہور ہوا۔اس میں بعض صفحات اشتہارات کےلیے بھی مختص کیے گئے تھے۔جب یہ رسالہ ۱۹۴۹ء میں بارِسوم منصہ شہود پرآیا تو اس کے صفحات ۷۲ کردیے گئے۔’’مخزن‘‘ کے حوالےسے سرعبدالقادر کا کہنا ہےکہ:
’’اس رسالے کا نام انگریزی لفظ’’میگزین‘‘کا اردوترجمہ ہے اور گو میگزین بھی اردو میں سمجھا جاتا ہے مگر جب میگزین اصل عربی لفظ ’’مخزن‘‘سے مشتق ہے تو کیوں ہم ’’مخزن‘‘کوان معنوں میں استعمال کریں۔‘‘(۳)
’’مخزن‘‘میں انگریزی مضامین نگاروں کی دل چسپیوں کو اپنے زبان میں بیان کرنا،انگریزی لفظ کے بجائے اُس کا ترجمہ کرنا،ایسے مضامین جو کسی ایک مذہب یا فرقے سے متعلق نہ ہوں،فن تقریر وفصاحت کو ہندوستان میں رواج دینا،انگریزی نظموں کی طرح طبع زاد نظمیں لکھنا،انگریزی نظموں کے بامحاورہ ترجمہ اور اخلاقی نظمیں وغیرہ شامل تھیں۔مخزن تین ادوار پرمشتمل تھا۔یہ رسالہ شیخ عبدالقادر کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا۔
’’مخزن‘‘سے جواہل قلم روشناس ہوئے ان میں علامہ اقبال،اکبرالہ آبادی،ظفرعلی خان، راشدالخیری، داغ،مرزاہادی رسوا،عزیز لکھنوی وغیرہ کے اسمائے گرامی اہم ہیں۔اس کے علاوہ اس کے قلمی معاونین میں حالی،شبلی،ذکاءاللہ،تلوک چند،دتاتریہ کیفی،وحیدالدین سلیم اور ابوالکلام آزاد وغیرہ جیسے جیدمشاہیرادب شامل تھے۔بقول مولاناصلاح الدین احمد:
’’قوموں کی تاریخ میں بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے واقعات بعض اوقات اہم ترین نتائج کے پیش روبن جاتے ہیں۔مخزن کا اجرا بھی ہماری تہذیبی تاریخ میں ایک اسی قسم کا واقعہ ہے۔‘‘(۴)
بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی کے نمائندہ رسائل میں تمدن،الحجاب،بہارِ بزم،العصر،العلم،فانوسِ خیال،دل افروز اور الواعظ وغیرہ شامل ہیں۔’’تمدن‘‘۱۹۱۱ء میں محمدعبدالراشدخیری اور شیخ محمداکرام کی زیرادارت دہلی سے جاری ہوا جوکہ ایک علمی،سماجی،ادبی،معلوماتی اور حقوقِ نسواں کا ترجمان تھا۔’’تمدن‘‘پرحکومت کی طرف سے پابندی بھی لگی لہٰذا یہ رسالہ پھر قاری عباس حسین نے خریدا اور ۱۹۱۳ء سے ۱۹۲۴ء تک شائع ہوتا رہا۔
رسالہ’’اردو‘‘جالندھر سے فتح محمد خان کی زیرادارت ۱۹۱۱ء میں جاری ہوا۔چوں کہ اس دور میں امرتسر،ہریانہ اور جالندھر اردوزبان وادب کے فروغ واشاعت کے حوالے سے اہم شہر شمار ہوتا تھا۔یہاں معروف ادبا بھی رہائش پذیرتھے لہٰذا’’اردو‘‘کا آغاز بھی بہت اردورسائل میں بہت اہم ثابت ہوا۔
اسی نام سے مولوی عبدالحق نے ۱۹۲۱ء میں حیدرآباددکن سے ایک اہم علمی وادبی شہر،اورنگ آباد سے انجمن ترقی اردوکا ترجمان ادبی رسالہ سہ ماہی ’’اردو‘‘کا اجرا کیا۔اس تحقیقی مجلّے میں تحقیقی مقالات،اردولسانیات اور اردو لغت وغیرہ کو جگہ دی گئی۔
۱۹۲۲ء میں علامہ نیازفتح پوری کا رسالہ’’نگار‘‘(بھوپال)اور مولانا تاجورنجیب آبادی مدیررسالہ ’’ہمایوں‘‘شائع ہوا۔’’نگار‘‘بھوپال،لکھنؤ اور کراچی سے جاری ہوتا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز ہی سے اردوزبان وادب کی ترویج واشاعت کی تگ ودو شروع ہوئی اور اس حوالے سے رسائل نے بہت اہم کردار ادا کیا۔۱۹۲۴ء میں محم غریب کے زیرادارت علمی وادبی مجلّہ ’’کشاف‘‘جاری ہوا۔جس میں زیادہ تر مشرقی پنجاب کے ادب کی تخلیقات کو جگہ دی گئی۔
۱۹۲۵ء میں سیداحمدصدیقی نے علی گڑھ سے’’سہیل‘‘،شہاب اکبرآبادی نے آگرہ سے’’نشتر‘‘،شام اکبرآبادی نے’’پروین‘‘،حکیم نورالحسن صدیقی نے جے پور سے’’شادمان‘‘اور اخترشیرانی نے لاہور سے’’انتخاب‘‘کااجرا کیا۔ان رسائل نے اردورسائل کی روایت میں اہم رول ادا کیا۔ان میں بعض رسائل تو مکمل ادبی نوعیت کے تھے جب کہ بعض عمومی نوعیت کے بھی تھے۔
۱۹۳۱ءتا۱۹۴۷ء اردورسائل میں بیش بہااضافے ہوتے گئے۔اس حوالے سے لکھنؤ سے جہانگیر،گورکھ پور سےایوان،لاہور سے یادگار،شیرازہ،کائنات،جہانگیر اور سعید،دہلی سے جرعات اور کامیاب اور الہ آباد سے ہندوستانی وغیرہ سامنے آئے۔اس دوران ترقی پسندتحریک کا ترجمان ’’ادبِ لطیف‘‘کا اجرا بھی ہوا۔۱۹۴۵ء میں ایک یادگار ادبی ماہ نامہ’’افکار‘‘کو صہبالکھنوی نے بھوپال سے جاری کیا۔
یہ ترقی پسند تحریک کا ترجمان تھا۔اس رسالے میں کلام اور افسانوں کی ایسی شکل دیکھنے کو ملتی ہے جو ترقی پسند تحریک کو جلا بخشتی ہے۔
ترقی پسند کانفرنسوں میں سے تین کانفرنسوں کی روداد ’’افکار‘‘میں دیکھنے کو ملتی ہے۔اس کے علاوہ ۱۹۴۶ء میں نرگس اور چاند لاہور سے،نکہت الہ آباد سے،نیادور بنگلور سے،روشنی ممبئی سے اور رباب حیدآباددکن سے جاری ہوئے۔آزادی تک آتے آتے اردورسائل کی روایت کا دھارا تیز ہوتا گیا اور تاریخ رسائل اردوادب میں اضافہ ہوتا گیا۔
تقسیم کے بعد کے رسائل
تقسیم کے بعد پاکستان اور ہندوستان(بھارت)میں رسائل کا سلسلہ جاری رہا۔دونوں ممالک میں رسائل کا ادبی سفر اوربھی تیز ہوا۔اس حوالے سے بھارت میں لکھنؤ سے نئی روشنی،پاکستان میں لاہورسے سویرا،فانوس،اردوادیب ،سحر ،انڈیا میں حیدرآباددکن سےنوائے ادب،سویرا،مینا،رومان،داستان اور پاکستان میں کراچی سے چراغِ لالہ وغیرہ جیسے رسائل جاری ہوئے۔
اس کے علاوہ پرواز بدایوں جب کہ جہاں نما الہ آباد سے جاری ہوا۔’’سویرا‘‘ایک ایسا رسالہ تھا جوترقی پسندطرزفکر کا نمائندہ تھا۔’’ادبِ لطیف‘‘سے بیشتر ترقی پسند ادبا’’سویرا‘‘میں شامل ہوئے۔
اس رسالہ کا اجرا چوہدری نذیراحمد نے ۱۹۴۷ء میں کیا۔یہ ماہ نامہ دراصل ’’ادبِ لطیف‘‘کےبطن سے پھوٹا تھا۔دوبھائیوں کی رنجش سے دنیائے ادب میں ’’سویرا‘‘کااضافہ ہوا۔اس رسالہ کاپہلا شمارہ جنوری ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا۔ابتدا میں یہ رسالہ قبل دید پرچہ تھااور کوئی بھی ادبی رسالہ اس کے مدمقابل نہیں آسکتا تھالیکن تقسیم کےبعد اس کی پالیسی میں ترقی پسندانہ شدت آگئی۔سابق مدیرانِ ادبِ لطیف فکرتونسوی اور احمدندیم قاسمی نے اس میں شرکت اختیار کی اور ان کے ساتھ نذیراحمد کانام بھی لیا جانے لگا۔
اس رسالے کےساتھ ساتھ ادبِ لطیف اور نقوش پرحکومت نے پابندی بھی عائد کی۔’’سویرا‘‘کاروباری منافع کےلیے کھولا گیا تھا اس لیے اس پر زوال آگیا۔یہ اصل میں ایک دوماہی رسالہ تھا جوحقیقت میں ترقی پسند فکر کا منبع تھا۔
تقسیم کے بعد اس رسالے کو ترقی پسند فکر کا انقلابی رجحان کا درجہ دیا گیا۔فکرتونسوی کی جگہ ساحرلدھیانوی،احمدراہی،عارف عبدالمتین اور ظہیرکاشمیری اس کے مرتبین بنے اور اسے ترقی پسند فکر کی انتہا تک پہنچایا۔
۱۹۴۸ء میں ماہ نو،قومی زبان،کارواں،نمکدان اور فاران، کراچی سے،مجلس،ساغر،قندیل،نقوش اور نئی تحریریں لاہور سے،سنگ میل پشاور سے،لالہ زار، فیصل آباد سے،سنگم، کانپور سے اور سبیل، شاہ پور سے جاری ہوئے۔ساتھ ساتھ شباب،فانوس،فردوس،انیس،احساس،عمل،پرچم،جاوید،ہم لوگ اور ممتاز کا اجرا بھی ہوا۔
’’نقوش‘‘ایک ایسا رسالہ ہے کہ جس کی مہر اردوزبان وادب پر ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ثبت ہوگئی ہے اور اس کے بغیر تاریخ رسائل اردوادب نامکمل ہے۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جس رسالے نے ادب کی بھرپور خدمت کی اور اپنے برگ وبار چہارسو پھیلائے وہ رسالہ’’نقوش‘‘ہے
جس کے احسانات تا حیات اردوزبان وادب پر رہیں گے۔محمدطفیل نے اس رسالے کو جاری کیا جس کے تحت کئی نامور ادبانے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اسی رسالے سےکیا۔نقوش کو ادیب گر رسالے کا نام دینا بجا ہوگا۔اس تاریخ ساز رسالے کی پرورش احمدندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور کے ہاتھوں ہوئی۔احمد ندیم قاسمی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:
’’طفیل صاحب نے ’’نقوش‘‘کے متنوع نمبروں کے ذریعے اردوادب اور ہماری تہذیب وثقافت کی جو خدمات انجام دی ہیں،ان کی تحسین سینکڑوں نے کی ہے اور وہ اس ہمہ جہت تحسین کے ہرطرح مستحق ہیں۔جب میں اس ننھی سی بات کو اپنا اعزاز قراردے رہا ہوں کہ ’’نقوش‘‘کانام میں نے رکھا اور اس کا پہلا مدیرمیں تھا تو طفیل صاحب نقوش کی ان کارگزاریوں اور کارکردگیوں پرکیوں فخرنہ کریں،جنہوں نے ہمارے ادب کو زیادہ تہ داراور ہماری علمی وادبی تاریخ کو زیادہ باوقار بنادیا ہے۔‘‘(۵)
یہ رسالہ مارچ ۱۹۴۸ء میں لاہور سے جاری ہوا۔یہ رسالہ ابتدا میں ترقی پسندطرزفکر کا رسالہ تھا لیکن بعد میں یہ کچھ مسائل کی وجہ سے ادب برائے زندگی کے نظریے کی طرف آگیا۔یہ رسالہ ابتدا ہی سے سرکاری حکم پربند ہوا اور اس پر پابندی لگنےکی وجہ افسانہ’’کھول دو‘‘(منٹو)ہی تھا۔مارچ ۱۹۴۸ء تا ۱۹۴۹ء ا س کی ادارت قاسمی اور ہاجرہ مسرور نے کی جب کہ ۱۹۵۰ءتا۱۹۵۱ء سیدوقار عظیم نے اس کی ادارت سنبھالی۔۱۹۸۶ء تک نقوش نے آسمان کی بلندیوں کوچھولیا لہٰذا بابائےاردو مولوی عبدالحق نے محمدطفیل کو محمدنقوش کا خطاب دیا۔جو انھوں نے قبول بھی کیا۔
’’نقوش‘‘کاسب سے بڑا کام ضخیم نمبروں کی اشاعت تھی جن میں معرکۃ الآرا ’’قرآن نمبر‘‘کوبہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔محمدطفیل نے ناول نمبر،افسانہ نمبر،ادبِ عالیہ نمبر،مکتوبات نمبر،منٹو نمبر،شخصیات نمبر،پطرس نمبر اور لاہور نمبر جیسے والیم چھاپ کرادبی رسائل کی دنیا میں اپنے نام کا سکہ جمالیا۔نقوش کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے بارے میں کہا جانے لگا کہ ’’جوادیب نقوش میں نہیں چھپتا اُس کا ادیب ہونا مشکوک ہے۔‘‘۱۹۸۶ء میں محمدطفیل کی وفات کے بعد بیٹے جاویدطفیل نے نقوش کی باگ ڈور سنبھالی۔
۱۹۵۰ء میں آل احمدسرور نے دہلی/علی گڑھ سے ’’اردوادب‘‘کوجاری کیا۔۱۹۵۱ء میں لاہور سے الحمرا اور شاہ وار،کراچی سے الشجاع،نورنگ اور کارواں اور منیرنیازی کا سات رنگ(لاہور)جاری ہوئے۔۱۹۵۶ء میں علی شاعر کا شعور،جون ایلیا کا انشاء،مولوی عبدالحق اور سیدہاشم رضا کا لوح وقلم،اخترانصاری اکبرآبادی کا نئی قدریں،یاوردہلوی کا کارواں،یعقوب خان کا فانوس وغیرہ کا اجرا ہوا۔
اس کے علاوہ جولائی ۱۹۵۶ء میں ’’شعور‘‘حیدرآباد سندھ پاکستان منظرعام پرآیا،اسے حلیمہ حسنہ،حمایت علی شاعر اور خالدہ اسمانے محنت شاقہ سے مرتب کیا۔اس کے ابتدائی شماروں کے لکھاریوں میں ظہیرکاشمیری،قتیل شفائی،علی سردار جعفری،بلونت سنگھ،عابدعلی عابد،
جمیل جالبی،فیؔض،رشیداحمدصدیقی،ناصرکاضمی اور جیلانی بانو وغیرہ کےاسمائے گرامی شامل ہیں۔یہ دوماہی رسالہ تھا۔اس میں جیلانی بانو کا مضمون ’’نئی پود‘‘ان کا تعارف بھی شامل ہے۔اسی عنوان کے تحت اردوادب کی جدید نسل کےادبا کوپیش کیے جانے کی سعی کی گئی۔
’’نئی قدریں‘‘بھی حیدرآباد سندھ سے جاری ہوا۔اس کی خاص بات نئے قلم کاروں کا تعارف کرانا تھا۔اس کے مدیراخترانصاری اکبرآبادی ادب نواز شخصیت تھے۔وہ اس رسالہ کے اجرا کی بابت اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’”مشرب”کے ”تاریخ اردوادب نمبر”کی ترتیب میرے ذمہ تھی۔اُس کی ترتیب کے دوران ”مشرب”کے مالک سے چندبنیادی مسائل پراختلاف پیدا ہوگیا اور میں ”مشرب”کی ادارت سے ”تاریخ اردوادب نمبر”کی ترتیب کے بعد مستعفی ہوگیا۔اس علیحدگی پرکسی نہ کسی طور سے ”مشرب”کے مالک صاحب کو اظہارناراضگی کرنا تھا۔موصوف نے اس اظہار کا یہ طریق نکالا کہ نمبر کی ترتیب سے میرا نام خارج کردیا۔‘‘(۶)
اس رسالے کی ایک اہم بات اردوسندھی اتحاد بھی تھا۔اس میں سندھی تخلیقات کے تراجم کو بھی شامل کیا گیا۔اس کا پہلا شمارہ ۱۹۵۶ء میں شائع ہوا۔اس رسالے کو صحافیانہ تجربات کی آماجگاہ بھی کہتے ہیں۔
۱۹۵۸ء میں ظفراقبال اور راغب مرادآبادی نے ترجمان خواتین رسالہ’’سفینہ‘‘،مقبول عزیز نے اندازیں،ناسرمحمود نے نگارش،صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور اشفاق احمد نے لیل ونہار اور شمیم ملیح آبادی نے صبحِ نو کا اجرا کیا۔
۱۹۶۰ء میں اردونامہ،اردوڈائجسٹ،الزبیر،بیکن،حیاتِ جاوداں،داستان اور مشعلِ راہ وغیرہ کا اجرا کیا گیا۔
’’فنون‘‘۱۹۶۳ء کو تاریخ رسائل ادب اردومیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔قاسمی صاحب بذات خود ترقی پسند افکار کے حامی تھے او ر اس کےلیے وہ مختلف رسائل سے وابستہ رہے ہیں جن میں تہذیبِ نسواں،نقوش،سحر،پھول،ادبِ لطیف،امروز اور سویرا وغیرہ شامل ہیں۔
ان رسائل میں وہ مختلف تجربات ومشاہدات سے گزرچکے تھے اور ساتھ ساتھ رسائل کے طرزعمل اور طرزادا سے بخوبی واقف ہوگئے۔ترقی پسندی کے حوالے سےاحمدندیم قاسمی کا نام انتہائی توانا ہے۔یہ وہ دور تھا جس میں ادیبوں کو گرفتار کیا جانے لگا ہرطرف افراتفری مچی ہوئی تھی اور سرکاری حکم پر ادبا کی نگرانی کی جاتی تھی۔
اسی وقت احمدندیم قاسمی نے سہ ماہی ’’فنون‘‘جاری کیا۔اس کی قیمت فی شمارہ تین روپے تھی اور اس کا ابتدائی شمارہ۳۰۰ صفحات پر مشتمل تھا۔احمدندیم قاسمی ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔اسی لیے اس رسالے میں بھی ادب برائے زندگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔’’فنون‘‘کے حوالے سےڈاکٹرسیدعبداللہ کا کہنا ہے کہ:
’’مدت کے بعد اردو کا ایک پورا رسالہ دیکھنے میں آیا۔یوں ملک میں بلندپایہ رسالے اور بھی ہیں۔اُن کو پڑھ کراطمینان ہوتا ہے مگرفنون رنگ وبوئے گرد رکھتا ہے۔‘‘(۷)
فروری ۱۹۷۰ء سے یہ ماہ نامہ ہوگیا۔۱۹۷۱ء میں اسے دوماہی کردیا گیا۔اس کا اہم شمارہ’’غزل نمبر‘‘تھا۔اس کے ساتھ ساتھ اقبال نمبراور خدیجہ مستور نمبر بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۹۶۳ءمیں ایک اہم ادبی ستون’’سیپ‘‘کا اجرا ہوا جس کے مدیرنسیم درانی تھے۔یہ واحد پہلا ادبی رسالہ ہے جس نے گولڈن جوبلی اور ۵۰ سال مکمل کیے ہیں۔اس کے علاوہ اوراق،شبِ خون،تخلیق،طلوعِ افکار،احتساب،اخبار،اردو،آج،تاریخ،دنیازار،معاصر،کاغذی پیرہن اور پرواز کے بغیر تاریخ رسائل اردوادب کا سفرناممکن ہے۔یہ رسائل اردوادب میں کری کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سرکاری رسائل
’’ماہ نو‘‘ایک سرکاری رسالہ ہے۔یہ رسالہ کراچی سے ۱۹۴۸ء میں جاری ہوا۔یہ رسالہ سیدوقارعظیم کی زیرادارت شائع ہوا ۔حکومت ہند کی نگرانی میں شائع ہونے والا رسالہ’’آج کل‘‘کے متحدہ ہندوستان کے دورِآخر کے مدیروقارعظیم رہ چکے ہیں۔’’ماہ نو‘‘ کو’’ آج کل‘‘ کی توسیع قرار دینا درست نہیں ہوگا۔وقارعظیم نے اسے قومی رسالہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس کے ابتدائی خطوط وضع کیے اور اس کی ادبی جہت بھی سامنے لائی۔
محمدحسن عسکری نے ۱۹۰۵ءمیں اسے مباحثوں سے نکال کرفعالیت عطاکی،ساتھ ساتھ انھوں نے غیرملکی زبانوں کے تراجم کی بدولت اسے عالم گیر ادب سے روشناس کیا۔وقارعظیم اور محمدحسن عسکری کا دورانیہ زیادہ طویل نہ تھا ۔اس کے دوسرے دورانیے میں اس میں ایک مضبوط تثلیث(مدیر،مصنف اور قاری) کی طرح ڈالی گئی۔اس طویل دورانیے میں ’’ماہ نو ‘‘نےقومی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں کو ادب کے توسط سے پیش کرنے کی کاوش کی۔
معاملات ومسائل پرتبادلہ خیال،مقامی زبانوں میں ارتباط اور مختلف علاقائی ثقافتوں کو ایک دوسرے میں مدغم کرنے کی سعی بھی کی گئی۔اس دور میں ملکی صورت حال خلفشار کا شکار تھی لیکن ماہ نو میں قومی ثقافت مربوط نظرآتی ہے۔
’’ماہ نو‘‘کوادب وثقافت کی مضبوط بنیاد ظفرقریشی اوررفیق خاور نے فراہم کی۔فضل قدیر کے دورِادارت میں لوک گیتوں،عوامی کہانیوں،علاقائی شہ پاروں اور مشاہیرفن وادب کا رجحان نمایاں نظرآتا ہے۔اسی دور میں ’’ماہ نو‘‘نے کراچی سے اسلام آباد اور پھرلاہور کی طرف سفر طے کیا۔اسلام آباد میں اسے اتنی پذیرائی نہ مل سکی لہٰذا اس کا وجود کالعدم ہونے لگا لیکن ادبی وثقافتی افادیت کے احساس نے اسے لاہور منتقل کردیا۔کشورناہید اس کی مدیرمقرر ہوئیں۔
اس دور میں ’’ماہ نو‘‘کی ادارت کے فرائض قائم نقوی نے بھی سرانجام دیے۔لیکن اس دور میں کشورناہید کی ادرات غالب نظرآتی ہے یہی وجہ ہے کہ ’’ماہ نو‘‘کےاس دور کو کشور ناہید کا دور قرار دیا جاتاہے۔اس حوالے سے انورسدید اپنی کتاب’’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ(ابتدا تا ۱۹۸۸ء)‘‘میں لکھتے ہیں کہ:
’’کشورناہید نے’’ماہ نو‘‘کوایک ایسا ماہ نامہ بنادیا جس میں قومی،علاقائی اور بین الاقوامی لہریں اپناتمام جزرومد قاری کو منتقل کردیتی ہیں،۔۔۔۔۔کشورناہید نے’’ماہ نو‘‘کو ایک ایساادبی،ثقافتی اور علمی جریدہ بنادیا جس کا مدیر اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے اور قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ تخلیقات سے صرف جمالیاتی تسکین حاصل نہیں کررہا بلکہ اس کے خیال کی رو کو ایک مخصوص سمت کی طرف لےجانے کی سعی بھی ہورہی ہے۔‘‘(۸)
اصل میں ماہ نو ایک سرکاری پرچہ ہے لیکن یہ ایک قومی پرچہ محسوس ہوتا ہے۔اصناف ادب کے حوالے سے اسے ہرصنف کے نمائندہ ادیب کاتعاون حاصل رہا ہے۔مثلاً:افسانے کی صف میں سعادت حسن منٹو کا افسانہ’’عشقیہ کہانی‘‘،غلام عباس کا ’’گوندنی والا‘‘،عزیز احمد کا ’’خدنگ‘‘اور اشفاق احمدکاتوتا کہانی وغیرہ ’’ماہ نو‘‘میں چھپے،بڑے افسانہ نگاروں کے علاوہ سلیم آغاقزلباش،اخترامان،طارق محمود،نوشابہ نرگس اور متعدد افسانہ نگاروں وغیرہ کو ’’ماہ نو‘‘نےاعتبار فن عطا کیا۔
ماہ نامہ’’نیا دور‘‘لکھنؤ کا شمار ہندوستان کے صفِ اول کےرسائل میں ہوتا ہے۔سرکاری نوعیت کا یہ رسالہ نامورمجاہد آزادی،صحافی،ادیب اور اہم سرکاری عہدوں پر کام کرنے والی شخصیت علی جوادزیدی نے اپریل ۱۹۵۵ء میں شائع کیا۔’
’نیا دور‘‘میں آغاز ہی سے ملک کے ان قابل قدر شعرا وادبا کی نگارشات طبع ہوتی رہی ہیں جن کے تذکرے کے بغیر اردوادب کی تاریخ نامکمل ہے۔علی جوادزیدی کے بعد احمدصدیقی،سیدامجدحسین،وضاحت حسین رضوی اور نجیب انصاری وغیرہ اس کے مدیران رہے ہیں۔یہ رسالہ اترپردیش سرکار کا ترجمان ہونے کے باوجود اعلیٰ ادبی معیار کا حامل ہے۔اس رسالے میں سیاسی،ادبی،سماجی،تہذیبی اور مختلف النوع مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔
اس کا اشاریہ ڈاکٹراطہرمسعود خان نے ترتیب دیا جو رام پوررضا لائبریری سے ۲۰۰۹ءمیں شائع ہواجوکہ اعلیٰ معیار کا ہے۔اس اشاریے میں ۱۹۵۵ءتا۲۰۰۱ء کے تمام شماروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔۸۰۰صفحات پر مشتمل ۵۶۱شماروں کایہ اشاریہ انتہائی جامع ہے۔اس کا پہلا حصہ اصناف جب کہ دوسرا حصہ مصنف وار اشاریہ پر مبنی ہے۔
سرکاری ادبی رسائل میں ’’آج کل‘‘(دہلی)ایک تاریخ ساز رسالہ ہے۔’’آج کل‘‘۵مئی ۱۹۴۱ء میں ادارہ ’’یونائیٹڈ پبلی کیشنز ڈویژن‘‘سے منظرعام پر آیا۔ابتدا میں یہ رسالہ پشتوزبان میں’’نن پرون‘‘کے نام سے شائع ہوتا تھا۔لوگوں کی دل چسپی کی بنا پر ۱۰ جون ۱۹۴۲ء میں اس کا اردوایڈیشن’’آج کل‘‘کے نام سے شائع کیا جانے لگاجو کہ ’’نن پرون‘‘کا اردوترجمہ ہے۔ابتدا میں یہ پندروزہ جریدہ تھا لیکن دسمبر ۱۹۴۹ء میں اسے ماہ نامہ کردیا گیا۔
یہ رسالہ تقریباً۸۰ سے بھی زائد سال کا عرصہ مکمل کرچکا ہے۔مختلف اوقات میں اس کے ادارے سے وقارعظیم،جوؔش،شان الحق حقی،آغا یعقوب دداشی،بلونت سنگھ اور جگن ناتھ آزاد وغیرہ جیسے شاعر،ادیب اور صحافی وابستہ رہے۔
اس کا دائرہ کارانتہائی وسیع ہے۔اس میں اردوکی متعدداصناف کے متعلق،تحقیق،علم وادب کے حوالے سےمضامین،ڈرامے،افسانے،ناول،مقالے،خطوط،مزاحیہ،سفرنامے،نظمیں اور غزلیں وغیرہ کے حوالے سے مواد شائع کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹرجمیل اخترنے’’آج کل‘‘کے عنوان سے اس کا اشاریہ لکھ کر اردواکادمی کے توسط سے۱۹۸۸ءمیں شائع کیا۔۱۹۸۸ءتک اس سے کل ۷۵خاص نمبرشائع ہوچکے ہیں۔جن میں گاندھی نمبر،اقبال نمبر،اردونمبر،پریم چند نمبر،ابولکلام آزاد نمبر،غالب نمبر اور میرتقی میرنمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ سرکاری ادبی رسائل میں اردودنیا،ہماری زبان،ایوان اردو،بچوں کی دنیا،فکروتحقیق،کتاب نما ،امنگ(دہلی)،نیادور(لکھنؤ)،جمناتٹ(چندی گڑھ) اور زبان وادب(پٹنہ)وغیرہ شامل ہیں۔غیرادبی سرکاری رسائل میں یوجنا،سائنس کی دنیا اورسینک سماچار نئی دہلی سے جاری ہوتے ہیں۔بیشترادبی سرکاری رسائل وجرائدریاستی اردو اکیڈمیوں اور دوسرے سرکاری اداروں سے شائع ہوتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔امدادصابری،تاریخ صحافت اردو،۱۹۳۵ء،کلکتہ،ص ۳۱۹
۲۔اداریہ،دلگداز،اپریل ۱۹۰۵ء،ص ۲
۳۔امتیاز ندیم،ڈاکتر،اشاریہ اورادبی خدمات،مخزن،ص ۲۵
۴۔مسکین علی حجازی،ڈاکٹر،پنجاب میں اردوصحافت کی تاریخ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،۱۹۹۷ء،ص ۱۷۵
۵۔احمدندیم قاسمی،ایک رودادِ رفاقت ومحبت،محمدطفیل نمبر،نقوش،لاہور،ج اول،ص ۲۰
۶۔حیات اختر،محمدانیس خان،مکتبہ جلیسانِ ادب حیدرآباد،۱۹۸۹ء،ص ۶۹
۷۔سیدعبداللہ،ڈاکٹر،فنون کا پہلا مرحلہ،فنون،لاہور،شمارہ دوم،۱۹۶۳ء،ص ۳۰۷
۸۔انورسدید،ڈاکٹر،پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ،اکادمی ادبیات پاکستان،۱۹۹۲ء،ص ۱۳۴
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں