رجب علی بیگ سرور اور فسانہ عجائب
موضوعات کی فہرست
رجب علی بیگ سرور کا تعارف
نام رجب علی بیگ تھا اور تخلص سرور، پورا نام رجب علی بیگ سرور تھا۔
سرور 1200 ھ مطابق 1786ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے۔
سرور کا انتقال 1286ھ مطابق 1869ء میں بنارس میں ہوا اور بنارس ہی میں دفن کیے گئے۔
سرور کے والد کا نام مرزا اصغر علی بیگ تھا۔
رجب علی بیگ سرور کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی تھی ۔
سرور عربی ، فارسی زبان و ادب کے علاوہ شہ سواری، تیراندازی، خوش نویسی اور موسیقی میں دسترس رکھتے تھے۔
رجب علی بیگ سرور شاعری میں آغا نوازش حسین خان نوازش کے شاگرد تھے ۔
والی اودھ غازی الدین حیدر نے ایک قتل کے الزام میں سرور کو 1824ء میں لکھنو سے جالا وطن کیا تھا۔
اور سرور کانپور چلے گئے تھے۔
نصیر الدین حیدر نے سرور کا قصور معاف کر کے انھیں لکھنو آنے کی اجازت دی تھی ۔
واجد علی شاہ نے سرور کو پچاس روپے ماہانہ پر درباری شعرا میں داخل کیا تھا۔
سرور 1859ء میں بنارس گئے تھے اور آخر عمر تک یہیں رہے۔
سرور کے غالب کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔
رجب علی بیگ سرور نٹمثر کے اعتبار سے دبستان لکھنو کے بانی ہیں۔
بقول چکبست اودھ پنج کے پہلے رجب علی بیگ سرور کے طرز تحریر کی پرستش ہوتی تھی۔
فسانہ عجائب کا تعارف اور تنقیدی جائزہ| از ڈاکٹر سلیم اختر
رجب علی بیگ سرور کے کارنامے
فسانہ عجائب 1240 ھ / 1824 : یہ سرور کی پہلی نثری تصنیف ہے۔
شکوفه محبت 1272ھ / 1856: یہ سرور کی تصنیف کردہ دوسری داستان ہے جس کا قصہ مہر چند
کھتری کی تصنیف قصہ ملک محمد وگیتی افروز سے اخذ کیا گیا ہے۔
گلزار سرور 1275ھ یہ ایک تمثیلی داستان ہے اور فسانہ عجائب کے بعد سرور کی دوسری اہم کتاب ہے ۔
سرور نے بنارس میں وہاں کے مہاراجہ ایشری پر شاد نرائن سنگھ کی ہدایت پر ملا محمد رضی تبریزی کی قاری تصنیف حدائق العشاق کا ترجمہ گلزار سرور کے نام سے کیا تھا۔
گلزار سرور کے دیباچے میں واجد علی شاہ کی معزولی اورلکھنو کی تباہی کا بیان ہے۔ ابتدا غالب کی تقریظ بھی شامل ہے۔
شبستان سرور 1279ھ: یہ الف لیلیٰ کا آسان زبان میں ترجمہ ہے ۔ سرور کی دوسری تصانیف کے بر عکس اس کتاب کی زبان سادہ اور سہل ہے۔
شرار عشق: یہ ایک مختصر قصہ ہے۔
فسانہ عبرت 1856: فسانہ عبرت میں سرور نے لکھنو کے آخری چار نوابوں کے حالات قلم بند کیے ہیں ۔
تاریخی اعتبار سے فسانہ عبرت اہمیت کی حامل ہے۔
سرور سلطانی: سرور کی آخری تصنیف ہے۔
سرور نے واجد علی شاہ کی فرمائش پر شاہنامے کی فارسی تلخیص "شمشیر خانی” کا اردو ترجمہ سرور
سلطانی کے نام سے کیا تھا۔
انشائے سرور: یہ رجب علی بیگ سرور کے مکاتیب کا مجموعہ ہے۔
فسانہ عجائب کا تعارف
1440ھ،1824ء
فسانہ عجائب سرور اور شمالی ہند کی پہلی اہم طبع زاد داستان ہے جس میں لکھنو کی تہذیب معاشرت پیش کی گئی ہے۔
رجب علی بیگ سرور نے فسانہ عجائب کو حکیم اسد علی کی فرمائش پر کان پور میں 1240ھ مطابق 1824 میں تصنیف کیا تھا اور داستان فسانہ عجائب پہلی بار 1843 میں شائع ہوئی تھی ۔
سرور نے فسانۂ عجائب تصنیف کرتے وقت گلشن نو بهار، بهار دانش، پدمادت ، داستان امیرحمزه اور سحر البیان سے استفادہ کیا ہے۔
فسانہ عجائب کی عبارت انتہائی پر تکلف نہایت پیچیدہ اور مقفی و مسجع ہے اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ فسانہ عجائب زبان و بیان کے اعتبار سے نوطرز مرصع کی تقلید میں لکھی گئی ہے۔
سرور نے میر امن کے باغ و بہار کے جواب میں داستان فسانہ عجائب لکھی تھی۔
سرور نے فسانہ عجائب کے دیباچے میں باغ و بہار اور اس کے مصنف کا مذاق اڑایا ہے اور میر امن نے در پردہ اہل لکھنو پر باغ و بہار میں جو چوٹ کی تھی اس کا بدلہ لیا ہے۔
سرور نے فسانہ عجائب کے متن میں 18 بار تبدیلی کی تھی۔
فسانہ عجائب میں شامل اشعار سرور اور ان کے استاد نوازش کے ہیں اور اس کے علاوہ حافظ، حالی، سودا، میر، مصحفی ، سوز ، جرات، اور میر حسن وغیرہ کے اشعار بھی شامل ہیں ۔
سرور نے فسانہ عجائب میں لکھنو کی تعریف اور کان پور کی مذمت کی ہے۔ سرور نے فسانہ عجائب میں بادشاہ غازی الدین حیدر اور بادشاہ نصیر الدین کی شان میں بھی مدحیہ
الفاظ کہے ہیں۔
سرور نے داستان فسانہ عجائب کو بادشاہ نصیر الدین حیدر کے دربار میں پیش کیا تھا۔
فسانہ عجائب کا امتیاز اس کے اسلوب اور معاشرت کے بیان ہی میں مضمر ہے۔
ڈاکٹر گیان چند نے فسانہ عجائب کی عظمت کا راز اس کے مرصع اسلوب میں بتایا ہے ۔
فسانہ عجائب میں لکھنو کی تہذیب و معاشرت کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔
فسانہ عجائب میں چیزوں کی تفصیل دیکھ کر سب رس کی یاد آتی ہے۔
فسانہ عجائب کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے مثلاً فسانہ عجائب ، فسانۂ عجیب ، قصه انجمن آرا، جان عالم اور قصہ جان عالم بعض ناقدین نے فسانہ عجائب کو ناول کا پیش رو کہا ہے۔
سرور نے فسانہ عجائب کے دیباچے میں وجہ تصنیف کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے چند دوست ایک دن آپس میں بیٹھ کر بات چیت کر رہے تھے کہ ایک دوست نے قصہ کہنے کی فرمائش کی اور میں نے اس پر عمل کرتے ہوئے چند کلمات ان کے سامنے بیان کیے
جسے بعد میں کان پور کے قیام کے درمیان داستان کی شکل میں پیش کیا اور 1240 ھ میں یہ کتاب مکمل ہوئی ۔
شکریہ ضیائے اردو نوٹس
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں