دہلی کالج آغاز، مقاصد، اساتذہ، خدمات اور اختتام

دہلی کالج آغاز، مقاصد، اساتذہ، خدمات اور اختتام

دہلی کالج آغاز سے اختتام تک

جولائی 1823ء میں قائم ہونے والی مجلس تعلیمات عامہ کی طرف سے ٹیلر نے انگلستان کو جو رپورٹ بھیجی تھی۔

اس کے نتیجے میں انگلستان کی منظوری کے بعد مدرسہ غازی الدین خان کی تاریخی عمارت میں دلی کالج 1825ء میں قائم کیا گیا تھا۔

دہلی کالج کو اپریل 1877ء میں توڑ کر لاہور کالج میں ضم کر دیا گیا تھا۔

اس طرح اپریل 1877ء میں دلی کالج کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔

دلی کالج کو 1792ء میں قائم ہونے والے مدرسہ غازی الدین خان کی توسیع بھی کہا جاتا ہے۔

دہلی کالج کے مقصد

دہلی کالج کے قیام کا مقصد ہندوستانیوں کو انگریزی اور مغربی علوم سے واقف کرانا تھا۔

دہلی کالج کے اساتذہ

1825ء میں دلی کالج کے قیام کے بعد مجلس مقامی کے (جو کالج کی انتظامی کمیٹی تھی ) سکریٹری اور کالج کے سکریٹری اور سپر نٹنڈنٹ مسٹر جوزف ہنری ٹیلر کالج کے پرنسپل 175 روپے ماہانہ پر مقرر ہوئے تھے۔

1837ء میں مجلس مقامی نے مسٹر ٹیلر کو کالج کے پرنسپل مقرر کرنے اور ان کی تنخواہ آٹھ سو روپے ماہانہ کرنے کی تجویز پیش کی تھی جسے گورنمنٹ نے ملتوی کر دیا تھا ۔(مرحوم دلی کالج از مولوی عبدالحق صفحه 146 )

1839ء میں گورنمنٹ کی طرف سے جنرل کمیٹی کی پیش کردہ تجویز کی منظوری کے بعد 1841ء میں مسٹر فیا کس بتروس کا تقرر کالج کی پرنسپلی پر 600 روپیہ ماہانہ پر ہوا تھا۔

1845 ء میں مسٹر بتروس کے انگلستان چلے جانے کے بعد ان کی جگہ پر یعنی کالج کی پرنسلی پر اسی سال الوائس اسپنر نگر کا تقرر ہوا تھا ۔

سرسید نے آثار الصنادید اور ماسٹر رام چندر نے فوائد الناظرین اسپرنگر کی ایما پر شائع کیا تھا۔

گورنمنٹ آف انڈیا کے حکم سے لکھنو میں ڈاکٹر اسپرنگر نے شاہان اودھ کے کتب خانے کی
فہرست تیار کی تھی۔

تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے مشرقی اور مغربی شعبوں کا انضمام اور نصاب تعلیم کو یکساں ڈاکٹر اسپر نگر نے کیا تھا۔

1850ء میں ڈاکٹر اسپر مگر کے بنگال منتقل ہو جانے کے بعد کالج کے پرنسپلی کی خدمت پر مسٹر جے کارگل کا تقرر ہوا تھا ۔

مسٹر کارگل کے چلے جانے کے بعد مسٹر ٹیلر قائم مقام پرنسپل 1854 ء میں ہوئے تھے۔

1857ء کے بغاوت کے وقت دہلی کالج کے پرنسپل مسٹر ٹیلر ہی تھے۔

1857 کے باغیوں نے مسٹر ٹیلر کا قتل کر دیا تھا۔

دوبارہ کالج کھلنے کے بعد 1864ء میں مسٹر ایڈ منڈ ولمٹ پھر ان کے بعد پروفیسر ایس دلی کالج کے پرنسپل کی خدمت پر فائز ہوئے تھے ۔

مشرقی شعبے کے اساتذہ

مولوی مملوک علی تحریر اقلیدس ( ترجمہ ) سنن ترندی (ترجمه)۔

مولوی امام بخش صہبائی: حدائق البلاغت ( ترجمه )

مولوی سبحان بخش محاورات ہند، وفیات اعیان ترجمه تاریخ ابن خلکان، ترک تیموری( ترجمه ) تذکرہ مفسرین اور ایک تذکرہ حکما۔

ماسٹر وزیر علی

ماسٹر امیر علی

ماسٹر رام چندر

ماسٹر رام چندر دہلی کالج کے ایک ممتاز طالب علم تھے ۔ جو بعد میں سائنس کے ماسٹر ہو گئے تھے ۔

ماسٹر رام چندر ریاضی کے بڑے استاد تھے ۔

ماسٹر رام چندر نے دلی کالج میں شروع سے آخر تک تعلیم حاصل کی تھی۔

ماسٹر رام چندر نے اردو میں الجبرا اور علم مثث پر کتابیں لکھی تھیں ۔

ماسٹر رام چندر نے رسالہ فوائد الناظرین رسالہ محبت ہند جاری کیے تھے ۔

ماسٹر رام چندر نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔

ماسٹر رام چندر نیو ہیڈ ماسٹر ٹامسن سول انجینئر نگ کالج 1858ء میں مقرر ہوئے تھے۔

ماسٹر رام چندر 1885 میں دلی ڈسٹرکٹ اسکول کے صدر مدرس ہوئے تھے۔

ماسٹر رام چندر کی کتا ہیں: جبر و مقابلہ ، کلیات و جزئیات۔

ضیاء الدین

پیارے لال : یہ دہلی کالج کے طالب علم اور ماسٹر رام چندر اور مولانا امام بخش کے شاگرد تھے ۔

فراغت کے بعد دلی کالج میں استاد ہوئے تھے۔

کتابیں:
نقص ہند حصہ اوّل، نقص ہند حصہ سوم، رسوم ہند کا ابتدائی نصف حصہ، تاریخ انگلستان ( کلال)، در بار قیصری 1877ء تالیف مسٹر ویلر کا ترجمہ، رسالہ اتالیق کے اکثر مضامین ۔

بھیروں پر شاد

مولوی ذکاء اللہ

اشرف علی

مولوی احمد علی

پنڈت رام کشن دہلوی: مزید الاموال بالاصلاح الاحوال۔

ماسٹر حسینی تاریخ مغلیہ (ترجمه)، تاریخ ایران (ترجمه)، قانون محمدی، فوجداری(ترجمه)
قانون وراثت اسلامی، قانون دیوانی، قانون فوج دار۔

ہر دیو سنگه منشی گری

ماسٹر نور محمد تحتانی

موادی حسن علی

دہلی کالج کے طلبہ

ماسٹر رام چندر ، شمس العاما نذیر احمد، شمس العالما محمد حسین آزاد، شمس العالمها موکوی محمد ذکاء اللہ، شمس
العالما ضیاء الدین۔ دلی کالج کے طالب علموں میں سب سے اہم نام ہیں :

موتی لال دہلوی

پیرزادہ محمد حسین

مدن گوپال

ماسٹر کیدار ناتھ

میر ناصر علی

شیو نرائن

پنڈت من پھول

خواجه محمد شفیع

پنڈت دھرم نرائن

موادی کریم الدین تعلیم النساء گلستان ہند، تذکرہ شعرائے ہند ، گلدستہ نازنیناں ، تذکرة النساء
ترجمہ، ابوالفدا، تاریخ شعرائے عرب ۔

پنڈت کاشی ناتھ ، آتما رام ، چمن داس۔


مزید یہ بھی پڑھیں: فن ترجمہ نگاری از ظہیر الدین | pdf

دہلی کالج کے متعلق کچھ اہم معلومات

کالج کے ابتدائی زمانے میں زیادہ تر فارسی اور عربی کی تعلیم ہوتی تھی۔

دہلی کالج میں شروع ہی سے سنسکرت ، حساب اور مبادیات اقلیدس بھی پڑھائے جاتے تھے۔

دلی کالج میں سر چارلس مٹکاف کی سفارش پر انگریزی جماعت کا اضافہ 1828ء میں ہوا تھا۔

اعتماد الدولہ سید فضل علی خاں بہادر وزیر بادشاہ اددھ نے دلی کالج کے لیے ایک لاکھ ستر ہزار روپیہ وقف کر دیے تھے ۔

دلی کالج کے نصاب میں جیومیٹری ( علم ہندسہ) کا اضافہ 1832 ء میں کیا گیا تھا۔

دلی کالج 1857ء کی بغاوت کے بعد بند ہو گیا تھا۔

دلی کالج دوبارہ مئی 1864ء میں از سر نو قائم ہوا تھا ۔

دہلی ورنیکلر ٹرانس لیشن سوسائٹی

مسٹر فیا کس بتروس نے دلی کالج کے ماتحت انجمن اشاعت علوم بذریعہ السنہ ملکی یا دہلی ور نیکلر ٹرانس لیشن سوسائٹی 1843 ء میں قائم کی تھی ۔
( مرحوم دہلی کالج از مولوی عبدالحق صفحه
133) ( کہیں کہیں 1941 بھی درج ہے )

دہلی ورنیکلر ٹرانس لیشن سوسائی کا مقصد علوم مفیدہ کا دیسی زبانوں (اردو، بنگالی اور ہندی) میں ترجمہ کرنا یا دیسی زبان کی درسی کتابیں تیار کرنا تھا۔

دہلی ورنیکلر ٹرانس لیشن سوسائٹی یا انجمن اشاعت علوم بذریعہ السنہ ملکی کے سکریٹری مسٹرایف بتروس تھے۔

بتروس کے بعد دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی کے سکریٹری اسپر نگر بھی رہے تھے ۔

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں