خواجہ میر داد کی غزل گوئی (تعارف اور غزل گوئی کی خصوصیات)
مولانا محمد حسین آزاد خواجہ میر درد کا ان بلند پایہ شاعروں میں شمار کرتے ہیں جنھوں نے اردو زبان کو خراد اتار۔ جناب امیر مینائی جو خود ایک خوش گو شاعر اور سخن فہم ہیں خواجہ میر درد کے شعروں میں پسی ہوئی بجلبیوں کا جلوہ دیکھتے ہیں۔
اردو تذکرہ نگار اور نقاد ان کا نام ادب و احترام سے لیتے ہیں اور ان کی خدمت میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ خواجہ صاحب شعرائے اردو کی محفل میں مختصر سا شعری سرمایہ لے کر داخل ہوئے مگر انھوں نے جو کچھ کہا سراسر انتخاب ہے اور رطب و یابس سے بالکل پاک !
خواجہ صاحب ایک درویش اور خدار سیدہ بزرگ خواجہ محمد ناصر عند لیب کے نور نظر تھے۔ کچھ اپنی طبیعت کی افتاد اور کچھ اس مرد درویش کی صحبت کا فیض کہ اٹھائیس برس کی عمر میں کاروبار دنیا سے منھ موڑ کے درویشی اختیار کرلی اور انتالیس برس کی عمر میں والد کی رحلت کے بعد مسند نشین ارشاد ہو گئے ۔
شاعری پہلے بھی کرتے تھے گوشہ نشینی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا مگر انداز کلام یکسر بدل گیا۔ اب صوفی صافی تھے اور معشوق حقیقی کی زلف گرہ گیر کے اسیر شاعری میں بھی اس دائرے سے باہر قدم رکھنے کو ایک صوفی کی شان کے خلاف سمجھتے تھے چنانچہ ان کا کلام ایک متصوفانہ رنگ میں رنگا ہوا ہے ۔
کلام درد کے اسی رنگ کو دیکھ کر مولانا محمد حسین آزاد نے فرمایا کہ تصوف جیسا انھوں نے کہا اردو می آج تک کسی سے نہیں ہوا۔ تاریخ ادب اردو کے مولف جناب رام بابو سکسینہ نے یہاں تک لکھ دیا کہ خواجہ میر درد کے ہر شعر میں معشوق سے مراد معشوق حقیقی یامرشد ہے۔
اور ڈاکٹر اعجاز حسین نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ ان کے یہاں عشق حقیقی کا جلوہ ایسا غالب ہے کہ مجازی عشق کو کہیں جگہ نہیں ملتی ہے۔
لیکن دیوان درد کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس خیال کی تردید ہو جاتی ہے ۔لباس درویشی زیب تن کرنے سے پہلے خواجہ میر درد کچھ عرصے فوج میں ملازم رک چکے تھے اور جیسا کہ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی نے لکھا ہے
وہ ابتدائے شباب میں دنیا دار بھی رہے، جاگیر کے انتظام اور معاش کے اہتمام میں تگ و دو بھی کی، شاہی امرا و مقربان بارگاہ کے ناز بھی اُٹھائے، یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعرانہ مزاج ، گداختہ دل اور جمالیاتی ذوق رکھنے والے اس نوجوان کے دل کا ورق اٹھائیس برس کی عمر تک بالکل سادہ رہا ہو ؟
کہا گیا ہے کہ عشقِ مجازی عشق حقیقی کا زینہ ہے ۔ جسے خدا کے بندوں سے پیار کرنا نہ آتا ہو وہ خدا سے کیسے عشق کر سکتا ہے ؟ درد کے بہت سے شعر ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے کسی مٹی کی صورت کو چاہا تھا اور جی جان سے چاہا تھا۔ کہ شاعری میں تخیل کی کار فرمائی سے انکار ممکن نہیں ۔
درد کی شاعری میں جس مجازی محبوب کی پر چھائیاں جا بجا نظر آتی ہیں ہو سکتا ہے اس کا وجود محض فرضی ہو لیکن اس کا امکان بھی کچھ کم نہیں کہ انھوں نے سچ مچ کے کسی حسین کو چاہا ہو، اس کے ناز اٹھائے ہوں، اس کی پرستش کی ہو۔
مزید یہ بھی پڑھیں: اردو شاعری میں تصوف کی روایت میر درد غالب اور اقبال pdf
درد کے شعروں میں محبوب کے وعدوں اور وعدہ خلافیوں ، وفاؤں اور بے وفائیوں، اس کے بننے اور سنورے روٹھنے اور ملنے اور اپنے دل کی بے کلی کا جو ذکر ملتا ہے، اس کی تہہ میں کوئی صداقت نظر آتی ہے۔ کیا عجب انھوں نے سچ ہی کیا ہو کہ ۔
تمھارے وعدے بتا خوب میں سمجھتا ہوں
رہا ہے ایسے ہی لوگوں سے کاروبار مجھے
اب درد کے کچھ ایسے اشعار ملاحظہ ہوں جن پر مجاز کا لیبل لگانے سراسر ناانصافی ہے۔
یوں وعدے ترے دل کو تسلی نہیں دیتے
تسکین تبھی ہووے گی جب آن ملے گا
کہیں ہوئے ہیں سوال و جواب آنکھوں میں
یہ بے سبب نہیں ہم سے حجاب آنکھوں میں
یہ بھی پڑھیں: اردو شاعری میں تصوف کی روایت میر درد غالب اور اقبال pdf
درد کے عشق مجازی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ محبوب کا سراپا بھی بیان کرتے ہیں، اس کے ہر جائی پن کا پردہ بھی چاک کرتے ہیں، اس کی تلون مزاجیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں مگر متانت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے رکاکت و ابتذال کا تو ذکر ہی کیا ، ان کے منھ سے کبھی کوئی ہلکی بات نہیں نکلتی۔
وصال کا ذکر بھی کرتے ہیں تو ضبط و اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ ان کے عشقیہ اشعار میں ایسی پاکیزگی اور ایسی لطافت ملتی ہے جو اردو کے کم شاعروں کو نصیب ہے۔ ثبوت کے لیے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
یوں تو ہے دن رات میرے دل میں اس کا ہی خیال
جن دنوں اپنی بغل میں تھا سو وہ راتیں کہاں
کون سی رات آن میلے گا
دن بہت انتظار میں گزرے
تقریبا یہی بات مولانا محمد حسین نے آب حیات میں کبھی ہے۔ فرماتے ہیں انھوں نے میر کی غزلوں پر جو غزلیں لکھی ہیں وہ میر سے کسی طرح کم نہیں؟ اعظمی صاحب نے اپنے دعوے کی دلیل میں بہت سے اشعار پیش کیے ہیں جن میں سے اکثر او پر گزرے۔ دو مزید اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔
جس دل پہ بے وفائی معشوق کے سبب یہ کچھ گزر چکا ہو وہ پھر چاہ کیا کرے دل دے چکا ہوں اس بت کافر کے ہاتھ میں اب میرے حق میں دیکھیے اللہ کیا کرے اس بت کا فر کو دل دینے کا نتیجہ آخر کار ان کے حق میں یہ نکلا کہ انھیں اپنے اللہ تک پہنچنے کا راستہ مل گیا تبھی تو عشق مجازی کو عشق حقیقی کا زینہ کہا گیا ہے ۔ تسلیم کرنا چاہیے کہ درد کا اصل رنگ وہ ہے جو ان کے متصوفانہ کلام میں ظاہر ہوتا ہے۔
یہ کلام بلاشبہ خواجہ میر درد کی زندگی کا آئینہ ہے۔ کاروبار دنیا سے تعلق منقطع کر لینے کے بعد وہ گوشہ نشین ہو گئے اور قناعت کی زندگی گزار نے لگے۔ اب انھوں نے اپنی شاعری کو درس اخلاق اور تصوف کی تعلیم کے لیے وقت کر دیا۔تصوف کسی لفظ سے نکلا اور اس کے کیا معنی ہیں اس کے بارے میں اتنا کچھ کہا گیا ہے کہ اس کا یہاں دہرانا ممکن نہیں
بس انتا جان لینا کافی ہے کہ تصوف سے مراد ہے خود کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے وقف کر دنیا، بیشتر صوفیاء کا عقیدہ یہ رہا ہے کہ ساری کائنات خدا کے نور سے بنی ہے اور اس کی ذات کا ایک جزو ہے گویا ہمہ اوست یعنی سب کچھ خدا ہی ہے۔
یہ فلسفہ وحدت الوجود کے نام سے مشہور ہوا، اس فلسفے کی سب سے زیادہ وکالت شیخ محی الدین ابن العربی نے کی۔ اس پر ویدانت اور افلاطونی فلسفے کا بھی اثر ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ساری کائنات خدا کے نور سے نہیں بلکہ اس کے حکم سے بنی ہے ۔
اس لیے اس کا جزو نہیں ہو سکتی ۔ ہمہ از وست یعنی سب کچھ اس کے اشارے پر ہوا، یہ فلسفہ وحدت الشہود کہلاتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی اس فلسفے کے علمبردار ہیں۔
خواجہ میر درد فلسفہ وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ ان کے کلام میں اس مضمون کے اشعار بہت نظر آتے ہیں کہ دنیا میں اے خدا تیرا ہی جلوہ نظر آتا ہے یا میرے دل میں تیرے سوا اور کسی کی یاد نہیں ۔
وحدت الوجود کی انتہا یہ ہے کہ بندے کو خود اپنی ذات میں معبود حقیقی کی پرچھائیں نظر آئے درد کے یہاں اس مضمون کے اشعار بھی ملتے ہیں، یہاں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
تصوف سے وسیع القلبی کی تعلیم ملتی ہے صوفیا کا مسلک یہ رہا ہے کہ انسان کسی بھی مذہب کا پیرو ہو اور کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ اپنے پیدا کرنے والے پر یقین رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے تو وہ لائق احترام ہے۔ مذہب یا طریق عبادت کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا انسانیت ہی اصل چیز ہے۔
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد تجھی سے تو ہے گھر دیر و حرم کا
عشق الہی کا نام ہی تصوف ہے ۔ بندے کو خدا سے عشق ہوتا ہے اور وہ وصل کا طلبگار ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ تو کم ہی حاصل ہوتا ہے کہ انسان مجذوب ہو جائے یعنی خدا کی ذات میں جذب ہو جائے، وہ ساری زندگی محبوب حقیقی کے فراق میں تڑپتا رہتا ہے ۔
اس سے شاعر کے کلام پر حزینی فضا چھا جاتی ہے صوفی کو یوں بھی دنیا حقیر اور زندگی حد سے زیادہ ناپائدار نظر آتی ہے ۔ درد فرماتے ہیں۔
والے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
پانی پر نقش کب ہے ایسا
جیسے نا پائدار ہیں ہم
درد کے کلام میں پندو نصائح کے مضمون جا بجا نظر آتے ہیں
اگر جمعیت دل ہے تجھے منظور قانع ہو
کہ اہل حرص کے کب کام خاطر خواہ ہوتے ہیں
کلام درد کے سلسلے میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ یہاں جمالیاتی عنصر کی فروانی ہے۔
اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ الفاظ کے انتخاب اور الفاظ کی ترتیب کا وہ بطور خاص خیال رکھتے ہیں۔ اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا ہر شعر سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔
کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھں مری
جی میں یہ کس کا تصور آگیا
درد تشبیہ و استعارات کا استعمال میں ہنرمندی کے ساتھ کرتے ہیں کہ ایک جیتی جاگتی تصویر پیش نظر ہو جاتی ہے۔ گویا پیکر تراشی سے وہ خاص طور پر کام لیتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں پیش ہیں۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
شمع کی مانند ہم اس بزم میں چشم نم آئے تھے، دامن تر چلےکلام درد میں ابہام کی دلکش مثالیں بھی موجود ہیں۔ دیکھیے۔کھل نہیں سکی ہیں اب آنکھیں مریجی میں یہ کس کا تصویر آگیاتہمت چند اپنے ذمے دھر پہلے کس لیے آئے تھے ہم کیا کر چلےبلندی تحلیل سے بھی شعر کا رتبہ بلند ہوتا ہے۔ درد کے اشعار میں یہ صفت بھی موجود ہے ۔ انسان زور سے اور لگا تار ہنسے تو آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے ۔
شاعر کا تخیل اس پانی کو آنسووں کی شکل میں دیکھتا ہیں۔
جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا
کہ نہ ہسنے میں رو دیا ہو گا
ڈمعاون کتاب اکٹر سمبل نگار اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں