خاکہ کے اجزائے ترکیبی | خاکے کا فن |Khaka ke Ajza-e-Tarkeebi | Khakay ka Fun
نوٹ: یہ تحریک ایک مقالے سے لی گئی ہے۔ پروفیسر آف اردو کو مقالہ نگار کا نام اور باقی تفصیلات تک رسائی نہ مل سکی۔
کچھ اس تحریر سے:
- خاکہ صرف ایک نثری تحریر ہی نہیں بلکہ یہ جہاں ایک طرف فن کار کی تخلیقی کاوش کا ماحصل ہے۔۔۔
- اردو خاکہ نگاروں نے واقعہ نگاری کے کئی اسالیب اختیار کئے ہیں۔ کچھ نے واقعات کو ملاقات اور یادوں کے حوالے سے اور کچھ نے سوانحی بیانیہ کے انداز میں ذکر کیا ہے۔۔۔۔
- حلیہ نگاری دراصل کردار نگاری کا ہی حصہ ہے، جس کے ذریعہ فن کار موضوع خاکہ کو لفظوں کی مدد سے چہرۂ عطا کرتا ہے۔۔۔۔
- خاکے کی دلچسپی کافی حد تک اس کی زبان کی دلکشی پر منحصر ہے۔۔۔۔
- خاکہ نگاری کے تخلیقی عمل میں فنکار کو جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے وہ ہے ایجاز بیان۔۔۔
موضوعات کی فہرست
خاکہ کے اجزائے ترکیبی
خاکہ کی ساخت کے تجزیہ کے بعد خاکہ نگاری کے ان طریقہ کار اور آلات فن کا مطالعہ بھی مناسب ہے جن کے استعمال سے ایک قلمکار خاکہ کو ادبی شہ پارہ اور جمالیاتی حن کی تسکین کا ذریعہ بناتا ہے۔
خاکہ صرف ایک نثری تحریر ہی نہیں بلکہ یہ جہاں ایک طرف فن کار کی تخلیقی کاوش کا ماحصل ہے ،
یہ و ہیں قاری کی جمالیاتی شعور کی تحصیل کا وسیلہ ہے۔
خاکہ کی تشکیل میں فن کار کو تخلیق کے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں اور وہ اپنے شعور و وجدان کے ساتھ مشاہدہ، حقیقت پسندی اور سماجی و نفسیاتی حقائق کی آگہی کے ذریعے کسی شخصیت کی تصویر اور تفسیر کرتا ہے۔
شخصیت کو جاننے، پر کھنے اور اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا عمل شعوری اور لاشعوری دونوں ہی ہوتا ہے مگر اس کی تعبیر اور آشکار کرنے کا عمل
پیچیدہ اور صبر آزما ہوتا ہے۔
جب فنکار اس تخلیقی تحریر سے نکل کر تشکیل فن کے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے تو اسے ایسے آلات اور وسائل فن کی ضرورت ہوتی ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے تخلیقی تجربہ کو قاری تک پہنچا سکے۔
خاکہ چونکہ حقیقی اشخاص کی زندگی سے متعلق ہوتا ہے، جس کی جھلکیاں پیش کرنا مقصود ہے اور شخصیت کی یہ تصویر ایک خاص بیت کی متقاضی ہے، اس لئے فنکار چند طریقے اور آلات فن کا استعمال کرتا ہے۔
یہ طریقہ کارگر چہ دوسرے اصناف ادب میں بھی پائے جاتے ہیں مگر خاکہ نگاری میں بعض تبدیلیوں کے ساتھ ان کا کامیاب استعمال کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خاکہ نگاری فن اور تنقید
واقعہ نگاری
کسی بھی فرد کی شخصیت نگاری کے لیے خاکہ نگار اس کی زندگی کے مختلف واقعات کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتا ہے۔
ان میں سے ایسے واقعات کا انتخاب کرتا ہے جو شخصیت کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوں
اور اس کے مرکزی اور اہم خصوصیات کو واضح کرتے ہوں۔ چوں کہ خاکہ نگار کے ذہن میں شخصیت کی ایک تصویر پہلے سے ہی مرتسم ہے
اور اس کے متعلق مختلف تاثرات رکھتا ہے۔ اب اس کا کمال یہ ہے کہ موضوع خاکہ کو اس انداز سے منصور کرے کہ قاری کے ذہن میں شخصیت کا واضح خاکہ اور چلتی پھرتی تصویر ابھر آئے ۔
اشخاص کی زندگی میں مختلف واقعات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ کچھ معمولی اور غیر اہم ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں جن سے شخصیت کے ظاہری اور باطنی خوبیوں اور خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔
تاثراتی مشاہدہ اور موضوع خاکہ سے متعلق متعدد معلومات کی مدد سے اس کی نگاہ دور میں ایسے واقعات پر مرکوز ہوتی ہے
جو شخصیت کے اندرون کا روزن ہوتی ہیں۔ واقعات کے انتخاب کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے درمیان ترتیب ہو اور خالص منطقی ربط ہو یا نہ ہو لیکن ایسا لگے کہ واقعات کے ذریعہ شخصیت کی پرتیں کھل رہی ہیں۔
پیاز کے چھلکے کی طرح انسانی فطرت کے راز تبہ بہ تبہ آشکار ہو رہے ہیں ۔
اردو خاکہ نگاروں نے واقعہ نگاری کے کئی اسالیب اختیار کئے ہیں۔ کچھ نے واقعات کو ملاقات اور یادوں کے حوالے سے اور کچھ نے سوانحی بیانیہ کے انداز میں ذکر کیا ہے۔
اسلوب بیان سے قطع نظر کامیاب اور دلچسپ واقعہ نگاری کے نمونے اردو خاکہ نگاری میں وافر مقدار میں ملتے ہیں
جن کی اہم اور نمایاں خصوصیت حسن انتخاب اور ماہرانہ ترتیب و تنظیم میں مضمر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خاکہ کی تعریف و تفہیم
ڈاکٹر بشیر سیفی واقعات کے انتخاب کے متعلق لکھتے ہیں :۔
"خاکہ نگار کو ایسے واقعات کا انتخاب کرنا چاہئے جو موضوع خاکہ کے انفرادی تصویر نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات و مذہب اور سماجی و معاشی رویوں کے بارے میں اس کے خیالات کی سچی عکاسی کرتے ہوں۔
نیز خاکہ لکھتے وقت اس امر کو بھی ملوظ رکھنا چاہئے کہ خاکے میں خلوت و جلوت کا صحیح عکس نظر آوے۔”
یہ بھی پڑھیں: اردو میں خاکہ کی ساخت
کردار نگاری
یہ خاکہ نگاری کا سب سے اہم جزو ہے۔ اس میں خاکہ نگار فرد کے اخلاق وکردار، رہن سہن، حرکات و سکنات، افکار واقدار، جذ بے و رویے غرض کہ سیرت کے متعدد جہتوں اور گوشوں کو گہرے مشاہدے اور عمیق مطالعے کے ذریعہ آشکار کرتا ہے۔
موضوع خاکہ کے متعلق جتنی بھی معلومات اور مواد ممکن ہو ( جن کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا ) انہیں حاصل کرنے کے بعد فنکار انہیں مشاہدہ کے خوردبین میں ڈال کر تخلیقی حسیت کی آنچ پر گرما کر شخصیت کی ایک جامع اور بلیغ تصویر بناتا ہے۔
کردار نگاری میں فن کار نفسیاتی تحلیل کا ہنر استعمال کرتا ہے اور شخصیت کے فکر و عمل، جذبہ اور رویہ طرز کلام اور انداز گفتگو ، خانگی تعلقات اور ادبی علمی کمالات ، سماجی اور ثقافتی کامیابیوں اور نا کامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے کردار کا ایسا عکس مرتسم کرتا ہے
جس میں شخصیت اپنی خوبی اور خامی کے ساتھ منعکس ہو جائے ۔
واضح رہے کہ موضوع خاکہ کے کردار کا ہر پہلو قابل ذکر نہیں ہوتا مگر تخلیق کار کے تخلیقی شعور پر منحصر ہے کہ وہ کردار کے کس پہلو کو قابل اعتنا سمجھتا ہے
اور یہاں اس کے حسن انتخاب پر خاکہ کی دلچسپی اور اثر انگیزی کا دارو مدار ہے۔
ملاحظہ کیجئے کردار نگاری کی ایک جھلک :۔
"کا تبوں سے تو انہیں اللہ واسطے کا بیر تھا۔ ہر ہفتے جب کاتبوں کی کارگزاری سامنے آتی تو منظر دیکھنے کا ہوتا !
اس لطیف لنگڑے کی تو دوسری بھی توڑ دینی چاہیے ، دیکھو یہ دیکھو یہ کتابت ہے؟ ۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے چیونٹی کی دم میں سیاہی لگا کے کاغذ پر چھوڑ دیا ہے۔
اور اس رونق حیدر آبادی سے تو کتابت ہی نہیں کرانی چاہیے ۔ سطر بنوایا کروں۔ حرامزادہ خبر کو قبر کہتا ہے، لاحول ولاقوۃ ۔۔۔۔
اور یہ اختر ۔۔۔ ایک سطر میں سات لفظ ہوتے ہیں ۔ مردود پانچ غلط لکھتا ہے اور اس خبیث سنیل کو تو ایک پیسہ مت دینا۔
حکیم صاحب کے اشتہار میں لکھا تھا عورتوں کے لیے زنانہ کا معقول انتظام ہے۔
بد معاش نے لکھا، عورتوں کے لئے زنا کا معقول انتظام ہے ۔ جان بوجھ کے کیا ہے حرامزادے نے ۔
اشتہار بند ہو گیا نا ۔ اب پیسے اس کا باپ دے گا۔ سب حرامی ہیں ۔ سب کے سب ۔
خدا ان کی بھوک بڑھائے اور کھانے کو کم دے ۔۔۔۔۔
حلیہ نگاری
کسی بھی شخصیت کی تصویر کشی میں اس کے ظاہری حلیہ کی اہمیت بھی مسلم ہے۔
حلیہ نگاری دراصل کردار نگاری کا ہی حصہ ہے، جس کے ذریعہ فن کار موضوع خاکہ کو لفظوں کی مدد سے چہرۂ عطا کرتا ہے۔
اس میں فرد کے چہرے مہرے، وضع قطع ، لباس و پوشاک ، بات کرنے اور چلنے پھرنے کا انداز وغیرہ ظاہر صورت کو پیش کیا جاتا ہے۔
یہ کردار نگاری کو مزید موثر بنانے اور قاری کے سامنے شخصیت کو متصور کرنے میں کافی معاون ہوتی ہے۔
اور قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس شخص سے متعارف ہیں۔ اس ظاہری صورت کے بعد جب فنکار کردار کے دوسرے غیر جسمانی اور نفسیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے تو قاری اس کردار سے مزید قرب محسوس کرتا ہے۔
حلیہ نگاری کی اس فنی اہمیت اور ادبی قدروقیمت کے پیش نظر خاکوں میں ہی نہیں بلکہ افسانوی اور غیر افسانوی ادب میں کثرت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔
اردو کے عمدہ ترین خاکوں میں حلیہ نگاری کا ماہرانہ اور مصورانہ استعمال ہوا ہے اور اس میں جدت طرازی بھی کی گئی ہے۔
حلیہ نگاری کی ایک مثال دیکھئے :۔
"چھریرا بدن ، نکلتا ہوا قد ، سانولا رنگ ، سر پر پوری طرح منڈھی ہوئی ململ کی ٹوپی، پیشانی پر عین وسط میں ٹوپی کے کنارے کو چھوتا ہوا دیکی ہوئی رات جیسا نماز کا گناہ ستواں ناک،
ہر وقت پان کھاتے رہنے کی وجہ سے لب اور وہن گلنار سامنے کے دانت پان کی زیادتی سے قدرے سیاہی مائل، با شرع مسلمانوں کی طرح ترقی ہوئی لہیں ،
کھچڑی داڑھی مگر ایسی کھچڑی جس میں چاول کی مقدار کچھ زیادہ ہو، داڑھی کے بیچ ویچ پان کے پیک کی سرخ لکبیر، چہرہ لمبوترا جو سوا مٹھی داڑھی سے کچھ اور لمبوترا دکھائی دیتا تھا۔
کالی واسکٹ اس کے نیچے سے معمولی سے سوتی کپڑے کی کمیز ، گردن میں انکا ہوا بڑا سا رومال یا چادر جس کے دونوں سرے سامنے کی جانب دائیں اور بائیں طرف لٹکے ہوئے۔
ذرا چوڑی موری کا گاڑھے یا گڑی انکا پاجامہ، ایک بغل میں کا نذروں کا پلندہ اور دوسرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی یہ تھے استادر سادہلوی”
کسی شخصیت کے ظاہری خدو خال نمایاں کرنے یا حلیہ بیان کرنے میں صرف قوت مشاہدہ کا عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ خاکہ نگار کے ذاتی تجربات اور مزاج کا بھی دخل ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ماجد قاضی لکھتے ہیں :۔
"خاکہ نگار کے ذاتی تجربات اور مزاج کی بو قلمونی بھی موضوع کے حسن وفتح کے درجات متعین کرتی ہے۔
کبھی عقیدت و احترام کی نظر معمولی نقوش کو دل آویزی عطا کرتی ہے اور کبھی طبیعت کی شوخی یا بیان کی بے احتیاطی کسی قابل احترام شخصیت کے اچھے خاصے نقوش کو مسخ کر دیتی ہے۔”
منظر نگاری
یہ خاکہ کے بیانیہ میں دلکشی اور حسن پیدا کرنے کا عمدہ طریقہ ہے۔
خاکہ نگاروں نے مختلف اسالیب میں کبھی کامیابی کے ساتھ اور کبھی ناکامی کے ساتھ اسے برتنے کی کوشش کی ہے۔
منظر نگاری اور واقعہ نگاری دونوں ہی خاکہ کے واقعات و حادثات اور حالات و مناظر کے بیان کے وسیلے ہیں۔
منظر نگاری کا دائرہ محدود ہے۔ اس میں واقعہ کے زمان اور مکان کو جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
کوئی بھی واقعہ خلا میں ظہور پذیر نہیں ہوتا، وہ کسی جگہ اور زمانہ کا محتاج ہے۔
اگر چہ واقعہ کو سادہ اور سرسری انداز سے بھی پیش کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بیانیہ میں مناظر کی تصویر کشی کر دی جائے تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے
اور واقعہ کے خدو خال مزید واضح اور اثر پذیر ہو جاتے ہیں۔
منظر نگاری میں مکان واقعہ جیسے گھر، دفتر ، باغ ، کھیت کھلیان اور روڈ وغیرہ کی حالت اور ہیئت کو باریک بینی کے ساتھ دیکھا جاتا ہے
اور اس کی جھلکیاں ایسے انداز سے دکھائی جاتی ہیں کہ واقعہ ہمیں متحرک نظر آئے اور مزید جان اور حسیت پیدا کرنے کے لیے آب و ہوا ، موسم کے رنگ ڈھنگ ، صبح و شام ، بارش و دھوپ، گرمی و سردی خموشی و هنگامہ اور ان جیسی زمانی حالات کو بھی بیان کر دیا جاتا ہے۔
ظاہر ہے یہ منظر کشی واقعہ اور شخصیت کے خصوصیات اور کردار کی فہم و تعبیر میں معاون ہوتی ہے
اور اس کے ذریعہ فن کار موضوع کو دلچسپ اور دل پذیر بناتا ہے۔
” ڈیفنس کالونی عالیشان کوٹھیوں ، آراستہ پیراستہ ڈرائنگ روموں اور جگمگاتی موٹر گاڑیوں کی کالونی ہے۔
مگر اس بھول بھلیاں کی گلیوں میں ایک مکان ایسا بھی ہے جس کے صدر دروازے پر نہ کوئی موٹر کھڑی ہے نہ گیراج کا کوئی نشان ہے نہ آپ کا استعمال دروازے پر لگی ہوئی کوئی ایسی سختی کرتی ہے کتوں سے ہوشیار رہیے
آپ اطمینان سے ایک بے قفل چھوٹا سا جالی دار آنی گیٹ کھول کر اس پر سکون مکان کے احاطے میں داخل ہو جائے ۔
مہکتے ہوئے پہلے کے پھول اور کلیاں آپ کے قدم رنجہ فرمانے پر اظہار مسرت کرتی نظر آئیں گی
اور سامنے برآمدے میں دو چار سادہ کرسیاں اس انداز سے پڑی ہوں گی کہ جیسے ابھی ابھی کوئی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے۔
یا عین ممکن ہے کہ جب وہ آپ پہنچیں تو یہاں کوئی شخص بیٹھا ہواہی ہو مگر وہ بہت سکون سے بیٹھا ہوگا ۔”
مکالمہ نگاری
اگرچہ خاکہ نگاری کے لیے مکالمہ ضروری نہیں ہے مگر واقعات کے بیانیہ اور اشخاص کے افکار و تاثرات کی جانکاری اور عکاسی کے لیے بعض خاکہ نگاروں نے اس فنی وسیلہ کا بھی استعمال کیا ہے۔
مکالمہ نگاری ناول اور ڈراما میں اور افسانہ میں کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن خاکہ میں چند گنے چنے اہل قلم نے اس کو برتا ہے۔
یہی ہے کہ فنی وسیلہ کے طور پر اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس کی وجہ سے واقعات کے بیان میں تازگی اور خاکہ کی فضا میں بے ساختگی اور بے تکلفی کا احساس ہوتا ہے۔
بعض اوقات متعدد واقعات کے ذکر سے خاکہ کے رنگ میں یک گونہ روکھا پن در آتا ہے
جو مکالمہ، بے تکلف گفتگو کے ذریعہ سے دور کیا جا سکتا ہے۔ مکالمہ کے وسیلہ سے موضوع کی بعض شخصی اور فکری خصائص بھی آشکار ہو جاتے ہیں،
جنہیں علیحدہ سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہاں یہ بھی خیال رہے کہ مکالمہ صرف ایک وسیلہ ہے ، مقصد نہیں۔
اگر اس کی وجہ سے خاکہ میں طوالت کا خدشہ ہو تو اس کا استعمال فنی طور پر نقصاندہ ہوگا۔
درج ذیل تحریر مکالمہ نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے ساتھ ہی خاکہ نگار کے فنی مہارت کا جیتا جاگتا ثبوت :۔
"تو نے اچھا نہیں کیا جانی۔ تجھے جما کے پاس نہیں جانا چاہیے تھا۔
جیانی نے اپنا کالا جھریوں بھرا ہاتھ وادی کے سامنے نچایا اور چیخ کر بولیں
یہ اونچی ناک اپنے پاس رکھو سنبھال کے۔ ہوش کی دوا کرو، ہوش کی ۔ معصوم بچہ کل سے بھوکا ہے۔ کچے پھل کھا کے کب تک پیٹ بھرے گا ؟ بیمار ہو گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔”
بڑی بیگم نے ہونٹ کھولے، ان کی آنکھوں سے لگا جیسے وہ برس ہی تو پڑیں گی لیکن منہ سے نکلا مگر جہانی ۔۔۔۔
جیانی تھیلے اٹھاتے ہوئے بولیں : ” چولہے میں گئی تمہاری اگر اور مگر ۔۔۔۔ میں چلی تمہیں کھانا ہو تو کھانا نہیں کھانا ہو تو مت کھانا۔ ۱۳
ایجاز
خاکہ نگاری کے تخلیقی عمل میں فنکار کو جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے وہ ہے ایجاز بیان ۔
اس سے مراد یہ ہے کہ نثری تحریر جس میں شخصیت کی جھلکیاں پیش کرنی ہے وہ ایجاز بیان سے متصف ہو۔
گرچہ صفحات کی قید لگانا مشکل ہے لیکن تحریر اتنی طویل نہ ہو کہ سوانح اور تاریخ کے حدود میں داخل ہو جائے۔
چونکہ خاکہ کا مقصد سوانحی مضمون اور ناول نگاری سے مختلف ہے اور اس کا کینوس بھی محدود ہے۔
اس لئے اختصار اس کا خاصہ ہے۔ اس میں جامعیت ، کفایت لفظی اور ایجاز معانی کی اہمیت ہے۔
اس لئے اسے اشاروں کا آرٹ اور نثری غزل سے تشبیہ دیا گیا ہے۔ کیوں کہ اس میں خوبیوں اور خامیوں کی کھتونی نہیں کرنی ہوتی ہے بلکہ مصوری کی طرح شخصیت کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فن کار کوایسے واقعات کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جن کے ذریعہ موضوع خاکہ کی ایک جامع اور بلیغ صورت انجرے اور اس کے سیرت و کردار واضح طور پر ابھر کر سامنے آجائیں،
جن کے صدقے قاری کو جہاں ہوگی ملے وہیں دلکش اور اثر انگیز شخصیت سے ملنے کی حسرت کا احساس ہو۔ اگر تحریر میں واقعات کی بھر مار ہو، تاثرات کا ریلا ہو یا تبصرے اور تنقیدی افکار کی بہتات ہو تو ایسی تحریر کو خا کہ نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ یہ سوانحی مضمون تاثراتی بیانیہ یا تنقیدی مقالہ کہلائے گا۔
اختصار ہی خاکے کو سوانح سے ممتاز کرتا ہے۔ کسی خاکے کی طوالت یا اختصار خاکہ نگار کی معلومات پر بھی منحصر کرتا ہے۔
اگر مطلوبہ شخصیت سے خاکہ نگار کا دیرینہ تعلق ہوتا ہے تو اس کے پاس زیادہ سے زیادہ معلومات رہتی ہے۔ نتیجہ میں طویل خاکے رونما ہوتے ہیں۔ خاکے میں اختصار پیدا کرنا کافی مشکل کام ہے۔
خاکہ لکھتے وقت الفاظ کے استعمال اور واقعات کے انتخاب میں غیر ضروری تفاصیل سے گریز کرنا چاہئے ۔
دور حاضر میں لکھے جانے والے خاکے وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر لکھے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جامعیت اور اختصار کو خاکہ نگاری کا بنیادی وصف قرار دیا گیا ہے۔
وحدت تاثر
خاکہ کی مذکورہ ساخت کا اعتبار کرتے ہوئے جب کوئی فن کار خاکہ نگاری کرتا ہے تو اسے سب سے زیادہ دھیان رکھنا پڑتا ہے ( جو شعوری کوشش بھی ہو سکتی ہے اور غیر شعوری بھی ) کی شخصیت کے متعلق جو مجموعی تاثر وہ قاری تک پہنچانا چاہتا ہے،
وہ تمہید سے لے کر خاتمہ تک خاکہ کی روح بن کر رہے۔ اسے ناقدین فن وحدت تاثر کا نام دیتے ہیں۔
یہ جس طرح افسانہ اور انشائیہ میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اسی طرح خاکہ میں بھی اس کی فنی اہمیت مسلم ہے۔
وحدت تاثر سے مراد یہ ہے کہ شخصیت کے متعلق جو بھی معلومات ، تاثرات تجرے اور احساسات و جذبات پیش کئے گئے ہیں اور جن واقعات اور مشاہدات پر و پینی ہیں ان کے درمیان رابطہ و ہم آہنگی ہو اور اس طرح بیان کئے جائیں کہ قاری کسی نتیجہ پر پہنچے اور ایسا محسوس ہو کہ تمہید سے جو امید اور توقعات یا بنیادی تاثر پیدا ہوا تھا وہ خاتمہ تک قائم ہے۔
ایسا نہ ہو کہ تمہید کے دوران شخصیت کا تاثر کچھ اور ظاہر کیا گیا اور درمیانی حصے کے واقعات و حالات کچھ اور ہیں اور خاتمہ میں کچھ اور نتیجہ نکالا گیا۔
شگفتہ اسلوب
خاکے کی دلچسپی کافی حد تک اس کی زبان کی دلکشی پر منحصر ہے۔
زبان و بیان کو خاکے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے چونکہ خاکے میں ہمیں صداقت بیانی سے کام لینا ہوتا ہے اور سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔
لہذا اس کڑوے سچ کو خاکہ نگار اپنے دلکش اسلوب کی مدد سے قابل قبول بناتا ہے۔
بقول محمد طفیل :-
"اچھی بات تو سب کی زبان سے اچھی لگتی ہے کڑوی بات کو خوبصورت انداز سے کہہ لینا نا خاکے کا فن ہے۔”
خاکہ نگار کو شخصیت کی مناسبت سے موزوں لب ولہجہ کا استعمال کرنا چاہئے ۔
اگر موضوع خاکہ سنجیدہ طبیعت کا مالک ہے تو اس کے لئے سنجیدہ زبان ، اگر وہ مزاحیہ شخصیت کا مالک ہے تو مزاحیہ اسلوب اپنانا چاہئے۔
مثال کے طور پر رضا نقوی واہی کے خاکے کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو جو مجتبیٰ حسین نے لکھا ہے:
"ان سے ملئے یہ ہیں رضا نقوی واہی ۔ اردو کے مشہور طنزیہ و مزاحیہ شاعر انہیں ڈرا الٹا پلٹا کر کے غور سے دیکھئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں
ان سے اسی وقت گھبرانا چاہئے جب ان کے ہاتھ میں قلم ہو۔
اس وقت تو یہ نتے بیٹھے ہیں ۔ آپ کو حساب تو آتا ہوگا۔ ان کی ذات میں سے قلم کو منہا کر دیا جائے تو جواب صفر آئے گا۔ "
درج بالا اقتباس میں آپ نے دیکھا کہ واہی کی مزاحیہ طبیعت کو کسی خوبصورتی سے قلمی پیکر میں ڈھالا گیا ہے۔
وہیں رشید احمد صدیقی ، مولانا محمد علی کے خاکے میں جس اسلوب کا استعمال کرتے ہیں وہ ان کی شخصیت کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:۔
"کس بلا کے بولنے اور لکھنے والے تھے۔ بولتے تو معلوم ہوتا تھا بوالہوں کی آواز اہرام مصر سے ٹکرارہی ہے، لکھتے تو معلوم ہوتا کرپ کے کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہیں یا پھر شاہجہاں کے ذہن میں تاج کا نقشہ مرتب ہورہا ہے۔
میں نے ان کو اسٹیج پر آتے اور بولتے ہوئے سنا ہے اور محمد علی کو داد دینے سے پہلے انیس کو داد دی ہے۔ ضیغم ڈکارتا ہوا نکلا کچھار سے ۔ ۱۳
لہٰذا زبان و بیان شخصیت کی تفہیم میں اہم رول ادا کرتی ہے۔
چونکہ خاکہ ایک فنی تحریر ہے، اس لئے اس میں جہاں فنی خصوصیات لازمی ہیں وہیں اس کو ادبی رنگ اور جمالیاتی آہنگ عطا کرنے کے لیے اس کے مختلف اجزاء کے درمیان تناسب اور توازن بھی ضروری ہے۔
حسن متعدد اجزاء کے درمیان تناسب کا نام ہے۔ اسی طرح کسی بھی فن کو جمال اور دکشی سے مزین کرنے والی خصوصیت کا نام بھی حسن تناسب ہے۔
مذکورہ بالا سطور میں خاکہ کی ساخت، اس کے اجزاء ترکیبی اور فنی لوازم کامختصر تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
جن میں کردار نگاری اور واقعہ نگاری کے ساتھ ساتھ منظرکشی اور حلیہ نگاری کی خصوصیات اور اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔
لیکن یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ان تمام اجزاء اور وسائل بیان کے استعمال میں فن کار کو اعتدال و توازن کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔
خاکہ کوفن اور ادبی چاشنی عطا کرنے اور قاری کے ذوق فکر اور شوق جمال کی تسکین کے لیے فنی آلات
اور ادبی طریقہ کار کے برتنے میں حسن انتخاب ، ماہرانہ ترتیب و تنظیم اور دلچسپ بیانیہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں