حلقہ ارباب ذوق کی تحریک

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک

حلقہ ارباب ذوق پس منظر

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک ( مجلس داستان گویاں) کا قیام ترقی پسند تحریک کے قیام کے تقریباً تین سال بعد یعنی 29 اپریل 1939ء کو لاہور میں سید نصیر احمد جامعی کے گھر پر عمل میں آیا تھا۔

حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بالعموم ایک دوسرے کی ضد قرار دیا جاتا ہے۔

سید نصیر احمد جامعی نے 29 اپریل 1939 کو اپنے گھر پر چند دوستوں یعنی نسیم حجازی، تابش صدیقی، حفیظ ہوشیار پوری، محمد فاضل، اقبال احمد ، محمد سعید، عبدالغنی اور شیر محمد اختر وغیرہ کو جمع کر کے ایک ادبی محفل منعقد کی تھی اور اس محفل میں ایک ایسی مجلس کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

جس میں افسانے پڑھے جائیں اور ان پر جدید مغربی تنقید کی روشنی میں تنقید کی جایا کرے اور اس مجلس کا نام مجلس داستان گویاں رکھا گیا تھا۔

یاد رہے کہ حلقہ ارباب ذوق کا ابتدائی نام مجلس داستان گو یاں تھا۔

حلقہ ارباب ذوق کی ابتدائی
نونشتیں، مجلس داستان گویاں نام کے تحت ہی منعقد ہوئی تھیں ۔

2 ستمبر 1939 ء کو منعقد ہونے والے دسوے جلسے میں مجلس داستان گویانں کا نام تبدیل کر کے حلقہ ارباب ذوق، حفیظ ہوشیار پوری کی تجویز پر رکھا گیا تھا۔

ڈاکٹر محمد باقر نے نے مخزن اگست 1950 ، ص 95 پر شائع ہونے والے مضمون میں لکھا ہے کہ سب لوگ متقاضی تھے کہ لٹریری سرکل نام رکھا جائے لٹریری سرکل کا لغوی ترجمہ ادبی حلقہ ہوتا ہے۔

ہم سب نے حلقہ کا لفظ بار بار دہرایا اور بالآخر یہ ہمارے حلق سے نیچے اتر گیا۔

اور میری تجویز پر حلقہ ارباب ذوق نام طے پایا گیا ۔

نوٹ محمد باقر کے اس بیان کو ان کی تجویز پر نام رکھا گیا ۔

قیوم نظر نے درست قرار نہیں دیا ہے۔

مجلس داستان گویاں کا مقصد کسی نئی تحریک کو وجود میں لانا اور ادب میں موضوع یا ہیئت کا کوئی نیا مضمون انقلاب بپا کرنا نہیں تھا۔

بلکہ اس مجلس کی نوعیت تقریب ملاقات کی تھی۔

حلقہ ارباب ذوق کی شاخ دہلی میں قائم کی گئی تھی جس کے معتمد ڈاکٹر عبادت بریلوی مقرر
ہوئے تھے۔

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک کے بانیوں نے اپنی مجلسوں کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنے کی
تاکید کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حلقہ ارباب ذوق کی تحریک pdf

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک کے اصول

حلقہ ارباب ذوق کا کوئی مستقل صدر نہیں ہوگا۔

حلقہ ارباب ذوق کا صرف ایک مستقل سکریٹری ہوگا ۔

رکن بننے کے لیے کوئی چندہ یا فیس نہیں لی جائے گی۔

ہر سال کے لیے ایک سکریٹری چنا جائے گا۔

حلقے کی رکنیت محدود رکھی جائے گی اور حلقہ کے ارکان کو اختیار ہوگا کہ جس کو چاہیں حلقے کا رکن بنائیں۔

لیکن حلقے کے اجلاس اس مرد اور عورت کے لیے کھلے ہوں گے جس کو اجلاس میں شامل
ہونے کی دعوت دی جائے گی۔

حلقے کا جلسہ ہر ہفتے ایک رکن کے مکان پر ہو گا جس کے ذمے سب کو چائے پلانا ہو گا ۔

حلقے کی ہر نشست میں کچھ مضامین اور نظمیں پڑھی جائیں گی جن کو سننے کے بعد ان پر بے لاگ تنقید کی جائے گی اور مضمون نگار یا شاعر کا فرض ہو گا کہ وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش دلی سے ناقدین یا معترضین کی تنقید واعتراض کو سنے اور اس کا جواب دے ۔

حلقہ کی کارروائی کو حتیٰ الوسع مشتہر نہیں کیا جائے گا۔

حلقہ ارباب ذوق کے بانی

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک کے بانیوں میں سید نصیر احمد جامعی، حفیظ ہوشیار پوری، شیر محمد اختر ، تابش صدیقی، محمد افضل اور نسیم حجازی وغیرہ شامل ہیں ۔

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک کے جلسے

ابتدأ حلقہ اور ارباب ذوق کی تحریک کے جلسے ارکان حلقہ کی رہائش گاہوں پر ہر اتوار کو ہوا کرتے تھے۔

1944 سے ارکان حلقہ کے گھروں کے بجائے ایم سی اے ہال میں منعقد ہونے لگے تھے۔

پہلا جلسہ نصیر احمد جامعی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا تھا اور اس کی صدارت حفیظ ہوشیار پوری نے کی تھی۔

جس میں پہلا افسانہ تلافی ، نسیم حجازی نے تنقید کے لیے پیش کیا تھا۔

قیوم نظر اور یوسف ظفر اگر چہ حلقہ کے بانیوں میں سے نہیں تھے لیکن وہ اہم رکن تھے۔

جن کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد شاعری اور شاعری کی تنقید کو بھی حلقہ میں جگہ ملی تھی ۔

مولانا صلاح الدین احمد حلقے سے ادبی وابستگی کے ساتھ ساتھ اس کی انتظامیہ کے رکن بھی تھے ۔

حلقہ کے ریکارڈ کے مطابق میرا جی نے سب سے پہلے 25 اگست 1940ء کو حلقہ کے جلسے میں
قیوم نظر کی دعوت پر شرکت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حلقہ ارباب ذوق تنظیم تحریک نظریہ مقالہ pdf

حلقہ ارباب ذوق اور میرا جی

یادر ہے کہ میرا جی بھی حلقہ ارباب ذوق کے بانیوں میں سے نہیں تھے لیکن چوں کہ میرا جی کی وجہ سے حلقہ کو ایک واضح ادبی رجحان ملا اس لیے حلقہ ارباب ذوق کا نام لیتے ہی میرا جی کا نام آجاتا ہے۔

میراجی اور حلقے سے متعلق چند اہم اقوال:

قواعد و ضوابط کی تنظیم اور پروگراموں کی تشکیل سب کے پس پشت میراج ایک محرک قوت کے طور پر کارفرما نظر آتے ہیں۔ (محمود نظامی مقالہ میراجی نقوش ، شخصیات نمبرس (591)

ان ( میراجی ) کی آمد سے حلقے میں نئی روح پیدا ہوگئی ۔ ( شیر محمد اختر )

نوجوانوں کی اس مجلس میں میرا جی کی حیثیت پیر مغاں کی سی تھی ۔ ( محمود نظامی )

یوسف ظفر نے جلسے کے اختتام پر پڑھی جانے والی نظموں اور غزلوں کے تفریحی پہلو کو ختم کیا اور مضامین کی طرح شاعری پر بھی تنقیدی بحث کی ابتدا کی تھی ۔

شیر محمد اختر حلقے کے ساتھ تادم زندگی وابستہ رہے۔ ان کا میدان افسانہ نگاری ہے۔

حلقہ ارباب ذوق کے مقاصد

حلقہ ارباب ذوق کے نزدیک تجربہ، جدت اور انفرادیت فن کے لیے بنیادی چیزیں ہیں۔

فرد اور معاشرہ کی کشمکش میں حلقہ ارباب ذوق نے معاشرہ کے مقابلے میں فرد اور ذات کو اہمیت دی ہے۔

حلقہ نے تجربے پر اس شرط کے ساتھ زور دیا ہے کہ تجربہ نیا ہو۔
حلقہ نے ہیئت اور داخلیت پر زیادہ زور دیا ہے۔

حلقہ کے فن کاروں کے نزدیک اچھا ادب وہ ہے جو اپنے ماحول کا عکاس و تر جمان بھی ہو اور جس میں روایات کی پاس داری بھی موجود ہو۔

ترقی پسند شاعروں کے مقابلے میں حلقہ کے شاعروں کے یہاں احساس ذات شدید ہے۔

حلقہ ارباب ذوق کی ابتدا افسانہ خوانی سے ہوئی تھی۔

میرا جی نے حلقے کا رخ تنقید کی طرف موڑا تھا ۔

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک نے نئی نظم کو فروغ دینے میں قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔

حلقہ ارباب ذوق کے تخلیقی عمل میں اخفاء ابہام اور بعد کو اہمیت حاصل ہے۔

جب کہ تنقید میں حلقہ نے ابہام کے برعکس بے رحم تجزیہ کو اہمیت دیا ہے۔

حلقہ ارباب ذوق نے ترقی پسند تحریک کے ادب برائے زندگی کے مقابلے میں ادب براے ادب کا نعرہ بلند کیا تھا۔

حلقہ ارباب ذوق کی تنقیدی جہت کو متعین کرنے کا فریضہ میرا جی نے سرانجام دیا تھا۔

میرا جی کا خیال ہے کہ داخلی اور خارجی فنی اصول سے قطع نظر ادب ہر مصنف کی اپنی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔

میرا جی نے بیٹے کو باپ کا عکس قرار دیا ہے اور بیٹے کے کردار سے باپ کے کردار کی خصوصیات تلاش کرنا ممکن تصور کیا ہے۔

میراجی کے مطابق انسانی زندگی تخیل کے ماتحت ارتقائی منازل طے کرتی ہے۔

حلقہ ارباب ذوق کی تنقید میں قطعیت کا زاویہ وحید قریشی نے پیدا کیا تھا۔

حلقہ ارباب ذوق کی تنقید کا ایک اہم زاویہ مجلسی تنقید ہے جسے حلقے کی ہفتہ وار مجالس کی بدولت فروغ ہوا تھا ۔

حلقہ ارباب ذوق کی تنقید کا ایک اہم زاویہ مجلسی تنقید ہے جسے حلقے کی ہفتہ وار مجالس کی بدولت فروغ ہوا تھا ۔

حلقہ ارباب ذوق کی تحریک سے ایک منفی تحریک نئی لسانی تشکیلات کے نام سے ابھری تھی ۔

حلقہ ارباب ذوق نے ادبی اجتماعات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کے فروغ میں بھی اپنا حصہ ادا کیا تھا ۔

حلقہ ارباب ذوق نے 1941 ء میں بہترین نظموں کا انتخاب کر کے شائع کیا تھا۔

حلقہ ارباب ذوق پاکستان شاخ لاہور کا قیام 1980 میں عمل میں آیا تھا۔

1982 میں تین حلقے اپنے اپنے جلسے منعقد کرنے لگے تھے یعنی تین حلقوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔

(1) حلقہ ارباب ذوق لاہور پاکستان
(2) حلقہ ارباب ذوق سیاسی
(3) حلقہ ارباب ذوق قیوم گروپ۔

حلقہ ارباب ذوق کی مخالفت

حلقہ ارباب ذوق کی مخالفت اور اس پر تنقید ی ترقی پسندوں نے اور ان میں خاص طور پر سردار جعفری اور سجاد ظہیر نے حلقہ ارباب ذوق کو شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

سردار جعفری نے ترقی پسند ادب میں حلقۂ ارباب ذوق کے ادیبوں کو ہیئت پرست ، ایہام پرست اور جنس پرست ادیب قرار دیا ہے۔

جو یورپ کے انحاطی ادب سے متاثر تھے ۔

سجاد ظہیر نے روشنائی میں میرا جی کو انگلستان کے جدید رجعت پرستوں کا چربہ قرار دیتے ہوئے حلقہ ارباب ذوق کی مجہولیت کا ذکر کیا ہے۔

حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ شعرا

ن م راشد

الطاف گوہر

تابش دہلوی

بلراج کومل

بشر نواز

شہزاد احمد

قاضی سلیم

ریاض مجید

شہرت بخاری

احمد مشتاق

یوسف ظفر

سردار انور

مبارک احمد

اختر الایمان

شاد امرتسری

شباب جعفری

محمود ایاز

سلیم الرحمن

محمد علوی

وزیر آغا

اقبال ساجد

ساقی فاروقی

ناصر کاظمی

سجاد باقر رضوی

قیوم نظر

اختر ہوشیار پوری

منیب الرحمن

مجید امجد

شکیب جلالی

عرش صدیقی

شہزاد احمد

سلیم شاہد

حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ افسانہ نگار

شیر محمد اختر

نسیم حجازی

مولانا صلاح الدین

رفیع پیرزادہ

کرشن چندر

اوپندر ناتھ اشک

بیدی

محمد حسن عسکری

ڈاکٹر صلاح الدین اکبر

امجد الطاف

اشفاق احمد

مسعود مفتی

انتظار حسین

پریم ناتھ در

انور سجاد

اعجاز راہی

ممتاز مفتی

غلام الثقلین نقوی

غلام علی چودھری

مرزا حامد بیگ

حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ ناقدین

مولانا صلاح الدین احمد

وحید قریشی

میراجی

محمد حسن عسکری

سلیم احمد

سجاد باقر رضوی

وزیر آغا

شاد امرتسری

سعادت سعید

آزاد کوثری

خالد احمد

عارف امان

ناصر کاظمی

سراج منیر

یوسف کامران

ریاض احمد

ممتاز شیریں

عزیز الحق

زاہد فارانی

حسین کا انتظار

بشکریہ ضیائے اردو نوٹس

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں