حسن منظر کے ناول العاصفہ کا تنقیدی جائزہ
العاصفہ ایک عرب ملک کے معاشرتی ، تہذیبی اور سیاسی پس منظر میں تحریر کردہ ایک ایسا ناول ہے جسے قارئین اس وجہ سے دلچسپ پائیں گے کہ اب تک عام طور پر وہ ہندوستان اور پاکستان کے ماضی اور حال کے منظر ناموں سے واقف ہوتے رہے ہیں لیکن یہ ناول ایک مختلف کلچر سے ہمیں روشناس کراتا ہے، ایک ایسا کلچر جس کے افراد کے اعمال وافعال ہمارے لیے حیرت انگیز اور کہیں کہیں نا قابل یقین نظر آتے ہیں کہ یہ عرب ملک تیل کی دولت سے مالا مال ہے جس پر مغرب کا قبضہ ہے اور یہاں مقامی و غیر مقامی (مغرب کے لوگ)
باشندوں کے لیے علاحدہ علاحدہ قوانین ہیں۔ ناول کا ہیرو زید ابن سعید ہے جو مصنف کو اپنے گھرانے اور اپنے ماحول کے متعلق بتا رہا ہے اور ساتھ ہی طنزیہ پیرائے میں ان سماجی ، معاشرتی اور سیاسی برائیوں پر رائے زنی کر رہا ہے کہ اگر ان کے متعلق اپنی تقریر اور تحریر کو اپنے معاشرے کے سامنے رکھ دے توسفاک طریقے سے ختم کر دیا جائے !
زید ابن سعید بدو ماحول سے تعلق رکھتا ہے جہاں کی مروجہ زندگی یہ بتاتی ہے کہ تہذیب کی مکمل روشنی ان تک نہیں پہنچی ہے۔ زید اور اس کے باپ کے درمیان جو مکالے پیش کیے گئے ہیں وہ پڑھنے والے کے لیے شاید تکلیف دہ ہوں لیکن اس مخصوص معاشرت کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور ذید کا باپ جس کے کردار کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے اکثر زید کو یاد دلاتا ہے کہ اُس کی اور اس کی عمر زیادہ فرق نہیں ہے۔ "ہتا ہے تم بائیس سال کے ہو چکے ہو۔ میں بارہ سال کا تھا جب تمہیں اس دنیا میں لایا تھا۔ یہ کہتے وقت وہ بھول جاتا ہے
کہ مجھ سے دو سال بڑی میری ایک سوتیلی بہن بھی تھی جس کے انجام سے وہ خود نا واقف ہے اور یہ جملہ اتنی بار استعمال کر چکا ہے کہ میرے دماغ پر اس کی عمر منتقلاً بارہ سال مرتسم ہو کر رہ گئی ہے اور خود میں بائیس سال کا ہوں یعنی اپنے حقیقی باپ سے دس سال۔(شہزاد، کراچی، 2002، ص 9)۔زید کا بدو باپ اپنے کردار کے اعتبار سے انتہائی کمینہ، خود فرض ، شرابی، لالچی ، منابق، دھوکے باز، جھوٹا اور شیطان صفت ہے جس کا کام اپنی بیوی، بیٹوں بیٹیوں سے ہر وقت جھگڑا کرنا، فاسقانہ اور نازیبا گفتگو کرنا اور بچے پیدا کرنا ہے۔
زید کو اپنے باپ سے شدید نفرت ہے جو اس کی بین لولو کو نظر انداز کرتا ہے بلکہ خود اس کی ماں لولو سے جو گفتگو کرتی ہے جو کوئی رذیل عورت ہی اپنی بیٹی سے کر سکتی ہے۔ لیکن اتفاق ایسا ہے کہ لولو شاعرہ ہے جس کی وجہ سے ماں کہتی ہے کہ وہ دہنی طور سے تھکی ہوئی ہے۔ ناول میں لولو کا انجام درد ناک دکھایا گیا ہے جو کھٹن زدہ ماحول کے زیر اثر گھر سے فرار ہو جاتی ہے
اور آخر میں ایسی جگہ پائی جاتی ہے جہاں سے اس کی کسی شریف گھر میں واپسی ناممکن ہوتی ہے۔زید جو تیل کمپنی میں ملازم دکھایا گیا ہے عربی اور انگریزی کے علاوہ کئی دوسری زبانوں میں گفتگو کر سکتا ہے ۔ اس کا کردار ایک ایسے شخص کا ہے جو اپنے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں (Evils) پر ناقدانہ نگاہ ڈالتا ہے اور کڑھتا رہتا ہے اور مصنف کو اپنے اندر کے حقیقت پسندانہ جذبات اور احساسات سے آگاہ کرتا رہتا ہے۔ دیکھا جائے تو وہ اپنے غیر مہذب ماحول میں کسی حد تک ایک ایکول (Intellectual) کردار ہے جس کے نقطہ نظر کے گرد ناول کا تانا بانا فنی حسن کے ساتھ بنا گیا ہے۔
زید کو اپنے خانگی، سماجی اور سیاسی ماحول سے جو شکایات ہیں انھیں مندرجہ ذیل حوالوں سے بیان کیا جا سکتا ہے: جلدی سے نمتلے اوپر تین چار شادیاں کر ڈالنے کی خواہش ہمارے یہاں کے لڑکے دل میں لے کر جوان ہوتے ہیں۔ (ص: ۳۷)
حکومت کی آنکھ اتنے سال کٹنے کے بعد اب کھل رہی تھی اور وہ شاہی خاندان کے نوجوانوں کو تعلیم کے لیے امریکا اور یورپ بھیج رہی تھی کہ واپس آکر کمپنی خود چلا ئیں اور فنانس کو سنبھالیں لیکن ان میں سے اکثر وہاں جا کر جوا کھیلنے لگے تھے۔ شمپین اور کیو یار کی دعوتیں دیتے تھے اس سے کم نہیں۔ بڑی بڑی قیمتی سے قیمتی کاریں خریدتے ۔ (ص ۱۰۰)
زید خرید تاتا ہے:شہزادے ان قیمتی کاروں کے حادثے میں اگر خود نہیں مر جاتے تھے تو نئی کار کے لیے رقم گھر سے طلب کرتے تھے کہ پچھلی کار کھلونا تھی، ایک تصادم بھی نہیں جھیل سکی۔ اب اس سے زیادہ مضبوط کار خریدتا ہے۔ مر جانے والے کی لاش خاص طیارے سے ملک واپس لائی جاتی اور اسے شہید کی عزت نصیب ہوتی تھی۔ اکثر ملک خود اس کی نماز جنازہ پڑھاتا جس کا کہ وہ ماہر ہے۔ ان کی دوست ہمیشہ سفید عورتیں ہوتی ہیں جن کا وہ آپس میں تبادلہ بھی کرتے ہیں چاہے ان کے نکاح میں ہوں۔ (ص ۱۰۱)
سماجی ، معاشرتی اور سیاسج اصلاح کا خواہاں ایک شخص جو اخبارات میں ایڈیٹر کے نام ڈاک کے کالم میں بے ضرر سے کالم لکھا کرتا تھا۔ غائب پایا گیا یعنی مار دیا گیا۔ اس کے لیے بتا دیا گیا ہے کہ:
"وہ چاہتا تھا کہ ملک اس دور کو لوٹ جائے جب یہاں امیر غریب میں فرق نہ تھا اور خلیفہ وقت پیوند لگے کپڑے خود پہن کر اپنے اچھے کپڑے تن سے اتار کرنا ناداروں کو پہنا دیا کرتے تھے۔ (ص ۱۰۶)” ہمارے یہاں ننگا دھوکا ہے، بے ایمانی اور مجبوروں کو لوٹنے کی بے اندازہ قوت کسی کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔ کاروں، بندوقوں، الیکٹرونک اشیاء، بیویوں اور عالی شان بیوت (مکان) کے سوا نہیں ہے۔ (ص ۱۳۸) "ہماری عورتیں جب رقعہ اتارتی ہیں تو رچھ کا سا لگتا ہے۔ اس میں سے ایک ماڈرن، مغربی صورت نکلتی ہے۔ اس کی تعلیم کی کمی کو مغربی لباس پورا کر رہا ہے۔ (ص ۲۳)
ایک دوسرے جاب (Job) میں جب اعلیٰ افسران (Woren) زید سے کہتا ہے کہ عرب بے کردار ہیں تو زید پھٹ پڑتا ہے:”تم انھیں ایسا بنانے والے بے کردار امریکن ہو۔ You) تم لوگ عرب تیل پر پل رہے ہو Characterless Americans( اور تمھارے دلوں میں نہ عرب زمین کی عزت ہے جس سے وہ تیل نکلتا ہے نہ اس کے انسانوں کی۔ میرا خیال ہے کہ تمہارے دلوں میں اپنی ماں کی عزت بھی نہیں ہوتی۔ (ص: ۱۳۷) در اصل زید کو ہمارے قد آور افسانہ نگار حسن منظر نے معاشرے کے ضمیر کی حیثیت سے پیش کیا ہے جو سفاک نظام کی غیر جمہوری ریاست میں بے بسی اور گھٹن کے جذبات کے ساتھ سانس لے رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے آزادانہ خیالات کی اگر رپورٹنگ ہوگئی تو وہ کتے کی موت مارا جائے گا اور ہو سکتا ہے
کہ ڈیجین (Dungeon) جیسی خوفناک جیل میں پھینک دیا جائے۔ یہ وہ جیل ہوتی ہے کہ جہاں سے انسان کا زندہ نکل آنا معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ یہاں (Alexander Dumas) کے ناول ” دا کاؤنٹ آف مانٹی کرسٹو” The count of monte cristo کی ڈنجین کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جہاں سے بچ نکلنا ناممکن ہوتا تھا کیوں کہ یہ دریا کے درمیان تھی۔ اس ناول کا بہترین حصہ ہی مانٹی کرسٹو کا ایک خاص تیکنیک سے وہاں سے فرار ہو جانے کے تعلق سے بیان ہوا ہے،
البتہ یہاں اس عرب ملک کی ڈنجین کے تعلق سے مجرم یا ملزم کا لرزہ خیز یا ہولناک انداز سے خاتمے کا بیان ہے۔ یہ ایک پرانی اونچی سی عمارت ہوتی ہے جس میں اسے پھینک دیا جاتا تھا۔ اس کی دیوار میں مستطیل سوراخ تھا جس میں سے روٹیاں اور پانی پھینک دیا جاتا تھا۔ اس تنگ ماحول میں انسانی ڈھانچوں کے مکھڑے بھی جا بجا بکھرے ہوتے تھے۔ اگر قصور ثابت نہ ہو تو رسی کے ذریعہ سے اوپر روشنی میں لے آیا جاتا تھا ورنہ گردن کٹنے کی سزا بھی یہاں کے مقدمات (Trials) کو مضحکہ خیز اور وحشیانہ بھی گردانتا ہے۔ ایک پا کستانی ہوٹل میں
جو چند پاکستان کھانا کھانے آئے تھے صرف اس قصور کی بنا پر کراچی ڈی پورٹ کر دئے گئے تھے کہ انھوں نے انصاف حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔ ناول کے ماجرے کا ایک اور اہم عصر رومانی ہے اور وہ زید کی اسکی ماں کی ایک رشتے دار خوب صورت لڑکی منیرہ سے محبت ہے، جو اس کو اس کے مخصوص گھٹے ماحول اور اقتصادی پس ماندگی کی بنا پر جھٹکے دیتی رہتی ہے اور دوسری طرف اس کا لالچی اور
بے غیرت باپ منیرہ سے اس کی شادی کرانے کے لیے اس سے ریال مانگتا رہتا ہے مگر اپنی عیاشی پر خرچ کرتا رہتا ہے۔ دوسرے شہر سے واپسی پر زید کو یہ معلوم ہو کر سخت صدمے سے گزرنا پڑتا ہے کہ اس کا باپ خائن نکلا۔ وہاں یہ بھی رواج تھا کہ لڑکے اور لڑکی کی شادی کرانے والے دولہا اور دلہن کے والدین سے خاصی رقم اینٹھتے ہیں لہذا زید کے باپ کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ زید کی محبوبہ منیرہ ہے، جو اس کی ماں کی رشتے دار ہے، زید کی شادی کرانے پر رقم لی جائے۔
غرض زید جیسا شخص جو اپنے ماحول کا شاکی ہے اور چاہتا ہے تمام غلط رسوم و رواج اور گھٹیا انکار اس کے معاشرے سے خارج ہو جا ئیں اور وہ سب مہذب کہلا ئیں گھٹن کا شکار ہو جاتا ہے۔ ادھر منیرہ کے متعلق اسے یقین تھا کہ وہ جان چکی ہے کہ اس کے آمدنی کے ذرائع محدود ہیں، اس کا الیکٹرونک کی اشیا سے بھرا فلیٹ نہیں ہوگا، وہ اسے معاشی خوشیاں نہیں دے سکے گا اور یوں وہ کسی دن کسی امیر شخص سے شادی کرلے گی۔
پھر یہ دکھایا گیا ہے کہ منیرہ کی شادی کسی شیخ سے ہوگئی۔ پہلا بچہ ہونے کے بعد وہ عجیب سی بیماری میں متلا ہوگئی تھی۔ اس کا ہر وقت پیشاب رستا رہتا تھا۔ اس کابچہ مر گیا تھا اور اس کی بچے دانی کالی گئی تھی جو کہ ضروری تھی مگر شاہی خاندان سے متعلق اس کا شوہر بچہ چاہتا ہے۔ منیرہ کے کئی آپریشن بھی ہو چکے تھے۔
وہ غالباً لبنان کے ایک اسپتال میں داخل تھی جب زید نے اس سے ملاقات کی تھی۔ وہ سجھتا تھا کہ منیرہ عرب تیل کی طرح تھی جس کو جلد سے جلد ختم کیا جا رہا تھا یعنی زندگی کے اس نے حصے میں وہ تیل کے خالی کنویں کی طرح تھی ۔ (ص۱۷۰) زید کے لیے دوسرا دھچکا یہ تھا کہ اس کی شاعرہ بہن لوو گھر سے اس کی ماں کی زیادتیوں کے باعث بھاگ گئی تھی، بعد میں پتہ چلا تھا کہ وہ ایک چھوٹے سے عرب ملک میں،
جو ہیرات اور مونٹی کارلوسے بڑا کسنیو (Casino) بن چکا تھا، مقیم تھی اور جسم فروشی سے متعلق تھی مگر وہ کئی بیماریوں میں بھی مبتلا تھی ۔ اس اطلاع پر اس کا دل دکھتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ وہ ایسے کرنسی نوٹ کی طرح ہوگئی ہوگی جو سر کولیشن میں نہ رہا ہو اور جسے قومی بنک واپس لے لیتا ہے اور وہ غائب ہو جاتا ہے۔ وہ سوسائٹی میں سرکولیشن سے غائب ہو گئی۔ یہاں سمندر چاروں طرف ہے اور اس پانی میں شارکس بھی ہیں۔
پتہ نہیں قدرت کے کسی بنک نے اسے واپس لے لیا۔ (ص ۱۷۵) زید کے حوالے سے المیاتی صورت ہائے احوال کا جابجا اسی طرح استعاراتی بیان حسن منتظر نے کیا ہے جو فکشن نگار کی حیثیت سے ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ زید کا یہ جملہ لولو اور زید کی فیملی کی تاریک زندگی کے المیہ کو خوب بیان کرتا ہے۔ "مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ کسی جرم کی پاداش میں اسے ایسا زندگی بھگتنی پڑی۔ (ص: ۱۷۵) ناول کا اختتام ایک استحصال زدہ عرب معاشرے کے اس المیہ کو بیان کرتا ہے جو
صدیوں کے بعد بھی اپنے لیے کوئی باوقار معاشرت اختیار نہ کر سکا اور صدیوں پرانی ہی قابل مذمت روایات پر گامزن ہے اور جہاں زید جیسے روشن خیال، جمہوریت پسند اور سماجی انصاف کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے انسان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ اب چند تصاویر بجائے ماضی کی یادوں کو قلم بند کر رہا ہے اس میں لولو مظلوم کی تصویر تھی جو شاعرہ تھی اور جسے پرسکون زندگی نہ مل سکی اور جو معدومیت کی طرف گامزن تھی۔ منیرہ نے اسے اپنی تصویر نہیں دی تھی اور کہا تھا کہ یادوں کی تصویر سے کام چلاتا اور باپ کی تصویر بتاتی تھی کہ بے وقوفوں
جیسے چہرے والوں سے ہمیشہ بچار ہوں کہ انھیں پہچانے میں وقت لگتا ہے جب کہ چالاک لوگ پہلی نظر میں بھانپ لیے جاتے ہیں۔ آخر میں وہ اپنے لیے نفسیاتی تسکین کا اہتمام کرتا ہے۔ وہ اپنی طویل کرب سے بھر بھرپور زندگی کو جس کو کہ وہ اپنے باپ اور ماں کو برا بجھتے رہنے کی قدرتی مزا سمجھتا ہے اسے اب وہ نہ گناہ سمجھتا ہے اور نا اہم وہ اب زندگی گزارنے کا مقصد بتاتا ہے۔ "صرف میری ایک مدافعت ہے۔… اپنی زندگی کا دفاع ۔ (ص ۱۷۶)
زید نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اب وہ اپنے ملک میں واپس نہیں جائے گا۔ اس کے اس فیصلے کی معنویت کو وہ ماجرا ظاہر کرتا ہے جس کی عکاسی کی جاچکی ہے۔ اگر وہ اپنے بدو ماحول ہی میں واپس آتا ہے تو اس کا کرب کئی گنا بڑھ جاتا۔ اس کا باپ جو آخری وقت تک اس سے خرچہ لیتارہا تھا اس کی بوٹیاں نوچتا اور پھر اس سے مطالبہ کرتا کہ اپنے فلیٹ میں مجھے شراب کی بھٹی (Distillery) قائم کرنے کی اجازت دو تا کہ خوب آمدنی ہو اور دیگر بھائیوں کی تعلیم ہندو بہت ہو اور بہنوں کی اچھی جگہ شادیاں ہوں !
اس کے علاوہ اسے کبھی یہ اچھا نہیں لگا کہ ایک سپاہی زبردستی نماز کے لیے دکانیں بند کراتا ہو، ملک کے سربراہ پر ذرا سی بھی تنقید سے انسان کو ڈنجین ( زمین دوز جیل ) میں پھنکوایا جاتا ہو، اخبارات میں سب اچھا کی خبر میں چھاپی جاتی ہوں، عورتوں کو محض عیاشی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو، مغربی آقاؤں کے لیے خواتین کچھ اور ہوں ، سزاؤں جا مضحکہ خیز نظام ہو ، عوام الناس کی رائے کی کوئی اہمیت نہ ہو،
جہاں ملک کا زیادہ تر خزانہ حکمرانوں اور ان کے بچوں کے تصرف میں ہو، جہاں یونی ورسٹی کے اساتذہ کو سخت سزائیں دی جاتی ہوں اور جہاں باہر سے آنے والے اخبارات، رسائل اور کتب کی سخت چھان بین ہوتی ہو یعنی انسان ریاست کا غلام ہوا۔حسن منظرر نے اپنے لوکیل (Locale) سے ہٹ کر ایک مختلف عرب لوکیل کی جس طرح حقیقت پسندانہ عکاسی کی ہے اس پر انھیں داد ملنا چاہیے۔ یہ ناول مقامیت سے بین الاقوامیت تک ماجرائی سفر کرتا ہے اور قرآن میں بیان کردہ اس تاریخی واقعہ کو بھی اپنی گرفت میں بطور وژن (vision) لے لیتا ہے
جب ایک قوم پر سخت آندھی بھیجی گئی تھی کیوں کہ وہ اللہ کے نا فرمان ہو گئے تھے اس کا بیان اس طرح ہوا ہے:” لگتا تھا ایسی ہوا قوم عاد پر بھیجی گئی ہوگی جو ان کی آبادیاں ختم ہو گئیں۔ (ص ۱۵۳)دراصل زید ایک دن کی اس فضا کو بیان کر رہا ہوتا ہے جب کہ سخت آندھی یا ریت کا طوفان آیا ہوا تھا اور پھر اسے اپنا تک قوم عاد کا حشر یاد آتا ہے۔ یہ حوالہ یہاں بے مقصد نظر نہیں آتا۔
ناول کے آخر میں جب زید ہر طرف سے مایوس ہو کر بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ڈپریشن (Depression) کی حالت میں اپنے آپ کو تسلی دینے کی خاطر اپنی بقیہ زندگی گزارنے کے مقصد کو اپنی زندگی کا دفاع تصور کرتا ہے تو العاصفہ یعنی سخت آندمی کے مندرجہ بالا حوالے کا مقصد سمجھ میں آجاتا ہے جسے ہم گہری معنویت کے ساتھ جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔ یعنی ایک قوم کے انجام کا تصور کر سکتے ہیں جو نا فرمانی میں جب بہت آگے نکل جائے تو عذاب سے نہیں بچ سکتی، لیکن کیا حسن منظر کا وژن (vision) یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ انقلاب بھی تو آیا کرتے ہیں جیسے کہ روس،
فرانس اور ایران میں انقلاب آئے جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کے مارے جانے کے بعد ایک نیا سماج پیدا ہوا؟ لیکن یہاں انقلاب کا دکھایا جانا ایک مصنوعی عمل ، ایک فلٹا سیائی عمل (Act of Fantasy) ہوتا اس لیے کہ عوام کی اکثریت جمہوریت کے معاملے میں لاتعلق ہے یعنی یہاں Apolitical ہے ! صرف ایک پر اسرار اور خفیہ کردار عبد الرحمن ہے جس کو کمیونزم کی حمایت میں باتیں کرتا ہوا دکھایا گیا ہے مگر وہ بھی غالباً غائب کر دیا گیا یا خود غائب ہو گیا تھا۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں جاسوسوں اور ان کے گماشتوں کا جال بچھا ہوا وہاں انقلاب بہت طویل عرصے بعد آتا ہے اور پھر جہاں جمہوری شعور اور حقوق کا احساس جدید عہد میں محدود افراد میں پروان چڑھتا ہو وہاں تبدیلی کے لیے لیے عرصے درکار ہیں۔ ہاں ایک عنصر جنگ کے نتیجے میں عظیم تبدیلیاں وجود میں آتی ہیں۔ یہاں اس امکان پر بھی بات نہیں کی گئی ہے سوائے زید کے انفرادی سطح کے فیصلے کے کہ العاصفہ” یعنی سخت آندھی سب کچھ بدل ڈالے !
بہر صورت ایک معاشرے کی ایسی حقیقت پسندانہ عکاسی جہاں ظلم ، استحصال، بے بسی گھٹن اور بے انصافی کا راج ہو بذات خود مصنف کے قلم کا کمال گردانا جانا چاہیے۔ اس سے قبل رشید و رضویہ کے دو ناول یعنی لڑکی ایک دل کے ویرانے میں اور گھر میرا را سے غم کے عراق اور اس کے قریب کے چند عرب ممالک کے کرداروں کے توسط سے خاص طور پر عراق کی پر انتشار صورت حال کی کامیاب فنی و فکری عکاسی کر چکے ہیں جس سے متاثر ہو کر ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا تھا کہ رشیدہ رضویہ نے ایک نئی الف لیلی مرتب کی ہے۔ "العاصفہ” میں اس الف لیلیٰ کا پارٹ ٹو (Part two) دکھایا گیا ہے۔ مقامیت سے بین الاقوامیت تک کے اس پہلو کا اثبات قرۃ العین ین حیدر نے بھی آگ کا دریا اور "گردش رنگ چمن” میں کرایا ہے۔ تاہم حس منظر کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے ایک عرب ملک ہی صحیح معنوں میں فوکس کیا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ آنے والے دور میں اردو ناول کا رجحان بن جائے کہ چند پاکستانی کرداروں کو لے کر ایک غیر ملکی سماج کے سماجی، سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی سروکاروں کی منظر کشی کی جائے۔ بہر صورت ایک مخصوص عرب ملک کے بارے میں زید نامی کردار کے حوالے سے وہاں کے سروکاروں کو اپنے مخصوص اسلوبیاتی فن اور ماجرے کے دل کش ٹریٹ میٹ کے ساتھ حسن منظر نے پیش کیا ہے جس کو یقیثنا سراہا جانا چاہیے۔
اردو ناول کے ہمہ گیر سروکار، ص49
مزید یہ بھی پڑھیں: حسن منظر کا ناول العاصفہ کا تنقیدی جائزہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں