حسن عسکری کے تنقیدی نظریات | از عاصمہ کاظمی

حسن عسکری کے تنقیدی نظریات

افسانہ و ناول کی طرح اردو تنقید کی باضابطہ ابتدا بھی مغرب کے زیر سایہ ہوئی ہے۔ اس لئے اردو تنقید پر مغربی ادب کے اثرات نمایاں رہے بلکہ زندگی، سماج، کائنات سب کو دیکھنے کے زاویے اور برتنے کے اسلوب میں مشرق و مغرب کی کشمکش کا آغاز بھی ہوا۔

اس طرح انیسویں صدی کے آخر تک صرف ادبی منظر نامہ ہی نہیں بدلا بلکہ ایک تہذیبی پس منظر بھی وجود میں آگیا۔ پھر روایتی ادبی شعور اور مغربیت کی کشمکش میں ایک نئی ہلچل تب پیدا ہوئی جب کمیونسٹ انقلاب کے ساتھ ترقی پسند ادبی تحریک کا زور و شور اور اس کی گونج اردو زبان و ادب میں سنائی دینے لگی۔محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصلی نام اظہار الحق تھا۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ میں حاصل کی۔

1940ء میں بی اے اور ایم اے الہ آباد یونیورسٹی سے کیا۔ آپ شروع میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں سٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 1945ء میں اینگلو عربک کالج دہلی میں لیکچرر کی حیثیت سے عارضی تقرر ہوا، کچھ عرصے تک میرٹھ کالج میں لیکچر رہے اور اکتوبر 1947ء میں لاہور منتقل ہو گئے۔ کچھ عرصہ مجلہ "ماہ نور” کے مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔

آپ حلقہ ارباب ذوق کے انتظامیہ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے اردو اور انگریزی کے علاوہ فرانسیسی ناولوں کے تراجم بھی کیے۔ آپ مارکسیت کے خلاف لکھتے رہے اور زندگی کے اواخر میں اسلامی ادب اور تصوف میں گہری دلچسپی لیتے رہے۔محمد حسن عسکری کے ابتدائی تنقیدی تحریریں "جھلکیاں” کے عنوان سے ان کی وفات کے بعد رسالہ "ساقی” میں جمع کرکے شائع کی گئیں۔ ان کا پہلا تنقیدی مجموعہ "انسان اور آدمی” 1953ء میں جبکہ دوسرا تنقیدی مجموعہ "ستارہ یا بادبان” 1963ء میں شائع ہوا۔

تنقید کا تیسرا مجموعہ "وقت کی راگنی” کے عنوان سے 1979ء میں شائع ہوا جب ان کو فوت ہوئے ایک سال گزر چکا تھا۔ حسن عسکری حساب کے یہ وہ مضامین تھے جو "ستارہ یا بادبان” کی اشاعت کے دوران لکھے گئے ۔ محمد حسن عسکری کے ادبی کالموں کے مجموعے "جھلکیاں” کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ 1943ء تا 1947ء پر ان پر بیک وقت مختلف تنقیدی افکار و نظریات مرتب ہو رہے تھے۔ یعنی ایک طرف تو وہ "فن برائے فن” کے سب سے بڑے علمبردار والٹر پیٹر سے متاثر تھے

تو دوسری جانب عمرانی تنقید کے دو ابتدائی ناموں ساں بیو اور طین کے اثرات قبول کر رہے تھے۔حسن عسکری نے 1948ء میں سعادت حسن منٹو کے ساتھ مل کر ایک ادبی پرچہ کا اجراء کیا اور "اردو ادب” کے عنوان سے دو شمارے مرتب کیے۔ ان پرچوں میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ادب کو اتنا تو مقصدی ہونا چاہیئے کہ اپنے علاقے کی ضروریات کو سمجھے۔

اس لیے انھوں نے پاکستانی ادب کا نعرہ بلند کیا اور کہا کہ پاکستانی ادب میں پاکستانیت جھلکنی چاہیئے۔حسن عسکری کا قلم کم وبیش 40 برس روا ں رہا۔ انہوں نے فکشن اور افسانے سے اپنے ادبی سفر کا آغاز 1939ءمیں کیا۔ جب وہ تخلیق کار تھے تو ان کی تنقیدی بصیرت ان کے افسانوں میں شعور میں بھی جھلکتی ہے۔

اور جب تنقید لکھنی شروع کی تو اس میں بھی تخلیقی ذہانت اور سرگرمی کی چمک دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ مغربی ادب کے طالب علم اور استاد تھے اور انہوں نے مشرقی اور مغربی ادب کو ہمیشہ اس کی فکری و تہذیبی تناظر میں دیکھا۔ کسی قوم کی تہذیبی شناخت ادب میں کس طرح منعکس ہوتی ہے اور ادب کو پرکھنے اور جانچنے کے تمام آلے تہذیب سے کس طرح فراہم ہوتے ہیں یہ راز ہمیں حسن عسکری نے بتایا۔

حسن عسکری صاحب کا خیال یہ ہے کہ ہر تہذیب کو حق ہے کہ وہ اپنے ادبی اصول اور معیار خود طے کرے۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ کسی ادب پر کسی دوسری تہذیب کے معیارات مسلط کر دیے جائیں۔ ادب اور تہذیب کے رشتے کو واضح کرنا ، دلیل سے اس کو سمجھانا اور اس کو اپنی تنقیدی و ادبی بصیرت سے قائم کرنا حسن عسکری کا منفرد کارنامہ ہے۔ ان کے خیال میں کسی قوم کا ادب اس کی تہذیب کا جوہر ہوتا ہے اور کسی کا ادب اس کی تہذیبی خدوخال کا آئینہ اور تہذیبی سفر کا چراغ را ہ ہوتا ہے۔

محمد حسن عسکری کی تنقید کا ایک اہم حصہ تنقید اور اس کے فرائض کے بارے میں بحث کرتا ہے۔ تنقید کے اس فریضہ کے بارے میں سب سے پہلے انہوں نے چند بنیادی سوالات اٹھائے اور ان سوالوں کے جوابات میں ان کی تنقیدی سوچ، تنقید کے فریضہ کا کچھ تعین بھی کرتی ہے۔ کیوں نا ان مباحث کا پہلا حصہ تنقید کے فریضے کے بارے میں یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ آخر تنقید کا فریضہ کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر حسن عسکری اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ:

” تنقید کا فریضہ کیا ہو اور کیا نہ ہو، اس سلسلے میں کوئی مطلب اور مجرب قسم کا قانون نہ تو بنایا جا سکتا ہے اور نہ بنانا چاہیے۔ اس کا انحصار تو دراصل زمان و مکان کی مخصوص کیفیت پر ہے۔“( )

حسن عسکری یہ سمجھتے ہیں کہ تنقید کے فریضے کا تعلق اپنے زمانے سے ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ تنقید بجائے خود کوئی مطلق اور مستقل حیثیت نہیں رکھتی۔

تنقید کے متعلق انہوں نے پہلی بات تو یہ کی ہے کہ اس کا انحصار دراصل زمان و مکان کی مخصوص کیفیت پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور کا ادب مخصوص تہذیبی تقاضوں اور مخصوص ادبی روایات سے جنم دیتا ہے اور اس ادب کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے تنقید کے مخصوص طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنقید کے ساتھ محمد حسن عسکری نے نقاد کے بارے میں بھی کچھ باتیں کی ہیں۔

ان کے مطابق اگر کوئی نقاد کسی فن پارے سے لطف اندوز ہونے میں واقع کامیاب ہوجاتا ہے اور اس نے اس فن پارے سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت ہمارے اندر بھی پیدا کردی تو وہ بڑی حد تک اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو گیا۔ حسن عسکری خود بھی سب سے پہلے نقاد میں یہ ڈھونڈتے ہیں کہ وہ ادب کے لیے ہمارے اندر جوش وخروش پیدا کرتا ہے یا نہیں؟”

عسکری صاحب یہ جانتے تھے کہ تنقید، اخلاقیات اور جمالیات سے ہوتی ہوئی نفسیات تک پہنچی اور اس کے بعد تنقید دیگر علوم میں بھی داخل ہو گئی۔ اس لیے عسکری صاحب کے تنقیدی مضامین میں فرائڈ، ایڈلر، یونگ اور رائخ کے علاوہ ہولک ایلس کے ساتھ ساتھ دنیا جہاں کے علوم کا مطالعہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ “( )

فکشن کی تنقید میں حسن عسکری کے یہاں جو چیز سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے وہ موضوعات کا تنوع ہے۔ ہر طرح کے موضوع پر نظری اور عملی گفتگو ہی ثابت کر دیتی ہےکہ ان کا دماغ فکشن کے مسائل کو سمجھنے میں کس قدر کامیاب ہوا ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حسن عسکری نے کچھ دن کے بعد ایسے مسائل کو اپنے لیے چُنا تھا جس پر اس سے پہلے کسی نے نہیں لکھا۔ حسن عسکری صاحب نے ادب میں لفظوں اور افعال کے قحط کی بحث کا سرا محاوروں سے جوڑا ہے۔ انھوں نے محاوروں کے استعمال کو زندگی کے عوامل اور مظاہر سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق محاورات میں اجتماعی زندگی کی تصویریں، سماج کے تصورات ، فطرت اور کائنات کے متعلق سماج کا رو یہ سب باتیں جھلکتی ہیں۔

فکشن کی تنقید کے ضمن میں حسن عسکری صاحب کی جو تحریریں ملتی ہیں ان میں سے اکثر بنیادی نوعیت کی بحث کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ مثلا اپنے مضمون "فسادات اور ہمارا ادب” میں حسن عسکری صاحب نے ہمیں یہ بتایا کہ اردو میں جو افسانے فسادات کے متعلق لکھے گئے ہیں ان میں اکثر و بیشتر چند مخصوص خیالات کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح نثر اور اسالیب بھی عسکری کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔

انھوں نے فکشن کی تنقید محض وقت گزارنے کے لیے نہیں لکھی۔ ان کی بہت سی آراء اسے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر وہ اپنی تنقید کے ذریعہ اردو کو بہت سے نئے تجربوں اور نئے اسلوب سے روشناس کراتے رہے ہیں۔ حسن عسکری کی عملی تنقید میں نفسیاتی عوامل کی جانچ کا عمل ملتا ہے لیکن وہ فنکار کی شخصیت کو فن پارے پر حاوی نہیں کرتے۔ انہیں اس بات سے تو سروکار رہتا ہے کہ فن پارے میں فنکار کی کون کون سی ذہنی الجھنوں کا اظہار ہوا ہے

اور وہ اپنے فن کے ذریعے ان الجھنوں کو کس حد تک ارتفاع دے سکتا ہے لیکن وہ بعض نفسیاتی نقاد کی طرح اصل متن کو الگ رکھ کر ایک نئی کتاب لکھنا شروع نہیں کرتے بلکہ اسی متن کو روشن کر کے اس کی قدر و قیمت اور جمالیاتی قدر متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حسن عسکری کے نزدیک جدیدیت کا اصل اصول مروجہ اقدار سے انحراف ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ مذہب، اخلاقیات، معاشیات، سیاسیات یا پھر اس کے بعد مروجہ علوم صحیحہ تک بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی اقدار کو غلط اور ناکارہ ثابت کیا جائے۔

لیکن ظاہر ہے کہ یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک آپ کے پاس فیصلے کا کوئی معیار نہ ہو۔ اگر شاعری کی بات کی جائے تو حسن عسکری تخیل کو شاعری کی اساس مانتے ہیں۔ تخیل کے عمل کے بغیر فن پارہ وجود میں نہیں آ سکتا۔

بلکہ مردہ لفظوں کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔ آپ موضوعاتی شاعری کو شاعری تسلیم نہیں کرتے ان کا خیال ہے کہ ہر تجربہ شعر نہیں بن پاتا۔ تجربات جب تک شاعر کے جذبات و احساسات میں رچ بس نہ جائیں وہ شعر نہیں بن سکتے۔ وہ اپنے ایک مضمون "حالی کی مناجات بیوہ ” میں لکھتے ہیں کہ:

” اگر ادب کی افادیت ضروری قرار دی جائے تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ شعر کی افادیت شاعر کے خلاق ذہن کا ایک ادنیٰ پہلو ہے اور اس کے تخیل سے الگ ہوکر وجود میں نہیں آسکتی ۔۔۔ اچھا شاعر ہر چھوٹے بڑے تجربے کی فوری تجسیم کے لیے بے قرار نہیں رہتا۔۔۔۔۔ اس میں اتنا ضبط ہوتا ہے کہ وہ ان تجربات کو اپنے اندر جذب ہونے دے اور بعد میں انہی کی مدد سے کسی بڑے شعری مقصد کے حصول میں صرف کرے۔ “( )

حسن عسکری صاحب کے نزدیک شاعری کا اصل موضوع آدمی ہے۔ وہ آدمی اور انسان میں فرق کرتے ہیں۔ تہذیب کا پروردہ انسان ان کے نزدیک بے روح ہے۔ ہر لمحہ ہر چیز کو حیرت سے دیکھتا اور مسلسل اپنے حواس کے وسیلے سے اردگرد کی دنیا کو ایک نئے ڈھنگ سے محسوس کرتا آدمی ان کی توجہ کا مرکز ہے۔ وہ اس آدمی کو شاعری اور ادب کا اصل موضوع خیال کرتے ہیں۔ آپ اپنے مجموعے مضامین آدمی اور انسان کے دیباچے میں رقم طراز ہیں کہ:

” جب آدمی کو انسان بنا میسر آجاتا ہے تو وہ اس طرح بولنے لگتا ہے ” تکلف بر طرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھی۔ “( )

حسن عسکری اسی حوالے سے اپنی ایک اور کتاب میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں کہ:

” شاعری میں عظمت نہ تو وجود محض کے احساس کے بغیر آ سکتی ہے نہ ہستی کے تفصیلی شعور کے بغیر لیکن ہستی کا شعور کھو دینے کے بعد تو ادب کاغذ کا پھول رہ جاتا ہے۔ “()

حسن عسکری کے ادبی و تنقیدی کارناموں نے اردو ادب کو ایک نئی ثروت مندی عطا کر دی۔ ادبی دنیا میں تنقید نگار کی حیثیت سے محمد حسن عسکری کا خاص مقام ہے۔ آپ احتشام حسین، فراق گورکھپوری اور کلیم الدین احمد کے ہم پلہ نقاد کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کی تنقید کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ آپ کے تنقیدی شعور کا اثر اردو ادب پر تا دیر رہا۔ آپ کے یہاں موسیقی کی علمی و نظریاتی تنقید بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مصوری کے حوالے سے بھی آپ کے یہاں بہترین تنقید پڑھنے کو ملتی ہے ان تمام تنقیدی تحریروں میں تقویت، تکمیلیت اور عقائد کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔

” وہ بیک وقت اردو کے کلاسیکی اور جدید ادب ، انگلش اور فرانسیسی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ اردو کے واحد نقاد تھے جو روایتی اردو تنقید سے دور رہت۔ سوچ اور فکر کے اعتبار سے وہ اوریجنل نقاد تھے۔۔۔۔ ان کی تنقید کا دائرہ کار ترقی پسند و مارکسی تنقید ہی کے گرد چکر لگا سکتا تھا۔“( )

محمد حسن عسکری کی تنقیدوں میں متعدد جگہوں پر وسعت علم کے ساتھ ساتھ ذہانت اور ندرت فکر کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا تنقیدی اسلوب انفرادی جاذبیت رکھتا ہے۔ وہ ادب کے سنجیدہ مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھی گفتگو کا انداز قائم رکھتے ہیں۔ بات سے بات پیدا کرنا اور ایک بات کو مختلف رنگوں میں پیش کرنا اور ان کا طرز نگارش ہے۔ ان کے اسلوب میں ان کی شخصی خصوصیات بھی نمایاں رہتی ہیں۔ بطور تنقید نگار حسن عسکری صاحب کے رویے کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ ان کی تنقید اپنی ادبی اور تہذیبی میراث کی قدر و قیمت کو پھر سے قائم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ مبین مرزا لکھتے ہیں کہ:

” اردو ادب و نعت پر عسکری صاحب کے گہرے اثرات کا اندازہ محض اس ایک بات سے بھی ملک کیا جاسکتا ہے کہ انتقال کے کم و بیش چالیس برس بعد بھی ان کے افکار و نتائج ہماری تہذیب، اس کے نظام اقدار اور ثقافتی مظاہر سے گہرا بامعنی زندہ رشتہ رکھتے ہیں۔“( )

تمام باتوں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ حسن عسکری نے جس دلجوئی کے ساتھ ادبی تخلیقات اور انگریزی ادب پر ناقدانہ نگاہ ڈالتے ہوئے اپنے نظریات پیش کیے وہ ادبی حلقے میں بیش بہا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کی تنقیدی نگارشات اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ آپ نے گہرے مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر ہی اپنے خیالات کو پیش کیا ہے۔ ابہام اور جانبداری کا دخل کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بلکہ آپ کے مضامین آپ کے تنقیدی شعور کو سامنے لاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی آپ کی ناقدانہ بصیرت کی عظمت آج بھی قائم ہے۔

حوالہ جات

() مجموعہ حسن عسکری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1994ء، ص 257

() مجموعہ حسن عسکری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1994ء، ص 257

() تحسین زہرا، محمد حسن عسکری کی تنقید ، مشمولہ سالنامہ "روشنائی” ، کراچی، شمارہ 16،17، جنوری تا جون 2004ء، ص 48

() مجموعہ حسن عسکری، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1994ء، ص 257

() حسن عسکری ، حالی کی مناجات بیوہ ، مشمولہ "انسان اور آدمی” ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ص 89

() حسن عسکری ، ستارہ یا بادبان، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ، 1977ء، ص 17

() ایضا ، دیباچہ ، ص 10

() حسن عسکری ، ستارہ یا بادبان، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ ، 1977ء، ص 17

() تبسم کاشمیری، ڈاکٹر، محمد حسن عسکری کی تنقید اور مشرقی جمالیات، مشمولہ ، دریچہ تحقیق، شمارہ نمبر 2 ، اکتوبر، دسمبر 2020ء، ص 2

مزید یہ بھی پڑھیں: محمد حسن عسکری کے تنقیدی تصورات مقالہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں