حجاب امتیاز علی کے افسانوں میں رومانوی رویہ
رومانیت کو کلاسیکیت کے اعتدال ، میانہ روی ، عقلیت پرستی اور توازن کے اصرار کے خلاف بغاوت قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ یہ مروجہ اصولوں کی توڑ پھوڑ اور شکست وریخت من پسند جہاں کی تخلیق کو اپنا نصب العین بناتی ہے۔ جب کہ دوسری طرف نصب نصب العین کے حصول میں در پیش رکاوٹوں اور ناکامی سے دور چار ہونے پر قنوطیت اور غم پرستی کو بھی اپنا شعار بنا کر اُس میں لذت کشید کرتی ہے۔
گویا رومانویت نے ہر جذبہ کو اس کی انتہائی شکل میں پسند کیا۔ قوت وحیات کے مجسمے تراشے۔ انہیں تا بناکی اور تابندگی کے پرچم عطا کئے۔ کبھی انسانِ کامل کے خواب دیکھے تو کبھی مافوق البشر کی تصویر سے اپنے آئینے خانے سجائے“ (۱)
یہی وجہ ہے کہ رومانوی تحریک کے تحت فروغ پانے والے ادب میں بھی ایسے مافوق الفطرت کردارو واقعات کو پیش کرنے کی کاوش کی گئی جن کا حقیقی زندگی سے محض وہم اور فریب کا تعلق ہوتا ہے
اور حواس کی دنیا کی ٹھوس بنیاد سے یہ سب چیزیں محروم ہوتی ہیں۔ جہاں تک اُردو ادب کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں بیسویں صدی کی تیسری و چوتھی دہائی میں رومانویت کے تحت تخلیق پانے والے شعر و نثر میں ٹیگور کی ہندو بھگتی
اور فطرت کی طرف جذباتی لپک سے فروغ پاتی ماورائیت، اقبال کی جذبہ وجدان کی افراط اور غلبے سے مغلوب روایت شکنی، ابوالکلام آزاد کی رومانوی انانیت، تخیل کی فراوانی اور شدت جذبات سے متصف نثر کو اگر رومانویت کی تثلیث قرار دیا جائے تو بے جانہ ہوگا۔
جس میں وطن سے محبت اور آزادی ایسے پہلو کی آرزومندی نے نو جوانوں کو بھی مثبت اقدار کے فروغ کی طرف گامزن کر دیا۔ نیز مخزن کی ادبی تحریک نے ان نوجوانوں کو ایک ادبی پلیٹ فارم عطا کیا۔ (۲)
ڈاکٹر انور سدید اس دور میں اسلوب و ہیئت اور معنی کی نیرنگیوں سے بھر پور تجربات کو اسی پلیٹ فارم کی عطا قرار دیتے ہیں۔
( ۔۔۔۔ مخزن نے لطافت اور رومانیت کی جس تحریک کو فروغ دیا تھا وہ ختم ہونے کی بجائے پھیل گئی اور اسے ان نو جوانوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا جو انگریزی علوم سے بالعموم واقف تھے۔۔۔(۳)
) محمد حسین آزاد، ناصر علی دہلوی، عبدالحلیم شرر، علامہ اقبال ، ابوالکلام آزاد، سجاد حیدر یلدرم، سجاد انصاری، مہدی افادی ، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، نیاز فتح پوری، قاضی عبد الغفار، مجنوں گورکھپوری اور میرزا ادیب کو اسی رومانوی تحریک کی ابتدائی ، ثانوی اور اختتامی کڑیاں قرار دیا جا سکتا ہے۔ مرد ادباء کے ساتھ ساتھ رومانوی افسانوی نثر کے حوالے سے اہم نسوانی نام زینب خاتون،
مسز عبد القادر اور حجاب اسماعیل کے بھی ہیں ، جن کی کہانیاں اس عہد میں رومانوی فضاء ، خوف و تحیر ، اسراریت ، تو ہم پرستی، حسن و عشق کی داستانوں اور ان دیکھی دنیاؤں کی سیر کے حوالے سے مشترک ، رومانوی طرز احساس کی حامل نظر آتی ہیں ۔ تاہم فی الوقت ہمارا موضوع حجاب اسماعیل ہیں کہ جو معروف ادیب امتیاز علی تاج سے شادی کے بعد حجاب امتیاز کے نام سے ادبی منظر نامے کا حصہ بنیں۔
بر صغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی پہلی مسلمان خاتون پائلٹ کا امتیاز پانے والی حجاب نے حیدر آباد دکن میں سیکرٹری کے عہدے پر فائز سید محمد اسماعیل اور اُس وقت کی مشہور کہانی کا ر عباسی بیگم ( نذر سجاد حیدر کی ہم عصر) کے متمول گھرانے میں آنکھ کھوئی (۴)
یوں حجاب امتیاز نے شروع سے ہی روشن خیال ، مہذب اور تعلیم یافتہ و وسیع القلب والدین کے آزاد ادبی ماحول میں نشو و نما پائی ۔ جہاغ والد کے سرکاری دوروں میں سیر و سیاحت سے لطف اندوز ہونے والی حجاب کے ادبی تخلیقی مراج نے فطری حسن سے نہ صرف خط کشید کیا بلکہ اسے اپنی ذات کا بھی اس طرح حصہ بنا لیا کہ پھر ان کی
کہانیوں میں بھی کہیں کثافت کا گمان پیدا نہ ہو سکا ۔ حجاب کی ابتدائی تعلیم و تربیت اُن کے گھر میں ہوئی ۔ بعد ازاں وہ مدراس کے سینٹ تھا میس کو نونٹ سکول میں داخل ہو گئیں۔ جہاں اُنہوں نے سینئر کیمبرج کیا ۔ (۵)
گیارہ برس کی عمر میں والدہ کے انتقال اور جدائی نے حجاب کو گہرا صدمہ پہنچایا ۔ مرثیوں پر مشتمل نثر لطیف کی کتاب ” نغمات موت بھی اُنہوں نے اپنی والدہ کی وفات کے دکھ میں لکھی۔ بعد ازاں اُن کے افسانے اُس وقت کے مشہور ادبی رسالوں ساقی، دلکش، تہذیب نسواں اور نیرنگ خیال میں تسلسل سے شائع ہوتے رہے۔ امتیاز علی تاج
( کہ جو اُس وقت تہذیب نسواں کے ایڈیٹر تھے ) سے خط کتابت کا سلسلہ بھی انہی کہانیوں کی بدولت ہوا، جو ۱۹۳۴ء میں جنوبی ہند میں پٹیای کے مقام پر شادی پر منتج ہوا۔دوسری طرف امتیاز علی تاج کی والدہ اور حجاب امتیاز کی ساس محمدی بیگم کا شمار بھی اہم قصہ گو خواتین میں ہوتا تھا۔
حجاب امتیاز کو برصغیر کی پہلی نامور خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جہاں تک اُن کے افسانوی موضوعات کا تعلق ہے تو حجاب کی افسانوی دنیا رنگوں ، خوشبوؤں اور روشنیوں کے ساتھ تہواروں کی رنگینیوں سے ترتیب پاتی ہے۔ اس پر حجاب کے گھر کا خواب ناک رومانوی افسانوی ماحول بھی اُن کی تصوراتی دنیا کو اعتبار بخشتا رہا۔
فطرت کے خوبصورت مناظر کا جادو اُن کی کہانیوں میں سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔ اُن کے ہاں روشن چمکتی دھوپ ، سردیوں کی خنک ہوائیں ، رات کے سنہرے تاروں بھرے آسمان میں لرزتے جھلملاتے ستارے، سبزی مائل آسمان ، شیشم کی ٹہنیاں، زردلیموں کے درختوں پر بیٹھے رات کی خاموشی میں رسیلے اُداس گیت گانے والے پرندے،
مغموم بلبل کا دردناک راگ اور خزاں کی ہوا میں گرتے سوکھے پتوں کی سرسراہٹ، جہاں کہانی کار کے فطرت سے لگاؤ کی نشاندہی کرتے ہیں وہیں کہانیوں کی طلسمی فضا کے ساتھ ساتھ کہانی کار کا شاعرانہ اسلوب اور سوز و گداز میں ڈوبی لے بھی اُن کی کہانی کو رومانوی ظاہر کرتی ہے۔ مرزا حامد بیگ حجاب کی رنگوں ، آوازوں اور طلسمی فضا کی حامل افسانوی دنیا اور کرداروں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :۔
(ہندوستان کے جنوب میں ضلع کرشنا، دریائے گوداوری کے کنارے فرساپور کے مضافات حجاب کے افسانوں کے لئے لینڈ اسکیپ مہیا کرتے ہیں۔ جہاں کنول کے مہکتے پھولوں سے بھرے تالاب اور دھان کے گہرے سبز کھیت لہلہاتے کیوڑے کے جنگل
، تاڑ کے نمایاں درخت اور ٹھہرے ہوئے پانی میں گہرے گلابی پروں والی قد آدم حواصلیں ، جو سارا سارا دن ایک ٹانگ پر سرنگوں رہتی تھیں کال کلچیاں اور کالی سنگھا پوری مینائیں اور اس پر کالی راتوں میں دریا کے دونوں کناروں پر اگیا بتیال کی ہیبت ناکی حجاب نے پہلی بار بصری رومانیت کا تجربہ کیا۔ (۶)
جب کہ ڈاکٹر انوار احمد حجاب کی اس طلسمی افسانوی دنیا کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھتے ہیں: ←
حجاب کے افسانوں کا عمومی زندگی سے کوئی تعلق نہیں اور معلوم اسباب کی بنیاد پرتعلق ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ سر سراتے ریشمی پردوں سے گزر کر یوکلپٹس اور صنوبر کو چھو کر آنے والی ہوا کا وہ شیدائی نہیں ہو سکتا جو سیاسی غلامی، معاشی استحصال اور سماجی تذلیل کا شکار ہو۔ اسی طرح سیامی بلیوں سے وہی کھیل سکتا اور کھیلنے دے سکتا ہے، جس کے اپنے بچے بھوکے نہ ہوں ۔۔۔ (ع)
تاہم ڈاکٹر انور سدید حجاب کے افسانوں میں محدود موضوعات کے باوجود ان کی رومانویت کے حوالے وسے اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ حجاب امتیاز نے رومانیت کو زندگی کی ایک مثبت قدر کے طور پر قبول کیا ہے اور اس زاویے کو کہانیوں میں خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ تاہم انہوں نے زندگی کی جو روشن تصویریں تیار کی ہیں ان کا دائرہ وسیع الاثر نہیں (۸)
حجاب کے مشہور افسانہ صنوبر کے سائے میں ایک منظر کی فطرت کی ترجمانی ملاحظہ فرمائیں :
"منظر بتدریج وارفتہ سا ہوا جارہا تھا۔ ہواؤں میں پانی کے چھیڑوں کی موسیقی بڑھ رہی تھی۔ پانی کی چھوٹی چھوٹی لہروں کی آوازوں پر شبہ ہوتا تھا جیسے نہیں دور خواب کے جزیرے میں پانی برس رہا ہو۔ فطرت اپنی بے ساختہ رعنائیوں کا دامن پھیلائے ہوئے :(۹)
دراصل حجاب امتیاز کی افسانوی دُنیا فرضی رومانوی کہانی اور داستانوی مافوق الفطری فضا کے ساتھ ساتھ شکوک و شبہات سے جنم لینے والے المیہ عناصر اور اوہام پرستی سے بھی لبریز دکھائی دیتی ہے۔ نیز ان کی کہانیوں کا ایک اور اہم رنگ خوف و ہراس اور بیبت سے مہمیز پاتی فضا ہے جو مسز عبد القادر کے ہاں بھی خصوصیت کے ساتھ ملتا ہے۔ اسی طرح حجاب کی سیدھی سادی رومانوی فضا میں بھی یکا یک وسو سے ملنے لگتے ہیں اور نا معلوم ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے باعث رومانوی لطیف فضا کسی حد تک کثیف اور آلودہ ہونے لگتی ہے۔
یہ اور بات کہ محیر العقول واقعات روحانیات اور اوہام پرستی کے حوالے سے ان کا رویہ بھی حیرت بھرے استفسار کا ہے اصرار کا نہیں ۔ یہ اور بات کونٹ الیاس کی موت اور دوسرے بیبت ناک افسانے میں موجود کہانیاں اسی صورتحال کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ اور بات کہ کونٹ الیاس کی موت اور دوسرے بیت ناک افسانے میں حجاب کی کہانیاں ، ایک باشعور وتعلیم یافتہ کہانی کار کے نفسیاتی شعور اور تجزیے کی بھی حامل دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً افسانہ میاں بیوی میں حجاب ازدواجی رشتے کی یک رنگی کے حوالے سے سے لکھتی ہیں۔
ماخذ: حجاب امتیاز علی اردو فکشن کی پہلی رومانوی نسائی آواز | pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں