جیلانی کامران کی نظم نگاری

جیلانی کامران کی نظم نگاری کا تنقیدی جائزہ

لسانی تشکیلات کی تحریک کی سربرآوردہ شخصیات میں سے ایک جیلانی کامران ہیں۔ وہ بنیادی طورپر طور پر جدید نظم نگار ہیں۔

اپنے دوسرے ہمنواؤں کی طرح جیلانی کامران نے بھی اردو شاعری کے روایتی اور کلاسیکی رویوں سے یکسر انحراف کر کے جدیدیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ پہلے پہل ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ پھر حلقہ ارباب ذوق میں شامل ہو گئے ۔

ان کی نظمیں سر مرقد اور بت ساز کی وصیت ان کے ترقی پسندی کے رجحان کی نمائیندگی کرتی ہیں۔ ان کے منظومات کے جو مجموعے شائع ہوئے ان کی ترتیب یوں ہے۔

استانز نے 1909 ء میں مکتبہ ادب جدید لاہور نے شائع کیا۔ اس مجموعے کی بیشتر نظمیں ان کے ایڈ نمبر میں قیام کے دوران لکھی گئیں مجموعی طور پر ان نظموں کا اثر خوشی کی کیفیت کا اظہار ہے۔

تاہم تقسیم کے وقت سے دکھ بھرے واقعات کا اثر بھی موجود ہے۔ ان نظموں فطرت کے مناظر و مظاہر شاعر کے کامل ذوق استحصان کا ثبوت ہیں۔ نیز وہ اسلامی نجمی روایات ، اساطیر اور مقامات کا ذکر بھی کرتے ہیں یہاں ان کے ہاں روحانیت اور تصوف کا رجحان بھی نظر آتا ہے۔

انہوں نے اپنی نظموں میں ریت، چاند صحرا اور اونٹ وغیرہ کے استعارے بھی استعمال کئے ہیں۔ استعارے کی نئی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے استانزے کے دیباچے میں اپنی نظم میں الفاظ کو رویتی مفاہیم کی جگہ نئے دور کے تقاضوں کے مطابق نئے معنوں میں استعمال کرنے کی بحث یوں کی ہے۔

"ہم اپنی نظموں میں جو زبان استعمال کرتے ہیں اس کا ایک مخصوص طرز بیان ہے یہ طرز بیان مختلف ترکیبوں استعاروں محاوروں الفاظ میں بدشوں اور دوسری لسانی جزئیات سے پیدا ہوتا ہے۔

جسے ایک لمبے عروصے سے پڑھ پڑھ کر نہ صرف کان منجھا چکے تھے بلکہ اب تو آنکھیں بھی اور آنکھوں کے ساتھ ہاتھ بھی دیکھ دیکھ کر اور لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں۔ شاعر اور شاعری دونوں مردہ لفظوں کا تابوت اٹھائے بھی دائیں اور کبھی بائیں گزارتے ہیں

لیکن نہ تو مردہ لفظوں میں زندگی جاگتی ہے اور نہ ہی شاعروں کے رستے ہو لنے سے کوئی خوشگوار صورت پیدا ہوتی ہے۔ (۱)

انہوں نے اسلامی تہذیب و ثقافت اور روایات کو اردو نظم میں داخل کر کے اسلامی ادبی قومیت کو اجا گر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظموں میں ایسے کردار اور دیگر حوالے ملتے ہیں جو ان کے اس آردش کے تحت لائے گئے ہیں ۔ "ادبی نمر” میں ان کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

ادبی نمر سے تذکرہ کرتے ہیں، سب درخت

کہتے ہیں اس جے گیت تھے فارس کے گل کدے

فارس۔۔۔۔جہاں خدا کو وہ کہتے ہیں آرمز

اور جس جگہ زمین کی سرخی کو رات کے

انہوں نے اپنے دوسرے مجموعے ” چھوٹی بڑی نظمیں” کے دیبا چے میں لکھا ہے۔

(کوئی بھی شاعری ادبی قومیت کے نظریے سے غیر اپنا درست مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ ہر ادبی کارگزاری کی بنیادی عقیدے پر قائم ہوتی ہے اور اس کے بغیر ہر کوشش اور انداز فکر بے مقصد ثابت ہوتے ہیں۔ ←

میرا مطلب یہ ہے کہ ہر ملک کی شاعری منفر دوہتی ہے۔ سیاسی اور اقتصادی حقیقتیں ملکوں کے مابین مشترک ضرور ہوتی ہیں مگر شاعری میں انفرادیت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ (114))

وہ جس ادبی قومیت کی بات کرتے ہیں اس کے مطابق ان کی نظموں میں پاکستانیت کے عناصر ہونے چاہئے تھے۔ لیکن ادبی نمر، فارس، گل کدہ آرمز اور فاطمہ اسلامی قومیت یا ملت کے استعارے تو ضرور ہیں

لیکن جغرافیہ کے اعتبار سے انہیں پاکستانی قومیت سے کیسے منسوب کیا جائے ۔ رشید امجد نے ان کی نظموں میں ادبی قومیت پر اظہار خیال کیا۔

"جیلانی کامران شاعری کو عربی عجمی روایات کے ساتھ سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں اس کے لیے وہ کوئی واضح اصول مقرر نہیں کرتے ۔

سوال یہ ہے کہ دجلہ فرات کا ذکر کرنے سے کونسی ادبی قومیت وجود میں آئے گی۔ (۱۲۰))

پاکستان کا ادبی مزاج اسلامی تہذیب کی روایات کا حامل تو ضرور ہے لیکن اس کے جغرافیائی اور اراضی حوالے اپنی ایک مخصوص شناخت بھی رکھتے ہیں جن کا ذکر ان کی نظموں میں بہت کم ملتا ہے۔

البتہ ان کے تیسرے مجموعے چھوٹی بڑی نظمیں میں اتار کا پیڑ، ننھی بچی ، پاگل لڑکا اور بوڑھا اُستاد میں مقامیت کے عناصر نظموں کی مجموعی فضا کے ساتھ مل کر دھرتی کی سے محبت اور اپنی تہذیب سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ۔

ان کا یہ دوسرا مجموعہ ( چھوٹی بڑی نظمیں ) ۱۹۶۷ میں شائع ہوا ۔

اس میں ان کی سمصرف ۱۴ نظمیں ہیں ۔ باقی ۱۲ نظمیں فاروق حسن کی لکھی ہوئی ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ان نظموں کے ذریعے انہوں نے اردو شاعری میں انقلاب لانے کی کوشش کی ہے۔

(چھوٹی بڑی نظمیں لکھ کر اور اکٹھی کر کے ہم نے نئی اردو شاعری کو کتابی علم جھوٹے تجر ہے اور درآمد کی ہوئی ادھوری معلومات سے باہر نکال کر سیدھی سادی سچائیوں کے قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ (۱۳۱))

اس مجموعے کی منظومات آزاد نظم کی ہیئت میں ہیں ۔ ان میں انہوں نے ذاتی احساسات و تجربات کو یوں منظوم کیا ہے۔ کہ تمثالوں کی مختلف تہوں میں سے اپنے ماحول اور تہذیب کے حقائق جھلکتے نظر آتے ہیں۔

بلکہ یہاں قوم کے افراد احساسات و جذبات کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے انہوں نے انہوں ان کرداروں کے بارے میں لکھا ہے۔

(ہم نے ہر نظم کے وسط میں جس مرکزی کردار کو پیش کیا ہے وہ مرکزی کردار ہماری معاشرت کے کسی نہ کسی پہلو کا آئینہ دار اور ہماری ملکی اور قومی زندگی کا نمائندہ ہے ۔

یہ کردار کسی نہ کسی طرح اس پیچیدہ کیفیت کا مظہر ہے جو ہمارے ملک میں موجود ہے اور برابر آشکار ہو رہی ہے ۔ (۱۲۲))

تخلیق کار خواہ ادیب ہو یا شاعر یا مصور اپنے ماحول اور معاشرہ کے اثرات سے اپنی تخلیق کو نہیں بچا سکتا ۔ تہذیب و روایات کا اثر بھی قبولیت یا انحراف کی صورت میں کہیں نہ کہیں ضرور آشکارا ہوتا ہے۔

تخلیق کار اسے بعض اوقات محسوس بھی نہیں کر رہا لیکن تنقید کرنے والے یا قاری یا سامع پر نظر مطالعہ سے یہ اثرات واضح ہو جاتے ہیں۔ جیلانی کامران نے اردو نظم کے جدیدر جحانات کے بارے میں لکھا ہے:۔

(اردو نظم کے جدید رجحانات نے نظم کو ہمارے تہذیبی باطن کے قریب تر لانے میں بڑی مدد دی ہے اور تاریخی اعتبار سے وہ فکری خلاء اب باقی نہیں رہا جو عہد اقبال کے فوراً بعد جدید نظم کی صورت میں ظاہر ہوا تھا ۔

اردو نظم ہماری تہذیبی سرشت کی مربوط تاریخی اور فکری روداد بن کر ہمارے مرکزی تخلیقی روایت بن چکی ہے ۔ (۱۳۳))

"نقش کف پا” ترتیب اشاعت کے اعتبار سے ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جو ۱۹۶۲ء میں شائع ہوا۔ یہ ایک طویل ڈرامائی نظم ہے۔

اس میں وہ انسان کی زندگی کا رخ معمول کی زندگی سے اعلیٰ اقدار کی حامل زندگی کی طرف موڑنا چاہتے ہیں اس نظم میں سات چھوٹے بڑے کردار ہیں۔ جو دراصل موجودہ حالات میں زندگی گزارنے کے راز بتاتے ہیں۔ "قیدی” ایک علامتی کردار ہے جو قوم کے ہر فرد کی اس کیفیت کا ترجمان ہے کہ وہ روزمرہ زندگی کے چکر میں بری طرح پھنس گیا ہے۔

"اندھے مردوں کا کورس” بھی دراصل صنعتی زندگی کی کشاکش میں مبتلا انسانوں کا استعارہ ہے جبکہ لڑکا امید کی کرن ہے جوخوشحال مستقبل کی بشارت ہے۔

ڈاکٹر وحید قریشی نے ان کی نظم کے بارے میں لکھا ہے۔

(مجموعی اعتبار سے نظم ایک کامیاب تخلیق ہے شاعر نے الفاظ و ترکیب کو ان کی مروجہ صدائے بازگشت سے آزاد کر کے تلازمات کا نیا سلسلہ وضع کیا ہے۔ اس کا ذخیرہ الفاظ علامتوں کی تہہ در تیہ دلالتوں کو قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہے”(۱۲۴))

فائلیں افسرو ماتحت کی تلخی دن کے

کام اور کاج کے اوقات، قیامت آفس

بیویاں ، خاک کی تقدیر، گھرانے بچے

تیس دن موت اکبھی خاک کبھی آگ کبھی

اونچے اور بیچ کے بخشے ہوئے صدت ، پیشن

بینک اور سود کی تفصیل مصیبت نقشے

استانے کے مقابلے میں اس طویل نظم میں جذباتی اور فکری وحدت نمایاں ہے یہاں پاکستان کی جد و جہد کو اسلامی روایات کے سیاق و سباق میں دیکھا گیا ہے۔

کیونکہ ان کے احساس کا رشتہ پاکستان کے اسلامی شعور اور تہذیبی سرمائے سے استوار کرتے ہیں۔

جیلانی کامران کی نظم نگاری کے ادبی مقام کے بارے میں ڈاکٹر وحید قریشی کی مندرجہ ذیل رائے پر اکتفا کیا جاتا ہے:

(استانے کے مقابلے میں نقش کف پا کا شاعر اظہار پر زیادہ قادر نظر آتا ہے اسے اپنے شعری تجربات کو دوسروں تک کامیابی سے منتقل کرنے کا ڈھنگ آ گیا ہے۔ جیلانی کامران کی یہ نظم جدید تر ادب کے شعری سرمائے میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ (۱۲۵))

ان کے دیگر مجموعے دستاویز اور باغ دنیا علی الترتیب ۱۹۷۶ ، اور – ۱۷۸ ء میں شائع ہوئے جن سے انکی فنی پختگی کی کے اگلے مراحل کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا ذکر آند و باب میں کیا جائیگا ۔

ماخذ: پاکستان میں جدید اردو نظم نگاری کا ارتقاء pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں