جیلانی بانو سوانح وشخصیت

جیلانی بانو سوانح وشخصیت

 حیدر آباد شہر اپنی ان گنت خصوصیات کی بدولت پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ ابتدا ہی سے یہ شہر اپنی منفرد زبان، تہذیب اور ثقافت کا مرکز رہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ادب کا  بھی گہوارہ  رہاہے ۔اس شہر  نے کئی ادبی شخصیات کو جنم دیا ہے جنھوں نے ہر دور میں اپنی علم  دوستی  اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ادب کی آبیاری کی اور اپنے وطن کا نام روشن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان نامور ادیبوں کی فہرست میں جیلانی بانو کا نام بھی شامل ہے۔

خاندانی پس منظر

 جیلانی بانو کا تعلق ایک ایسے اہم علمی خاندان سے ہے جس نے علم و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ جیلانی بانو کے آباؤ اجداد کا تعلق ایران کے قصبہ سبزوار سے ہے  ۔ان کےجد امجد  اورنگزیب کے دور حکومت میں سبزوار سے ہندوستان آئے  اور دہلی میں  اورنگزیب کے دربار سےوابستگی اختیار کر لی۔

جیلانی بانو کے جد امجد قاضی محمد جلیس نے فتاویٰ عالم گیری جیسی اہم کتاب مرتب کرکے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔ قاضی صاحب نے اپنی زندگی کا کچھ عرصہ دہلی میں گزارا اور پھر ریاست اترپردیش کے علمی،ادبی و ثقافتی شہربدایوں میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

قاضی محمد جلیس صاحب کے بیٹے علامہ حیرت بدایونی انگریزی سرکار میں ملازم تھے۔ ان کو وطن سے بے پناہ محبت تھی۔ وطن عزیز کو انگریزوں کے ناپاک ہاتھوں سے آزادی دلانے کی خاطر مختلف جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ انگریزی حکومت اور اعلی افسران کے خلاف انتہائی جوشیلی تقریریں کرتے تھے۔

آپ خلافت تحریک سے بھی عملی طور پو  وابستہ تھے۔ ان کی خلافت تحریک سے وابستگی حکومت کو قطعی پسند نہیں تھی۔ جس کے نتیجے میں انہیں بدایوں کو خیر آباد کہہ کر کان پور کو اپنا مسکن بنا نا پڑا۔ کان پور کا ماحول بھی حیرت بدایونی کو زیادہ عرصہ تک راس نہ آ سکا کیونکہ مسجد کانپور کے سلسلے میں انھوں نے کھل کر حکومت کے خلاف تقریریں کیں اور اس پاداش میں انھیں کان پورچھوڑنا پڑا۔

شمالی ہند سے نکل کر آپ نے دکن کا رخ کیا اور سر زمین حیدرآباد میں مستقل طور پر سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اپنی اس دربدری اور مختلف شہروں میں رہنے،نیز وہاں کی سرگرمیوں کے حوالے سے علامہ حیرت بدایونی نے آئینہ کے دیباچے میں لکھا ہے:

 ’’خلافت تحریک زوروں پر تھی ۔میری غیر ذمہ دارانہ تقریروں نے مجھے مجبور کردیا کہ میں گرفتار ہونے سے قبل راہ فرار اختیار کروں۔ چنانچہ راتوں رات شہر سے غائب ہوگیا۔۔۔۔دسمبر ۱۹۲۲ ءمیں حیدرآباد دکن آیا اور جنوری ۱۹۳۲ ءمیں حلف نامہ داخل کر کے ملک سے صداقت نامہ لیا ۔اب بدایوں پردیس ہے اور حیدر آباد میرا دیس ہے‘‘(۱)

 اس طرح حیرت بدایونی نے مع اہل وعیال حیدرآباد میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہی وجہ ہے کہ مصنفہ حیدرآباد کو ہی اپنا وطن قرار دیتی ہیں :

’’بدایوں میرے والدین کا  وطن ہے۔اس لیے مجھے عزیز ہے لیکن حیدر آباد میرا وطن ہے اس لیے مجھے حیدرآباد سے بے حد لگاؤ ہے‘‘(۲)

 حیرت بدایونی کےہاں آٹھ اولادیں ہوئیں ۔جن میں چار لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں۔ حیرت بدایونی عالم دین اور فارسی و اردو کے شاعر تھے اور نہایت ہی فعال اور دوست نواز شخصیت  تھے۔بچوں کی تربیت سے انھیں خاص لگاؤ تھا ۔وہ ان کی ذہنی تربیت اور خواہشوں کا خاص خیال رکھتے تھے ۔اپنے والد کے سلسلے میں خود لکھتی ہیں:

’’ ہمارے ابا نے بچوں کی تربیت میں بڑی دلچسپی لی ہے۔ ان کی یہی کوشش ہوتی کہ ان کے بچے صرف ڈگریاں لےکر پڑھے لکھے نہ کہلائے بلکہ ان کے جمالیاتی ذوق کی تربیت بھی ہو۔

ہم جو کرنا چاہیں اسے کرنے کے قابل بن سکیں  اس لیے انھوں نے عام باپوں کی طرح کبھی نا تو ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا  نہ زبردستی اپنی بات منوانے کی کوشش کی،اس برتاؤ کی وجہ سے ہم  میں شروع ہی سے خود اعتمادی اور  اپنی عزت آپ کرنے کا سلیقہ آ گیا‘‘(۳)ؤ

حیرت بدایونی کی بیگم شکیلہ خاتون بڑی سمجھدار، معاملہ فہم اور بے حد سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک تھیں ۔انھوں نے اپنے بچوں کی تربیت و پرورش میں حیرت بدایونی کا قدم  قدم پر ساتھ دیا اور ایک اچھی بیوی اور بہترین ماں کے فرائض بخوبی انجام دینے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔

ان کے گھر پر آئےدن ادبی محفلیں منعقد ہوتی رہتی تھیں ۔اردو    زبان کے ادیب و شاعر برابر آیا کرتے تھے۔ شکیلہ خاتون  ان کی مہمان داری میں مصروف رہتی تھیں۔ انھوں نے ان مہمانوں کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہیں کی۔ جس کے بارے میں جیلانی بانو  "آئی ایم سی مانو ” کو انٹرویو دیتی  ہوئی کہتی ہیں:

’’ہمارےابا  علامہ حیرت بدایونی بہت بڑے ادیب تھے اور بہت دوست نواز تھے ۔تو ہم نے بچپن ہی سے اپنے گھر میں بہت مشہور شاعروں کو دیکھا۔ مخدوم ،مجروح ،سردار جعفری ہندوستان کے سارے مشہور شاعر ہمارے ہاں آتے تھے۔ ‘‘(۴)

جیلانی بانو کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

 ۱: موئید حسین 

۲:ڈاکٹر افضل محمد

۳:احمد جلیس

۴: محی الدین حسن

۵: مہربانو 

۶:غوثیہ

۷: جیلانی

 علامہ حیرت بدایونی کی بیٹی جیلانی ایام طفلی ہی میں دنیا سے رخصت ہوئی تھی ۔ان کی وفات کے بعد جب پھر بیٹی کی ولادت ہوئی تو اسے  وہ بے ساختہ جیلانی  کہہ کر بلانے لگے اور پھر یہی جیلانی دنیائےادب میں جیلانی بانو کے نام سے متعارف ہوئیں۔

پیدائش

 معروف ادیبہ جیلانی بانو ۱۴ جولائی ۱۹۳۶ ءکو اترپردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ جیلانی بانو کے والد ہر چند کہ حیدرآباد میں بسلسلہ ملازمت بس گئے تھے لیکن ان کے تمام بچوں کی پیدائش بدایوں میں ہوئی کیونکہ بدایوں ان کا وطن بھی تھا اور سسرال  بھی ۔

جیلانی بانو کی والدہ شکیلہ خاتون اپنی اس بیٹی کو بھول نہیں پائی تھی جس کا نام انھوں نے بڑی چاہت سے جیلانی رکھا تھا لہٰذا جب جیلانی بانو کی ولادت ہوئی تو ان کے والدین کو یہ محسوس ہوا کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس نعم البدل سے نوازا جس کی کمی ان کو ہمیشہ محسوس ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں خود جیلانی بانو کہتی ہیں :

’’بات دراصل یوں ہے کہ میری بڑی بہن کا نام جیلانی تھا لیکن ان کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا ۔ان کے انتقال کے بعد میں پیدا ہوئی تو ابا نے مجھے جیلانی کہنا شروع کردیا۔ ابا کہتے تھے کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ میری بیٹی دوبارہ دنیا میں آگئی ہے ۔اماں نے بانو نام تجویز کیا اور اسی طرح میں جیلانی بانو بن گئی‘‘(۵)

ابتدائی ماحول

 کسی بھی انسان کی شخصیت سازی میں ابتدائی تعلیم و تربیت اور ماحول انتہائی اہمیت کےحامل ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو جو صلاحیتیں ملتی ہیں، اس کے نکھرنے کے لئے ایک خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اور جب انسان کو وہ خاص ماحول مل جاتا ہے تو اس میں موجود صلاحیتیں خوب نکھر  کر سامنے آتی ہیں۔ جیلانی بانو کی پرورش خاص ادبی ماحول میں ہوئی ۔اردو ادب سے لگاؤ انھیں  اپنے والد حیرت بدایونی سے ورثے میں ملا جو اپنے وقت کے نہ صرف معروف شاعر تھے بلکہ کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ بھی تھے۔

اس لیے اکثر ان کی رہائش گاہ پر ادبی محفلیں ہوتی تھیں جن میں اس وقت کے بڑے  مصنفین مثلاًً سجاد ظہیر،مخدوم محی الدین ،جگر مراد آبادی،کرشن چندر اور مجروح سلطان پوری وغیرہ شریک ہوتے تھے۔ اس ماحول میں ان کے ادبی ذوق کی آبیاری ہوئی۔ دراصل یہی ادبی محفلیں اورسرگرمیاں وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے آج جیلانی بانو کا نام اردو کے قدآور ادیبوں کی فہرست میں شامل ہے۔

تعلیم

 جیلانی بانو کا تعلق ایک علمی اور ادبی خاندان سے تھا ۔اس باذوق خاندان سے تعلق رکھنے کی بدولت جیلانی بانو کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ گھر ہی سے شروع ہوا۔ اس دور کی روایت کے مطابق جیلانی بانو نے اردو اور فارسی کی تعلیم اپنے والد علامہ حیرت بدایونی سے حاصل کی جبکہ انگریزی سیکھنے کے لیے علامہ حیرت بدایونی  نے استاد مقرر کیا تھا ۔

جیلانی بانو کی قادر الکلامی اور زبان و بیان کے فنکارانہ استعمال کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بچپن میں ان کے والد نے زبان و ادب سے ان کا تعلق اور رشتہ جوڑنے کے لیے نامور شعرا کا کلام خود پڑھا یا تھا ۔اپنی اس تعلیم کے حوالے سے جیلانی بانو کا کہنا ہے :

’’دیوان غالب، بانگِ درا،  کلیات ِ میر اور ذوق کے قصیدے انھوں نے ہمیں خود پڑھائے ۔ابھی تک عادت ہے کہ اٹھتے بیٹھتے کسی خاص لفظ یا مشکل شعر کی تشریح ہم سے کروائیں گے۔ کوئی غلط ترکیب یا بے محل لفظ دیکھیں تو فورا  ہمارا امتحان لیا جائے گا۔‘‘(۶)

جیلانی بانو کا ذہن بچپن ہی سے علم حاصل کرنے اور زبان و ادب سے آگاہی حاصل کرنے کی طرف مائل تھا۔ اس شوق و ذوق کی تکمیل کے لیے انھیں گھر سے باہر قدم رکھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑی کیونکہ ان کے والد کی ذاتی لائبریری میں کثیر تعداد میں ادبی کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا ۔

جہاں اردو اور انگریزی ادب کے نامور مصنفین کے ادب پاروں سے انھیں استفادے کا موقع ملا ۔جیلانی بانو کا ماننا ہے کہ یہ مشاہیر ادب ان کے استاد رہے اور انھوں نے اس ادبی سفر میں قدم قدم پر نہ صرف میری رہنمائی کی بلکہ میری تحریروں کو نکھارنے اور سنوارنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ جیلانی بانو اس حوالے سے لکھتی ہیں:

’’میں ہائی سکول میں تھی جب گورکی،موپاساں،چیخوف،میر امن،عصمت چغتائی،بیدی،کرشن چندر،فیض،مجاز،قرۃالعین حیدر، منٹواور احمد ندیم قاسمی کو پڑھ چکی تھی  ۔ان ادیبوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا  بلکہ یہ سب میرے استاد رہے ہیں جنھوں نے مجھے فن کی نزاکتیں اور خامیاں سمجھائی ہیں۔‘‘(۷)

جیلانی بانو کی ذہانت، والدین کی شفقت اور بہترین تربیت اور نامور ادبی شخصیات کے فن پاروں کے مطالعے نے ان کے اندر مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پیدا کی ۔جس کا مثبت نتیجہ یہ سامنے آیا کہ انہوں نے ۱۹۵۳ءمیں ہائی اسکول کے امتحان میں اوّل درجے سے کامیابی حاصل کی ۔

ہائی اسکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب ان کی مستقل تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے لگا تو وہ اسکول یا کالج میں نہ جاکر گھر پر ہی خانگی امیدوار کی حیثیت سے امتحانات کی تیاری کرنے لگیں۔۱۹۵۵ء میں علی گڑھ سے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں شریک ہوئیں اور اول آئیں۔ ۱۹۵۹ء میں سماجیات،معاشیات اور اردو کے مضامین کے ساتھ بی ۔اے کے امتحان میں وہ   ویمنسس کالج سے شریک ہوئیں اور اس میں بھی امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوئیں ۔

پھر تعلیمی سلسلہ کچھ عرصے کے لیے منقطع ہو گیا لیکن ۱۹۷۳ء میں اپنے شوق کی تکمیل کے لیے دہلی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم ۔اے کی سند حاصل کی ۔ مزید مطالعے و تحقیق  کی جستجو کو پورا کرنے کے لیے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں "اردو افسانے میں سماجی و سیاسی رجحانات” کے موضوع پر تحقیقی مقالہ  لکھنا شروع کیا لیکن اپنی بے پنا مصروفیات کے سبب اس کام کو مکمل نہ کرسکیں۔گھر میں روایتی ماحول تھا  پردہ داری کے معاملے میں سختی کا رویہ برتا جاتا تھا ۔

لڑکیوں کی تعلیم  اور گھر سے باہر نکلنا معیوب اور شان کے  خلاف سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے انھوں نے بھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ ماموں کے کہنے  پر پرائیویٹ امتحان دیے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب لڑکیوں کو گھر سے باہر تعلیم کے لیے نہیں بھیجا جاتا تھا۔ جیلانی بانو کی تربیت ایسے روایتی اور پابند ماحول میں ہوئی۔

اپنی تعلیم کے بارے میں "ڈی ڈی اردو” کو انٹرویو دیتی ہوئی کہتی ہیں:

’’ہمارے زمانے میں لڑکیوں کو پڑھانے کا  رواج نہ تھا  ہمیں اسکول،کالج جانے نہیں دیا جاتاتھا۔ہم  نے پرائیوٹ امتحان دیے اور اس طرح ہماری تربیت ہوئی۔‘‘(۸)

جیلانی بانو نے   ۲۰۰۸ء میں مولانا آزاد انٹرنیشنل یونیورسٹی سے "ڈاکٹر آف لٹریچر”کی سند حاصل کی۔

ادبی سفر کا آغاز

گھر میں ادبی ماحول اور وسیع مطالعے کے شوق کی بدولت جیلانی بانو کا اردو ادب کی طرف مائل ہونا ایک عین فطری عمل تھا  ۔ان کا بچپن شعر کہتے  ،مصوری کرتے، ڈرامہ کھیلتے اور قلمی رسالہ نکالتے گزرا۔ ان تمام سرگرمیوں میں ان کے سارے بھائی بہن شریک ہوتے تھے۔ سات بہن بھائیوں اور پھر ان کے دوست اور سہیلیاں جب ایک جگہ جمع ہوتیں تو خوب محفلیں سجتی تھیں ۔کبھی شعر گوئی  ہوتی تھی۔

کبھی کسی مقرر کے انداز میں تقریر کرنے کی کوشش ہوتی تھی تو کبھی پوری سج دھج کے ساتھ ڈرامے اسٹیج کئے جاتے تھے ۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ جیلانی بانو کو جب کوئی ڈراما  دلچسپ نہ لگتا تو  وہ  اپنی  فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے پسند کا ڈراما  لکھ لیا کرتیں ۔اس طرح  انھوں نے لکھنے کا آغاز کیا۔

اپنے اس سفر میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کے لئے انھوں نے اپنا ڈراما  آل انڈیا ریڈیو کو بھیجا ۔ان کا ڈراما  نہ صرف پسند کیا گیا بلکہ ریڈیو ممبئی سے نشر بھی ہوا ۔جیلانی بانو کی  اس ابتدائی کوشش کو دیکھ کر ان کے ماموں ریاض فرشوری کو ان کی ذات میں ایک باشعور فنکار  نظر آنے لگا اور جیلانی بانو کی اس کوشش کی تعریف کی اور انھیں مزید لکھنے کا مشورہ دیا۔

ماموں کی اس تعریف نےجیلانی بانو کو بڑا حوصلہ عطا کیا ۔اپنے ادبی سفر کے ابتدائی ایام میں جیلانی بانو نے ادب کی  مختلف  اصناف پر طبع آزمائی کی۔ ڈرامے لکھے، مضامین تحریر کیے، شاعری کی،مصوری سے دل بہلایا لیکن ذہنی اور فکری آسودگی انھیں فکشن  کی دنیا میں لے آئی۔ان  گزرے ہوئے   لمحوں کو یاد کرتے ہوئی جیلانی بانو کا کہنا ہے :

’’اسی دورِ جہالت میں ہم سب شاعر بھی تھے ۔اصلی نہیں و ناسپتی،کوئی جوش،کوئی فراق،کوئی مجاز ۔ان شاعروں کا کلام انہی کے اسٹائل میں سنایا کرتے تھے لیکن کمال امروہی سے اپنے آرٹ  کی داد     وصول ہوتے ہی  میں نے شاعروں کی نقل کرنے کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ چنانچہ سب نے اپنے اپنے ذاتی تخلص رکھے اور خود ہی مشق سخن کی ٹھانی۔

چنانچہ یہ خاکسار بانوالمتخلص بہ صبا بدایونی کہلائی جانے لگی ۔پھر شاعری  کا طوفان  بڑی شدت سے اٹھا جسے دیکھو  کاپی کھولے مشق سخن میں مبتلا ہے ۔ہفتہ وار مشاعرے ہوتے  جن میں سامعین  کو ناریل اور چنے  بانٹے  جاتے تھے  تاکہ وہ فراخ دلی سے داد دیں اور صبر و تحمل سے کام لیں۔

لیکن ایک نہایت واہیات بات  یہ لوگوں نے محسوس کی کہ ہمارے مصرعےگزوں سے نا پنے پر بھی برابر نہیں ہوتے۔اغیار اس کا خوب مذاق اڑاتے اور چوریاں پکڑی جاتیں ۔اس ندامت سے بچنے کے لئے میں نے سوچا کہ سب شاعر ہیں تو میں افسانہ نگار ہو ں گی۔ لہذا بے چاری صبا بدایونی کو پیدا ہوتے  ہی اس دنیا سے کوچ کرنا پڑا اور جیلانی بانو  اکھاڑے میں کودنے کو تیار ہوگئیں۔‘‘(۹)

 اپنے اس فیصلے کے بعد جیلانی بانو نے شاعری کی دنیا کو الوداع کہہ کر اردو ادب میں بطور نثر نگار لکھنا شروع کیا۔ ان کی پہلی کہانی "موم کی مریم” ۱۹۵۴ء میں لاہور سے "ادب لطیف” میں شائع ہوئی۔ دوسری "سویرا”میں، تیسری” افکار” میں، جبکہ چوتھی "شاہراہ "دہلی میں شائع ہوئی۔ان چار کہانیوں کی اشاعت نے جیلانی بانو کو بحیثیت افسانہ نگار ادبی  منظر نامے پر لانے میں اہم کردار ادا کیا اور لوگوں  سےدادو تحسین حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوئیں ۔جیلانی بانو کا اس ضمن میں کہنا ہے :

’’افسانہ نگاری کے اعلان کے ساتھ ہی ایک عدد کہانی گھسیٹ کر "ادبِ لطیف”کو بھیج دی  مگر نہایت رازداری کے ساتھ تاکہ بیرنگ لوٹے  تو جگ ہنسائی نہ ہو مگر دیکھتے کیا ہیں کہ  وہ کہانی چھپی چلی آرہی ہے ۔دوسری کہانی”سویرا”کو بھیجی تو فوراً شائع ہوگئی۔۔۔۔۔ساتھ ہی کچھ اس قسم کا تعارف بھی کہ لکھنے والوں مژدہ ہو تمھیں کہ وہ افسانہ نگار آگئی جس کا   تمھیں انتظار تھا‘‘(۱۰)

ہر مصنف کو اپنی تخلیق سے اتنی ہی محبت ہوتی ہے جتنی محبت ایک ماں کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے اور اگر  تخلیق پہلی ہو تو پھر یہ جذبہ اور شدت  اختیار کر لیتا ہے کیونکہ  پہلی تخلیق وہ   بنیاد ہوتی ہے جس پر تخلیق کار اپنے ادبی سرمائے کی عمارت کھڑی کرتا ہے۔ جیلانی بانو کو بھی اپنی   پہلی تخلیق پر بڑا  ناز رہا  اس سے وابستہ جذبات و احساسات کا اظہار وہ کچھ اس طرح کرتی ہیں:

’’اس دن مجھے وہ لاثانی و لافانی مسرت حاصل ہوئی جو آئن سٹائن کو اپنے نظریہ  اضافیت  پیش کرنے کے بعد،شیکسپئیر کو رومیو جولیٹ لکھنے کے بعد حاصل  ہوئی ہوگی۔‘‘(۱۱)

اس طرح انہوں نے لکھنے کا کام شروع کر دیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نصف صدی پر محیط ادبی سفر میں افسانے، ناول،ڈرامے،انشائیے،ترجمے وغیرہ شامل ہیں۔روزنامہ سیاست میں کالم”شیشہ و تیشہ” لکھا اور بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں ۔اس حوالے سے لکھتی ہیں:

’’کہانیاں بچوں کے رسالوں میں شائع بھی ہوئیں۔ذرا اور بڑی ہوئی تو افسانہ لکھنے لگی۔‘‘(۱۲)

جیلانی بانو نے جس زمانے میں ہوش سنھبالا۔اس زمانے میں ترقی پسند تحریک اپنے شباب پر تھی اور انجمن ترقی مصنفین کی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔حیدر آباد سیاسی انتشار اور ہنگامی دور سے گزر رہا تھا۔ہر طرف غیر یقینی کی صورتحال تھی۔

حیدر آباد کی مخصوص تہذیب اور روایتیں دم توڑ رہی تھیں۔ جاگیردارانہ ماحول و معاشرے کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ ایک نئی تہذیب وجود میں آرہی تھی۔تقسیم ملک کی وجہ سے ہونے والے فسادات،خون ریزی اور درندگی نے سینکڑوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔

لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے اور در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ساتھ ہی ساتھ مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی تحریک کا وہ نقشہ بھی تھا جس نے جاگیرداروں اور نوابوں کی نیندیں حرام کردی تھیں۔”تلنگانہ کسان تحریک "جاگیردارانہ نظام میں کسانوں اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم و ستم کا لازمی نتیجہ تھی۔

کسانوں اور مزدوروں نے اپنے حقوق اور انصاف کیلئے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں ۔جیلانی بانو نے  ان سب حالات و واقعات اور مسائل کا  خود مشاہدہ کیا تھا جس نے ان کے فکر و احساس کو بلندی عطا کی۔

ان کے تخلیقی سفر میں ان تمام واقعات و حادثات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ان تمام مسائل کو انھوں نے محسوس کیا اور اپنے افسانوں اور ناولوں میں بیان کیا جس کے بارے میں مظہر الزمان   کو ایک انٹرویو دیتی ہوئی کہتی ہیں:

’’ ادب کے ہر دور کے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں نے اپنے علاقے ,اپنے شہر،اپنے ماحول کی کہانی سنائی ہے۔کیونکہ میں حیدرآباد میں رہ کر میں کشمیر کے عوام کی ،وہاں کے مسائل کی بات نہیں سنا سکتی ۔اس لیے آپ کو میرے ہر افسانے میں ،ناول میں حیدرآباد نظر آتا ہے۔حیدر آباد کی ادبی،سیاسی،تہذیبی،تاریخی،حیدرآباد کے عوام کے مسائل ہی میرے سامنے نظر آتے ہیں۔‘‘(۱۳)

 جیلانی بانو کی تخلیقات میں حقیقت پسندی اور سیاسی و سماجی شعور کی پختگی کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے اردگرد کے مسائل کو اپنے فن پاروں کا موضوع بنا کر خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔اس حوالے سے مصنفہ کا بیان کچھ اس طرح ہے:

’’ غریب عورتوں، بچوں،مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ جو ناانصافی ہو رہی ہے ۔اس کے بارے میں لکھتی ہوں۔ عملی طور پر بھی اس کے لئے کام کرتی ہوں ۔ان پر میں نے بہت افسانے لکھے ہیں۔ ’’بارشِ  سنگ ‘‘ناول بھی لکھا ہے ‘‘(۱۴)

ایک اور جگہ اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کرتی ہیں:

’’میں بند کمرے میں بیٹھ کر نہیں لکھتی ہوں۔گھر سے باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے کیوں  ہو رہا ہے؟اسے بھی دیکھتی ہوں۔‘‘(۱۵)

مزدوروں، کسانوں  اور عورتوں کے ساتھ جیلانی بانو کی ہمدردی صرف ان کے  افسانوں اور ناولوں کی حد تک نہیں بلکہ انھوں نے عملی طور پر بھی ان کے لیے گراں قدرخدمات سرانجام دی ہیں اور مختلف تنظیموں سے وابستہ رہی  ہیں۔ اس حوالے سے مظہر الزمان کو  انٹرویو دیتی ہوئی مصنفہ  نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے:

’’میں گاؤں کے مزدوروں،کسانوں کے لیے  کام کرنے والی آرگنائزیشن”یوتھ فارایکشن”کے ساتھ ہوں۔یہ انجمن میں نے بنائی ہے۔یہ بہت بڑی آرگنائزیشن ہے جو گاؤں کے  بے سہارا کسانوں،عورتوں اور بچوں کو تعلیم دینے کے لیے ،ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔کئی برسوں تک اس کی صدر تھی۔

اب میں "اسمیتا آرگنائزیشن”کی president ہوں اور چئیرمین بھی۔ یہ بھی ایک بہت بڑی آرگنائزیشن ہے۔ جو گاؤں کی بے سہارا عورتوں کی تعلیم صحت اور اور قانونی مسائل میں ان کی مدد کرتی ہے۔‘‘(۱۶)

جیلانی بانو نے جس دور میں ادبی سفر کا آغاز کیا ۔اس وقت ادب کے آسمان پر کرشن چندر،منٹو،احمد ندیم قاسمی،غلام عباس ،اوپندر ناتھ اشک،بیدی ،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر،ممتاز مفتی،، حیات اللہ انصاری، رام لعل،ہاجرہ مسرور،انتظار حسین، شوکت صدیقی وغیرہ جیسے روشن ستارے اپنی پوری تابناکی کے ساتھ چمکتے تھے۔ اردو ادب کے قارئین ان ادیبوں کے  فن پاروں سے فیض یاب ہوتے تھے۔

اس ماحول اور حالات میں ادبی سفر کا آغاز کرنا اور ادب میں منفرد مقام بنانا بلاشبہ آندھیوں اور طوفانوں کی ضد پہ دیا جلانے کے مترادف ہے لیکن جیلانی بانو نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنا ادبی مزاج ،لہجہ اور اسلوب خود تراشا اور اپنی منفرد پہچان بنائی۔ان کا بیان  ملاحظہ ہو:

 ’’میں نے خاص طور پر کسی افسانہ نگار کو اپنا آئیڈیل نہیں بنایا نہ کسی دوسرے کے اسلوب کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔میں نے جو کچھ لکھا  وہ اپنے ہی طور پر اپنے ہی انداز میں لکھا ہے۔

ہاں جہاں تک افسانے کی فضا   کا تعلق ہے تو فضا سب ہی  مل جل کر بنا رہے تھے اور اس فضا سے  میں بھی متاثر ہوئی ہوں گی۔اصل میں مجھے شخصی رویوں کی بجائے اپنے ارد گرد  ہونے والے واقعات اور تبدیلیوں نے ہمیشہ متأثر کیا اور یہ تبدیلیاں اب بھی متأثر کرتی ہیں۔‘‘(۱۷)

جیلانی بانو نے جس دور میں آنکھیں کھولیں۔اس وقت ادب برائے زندگی کے نعرے بڑے  زور و شور سے بلند ہوتے تھے۔ترقی پسند مصنفین اپنی  ادبی کاوشوں سے تحریک کو مقبول بنانے اور ادب کو معاشرے کے لیے مفید بنانے کی تگ ودو  میں مصروف تھے۔

ان حالات و واقعات اور ترقی پسند مصنفین کے ادب پاروں کا اثر قبول کرلینا جیلانی بانو کے لیے ایک فطری عمل تھا۔ اس وجہ سے جیلانی بانو اگرچہ ترقی پسند تحریک سے باضابطہ طور پر منسلک نہیں رہیں لیکن ان کی تخلیقات میں ترقی پسند  خیالات و افکار کی جھلکیاں بار بار دیکھنے کو ملتی ہیں۔

صرف ترقی پسند تحریک  سے نہیں بلکہ جیلانی بانو کا  تعلق کسی بھی تحریک سے باضابطہ طور پر نہیں رہا ہے لیکن  انہوں نے اپنے فن پاروں میں اپنے اردگرد کے مزدوروں اور عورتوں کی زندگی کے مسائل بیان کیے ہیں۔ اس حوالے سے مظہرجمیل کو انٹرویو دیتی ہوئی کہتی ہیں:

’’میں ترقی پسند تحریک سے متاثر تو ضرور رہی ہوں لیکن میں اس  کی باقاعدہ رکن نہیں رہی لیکن میں اس کا اعتراف کروں گی کہ ترقی پسند خیالات مجھے اچھے لگتے تھے اور میں ترقی پسند اقدار کو خود بھی عزیز رکھتی تھی ۔

تلنگانہ تحریک،ترقی پسند تحریک ہی تھی جس  کے اثرات  میرے ابتدائی دور کی افسانہ نگاری میں آپ کو ملیں گے۔ لیکن میں نے کبھی اپنے آپ کو اس چیز کا پابند نہیں سمجھا جسے عرف عام میں پارٹی لائن کہتے ہیں۔ میں نے شاید کئی جگہ ترقی پسندوں کی عام پالیسی سے اختلاف بھی کیا ہے لیکن میرا نقطہ نظر  ترقی پسندانہ ہی رہا ہے۔‘‘(۱۸)

عموماًً شعرا و ادبا کو لکھنے کے عمل میں جو پہلا مرحلہ  پیش آتا ہے۔وہ موضوع کا انتخاب ہے اور یہ اہم مرحلہ بھی ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی فن پارے کی کامیابی کا راز اس کے بہترین موضوع کے انتخاب میں ہوتا ہے۔

یہ مرحلہ خاصا مشکل بھی  ہوتا ہے لیکن اگر ادیب گہرے مشاہدے  اور وسیع مطالعے جیسے اوصاف سے متصف ہو اور خداداد صلاحیتوں سے بھی نوازا گیا ہو تو اس کے لیے موضوع کا انتخاب کوئی مشکل کام نہیں ۔

اس مقصد کے لیے جب وہ اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتا ہے اسے کائنات کی ہر چیز کوئی نہ کوئی پیغام دیتی ہےاور کچھ نہ کچھ لکھنے پر ابھارتی ہے۔جیلانی بانو بھی گہرےمشاہدےاور وسیع مطالعے جیسے اوصاف سے متصف تھیں اس لیے جیلانی بانو کے لیے بھی اس مرحلے سے گزرنا کوئی دقت طلب فعل نہیں تھا اس بارے میں ایک انٹرویو میں وہ یوں کہتی ہیں۔

’’ایسے لمحے بار بار آتے ہیں ۔ٹی۔ وی پر  کوئی نیوز سن کر ، کسی عورت کے رونے کی آواز سن کر، کسی بچے کی ہنسی کی  آواز سن کر،کسی موسیقار سے کوئی راگ سن کر،کسی ادیب آرٹسٹ کے بچھڑ جانے کی خبر سن کر۔میرا ایک افسانہ ہے "یقین کے آگے،گماں کے پیچھے” میں نے یہ افسانہ ایک  مشہور موسیقار سے راگ کیدارا سن کر ہی لکھا تھا۔مجھے کلاسیکی سنگیت سننے کا شوق ہے۔راگ راگنیوں کی تھوڑی سی پہچان بھی ہے۔میرے ایک افسانے کا عنوان ہے”کیدارا۔‘‘(۱۹)

 جیلانی بانو نےجہاں  کسی راگ کو سنا ہے یا ٹی۔وی میں روتی ہوئی عورت کی آواز کو ،تو انھوں نے اس قسم کے ذرائع  سے اپنے افسانوں اور ناولوں کے لیے  موضوعات کا چناؤ کیا ہے۔

دوسری طرف ایک شعر کو سن کر  یا  پڑھ کر اس پر افسانے لکھے ہیں۔آئی۔ایم۔سی ۔مانو کو انٹرویو دیتی ہوئی اس حوالے سے مصنفہ نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے:

’’ ہمارے ابا ہم کو جب شعر کا مطلب سمجھاتے تھے تو بعض وقت مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ شعر جو ہےاس کو تو ہم کہانی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔خاص طور پر غالب،میر اور یگانہ جیسے کلاسیکل شاعروں کے اشعار میں مجھے پورا افسانہ مل جاتا تھا اور میں یہ سوچتی تھی کہ انھوں نے اتنے بڑے موضوع کو کیسے ایک شعر میں باندھا ہے‘‘(۲۰)

جیلانی بانو کے حوالے سے جملہ مواد یہاں پڑھیں

ازدواجی زندگی

جیلانی بانو کی شادی ۱۹۵۹ء میں ڈاکٹر انور معظم سے ہوئی۔ ان کے رشتے میں ان کی ذاتی پسند کے علاوہ والدین کی رضامندی بھی شامل تھی۔ اپنے شوہر کے حوالے سے  وہ لکھتی ہیں:

’’بی۔ اے کرنے کے بعد٫۱۹۵۹میں میری شادی ڈاکٹر انور معظم سے ہوئی۔یہ بھی ایک دلچسپ حادثہ تھا۔کم سے کم مجھ جیسی جذباتی لڑکی کے لیے تو یہ ایک بے حد مشکل مسئلہ تھا۔

مگر شاید زندگی میں سب سے بڑا صلہ یہی ملا کہ انور با لکل ویسے ہی آئیڈیل  ساتھی ثابت ہوئے جسے ایک حساس ،جذباتی لڑکی اپنے خوابوں میں ڈھونڈتی ہے۔اس شادی کی مقامی  طور پر بڑی اہمیت تھی کیونکہ انور شاعر بھی تھے اور ڈرامہ نگار بھی۔‘‘(۲۱)

ڈاکٹر انور  معظم نے اپنی عمر کا زیادہ تر وقت درس و تدریس کے فرائض نبھاتے، شاعری کرتے اور ڈراما لکھتے گزارا ہے۔آپ ایک اچھے استاد،شاعر،بہترین ڈرامہ نگارکے علاوہ ایک بہترین شوہر بھی ہیں۔

انھوں نے کبھی بھی جیلانی بانو پر بے  جاپابندیاں عائد نہیں کیں بلکہ ان  کی شہرت و عظمت  کی ہمیشہ دل سے قدر کرتے ہوئے قدم قدم پر ان کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا۔

ڈاکٹر انور معظم کی اس رہنمائی، محبت اور سرپرستی سے جیلانی بانو کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھرنے کا خوب موقع ملاجس کا اعتراف وہ سید محمد خاور کو انٹرویو دیتی ہوئی کہتی ہیں:

’’شادی شدہ زندگی ایک طرح سے میری رہنمائی کا باعث بنی۔ انور کی جانب سے ہمیشہ اور ہر موڑ پر مجھے بھرپور تعاون ملا ہے۔انور کا تعلق چونکہ درس و تدریس سے ہے اس لیے وہ میرے کام کی نوعیت اور اہمیت کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ کسی اور شعبے کا آدمی میرا شریک حیات ہوتا تو شاید رکاوٹیں پیدا ہوتیں۔‘‘(۲۲)

۱۹۶۰ءمیں انور معظم اور جیلانی بانو کے ہاں  ایک خوبصورت بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام  انھوں نے اشہر ثمین  رکھا۔اشہر ثمین  کی پیدائش پر جیلانی بانو نے خود کو اور دنیا کو بھلا دیا ۔

اپنا سارا وقت وہ اشہر ثمین کے ساتھ گزارتی تھیں۔اشہر کی پیدائش کے سلسلے میں نقوش آپ بیتی  نمبرمیں اپنا  اظہار خیال کچھ اس طرح کیا ہے:

’’ شادی کے دوسرے برس ہمارے ہاں ثمین  آیا عورت بن کر ساری کمزوریوں سمیت اپنے بچے کو دیکھ کر مجھے پہلی بار اپنے فنکار ہونے کا یقین آیا۔ میں سچ مچ  مغرور ہوگئی ۔میں نے لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا  لوگوں سے ملنا جلنا ،ہر بات بھول بیٹھی۔‘‘(۲۲)

 لیکن یہ خوشی کا سماں  زیادہ دنوں تک ان کو نصیب نہ ہوا۔اشہر ابھی ایک سال کا نہیں ہوا تھا کہ وہ یرقان جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگیا اور اس بیماری نے اس قدر شدت اختیار کر لی کہ وہ ایام طفلی میں اس دنیا سے چلا گیا۔ اشہر ثمین کی ناگہانی موت  نےجیلانی بانو کی ساری خوشیوں اور امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ان کی زندگی خزاں رسیدہ ہوگئی۔

زندگی سے ان کی مایوسی اس حد تک بڑ ھ گئی کہ انھوں نے نہ  صرف  لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا بلکہ دوست احباب اور عزیز و اقارب  سے ملنا جلنا بھی ترک کردیا۔ ان حالات میں  اگرچہ انور معظم خود بھی اس صدمے سے نڈھال تھے لیکن انھوں نے اپنے  آپ کو نظر انداز کر کے جیلانی بانو کو حوصلہ دیا۔

اور ان کے اندر جینے کی امنگ پیدا کی اور اپنی محبتوں اور کوششوں سے انھیں ادبی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کا فریضہ بہ بخوبی انجام دیا اشہرکی موت اور انور معظم کی محبت کا ذکر وہ اس طرح سے کرتی ہیں:

’’ اچانک موت کی آندھی اسے میرے ہاتھوں سے چھین کر لے گئی۔ مہینوں مجھے اس بات پر یقین نہیں آیا کہ میرے اوپر ظلم کرنے کی ہمت کون کرسکتا ہے۔وہ مر گیا تو میں کیسے نہ مر گئی۔

شاید مرجاتی اگر انور مرنے دیتے۔سب  نے مجھے مشورہ دیا کہ لکھنے میں کھو جاؤ اور میں نے جانے کیا کیا لکھ پھینکا۔مگر ایسا لگتا ہے جیسے ساری دنیا کی جگمگا  ہٹ کھو گئی ہے ۔ہر چیز کتنی بے روح اور کھوکھلی دکھائی دیتی ہے۔‘‘(۲۴)

 اس صدمے سے نجات حاصل کرنے کے لیے جیلانی بانو نے خود کو تخلیقی دنیا میں گم کر دیا۔ اگرچہ وہ اس صدمے کو بھلا نہ سکی لیکن ان کے تخلیقی کاموں نے اس میں کچھ کمی ضرور کی۔  اشہر کی وفات کے پانچ سال بعد  اشہر فرحان کی شکل میں خدا نے انھیں ایک لائق اور سعادت مند بیٹے سے نوازا۔

جیلانی بانو کی تربیت، انور معظم کی شفقت اور کمپیوٹر سے بے پناہ دلچسپی رکھنے کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ فرحان نے بڑے ہو کر اردو کا پہلا باقاعدہ  سافٹ ویئر "صفحہ ساز”تیار کیا۔ المختصر جس طرح ان کی فن کارانہ زندگی کامیاب رہی بعینہ  ان کی ازدواجی زندگی بھی سنور گئی۔

تصانیف

ناول

۱۔ایوان غزل ،ناولستا ن، جامعہ نگرنئی دہلی،٫۱۹۷۶

۲۔بارش سنگ، اردو مرکز حیدرآباد،٫۱۹۸۵

افسانہ

۱۔روشنی کے مینار، نیا ادارہ  لاہور،٫۱۹۵۸ 

۲۔نروان،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ ،نئی دہلی،٫۱۹۶۴

۳۔پرایا گھر،اردو مرکز حیدرآباد،٫۱۹۷۹

۴۔رات کے مسافر،اسٹار پبلشر ز،راولپنڈی،٫۱۹۷۹

۵۔روز کا قصہ،کراچی،٫۱۹۸۷

۶۔یہ کون ہنسا،لاہور،٫۱۹۹۲

۷۔نئی عورت،لاہور،٫۱۹۹۳

۸۔سچ کے سوا،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس  ،دہلی،٫۱۹۹۷

۹۔بات پھولوں کی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس  ،دہلی، ٫۲۰۰۱

۱۰۔تریاق (افسانوی کلیات)، کراچی،٫۱۹۹۳

۱۱۔کن ،آکسفورڈ یونیو رسٹی پریس،کراچی،٫۲۰۰۵

۱۲۔راستہ بند ہے،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ،دہلی،٫۲۰۱۰

ناولٹ

۱۔نغمے کا سفر،اردومرکز ،حیدر آباد،٫۱۹۷۷

۲۔جگنو اور ستارے،کتاب نما،لاہور،٫۱۹۶۵

دوسری کتابیں

۱۔کرشن چندر،ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی،٫۱۹۸۵

۲۔کیدارم،اندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈمی،٫۱۹۷۷

۳۔نرسیا کی باڈی، راجو گاندھی فاؤنڈیشن، نئی دہلی،٫۱۹۹۲ 

۴۔ قلی قطب شاہ ،(بچوں کے لیے) حیدرآباد،٫۱۹۹۰

5۔ملیالم افسانے (اردو ترجمہ ہندی سے )،نیشنل بک ٹرسٹ ،نئی دہلی،٫۱۹۷۲

6۔دور کی آوازیں (خطوط کا انتخاب )،عفیف آفسیٹ پرنٹرس،دہلی،٫۲۰۱۰ 

اعزازات

۱۔نقوش ایوارڈ”نقوش  میگزین لاہور،٫۱۹۹۱

۲۔کل ہند ایوارڈ”مہاراشٹر اردو اکادمی”٫۱۹۸۸

۳۔سویت لینڈ  نہرو ایوارڈ،٫۱۹۸۵

۴۔مودی غالب ایوارڈ،٫۱۹۷۸

۵۔اتر پردیش اردو اکادمی ایوارڈ”  ایوان غزل کے لیے”٫۱۹۷۷

۶۔اتر پردیش و بنگال اردو اکادمی ایوارڈ”پرایا گھر کے لیے”٫۱۹۸۰

۷۔اتر پر دیش بہار اردو اکادمی ایوارڈ”نغمہ کا سفر کے لیے”٫۱۹۷۸

۸۔دوشیز ومیگزین کراچی ایوارڈ کہانی ” گڑیا کا گھر کے لیے”٫۱۹۸۱

۹۔اندھرا پردیش اردو اکادمی ایوارڈ” ملیالم افسانے کے لیے”٫۱۹۷۳

۱۰۔ نشان امتیاز "مجلس فروغ اردو”٫۱۹۸۸

۱۱۔کل ہند قومی حالی ایوارڈ” ہریانہ اردو اکادمی”٫۱۹۸۹

۱۲۔پدم شری ایوارڈ،٫۲۰۰۱

یہ بی پڑھیں: جیلانی بانو حیات اور خدمات pdf

حوالہ جات

۱۔حیرت بدایونی: حیات اور کارنامے،رشیدالدین،ص۳۶۔

۲۔رشیدالدین،جیلانی بانو سے بات چیت،ماہنامہ”شاعر اکتوبر ۱۹۷۷ء ،ص۱۰۔

۳۔جیلانی بانو،رسالہ”نقوش”،آپ بیتی نمبر،ادارہ فروغ اردو ، لاہور،جون ۱۹۶۴ ء ،ص ۱۲۶۱۔

۴۔https: // youtube-be / Mi-v LJUFvsQ

۵۔ہفت روزہ،”اخبار جہان”،کراچی پاکستان،۱۲  تا ۱۸ دسمبر  ۱۹۷۹ ء ،ص۱۲۔

۶۔”نقوش” آپ بیتی نمبر،ص ۱۲۶۱۔

۷۔ایضاًً،ص۱۲۶۲۔

۸۔ https: // youtube-be / xgnvisXjA-8

۹۔”نقوش”آپ بیتی نمبر،ص ۱۲۶۰ ۔

۱۰: ایضاًً،ص۱۲۶۸۔

۱۱۔”میں اور میرا فن”،جیلانی بانو،مشمولہ،”شعور”حیدر آباد پاکستان،ص۲۰۔

۱۲۔حمیراطہر انٹرویو،ہفت روزہ،اخبار خواتین،۱۰ تا ۱۶نومبر۱۹۷۹ ء ۔

۱۳۔انٹرویو جیلانی بانو،سہ ماہی،نیا ورق،ممبئی،ج ۱۷،شمارہ۴۴،اکتوبر ۲۰۱۴تا ۲۰۱۵ ء ۔

۱۴۔ایضاًً۔

۱۵ ۔ایضاًً۔

۱۶۔انٹرویو،جیلانی بانو، سہ ماہی، نیا ورق۔

۱۷۔مظہر جمیل انٹر ویو،جیلانی بانو سے گفتگو،ماہناہنا مہ”طلوع افکار”،کراچی،مارچ۱۹۲۲ ء،ص ۲۱۔

۱۸۔جیلانی بانو سے گفتگو،ما ہنامہ”طلوع افکار”،ص ۲۳۔

۱۹۔انٹرویو،جیلانی بانو،سہ ماہی،نیا ورق۔

۲۰۔https // youtube-be / Mi_vLJUFvSQ

۲۱۔”نقوش”آپ بیتی نمبر، ۱۲۶۴۔

۲۲۔انٹرویو،جیلانی بانو ماہنامہ”دوشیزہ”،نومبر  ۱۹۷۹ ء ،ص۷۲۔

۲۳۔”نقوش”آپ بیتی نمبر،ص ۱۲۶۴۔

۲۴۔ایضاًً۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں