جوش ملیح آبادی کی نظم نگاری کا تنقیدی جائزہ
شبیر حسین خان ۱۹۵۵ء میں مستقل طور پر پاکستان میں قیام پذیر ہوئے ۲۳ فروری ۱۹۸۲ء تک زندہ رہے۔ ۱۹۴۷ء تک ان کی شاعری کے دس مجموعے شائع ہو چکے تھے ۔ (۲۴)
۱۹۴۷ء میں ان کا گیارھواں مجموعه سنبل و سلاسل بھی سے شائع ہوا جس میں ۲۰ نظمیں تھیں۔ ان کا مخصوص طرزفکر کا اظہار اس مجموعے کی نظموں تو "جوانان کمیونسٹ پارٹی ہے” "وطن کی آواز اور آزادی” سے ہوتا ہے۔ اس مجموعے کی سب سے اہم نظم ” وقت کی آواز ہے۔
یہ نظمیں انقلابی سوچ کی مظہر ہیں۔ جبکہ "وہ آرہا ہے” "یاد ہے اب تک” جیسی نظمیں رومانی انداز لیے ہوئے ہیں۔
سر و دو خروش ، نظموں کا مجموعہ ہے جو ۱۹۵۳ ء میں دہلی سے شائع ہوا اس مجموعہ میں ۵۳ نظمیں ہیں۔
اس مجموعے میں سناٹے، دریوزہ کرم، دل پر شور جواں، ایسی نظمیں ہیں جن کا انداز رومانی ہے جبکہ درس آدمیت میں معاشرے میں موجو د رسوم قیود کی مخالفت ملتی ہے۔
ترانہ آزادی وطن، استقلال میکدہ، ہند و مسلم اتحاد کا نعرہ اور ماتم آزادی میں ہندو مسلم فسادات پر خون افشانی کی گئی ہے۔ قلندر، میں لہجے کی تلخی اور اشتراکی خیالات کی گونج ملتے ہے۔
مجموعه سموم وصبا منی ۱۹۵۵ء میں ہند روڑ کراچی سے شائع ہو۔ اس کے دو حصے ہیں پہلے حصے میں ۶۲ نظمیں ہیں جبکہ دوسرے حصے میں صرف رباعیات ہیں۔
یہ دور ان کی فنی زندگی کی پختگی کا دور ہے۔ اس مجموعے میں مختلف ہیتوں میں نظمیں لکھی گئی ہیں ۔
موضوعات کے اعتبار سے ان نظموں میں مذہبی اداروں کے غیر واضح کردار پر طنز بھی ہے نیز دعوت انقلاب بھی دی گئی ہے۔ نظم جشن استقلال ان کے ترقی پسندانہ خیالات کی ترجمان نظم ہے۔
اشاعت کی زمانی ترتیب کے لحاظ سے الہام و افکار ۱۹۶۶ء میں اور نجوم و جواہر ۱۹۶۷ء میں جوش اکیڈمی کراچی نے شائع کیے ہیں۔ محمد علی صدیقی اُردو شاعری میں جوش کا مقام متعین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
( جوش نے اُردو شاعری کو اس درجہ مالا مال کیا ہے کہ وہ زبان کو مالا مال کرنے کے باب میں قلی قطب شاہ نظیر اکبر آبادی اور میر انیس کی صف میں آکھڑے ہوئے ہیں ۔ (۲۵) )
جوش بنیادی طور پر رومانی شاعر ہیں۔ اُن کے ہاں ہیجانی اور جذباتی جوش سے موجزان نظمیں ملتی ہیں اُن کی ایجی ٹیشنل نظموں کی بدولت انہیں انقلابی شاعر کہا جانے لگا ہے
ان نظموں میں ان کا انداز خطیبانہ ہے۔ سردار جعفری اُن کی انقلابی شاعری کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:
(جوش سو فیصدی رومانی شاعر ہیں اور ان کا تصور انقلاب بھی رومانی ہے جس کے زیر اثر وہ بہت جلد مشتعل ہو کر جذبات اور ہیجان کے طوفان میں بہہ جاتے ہیں اور مجاہد کی شان سے نیزہ ہلاتے اور تلوار چلاتے میدان میں اتر آتے ہیں ۔ (۲۶) )
جوش نے وطن کے خوبصورت مناظر پیش کرتے ہوئے اسے آزاد دیکھنے کی خواہش کو انقلابی رنگ میں پیش کیا ہے۔ الفاظ کے وسیع ذخیرے کو استعمال میں لا کر وہ منظر کی جزئیات کو بخوبی بیان کرتے ہیں۔
اصوات کی تکرار سے تو ترنم پیدا کرتے ہیں لیکن مترادفات اور الفاظ کی تکرار نا گوار اسراف لگتی ہے۔
سردار جعفری جوش کی شاعری کو رومانی انقلابی اور باغیانہ قرار دیتے ہوئے اُن کی ترقی پسندانہ نظموں کے حوالے بھی پیش کرتے ہیں لیکن بالآخر ان کے فکر و فلسفہ کے چند ایسے نکات کا ذکر کرتے ہیں جو ترقی پسند تحریک کو بدنام کر سکتے ہیں ۔
(نظریاتی اعتبار سے جوش نے ایک ایسے بے بنیاد فلسفے کو اپنا رکھا ہے جو کسی طرح ترقی پسند نہیں کہلایا جا سکتا ۔ ایک طرف تو وہ خدا، مذہب اور تقدیر کے قائل نہیں لیکن دوسری طرف ، و انسان کو مجبو محض سمجھتے ہیں ۔(۲۷))
جبکہ ڈاکٹر انور سدید اُن کی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں:
(جوش ملیح آبادی کی ترقی پسندی ان کے لا ابالی مزاج کا حصہ ہے ۔۔۔۔ وہ فرد کو موجودہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا مشورہ تو دیتے ہیں لیکن اس بغاوت کی جہت متعین نہیں کرتے ۔
چنانچہ قاری ان کے سیل رجز میں شامل ہونے کو ہی قومی خدمت تصور کرنے لگتا ہے۔ اس قسم کی نظموں میں جوش و جنوں کی کیفیت تو موجود ہے لیکن انقلاب کی آواز پھسپھی ہے۔
بلا شبہ جوش کے پر جوش لہجے کو قبول عام حاصل ہو اور بیشتر ترقی پسند شعراء نے ان کی تقلید کی کوشش کی۔ تاہم تاریخ کا تناظر بدلتے ہی ان کی شاعری زمانے کی راکھ میں گم ہو گئی ۔ ( ۱۸ ))
چونکہ روایت سے بغاوت ترقی پسند شاعری کا اصولی شعار بن چکا تھا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جوش ترقی پسند شاعر ہیں کہ انہوں نے ہر سطح پر مسلمات پر شدت سے ضرب لگائی ۔
بلکہ وہ تو رویات و رسوم سے آگے بڑھ کر خود ان آدرشوں اور قدروں کو بھی پاش پاش کر نے لگے تھے جنہیں اُنہوں نے خود تراشا اور سنوارا تھا۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اُن کی سماج ، اخلاق ، سیاست غرض ہر ہر تصور سے بغاوت کو ان کے کردار کا روشن ترین پہلو قرار دیتے ہیں (۲۹)
جبکہ ڈاکٹر ساجد امجد ترقی پسند شعراء کے روایت سے بغاوت پر کار بند رہنے پر کڑی تنقید کرتے ہیں:
(بعض شعراء نے مذہب سے بیزاری ، خدا اور مذہبی عقائد پر طنز کو ترقی پسندی کا مترادف سمجھ کر بغاوت کو مذہبی اصولوں تک پھیلا دیا۔
اس مسلک پر کار بند شعراء کے سرخیل جوش ہیں جن کی آزاد خیالی تشکیک کی سرحدیں پار کر کے کفر و الحاد میں بدل جاتی ہیں ۔ (۳۰) )
ماخذ: پاکستان میں جدید اردو نظم نگاری کا ارتقاء pdf
مزید یہ بھی پڑھیں: جوش ملیح آبادی ایک رجحان ساز نثر نگار مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں