ثمینہ گل حیات اور ادبی مشاغل
شعبۂ اُردو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین مردان
سوانحی کوائف
اُردو ادب کی تاریخ میں سرگودھا کی مردُم خیز سرزمین ہمیشہ سے زرخیزی کی حامل رہی ہے۔ اہلیان سرگودھا نے ہمیشہ علم و ادب کی آبیاری کی اور بڑے بڑے صاحبان علم وادب کوجنم دینے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ اگر اُردو ادب کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو شہرِ سرگودھا ایک الگ دبستان کی حامل نظر آئے گا جس سے نثر و شاعری کے بڑے بڑے نام وابستہ ہیں، جنہوں نے اُردو ادب کی ترقی میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ ان شخصیات میں احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، عزیز انبالوی، صفدر بخاری، واصف علی واصف، نصرت چودھری، شکیبؔ جلالی، ثاقب ملک، عاشق حسین عاشق، تنویر ہاشمی، جمالؔ احسانی، شاہد راہی، ساغر چشتی، ندیم خیدر بلوچ، طفیل ثاقب اور عامر انصاری وغیرہ شامل ہیں جس سے اس شہر کے ادبی منظر نامے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
سرگودھا کی اسی ادبی روایت میں عصر حاضر کی شاعرہ ثمینہ گلؔ بھی یہاں کے دبستانِ شاعری کا ایک معتبر حوالہ ہے جنہوں نے اگر ایک طرف خود کو شاعری کی قدیم روایت سے جوڑے رکھا تو دوسری جانب عہد جدید کے شعری تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا، اسی لیے ان کی شاعری میں اگر ایک طرف قدیم شعری روایت کو برتا گیا ہے تو دوسری طرف عہد حاضر کے مسائل سے بھی صرف نظر نہیں کیا گیا
ثمینہ گلؔ اپنی متنوع شخصیت کی بدولت کسی ایک صنف تک محدود نہیں اور نہ ہی ان کے پیش نظر کوئی ایک موضوع ہے بلکہ انہوں نے اپنی ذات کو سامنے رکھ کر مطالعہ کائنات کی کوشش کی اورعصری مسائل کو اپنی ذات سے منسوب کر کے پیش کیا جس میں وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتی ہیں۔
ثمینہ گلؔ کا تعلق پٹھانوں کے یوسف زئی قبیلے سے ہے۔ ان کے والد شمشاد علی خان یوسف زئی پٹھان تھے جب کہ والدہ کا تعلق بھی شیروانی قبیلے سے تھا اس طرح والد اور والدہ دونوں کی طرف سے ثمینہ پٹھانوں کے دو معزز قبائل سے تعلق رکھتی ہیں۔
ان کے آباؤ اجداد کا اصل وطن افغانستان تھا ۔یہ خاندان افغانستان کے شہر کابل کا رہنے والا تھا جنہوں نے علاؤالدین خلجی کے عہد حکومت میں کابل کو خیر باد کہ دیا تھا اور برصغیر ہجرت کرتے ہوئے یہاں کے شہرکرنال کے علاقوں سلطان پور اور بھیرسال میں سکونت اختیار کی تھی۔ثمینہ گلؔ اس واقعے کو یوں بیان کرتی ہیں : ”ہمارے آبا و ۔۔۔۔۔۔۔ تھے ۔یہ علاو الدینخلجی کا دور تھا، جب کابل سے انہوں نے ہجرت کی اور ہندوستانکےضلع کرنال میں آباد ہو گئے ۔سسرال نے بھیر سال میں رہائشاختیار کی جبکہ دادا ابو نے سلطان پور کو اپنا مسکن بنا لیا “ (١)
ان کے خاندان کا شمار ضلع کرنال کے با اثر اور صاحب حیثیت لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے بعد کے ادوار میں یہاں کی حکومت سازی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ تقسیم ہند کے وقت ان کے خاندان کی بھیرسال میں نہ صرف اپنا آبائی گھر تھا بلکہ کافی جائیداد بھی تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے انہیں کے اس آبائی گھر کے ساتھ مزید زمین ملا کر وہاں بھیرسال یونی ورسٹی بنائی جو آج بھی قائم ہے۔
تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آ گیا اور بکھر میں سکونت اختیار کی۔ ثمینہ کے دادا کا نام بکوخان تھا ۔ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ دوسرے بیٹے کا نام شمشاد علی خان تھا جو ثمینہ کے والد محترم ہیں۔
شمشاد علی خان ایک قابل اور ذہین انسان تھے۔ ایک کلرک کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کیا اور اپنی ذاتی کاوش اور قابلیت کی بنا پر اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس تناظر میں ثمینہ گل کہتی ہیں:”میرے والد صاحب نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہایت قابل انسان تھے۔ مختلف مضامین پر دسترس حاصل تھی۔ ایک کلرک کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کیا اور اپنی قابلیت کی بنا پر ترقی کر کے اسسٹنٹ کمشنر بن گئے“ (٢)
ثمینہ کی والدہ کا نام نفیس اختر تھا۔ وہ پٹھانوں کی شیروانی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی ۔رسمی تعلیم انہوں نے بے شک زیادہ حاصل نہیں کی تھی لیکن ذاتی مطالعہ کا شوق تھا۔ شاعری، موسیقی اور مصوری سے دلچسپی تھی
ان کے بارے میں ثمینہ گلؔ اپنے انٹرویو میں کہتی ہیں: ”والدہ محترمہ کا حسِ جمالیات کافی شاندار تھا۔ شاعری کا بہت اچھا ذوق رکھتی تھیں، موسیقی سے بھی شغف تھا اور مصوری سے بھی دلچسپی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی میں بھی خوبصورت فن پارہ آتا تو وہ بہت اچھے الفاظ میں اُس کی تعریف کیا کرتی تھی“ (٣)
ثمینہ گلؔ ٢٥ دسمبر ١٩٦٥ کو پیدا ہوئیں۔ ان کی ولادت علی پور ضلع مظفر گڑھ میں ہوئی ۔ ان کے والد کا تعلق تو بھکر سے تھا لیکن علی پور میں ان کا ننھیال تھا جہاں ان کی پیدائش ہوئیں۔ ثمینہ گلؔ اپنی چار بہنوں میں سب سے بڑی ہیں ۔ اس لیے ان کی ولادت پرخوں خوشیاں منائی گئیں چنانچہ اسی حوالے سے ثمینہ گلؔ کا اپنا بیان ہے: "میں علی پور کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اس انکے گھرانے میں پہلی اولاد ہونے پر چھ ماہ تک گویئوں نے لوریاں گا کر اپنے گھر کا چولہا جلایا”(۴)
والدین نے ان کا نام ثمینہ شمشاد رکھا جبکہ ادبی دنیا انہیں ثمینہ گلؔ کے نام سے جانتی ہے ۔ان کے بچپن کا زیادہ تر عرصہ علی پور میں گزرا۔ ان کے نانا علی پور کے ایک بہت بڑے جاگیردار تھے جن کی وہاں کافی بڑی جائداد تھی اور ان کا شمار علی پور کے صاحب حیثیت لوگوں میں ہوتا تھا۔ علی پور میں ان کی ذاتی حویلی تھی جہاں کئی نوکر ہر وقت کام کے لیے موجود رہتے تھے۔ ثمینہ گلؔ کی پیدائش پر ان کے نانا نے ان کی امی کو ان کے لیے ایک نوکر بطور تحفہ دیا تھا۔ بقول ثمینہ گلؔ:”میری پیدائش پرنانا ابو نے میری والدہ محترمہ کوایک نوکر، بھینس اورسونا تحفے میں دیا تھا“ (٥)
ثمینہ نے بچپن سے جس ماحول میں تربیت پائی وہ بہت شاہانہ تھا ۔بچپن کا زیادہ ترعرصہ علی پور میں گزرا جہاں ان کے نانا علاقے کے بڑے جاگیردار تھے، جو ایک بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اس پورے علاقے پہ اُن کی حکمرانی تھی۔ اس بنا پر ثمینہ گلؔ کو بچپن سے جو ماحول ملا وہ ہر طرح سے محفوظ تھا اور انہیں پورے علاقے میں گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی تھی۔ علی پور کی فضا دیہاتی تھی ۔ کھیت، کھلیان ، آموں اور مختلف پھلوں کے باغ تھے اور لوگوں کی زندگی فطرت کے بہت قریب تھی۔ اس ماحول میں پرورش پانے کے باعث ثمینہ کی شاعری میں فطرت اپنے تمام رنگوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔
ثمینہ گلؔ کا بچپن علی پور کے گلی کوچوں میں نہایت بے فکری کے عالم میں گزرا۔ وہ اپنے نانا کی بہت لاڈلی تھی۔ ان کی خالہ ان سے محض پانچ سال بڑی تھی اس لیے ان کا سارا دن کھیل کود میں ہی گزر جاتا تھا۔ گھر کے صحن میں بہت بڑا تخت پڑا ہوتا تھا جس پر ایک بڑا پاندان رکھا ہوا ہوتا تھا، ساتھ ہی انار کا ایک چھوٹا سا درخت تھا اور اس کے قریب بڑی سی چمبیلی پھیلی ہوئی تھی۔ صبح سویرے پھول اتار کر پہننا ثمینہ کے روز کا معمول تھا۔ موتی کے پھولوں سے گجرے بنا کر پہننا ان کا پسندہدہ مشغلہ تھا۔
ثمینہ پر بچپن سے کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی ۔نانا بہت بڑے زمیندار تھے جبکہ والد اپنے ضلعے کے ڈپٹی کمشنر، ایسے ماحول میں اگر دیکھا جائے تو عام طور پر بچے زیادہ نہیں پڑھ پاتے کیونکہ ان پر گھر کی طرف سے کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی لیکن ثمینہ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، ان کے والد خود ایک تعلیم یافتہ انسان تھے اور اپنی اولاد سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کریں۔ اسی حوالے سے ثمینہ گلؔ کی بہن روزینہ رئیس کہتی ہیں:
”میرے والد۔۔۔۔۔۔ تھے اورعلم کے قدردانوں میں سے تھت۔ وہ ہم سے ہمیشہ کہا کرتے تھے پڑھو چاہے مجھے اپنی ہڈی بیچ کر ہی تمہیں پڑھانا پڑے“ (٦)
دوسری طرف ثمینہ بھی بچپن سے ہی بہت ذہین واقع ہوئی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ ہر چیز پر اپنی تعلیم کو مقدم جانا اور اسے ہمیشہ باقی معمولاتِ زندگی پر فوقیت دی۔
ثمینہ گلؔ نے زمانہ طالب علمی کا آغاز ایک انگریزی اسکول سے کیا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بچیوں کی تعلیم معیوب سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے اس دور میں اپنی پڑھائی کا آغاز انگریزی اسکول سے کیا۔ اس اسکول میں اُس وقت کے صاحبِ ثروت لوگوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کر پاتے تھے۔ ثمینہ گلؔ یہاں محض ابتدائی دو جماعتیں ہی پڑھ پائی، اس کی وجہ وہ خود یوں بیان کرتی ہیں :
”اس سکول میں پڑھنے سے میری انگریزی کافی بہتر ہو گئی تھی یہاں تک کہ میں گھر میں بھی انگریزی میں بات کرنے لگی تھی۔ امی کی تعلیم چونکہ واجبی تھی اس لیے انہیں خطرہ تھا کہ اگر بچی اسی رفتار سے انگریزی سیکھتی رہی تو کل کو ہمیں اس کی بات کی سمجھ ہی نہیں آئے گی اس لیے انھوں نے سرکاری سکول میں داخلہ دلوا دیا “(٧)
ثمینہ کی والدہ نے ان کا داخلہ انگریزی اسکول کی بجائے جس سرکاری اسکول میں کیا یہاں کی پرنسپل ان کی والدہ کی دوست تھی اس طرح ثمینہ کو ان کی نگہداشت میں دے کر ان کی والدہ مطمئن ہو گئیں۔
ثمینہ اور ان کی بہن سکول تانگے سے جایا کرتی تھیں، تانگہ اُس زمانے میں سب سے بڑی سواری تصور کی جاتی تھی۔ ان کا نوکر) جس کا نام ہاشم تھا جو ثمینہ کی پیدائش پر ان کے نانا نے ان کی خدمت کے لیے دیا تھا ( ان کے بیگ اُٹھا کر انہیں تانگے سے سکول پہنچایا کرتا اور چھٹی کے وقت واپس گھر لے آتا تھا۔ بقول ثمینہ گلؔ :
”میں نے بڑے پروٹوکول سے پڑھا ہے لیکن تعلیم کے معاملے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا “ (۸)
ثمینہ کا شمار سکول کی ہونہار طالبات میں ہوتا تھا ۔نصابی سرگرمیوں کے علاوه غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں، سکول کے بزم ادب پروگرام کا وہ مستقل حصہ تھیں۔ ثمینہ بچپن سے ہی چھوٹے موٹے ڈراموں میں حصہ لیا کرتی تھیں، اسی قسم کے ایک سالانہ ڈرامے کا ذکر وہ کرتی ہیں جس میں انہیں سبز پری بنایا گیا تھا ۔اس وقت ثمینہ چھوتی جماعت میں تھیں۔ اس ڈرامے کو بہت سراہا گیا تھا۔ اس حوالے سے وہ خود کہتی ہیں:
” وہ بزمِ ادب کا۔۔۔۔ ڈرامہ تھا کہ جسے ۔۔۔۔۔ پسند کیا گیا تھا اور میں نے اور امی نے بہت زیادہ تعریفیں سمیٹی تھیں “(٩)
ثمینہ نے اپنی زمانہ طالب علمی میں ہر طرح کے کھیل تماشوں میں بھر پور حصہ لیا اور اچھی کارکردگی دکھائی۔ وہ سکول کے زمانے سے ہی بہت اچھا بیڈمنٹن کھیلتی تھیں اس کے علاوه جیولن تھرو میں بھی مہارت رکھتی تھیں ۔
ثمینہ گلؔ کے دل میں بچپن سے ہی کچھ کرنے اور کچھ بننے کی خواہش موجود تھی۔ ان کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ نہ صرف کلاس میں ان کی کارکردگی سب سے منفرد ہو بلکہ دوسری سرگرمیوں میں بھی وہ سب سے الگ ہو۔ اس حوالے سے خود ان کا کہنا ہے : ”یہ چیز بچپن سے ہی میری شخصیت کا حصہ رہی ہے کہ میں نمایاں رہو اور میرا شمار اچھے لوگوں میں ہو“ (١٠)
اور یہی نمایاں رہنے کی خواہش تھی کہ پانچویں کلاس میں وہ پورے بورڈ میں اول آئیں۔ پانچویں کا یہ امتحان انہوں نے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول بھکر کی طالبہ کی حیثیت سے دیا تھا۔ اس شاندار کامیابی کے بعد انہوں نے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول بھکر میں داخلہ لیا اور یہاں سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا۔ ثمینہ گلؔ کی زندگی کا سب سے اہم اور کٹھن دور اُس وقت شروع ہوتا ہے جب ان کی والدہ اس دنیا میں نہیں رہتی۔ اس وقت ثمینہ کی عمر محض بارہ برس تھی اور وہ ساتویں جماعت میں تھیں۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں کسی بھی بچے کو ماں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، پھر لڑکیاں تو اپنی ماؤں سے بہت زیادہ قریب بھی ہوتی ہیں اور عمر کے اس حصے میں تو کسی بھی لڑکی کو اپنی ماں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ والدہ کی موت نے ثمینہ کی زندگی ہی بدل دی اور ان کے ذہن پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ۔اس حوالے سے ان کے بڑے بیٹے فرخ دلشاد کا خیال ہے :”ان کی زندگی میں سب سے بڑا واقعہ نانی اماں کی موت تھی جسے وہ شاید آج بھی بھلا نہیں پائی“ (١١)
والدہ کی وفات نے ثمینہ کی زندگی کا دھارا ہی بدل دیا اور زندگی کا منظر نامہ اس واقعے کے بعد ان کے سامنے مسلسل تبدیل ہوتا رہا۔ ثمینہ ابھی نویں میں تھی کہ ان کے والد کی شادی ہو گئی جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا۔
ان کی سوتیلی ماں نے بہت جلد ہی ان کے والد کے دل میں جگہ بنا لی اور گھر کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا، گھر کے تمام پرانے ملازمین کو ہٹا دیا، بچوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ روایتی سوتیلی ماؤں جیسا ہی رہا۔ انہوں نے انہیں کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا اور انہیں اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی۔بقول ثمینہ گلؔ: ” میں نویں میں تھی ۔۔۔۔ سے اٹھا لیا گیا ۔دسویں کا امتحان میں نے بغیر کچھ پڑھے ہی دیا تھا۔ اُس وقت میری ساری کتابیں مجھ سے لے لی گئی تھیں اور یہ میری زندگی کا ایک انتہائی کربناک وقت تھا“ (١٢)
میٹرک کے فوراً بعد ثمینہ کی شادی کرا دی گئی ۔ ان کی شادی بھیرہ میں ہوئیں۔ یہاں کا ماحول ان کے اپنے گھر سے یکسر مختلف اور گھٹا ہوا تھا جہاں خواتین کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
ثمینہ کی شادی ایک تو بہت کم عمری میں ہو دوسری ان کی شادی جس گھر میں ہوئی تھی وہاں عورتوں کے پڑھنے لکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا اور لڑکیوں کی تعلیم معیوب سمجھی جاتی تھی۔ شادی کے بعد ثمینہ کے ساتھ سسرال کا رویہ بھی کچھ اچھا نہیں تھا جس کے باعث انہیں بیک وقت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں پڑھنے کی شدید خواہش تھی ان کے شوق کا یہ عالم تھا کہ بقول ثمینہ گلؔ : ” شادی میں لڑکیوں کو منہ دکھائی میں جو پیسے ملتے ہیں لڑکیاں اُن کا زیور لیتی ہیں اور میں نے اُن کی کتابیں لیں “ (١٣)
ثمینہ کے شوہر کا نام دلشاد علی خان تھا۔ وہ پاک فوج سے تعلق رکھتے تھے۔ فوج میں دلشاد علی خان کسی بہت بڑے عہدے پر فائر نہیں تھے بلکہ معمولی سا عہدہ تھا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کے گھر کی معاشی صورتحال بھی کچھ زیادہاچھی نہ تھی ۔
ثمینہ گلؔ نے ملازمت کا آغاز ١٩٨٣ء میں کلی ٹیوشن سنٹر سے کیا، یہ ٹیوشن سنٹر ثمینہ کا اپنا قائم کردہ تھا۔ ان کا یہ ٹیوشن سنٹر وہاں کی آبادی کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ اس ٹیوشن سنٹر میں پڑھنے والے بچوں میں سے اکثریت ایسے بچوں کی تھی جن کے نام تو سرکاری سکولوں میں درج ہوتے لیکن گھریلو مشکلات کے باعث باقاعدہ اسکول نہیں جا پاتے تھے ۔
ثمینہ کے اس ٹیوشن سنٹر کے معیار تعلیم اور نظم و ضبط سے متاثر ہو کر انہیں ایک ریٹائر ہونے والی ہیڈ مسٹریس نے اپنا اسکول جوئن کرنےاور اپنے بعد ہیڈ مسٹریس بننے کی دعوت دی تھی جسے ان کے گھر والوں نے مسترد کیا تھا۔
ثمینہ بارہ سال تک اس ٹیوشن سنٹر کو باقاعدگی سے چلاتی رہیں، جو۱۹۸۳ء سے ۱۹۹٥ء تک کے عرصے پر محیط ہے۔ یہ دور اگر دیکھا جائے تو ان کی زندگی کا انتہائی کربناک دور تھا۔ ایک طرف وہ اپنوں کے سخت رویوں کا سامنا کر رہی تھیں تو دوسری جانب گھر کی معاشی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی ۔
کلی ٹیوشن سنٹر کے بعد ۱۹۹۵ء میں ثمینہ گل نیشنل ہیلتھ پروگرام کے ساتھ منسلک ہوگئیں ۔ یہ پروگرام بے نظیر بھٹو کے عہد حکومت میں شروع ہوا تھا۔ چونکہ اس پروگرام کا اجراء اُن کے عہد حکومت میں ہوا تھا اس لیے ابتدائی دور میں یہ انہی کے نام سے موسوم ہوا جبکہ بعد میں اسے ” پرائمری ہیلتھ کیئر” کا نام دیا گیا۔ اس پروگرام میں میٹرک پاس کی بنیاد پر خواتین لی جاتی تھیں۔ ثمینہ گلؔ نے اس پروگرام میں شمولیت اختیار کی۔ اس پروگرام کے شروع ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد “نیشنل ہیلتھ کیئر” کے نام سے ایک نیا پروگرام سامنے أیا۔ یہ پروگرام عالمی تنظیم ” ڈبلیو ایچ او “کی زیر نگرانی شروع ہوا تھا جس میں انہوں نے انڈیا اور پاکستان کو خاص طور پر شامل کیا تھا ۔ اس پروگرام کے لیے ملک بھر کے مخصوص علاقوں سے خواتین منتخب کی کئیں۔ بھیرہ سے ثمینہ گلؔ کو ہی بطور لیڈی ہیلتھ ورکر کے لیا گیا تھا۔ ان تمام خواتین کو سولو ہوٹل بلایا گیا اور بیس دن کی تربیت دی گئی، اس ٹریننگ میں کمیونیکیشن سکیل پر خاص توجہ دی گئی اور انہیں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قائل کرنا سکھایا گیا ۔ اس بنیادی تربیت کے بعد انھیں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔
ثمینہ گلؔ لگ بھگ دس سال تک صحت کے محکمے سے وابستہ رہیں۔ انہوں نے یہاں نہایت خوش اسلوبی سے اپنے فرائض منصبی سر انجام دیں۔ وہ ۱۹۹۵ء سے ۲۰۰٥ء تک اس محکمے سے وابستہ رہیں تاہم اتنے طویل عرصے کے باوجود وہ کبھی بھی اس پیشے کو اپنے مزاج سے ہم أہنگ نہ کر پائی جس کی وجہ ثمینہ کچھ یوں بیان کرتی ہیں :”صحت کے محکمے سے میں ضرور وابستہ رہی اور جہاں تک مجھ سے ہو سکا اپنی خدمات انجام دیں لیکن یہاں میں خود کوکبھی خوش نہیں رکھ پائی کیونکہ انسانی زندگی کے معاملات بہت نازک ہوتے ہیں“ (١۴)
۲۰۰۲ء میں ثمینہ نے ایف اے کر لیا تھا۔ میٹرک کے فوراً بعد ان کی شادی کرا دی گئی تھی جس کے بعد نامساعد حالات کے پیش نظر وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پائی تھی تاہم ان میں علم کی طلب موجود تھی۔ اب جب حالات تھوڑے سازگار ہوئے تو انہوں نے ملازمت کے ساتھ تعلیمی سلسلہ بھی دوبارہ بحال کیا ۔ ان سارے معاملات کو درست کرنے میں انہیں بیس سال کا عرصہ لگا۔ ان کے تعلیمی سلسلے کے حوالے سے ان کی بہن روزینہ رئیس کا کہنا ہے: ”مجھے اور ثمینہ کو ہمیشہ سے ماسٹر لیول کہلوانے کا بہت شوق تھا۔ میں نے جب ایف اے کر کے انہیں فون کر کے کہا کہ ثمینہ میں نے ایف اے کلئیر کرلیا اس کے جواب میں انہوں نے کہا اچھا ! تم پڑھ سکتی ہو تو کیا میں نہیں پڑھ سکتی؟ اور اس طرح انہوں نے پڑھائی دوبارہ شروع کی “ (١٥) ٢٠٠٤ء میں ثمینہ گلؔ بھیرہ سے سرگودھا منتقل ہوئیں۔ اب ان کے لیے صحت کے محکمے سے منسلک رہنا دشواری کا باعث بن رہا تھا چنانچہ ۲۰۰۵ء میں انہوں نے صحت کے محکمے کو بھی خیر باد کہا ۔ سرگودھا منتقلی کے بعد انہوں نے یہاں علامہ اقبال اوپن یونیوسٹی سے بی اے میں داخلہ لیا اور ۲۰۰۵ء میں بی اے مکمل کر لیا۔ ٢٠٠٦ ء میں ثمینہ گلؔ نے ایف جی گرامر اسکول سرگودھا میں بطور پرنسپل کام کیا۔ ۲۰۰٦ء میں ہی انہوں نے فوجی فاؤنڈیشن میں شمولیت اختیار کی۔ یہاں انہوں نے سلائی کڑھائی سے لیکر کتابوں کی جلد بندی تک ہر کام کیا۔ فوجی فاؤنڈیشن میں ثمینہ گلؔ اپنی کلاس کی مانیٹر ہوا کرتی تھیں ۔ ان کی مشین کا نام سلیقہ تھا، اسی نام پر ان کے بڑے بیٹے فرخ دلشاد نے لندن میں اپنی فیکٹری کا نام رکھا۔ فوجی فاؤنڈیشن میں کام کے دوران ہی انہوں نے کمپیوٹر کا کام بھی سیکھ لیا تھا، ساتھ ہی اوکیشنل ورک کا باقاعدہ ڈپلومہ بھی حاصل کیا۔ ثمینہ تین سال تک یعنی ۲۰۰٦ ء سے ۲۰۰۹ ء تک فوجی فاؤنڈیشن سے منسلک رہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ۲۰۰٧ء میں جی سی ایس اسکول سرگودھا میں بطور وائس پرنسپل کے بھی کام کیا ۔ پانچ سال تک انہوں نے بطور کمپپیوٹر کے استاد کے البتول گرلز کالج میں کام کیا اور۲٠٠۷ء سے ۲۰۱۲ء تک اپنے فرائض منصبی انجام دیتی رہیں ۔ ٢٠٠٨ء میں ثمینہ گلؔ عالمی انسانی حقوق تنظیم کی صدر بن گئیں اور دو سال تک اس عہدے پر رہ کر فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ ٢٠٠٨ء میں ہی ثمینہ گلؔ نے کام کے ساتھ ساتھ ایم اے اُردو کے لیے سرگودھا یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں انہیں ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم جیسے استاد ملے جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر ان کی رہنمائی کی۔ چنانچہ خود کہتی ہیں:”میں شکر ادا کرتی ہوں اس گھڑی کا کہ مجھے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم جیسے استاد ملے۔ میں جب ایم اے اُردو کے حوالے سے ان کے پاس أئی، اس وقت مجھے کوئی علم نہیں تھا کہ کونسی کتابیں ہونگی ، کیا پڑھا جاتا ہوگا۔ سر نے نہ صرف اس وقت مکمل رہنمائی کی بلکہ ہمیشہ بہت شفقت سے پیش آتے ر ہیں ۔“ (١٦)٢٠١٠
ء میں ثمینہ گلؔ نے ایم اے کیا۔ اس وقت وہ البتہ گرلز کالج میں بظور کمپیوٹر کے استاد کے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھیں، ساتھ ہی وہ ریڈیو میں بھی بطور کمپئیر کام کر رہی تھیں ۔ ٢٠١٠ ء میں سرگودھا یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کرنے کے بعد ثمینہ کو اسی یونیورسٹی میں ہی کنٹریکٹ پر بطور مدرس کام کرنے کا موقع ملا ۔ وہ سرگودھا یونیورسٹی میں ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱٨ء تک درس و تدریس سے وابستہ رہیں ۔ یہیں پر انہیں بی ایس اور ایم اے اُردو کے طلبہ و طالبات کو پڑھانے کا موقع ملا۔ اپنے شاگردوں کے ساتھ ثمینہ گلؔ کا رویہ شروع سے ہی مشفقانہ اور بہت ہی دوستانہ رہا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھا۔ شاگردوں کے ساتھ ان کے رویے کی مزید وضاحت ان کی بیٹی ڈاکٹر ماریہ دلشاد کے اس بیان سے ہو جاتی ہے : ”ان کا رویہ اپنے شاگردوں کے ساتھ بالکل۔۔۔۔۔۔جیسے ہمارے ساتھ، انھیں اپنے شاگردوں کے ساتھ محبت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ان کے اکثر شاگرد انہیں ماں جی کہتے ہیں جس سے کبھی کبھار مجھے جلن بھی محسوس ہونے لگتی ہے“ (١٧)
ایم اے کرنے کے بعد ثمینہ گلؔ ایم فل کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں لیکن کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر چند برس تک وہ اس طرف توجہ نہ دے سکیں جس کے سبب کچھ تاخیر سے ٢٠١٥ء میں انہوں نے ایم فل کی ڈگری حاصل کیں۔ ایم فل انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی سے کیا۔ اس وقت وہ یہاں بطور مدرس بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھیں۔ ایم فل میں ان کی تحقیق کا موضوع ” اردو کا پہلا سفر نامہ میر تقی میر تحقیقی و تنقیدی جائزہ” تھا۔ جسے علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے بہت سراہا گیا۔ ایم فل اُردو کی خوش اسلوبی سے تکمیل پر ثمینہ کے دل میں طلب علم کم نہ ہوئی بلکہ مزید بڑھتی گئی اور انہوں نے پی ایچ ڈی کرنے کا فیصلہ کیا۔ پی ایچ ڈی کے لیے انہوں نے نادرن یونیورسٹی نوشہرہ کا انتخاب کیا۔ یہاں ان کی ملاقات پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی جیسے بڑے شاعر، عالم اور ماہر اقبالیات سے ہوئیں جنہوں نے انہیں علم و دانش کی نئی دنیاؤں سے روشناس کرایا ۔
2010ء سے ٢٠١٨ ء تک ثمینہ گلؔ سرگودھا یونیورسٹی میں مدرسی کے فرائض انجام دیتی رہیں ، ٢٠١٨ء سے انہیں لاہور یونیورسٹی کے سرگودھا کیمپس میں بطور لیکچرار کام کرنے کا موقع ملا، ٢٠٢٢ء میں انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ بہ عنوان “ اُردو کے منظوم سفر نامے تحقیقی و تنقیدی جائزہ ” نادرن یونیورسٹی میں پیش کیا ۔یہ مقالہ انہوں نے ڈاکٹر منور ہاشمی کی زیر نگرانی مکمل کیا تھا۔ مقالے کی مکمل جانچ پڑتال اور ثمینہ گلؔ کی کامیاب دفاع پر اسے یونیورسٹی کی جانب سے منظوری دی گئی اور یوں انہوں نے ثمینہ گلؔ سے ڈاکٹر ثمینہ گلؔ تک کا سفر طے کیا ۔
آج کل ڈاکٹر ثمینہ گلؔ لاہور یونیورسٹی کی سرگودھا شاخ میں بطور مدرس اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ یہاں وہ صدر شعبہ اُردو کے طور پر کام کر رہی ہیں ۔ کئی سکالر ان کی زیر نگرانی اپنے مقالہ جات مکمل کر چکے ہیں۔ ان کا کیس حال ہی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے گیا ہوا ہے جس کی منظوری کے بعد وہ اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر اپنے فرائض انجام دینے لگے گی۔ ثمینہ گلؔ کے مزاج میں ایک خاص قسم کا دھیما پن پایا جاتا ہے ۔حالات کی ناسازگاری نے کہیں بھی ان کی شخصیت میں تلخی پیدا نہ ہونے دی بلکہ جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے کے مصداق اپنوں کی بے رخی کا گلہ ہمیشہ بغیر کسی احتجاج کے اپنی شاعری میں کرتی رہیں لیکن اس گلے میں کہیں بھی تلخی اور تندی کا احساس نہیں پایا جاتا بلکہ نہایت پُرخلوص انداز میں بالکل ایسے ہی اپنوں کو ان کی بے اعتنائی کا احساس دلایا جیسے کوئی اپنے کسی بہت ہی پیارے اور عزیز کو اس کی کسی غلطی کا احساس دلا رہا ہو۔ثمینہ گلؔ کا مزاج مشرقیت کا حامل ہے۔ دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا ، خود سے پہلے دوسروں کے لیے سوچنا اور ان کی خوشی کی خاطر اپنی ذات کی قربانی دینا ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ ان کی شخصیت کے بارے میں ان کی بہن روزینہ رئیس کا خیال ہے : ”ثمینہ بہت صبر والی، بہت کچھ برداشت کرنے والی اور ہر ماحول میں گزارہکرنے والی ہے۔ زندگی کے اچھے برے دونوں وقت دیکھے ہیں لیکن کبھ ہمت نہیں ہاری “(١٨)ثمینہ گلؔ کو حسن صورت اور حسن سیرت کے ساتھ للہ نے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔
ان کی اولاد میں تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں ۔ ان کے بڑے بیٹے کا نام فرخ دلشاد ہے، فرخ کی پیدائش ان کی شادی کے پانچ سال بعد ہوئی تھی۔ وہ ٢٠١٢ ء سے یوکے برمنگم میں مقیم ہے یہاں ان کا اپنا کاروبار ہے ۔ثمینہ گلؔ نے ان کی یہیں شادی کرا دی تھیں۔ اب ان کے دو بیٹے ہیں عبد اللہ فرخ اور موسٰی فرخ ۔ثمینہ گلؔ کے دوسرے بیٹے کا نام شاہ رخ دلشاد ہے جو ١٧ گریڈ میں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ملازمت کر رہے ہیں ۔ شاہ رخ دلشاد آئی ٹی سپیشلسئسٹ ہے ، آئی ٹی کے شعبے میں انہیں ان کی شاندار کارکردگی کی بنا پر گیارواں(Teradata IT National Award) مل چکا ہے ۔ ثمینہ گلؔ ان کی بھی شادی کرا چکی ہیں اور خوش و خرم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ثمینہ گلؔ کی بیٹی کا نام ماریہ دلشاد ہے۔ ماریہ دلشاد حال ہی میں ڈاکٹر آف فیزیو تھراپی بن چکی ہیں۔ آج کل باجوا ٹراما سنٹر میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ثمینہ گلؔ کا سب سے چھوٹا بیٹا علی دلشاد ہے جو سرگودھا یونیورسٹی سے ہی ایل ایل بی کر رہا ہے ان کا آٹھواں سمسٹر چل رہا ہے۔ثمینہ گلؔ کے چاروں بچے بہت ذہین ، سلجھے ہوئےاور سمجھدار واقع ہوئے ہیں۔ ثمینہ نے ان کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ اپنے سسرال کے برعکس انہوں نے اپنی اولاد کو بہت دوستانہ ماحول فراہم کیا ہے اور ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد ہونے نہیں دیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے دونوں بڑے بیٹوں فرخ اور شاہ رخ کی شادیاں وہ ان کی مرضی سے کرا چکی ہیں، اسی طرح بیٹوں کے ساتھ انہوں نے اپنی بیٹی کو بھی انہی جیسے حقوق، تعلیم اور آزادی دے رکھی ہیں ۔
اگلا موضوع : ثمینہ گل کے ادبی مشاغل
١۔ راقمہ : استفسار از ثمینہ گلؔ، بذریعہ موبائل فون، ٢٦ نومبر ٢٠٢۲ء، بوقت شام پانچ بجے
٢۔ راقمہ: استفسار از ثمینہ گلؔ، بذریعہ موبائل فون، ٣٠ نومبر٢٠٢۲ء، بوقت رات ٩ بجے
٣۔ راقمہ: استفسارازثمینہ گلؔ، بذریعہ موبائل فون،٥ دسمبر٢٠٢٢ء ، بوقت رات ٨ بجے
۴۔ راقمہ: استفسار از ثمینہ گلؔ، بذریعہ واٹس ایپ، ٨ دسمبر ٢٠٢٢ء، بوقت شام ۴ بجے
٥۔ راقمہ : استفسار از ثمینہ گلؔ، بذریعہ واٹس ایپ، ١٣ دسمبر ٢٠٢٢ء
٦۔ راقمہ: استفسار از روزینہ رئیس، بذریعہ موبائل فون، ١٥ دسمبر٢٠٢٢ء بوقت رات ٩ بجے
٧۔ راقمہ: استفسار از ثمینہ گلؔ، سرگودھا، بوقت صبح دس بجے، ٢٠ دسمبر ٢٠٢٢ء
٨۔ راقمہ: استفسار ثمینہ گلؔ، سرگودھا، بوقت صبح دس بجے، ٢٨ دسمبر ٢٠٢٢ء
٩۔ راقمہ:استفسار از ثمینہ گلؔ، بذریعہ واٹس ایپ، ٦ جنوری ٢٠٢٣ء شام ٥بجے
١٠۔ راقمہ:استفسار ازثمینہ گلؔ،بذریعہ واٹس ایپ،١٠جنوری٢٠٢٣ء، بوقت رات ٨ بجے
١١۔ راقمہ:استفسار از فرخ دلشاد، بذریعہ واٹس ایپ، ١٨جنوری٢٠٢٣ء، بوقت رات ٩ بجے
١٢۔ راقمہ:استفسار از ثمینہ گلؔ، سرگودھا، صبح گیاره بجے، ٢٥ جنوری ٢٠٢٣ء
١٣۔ راقمہ:استفسار از ثمینہ گلؔ، سرگودھا، صبح گیاره بجے، ٢٥ جنوری ٢٠٢٣ء
۱۴۔ راقمہ:استفسار از ثمینہ گلؔ، سرگودھا، صبح گیاره بجے، ٢٥ جنوری ٢٠٢٣ء
١٥۔ راقمہ:استفسار از روزینہ رئیس، بذریعہ واٹس ایپ، ٢٩ جنوری ٢٠٢٣ء ،بوقت شام ٥ بجے
١٦۔ راقمہاستفسار از : ثمینہ گلؔ، بذریعہ موبائل فون، ٢ فروری ٢٠٢٣ء
١٧۔ راقمہ:استفسار از ڈاکٹر ماریہ دلشاد، بذریعہ واٹس ایپ، ٢٢ فروری ٢٠٢٣ء، بوقت رات ٩ بجے
١٨۔ راقمہ: استفسار از روزینہ رئیس، بذریعہ موبائل فون، ٦ مارچ ٢٠٢٣ء