تقسیم ہند انتظار حسین کے ہاں ایک المیہ

تقسیم ہند انتظار حسین کے ہاں ایک المیہ

تقسیم ہند برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس واقعے کو دنیا کے بڑے بڑے واقعات میں گنا جاتا ہے۔ تقسیم کے نتائج پاکستان اور بھارت دونوں پر منتج ہوئے۔ برسوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد دونوں ممالک تو آزاد ہوئے لیکن تقسیم کے المناک حادثے نے حصول آزادی کی خوشی کو اذیت میں تبدیل کردیا۔

فسادات نے ہندوستان کی تقسیم کو اتنا بڑا سانحہ بنایا جس نے انسانیت کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔ 14 اگست 1947، کو پاکستان آزاد ہوا اس اعتبار سے یہ سال پاکستان کے لیے باعث فخر ہے لیکن دوسری طرف فسادات کے دوران فسادات کی وجہ سے جنم لینے والے واقعات سے یہ سال باعث افسوس بھی ہے۔

تقسیم سے ہزاروں برس کی تہذیبی روایات اور مشترکہ کلچر دفن ہوگیا۔ تقسیم کے نتیجے میں آزادی ملی لیکن خون میں لتھڑی ہوئی ملی۔ اس تقسیم کے دوران ایسے دل سوز واقعات سامنے آئے جو انسان کی انسانیت پر ہمیشہ کے لیے سوالیہ نشان بن گئے۔ تقسیم ہند کے تمام پہلوؤں میں ایک اہم پہلو فسادات ہے جس نے اس معاشرے میں رہنے والے لوگوں پر اثرات مرتب کیے۔اس حوالے سے فسادات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

ایک وہ فسادات جو عین تقسیم سے پہلے رونما ہوئے اور دوم تقسیم کے دوران(ہجرت) کے فسادات۔ادیب چونکہ معاشرے کا فرد ہوتا ہے اور ادب معاشرے کا پیداوار ہوتا ہے۔ ادب کا معاشرے سے گہرا تعلق ہے جو کچھ معاشرے میں وقوع پزیز ہوتا ہے ادیب ادب میں ان کا اظہار کرتا ہے۔ اس لیے تقسیم کے اس المیے کا ادب میں در اآنا نا گزیر تھا۔

یہ موضوع اپنے دور کے ادب کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی ادب کا بڑا موضوع رہا۔ تقسیم کے موضوع کے پس منظر میں سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی،کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اوپندر ناتھ اشک، حیات اللہ انصاری اور عصمت چغتائی سمیت اردو کے اکثر ادبا نے لازوال تخلیقات کو جنم دیا۔انتظار حسین بھی اردو ادب کے ان چند ادیبوں میں شامل ہیں جو خود ان حالات سے گزرے۔

انتظار حسین نے ہندو مسلم بھائی چارے کا دور بھی دیکھا، تقسیم ہند سے پہلے فسادات کا دور بھی دیکھا، انتظارحسین تقسیم کے دوران ہجرت کے درد سے بھی آشنا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد کا دور بھی دیکھا۔ انتظار حسین کی زندگی کے اہم واقعات میں ایک واقعہ تقسیم ہند بھی ہے جس نے ان کے ذہن پر نہ مٹنے والے نقوش ثبت کر لیے۔

یہ واقعہ ان کے ادبی سفر کے لیے کارگر ثابت ہوا اور اس واقعے نے ان سے ان کا پہلا افسانہ "قیوما کی دکان” سمیت اس موضوع پر ہندوستان سے ایک خط، ہمسفر اور کٹا ہوا ڈبہ جیسے بے مثال افسانے لکھوائے اور آخر تک یہ ان کے افسانوی ادب کا ایک مرکزی موضوع رہا اور

جس سے ان کے دوسرے موضوعات نے جنم لیا مثلاً ہجرت کا کرب، مشترکہ تہذیب، انسانی شناخت اور اساطیری رجحانات وغیرہ۔ جس طرح یہ ان کے افسانوی ادب کا اہم موضوع رہا ہے اس طرح اپنی آپ بیتی "جستجوں کیا ہے؟” میں بھی انہوں نے جگہ جگہ پر اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے۔

تقسیم کے دوران وہ فسادات جو ہجرت سے پہلے شروع ہوئے اس نے زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ چاہیے سیاست ،ادب،معاش ہو یا پھر تعلیمی نظام زندگی کا ہر شعبہ اس کی زد میں آچکا تھا ۔ انتظار حسین اپنی آپ بیتی "جستجو کیا ہے؟” میں اپنی تعلیمی سفر کے دوران میرٹھ کالج کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”ایسا ہی ایک واقعہ اور سن لیجیے۔یہ اس برس کی بات ہے جب جب "ہندوستان چھوڑو’ تحریک چلی تھی ۔

شہر شہر ہنگامے ہو رہے تھے۔ میرٹھ کیسے بچا رہتا۔ وہ بھی زد میں آگیا۔ اردگرد ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے لگ رہے تھے۔ لاٹھی چارج، آنسو گیس ، گرفتاریاں مگر میرٹھ کالج میں امن و امان تھا۔ بس ایک صبح اچانک کالج. کے کسی گوشے میں نعرہ بلند ہوا۔

سمجھوں کہ جیسے کسی نے بھس میں چنگاری پھینک دی۔ آگ فوراً ہی بھڑک اٹھی۔ کلاسوں سے لڑکے بھرا کھا کے نکلے۔نعرہ بازی شروع ہو گئی۔ کسی نے گھما کر پتھر مارا اور ایک کمرے کی کسی دریچے کے شیشے چکناچور ہوگئے. بس پھر دروازوں، دریچوں کے شیشے چکنا چور ہوتے چلے گئے۔ جب ہجوم کسی طور پر قابو میں نہ آیا تو پولیس طلب کی گئی ۔دم کے دم میں گھوڑا سوار پولیس کالج میں آن داخل ہوئی۔“(21)

اس اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح فسادات نے ہندوستان میں لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ مذکورہ اقتباس میں انتظارحسین کے لہجے سے یہ بات صاف واضح ہوتی ہے کہ فسادات نے کس قدر شدّت سے ہندوستانی معاشرے پر وار کیا۔ یہ صرف میرٹھ کالج کا حال نہیں تھا بلکہ پوری ہندوستان کی یہ حالت تھی بلکہ اس سے کئے گناّ ابتر تھی۔ میرٹھ کالج پہنچنے سے پہلے اس آگ نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے کے راکھ کر دیا تھا۔

فسادات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اعلیٰ تعلیمی مرکز اور تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی اتنی نفرت پیدا ہو چکی تھی کہ نہ تعلیمی مرکز کا احترام، نہ قومی مفادات کی کوئی خاطر احترام اور نہ مستقبل کی کوئی فکر تھی۔

بس جس کا جتنا ہاتھ پہنچ سکا اس نے اتنا نقصان کر کے اپنی انا کو تسکین دی۔ اس اقتباس کو مدنظر رکھ کر پورے ہندوستان کے مجموعی حالات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ تقسیم ہند کے المناک واقعے نے ہر طبقے کو تقسیم کر دیا تھا. سیاست نے نہ صرف ہندوستان کی زمین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں نفرت کا بیج بونے میں بھی کامیاب ہوئی۔

جہاں کسی دور میں گنگا جمنا تہذیب کی مضبوط بنیاد تھی، ایک خوشگوار ماحول تھا ،مختلف نسل اور مذاہب اور زبانیں بولنے والے لوگ اکٹھے تھے ۔ اس خوشگوار ماحول میں نفرتوں کی ایسی آندھی چلی کہ اس نے پوری ہندوستان کا رنگ دگر کر دیا۔اس ضمن میں انتظارحسین لکھتے ہیں:

” اب شہر کا رنگ دگرتھا۔فضا میں درہمی تھی پہلے سے بڑھ کر۔ اس گھنی آبادی میں مسلمانوں کے محلے اب کچھ چھدرے نظر آتے تھے۔ میں جس محلّہ میں رہتا تھا وہاں کتنے سرکاری ملازمین کے گھر تھے۔ ان کا جانا تو پہلے سے ٹھہر کیا گیا تھا سو وہ ایک ایک کر کے کم و بیش سب جا چکے تھے۔ سو کتنے گھر خالی ہو گئے تھے۔ قیامت خیز فساد دلی میں تو ہوا ہی آس پاس سے اور ایسی ہی خبریں آرہی تھیں۔ “(22)

ہندوستانی معاشرے پر تقسیم ہند کے اثرات کا دوسرا مرحلہ ہجرت تھا۔ ہجرت کے دوران لوگ تذبذب اور بے چینی کے شکار تھے۔ لوگوں میں ایک غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا اور ایک مشکوک مستقبل کے انتظار میں تھے ۔کوئی کھل کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ دوسرے ملک ہجرت کر ے یا اپنی جگہ ٹھہر جائے۔ ایک طرف گھر بار، رشتہ دار ،دوست ،

اپنی تہذیبی جڑیں اور سب کچھ تھے تو مستقبل خطرے میں تھا۔ دوسری طرف نیا ملک ،نئی زمین اور نئی تہذیب تھی لیکن ساتھ مستقبل کے لیے روشن امید تھی۔یہی حال دونوں اطراف تھا ہندوؤں کے ساتھ بھی اور مسلمانوں کے ساتھ بھی۔ "جستجو کیا ہے؟” میں مصنف کےاپنے ایک واقعے سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:

”ادھر پاکستان جانے کا سان نہ گمان مگر عسکری صاحب کا پیغام ۔جیسے کسی نے خاموش حوض میں اینٹ پھینک دی۔ میں دبدا میں پڑ گیا۔ پھر سوچا کہ نقد دم تو نہیں ہوں۔ کوئی آگا پیچھا بھی تو ہے۔ گھر جاؤں ،سوال ڈالوں ۔دیکھوں کیا جواب آتا ہے۔سو ہاپوڑ کی راہ لی۔۔۔۔

واپس آیا تو دیکھا کہ سلیم احمد نے بھی اپنے خاندان کے ساتھ رخت سفر باندھ رکھا ہے۔ اس کی امت میں جو نوخیز شامل ہوئے تھے وہ بھی اپنے گرد کے جلو میں چلنے پر تیار کھڑ ے تھے۔ ادھر عسکری صاحب کے اہل خاندان بھی کوچ کے لیے مستعد ہو بیٹھے تھے ۔مجھ سے پوچھا جا رہا تھا کہ چل رہے ہویا نہیں؟ اور میں حق دق کہ کیا کہیں ۔۔۔۔ اس چل چلاؤ میں بس میں بھی چل کھڑا ہوا“(23)

اس اقتباس کو مرکزی حیثیت دے کر پورے ہندوستان میں لوگوں کی ذہنی تذبذب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر لوگ ذہنی دباؤ اور ذہنی کشمکش کےشکار تھے۔ہندوستانی معاشرے پر تقسیم ہند کے فسادات کا دوسرا ا مرحلہ ہجرت کے دوران فسادات تھے وہ فسادات ہجرت کے دوران ہوئے اس میں ایسے واقعات سرزد ہوئے جس کا بیان کرنا ایک باشعور انسان کے لیے مشکل ہےاور جس کا انسان سے توقع بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ ایک دوسرے کی سایوں سے گھبرانے لگے ۔

دونوں اطراف لوگوں نے اپنے گھر بار، مال جائیداد رشتہ دار سب کچھ چھوڑ کر دل میں ایک امنگ کی کرن کے ساتھ ہجرت کی لیکن راستے میں ان کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے جس نے تقسیم ہند کے پہلے مرحلے کے فسادات کو شرمندہ کردیا

۔ دوران ہجرت فسادات نے ماضی کی خوبصورت اور خوشگوار تاریخ کے اوراق پلٹ کر رکھ دیئے جس گلی محلے میں محبت کے نغمے گائے جاتے تھے اب وہ ساز ٹوٹ چکا تھا اور ہر طرف ایک وحشت ناک سناٹا چھا چکا تھا۔ اس حوالے سے انتظار حسین لکھتے ہیں:

” میں اب جو کچھ بھی ہو ریل گاڑی کے اس مختصر سے سفر کا حاصل ہوں جو مختصر ہوتے ہوۓ بھی اتنا طویل نظر آرہا تھا۔ یوں وہ رات بہت کالی اور ڈراؤنی تھی کہ جب ریل چلتے چلتے اچانک رک جاتی ہے تو پاسبان فوجی فوراً اتر کر اپنی ٹارچوں سے دور اور نزدیک کا جائزہ لینے لگتے۔“(24)

انتظار حسین نے بظاہر ہجرت کے دوران کسی ناخوشگوار واقعے کا اظہار نہیں کیا کیونکہ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ وہ باسلامت پاکستان پہنچے لیکن ان کے اس اقتباس کے مزاج اور اس سے پیدا ہونے والے تاثر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رات کے دوران ڈراونا سفر اور ریل کے رکنے پر اچانک پاسبان فوجیوں کے اردگرد کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے دوران لوگوں کے ساتھ کیا کیا ہوا ہوگا۔الغرض ادیب اور شاعر جس معاشرے میں پرورش پاتا ہے اس کے جذبات و احساسات بھی اس معاشرے کے موافق ہوتے ہیں۔ تقسیم کا المیہ ایک بڑا المیہ تھا اور سب لوگ اس سے متاثر ہوئے ۔یہ اپنے دور کے ادب کے ساتھ ساتھ بعد کے ادب کے لیے ایک اہم موضوع رہا ۔

دوسرے ادیبوں کی طرح انتظار حسین بھی اس واقعے سے متاثر ہوئے بلکہ انتظار حسین نے اس کو زیادہ شدت سے محسوس کیا۔ جس طرح یہ ان کے افسانوں اور ناولوں کا بنیادی موضوع رہا اس طرح ان کی اپنی آپ بیتی ” جستجو کیا ہے؟” میں بھی انھوں نے اس موضوع کو انتہائی چابکدستی سے پیش کیا ہے۔

مزید یہ بھی پڑھیں: انتظار حسین کے ہاں ہجرت کا کرب

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں