تعلیم کیا ہے؟ قدیم اور جدید نظریہ تعلیم سے کیا مراد ہے؟
تعلیم تعریف و مفہوم
ا۔ تعلیم کیا ہے .تعلیم کا جامع اور مکمل مفہوم کسی ایک جملے یا پراگراف میں شاید نہ سمجھا جاسکے اوراس کی حتمی تعریف بھی شاید ممکن نہ ہو مگر تعلیم کے مختلف نظریات اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غورور کرنے سے شاید مطلب سمجھ میںآسکے۔
لفظ ” تعلیم ” عربی کے لفظ علم سے ماخوذ ہے اور اس کا لفظی مفہوم کسی کو دینا یا بہم پنچانا ہے مگر تعلیم محض علم پہنچانے کا نام بھی نہیں۔ اس میں کردار اخلاقی اور معاشرتی لین دین کی تربیت بھی شامل ہے۔ انگریزی میں لفظ ایجو کیشن اس لفظ کے معنی دیتا ہے ۔ یہ لفظ (EdE) سے بنا ہے جس کے معنی نکالنا ہیں۔
ایک خیال کے مطابق یہ لفظ لاطینی زبان کے دو الفاظ ( E ) یعنی نکالنا اور (Ducere) اپنی مدد کرنا ےے ماخوذ ہے جس کے معنی باہر نکالنے میں مدد دینا ہے ۔ اس طرح ایجو کیشن کا مفہوم یہ ہوا کہ انسان کے اندر جو صلاحیتیں قدرت نے رکھی ہیں ان کو بروئے کار لانے میں مدد دینا۔
کچھ لوگوں کے نزدیک تعلیم معاشرے کے پسندیده رسم و رواج اقدار اور طرز حیات کو آئندہ نسل تک پہنچانے کا نام ہے اور کچھ کے نزدیک تعلیم کا مطلب ترقی پذیر اور بدلتا ہوا معاشرہ پیدا کرنا ہے اور مزید کچھ ماہرین ان دونوں مفاہیم کو ملا کر ایک مجموعی تعریف کرتے ہیں جس کے مطابق تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے جس سے معاشرے کی بقا اور ارتقا دونوں مقصود ہیں۔ مختلف ماہرین نے تعلیم کی مختلف تعریفیں کئی ہیں ۔
قدیم فلاسفر یونان نے تعلیم کی تعریف یوں کی ہے۔افلاطون: تعلیم حقیقت کی تلاش ہے جو انسان کی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ انسان کے اندر حقیقت موجود ہے اس کی تلاش تعلیم ہے۔
ارسطو: تعلیم کا مفہوم ایک نئے آدمی کی تعمیر ہے ۔ تعلیم وہ عمل ہے جس سے معاشرے میں اتحاد اور عمدہ اخلاق پیدا کئے جاتے ہیں۔
فرانسیسی مفکر روسو کے مطابق تعلیم فطری ماحول میں فرد کی انفرادیت کی نشونما کا نام ہے ۔ مشہور ماہر تعلیم نفسیات پستا لوزی کے مطابق تعلیم فرد کی جسمانی اخلاقی اور دینی قوتوں کی متوازن اور تدریجی نشونما ہے۔
امام غزالی مشہور اسلامی مفکر اور ماہر تعلیم امام غزالی کے مطابق تعلیم انسانی معاشرے کے بالغ ارکان کی جدو جہد ہے جس سے آنے والی نسلوں کی نشود نما اور تشکیل حیات نصب العین کے مطابق کی جاتی ہے۔سرسید احمد خان نے تعلیم کے بارے فرمایا تعلیم و تربیت کو ہم معنی خیال کرنا بڑی غلطی ہے ۔
یہ دونوں جدا جدا ہیں۔ جو کچھ انسان میں ہے اس کو باہر نکالنا تعلیم ہے اور اس کو کسی ہنر کے قابل بنانا تربیت ہے۔
مشہور امریکی فلسفی اور ماہر تعلیم جان ڈیوی کے مطابق تعلیم بچے کے تجربات کی مسلسل تعمیر نو اور تنظیم نو کانام ہے۔ جان ڈیوی کی تعلیم کی تعریف کو بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ اس کے مطابق تجربات میں اضافہ اور ان کی تنظیم نو کا نام تعلیم ہے۔ ایک تجربہ مزید تجربات کا موجب بنتا ہے اور ہر تجربہ زندگی کی رہنمائی کرتا ہے یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہتا ہے ۔
تعلیم کی ان چند تعریفوں کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کے قدیم اور جدید نظریات کو سمجھا جائے۔ اگرچہ کوئی حد فاصل مقرر نہیں کی جاسکتی کہ قدیم نظریہ کسی دور اور عہد تک مقبول رہا ہے اور جدیدمفہوم کب رائج ہوا۔ آج بھی بہت سے معاشرے قدیم نظریہ تعلیم کو درست سمجھتے ہیں اور کئی قدیم ماہرین اور معاشرے بھی آج کے ترقی یافتہ نظریہ تعلیم کے قریب تر تھے۔
قدیم نظریہ تعلیم
قدیم نظریہ تعلیم میں استاد کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی تھی ۔
طالب علموں کی ضرورت اور احساسات کی بجائے استاد کے نظریات کو اولیت حاصل تھی تعلیمی اداروں میں ڈسپلن سخت تھا۔ زیادہ سے زیادہ اخلاقی تربیت پر زور دیا جاتا تھا۔ نصاب تعلیم بچوں کی ضروریات کی بجائے استاد کی تجویز کی ہوئی کتب پر مشتمل تھا۔ تعلیم اور نصاب کا بڑا مقصد رسمی نشوونما تھا ۔ طالب علموں کو جن مضامین کا درس دیا جاتا تھا وہ ان کے نفسیاتی تقاضوں ، عمر اور استعداد سے عموماً بے تعلق تھے۔
ان کا بچوں کی ضرورتوں اور دلچسپیوں سے کوئی خاص رابطہ نہ ہوتا تھا۔ سارا زور ذہنی بالیدگی پر ہوتا تھا۔ قدیم نظام تعلیم میں بچے کی متوازن نشو نما پر زیادہ توجہ نہ دی جاتی تھی اس تعلیم کا بچے کی جسمانی ، جذباتی اور معاشرتی زندگی سے زیادہ رابطہ نہ ہوتا تھا۔ کسی مضمون کو یاد کر کے اس پر عبور حاصل کرنے کو تعلیم کہلاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نوجوانوں میں اخلاقی اقدار کا فقدان اور اعلی تعلیمی ادارے مقالہ pdf
جدید نظریہ تعلیم
مغربی مفکرین تعلیم میں سے جان لاک پہلا شخص تھا جس نے تعلیم کو صحت مند اصولوں پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ اس لئے اس نظریہ کے مطابق تعلیم سے صحت مند جسم اور صحت مند ذہن تیار ہونا چاہئے ۔
لاک کے بعد دوسرا نام جو قابل ذکر اور قابل تعریف ہے وہ روسو ( Roseau) کا ہے ۔ حقیقت میں یہی شخص جدید تعلیم کا بانی ہے۔ اس کے نظریے کے ماتحت تعلیم کی بنیاد فطرت پر ہونی چاہئے ، اس کا سارا دار و مدار بچے کی خواہشات اور ان کے نفسیاتی تقاضوں پر منحصر ہے ۔جدید نظام میں بچے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور قدیم نظر یہ تعلیم کے بالکل برعکس ہے۔
سارا نظام تعلیم بچے کے گرد گردش کرتا ہے ۔ انفرادی تو تعلیم کے ہر عمل میں بچے کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اس نظام تعلیم میں، چاہے اس کا تعلق نظم و نسق سے ہو یا نصاب تعلیم یا طریقہ تعلیم و تدریس سے بچوں کی خواہشات احساسات اور نفسیاتی تقاضوں کی تشفی کی جاتی ہے۔ ہر عمل میں بچے کی فطرت اور نفسیات کا خیال رکھا جاتا ہے ۔
قدیم نظام تعلیم میں مضامین کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی مگر اب بچے اور طریقہ تدریس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ طریقہ تدریس کی تشکیل بچے کی عمر صلاحیت ، تر جمانی ، طبیعت اور نفسیات کے اصولوں پر کی جاتی ہے۔ اگر تدریس نفسیاتی اصولوں کے ماتحت کی جائے تو وہ بچے کیلئے فائدہ مند ہے۔ اگر طریقہ تدریس میں نفسیاتی اصولوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا تو تدریس سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اس طرح مضمون بے معنی اور بے جان رہے گا۔ پستالوزی کے مطابق تعلیم جست نہیں لگاتی بلکہ بچے کے ساتھ ساتھ بالیدگی کی طرف گامزن رہتی ہے۔
پستالوزی کا مزید یہ کہنا ہے کہ بچے کی فطرت کی عکاسی اس کی تعلیمی سرگرمیوں میں ہونی چاہئے اور ہر ادارے کو اس طریقہ کار کی صلاحیت اپنے میں پیدا کرنی چاہئے جس سے بچوں کی ضروریات اور خواہشات کے مطابق ردو بدل کیا جاسکے ۔ بچہ ایک پودا ہے اور استاد کی حیثیت ایک مالی کی ہے مالی کی ذمہ داری بڑی اہم ہوتی ہے ۔ مالی پودے کی نشود نما کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔
مثلا نگرانی . کیسے کی جائے؟ پانی کب دیا جائے؟ اس طرح استاد بچے کو دیکھتا ہے کہ اسے کب پڑھانا چاہیئے ؟ کیا اور کیسے پڑھانا چاہئے؟ اور مقصد کے حصول کیلئے کیسا ماحول پیدا کرنا چاہئے؟ تعلیم کو ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ ہر بارت اور پستالوزی نے ایسے اصولوں کا پتہ لگانے کی کوشش کی ہے جس سے تعلیم بچے کے لئے دلچسپ مشغلے کی صورت میں پیش کی جاسکے ۔ لیکن اس کی کامیاب تکمیل کیلئے استاد کا خود ان اصولوں ہے واقف ہونا ضروری ہے۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، کتاب علم التعلیمہ
یہ بھی پڑھیں: اقبال کا تصور تعلیم pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں