ترقی پسند تحریک پس منظر ، آغاز ادوار عرج اور اختتام

ترقی پسند تحریک پس منظر ، آغاز ادوار عرج اور اختتام

ترقی پسند تحریک تعارف پس منظر اور ابتدا

ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں 1936 ء میں ہوا تھا۔ لیکن ترقی پسند تحریک کے قیام کا ابتدائی اعلان احمد علی محمود الظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے مشورے سے 1933ء میں کیا گیا تھا۔

ترقی پسند تحریک حیدر آباد میں منعقد ہونے والی آٹھویں کل ہند کانفرنس کے بعد 1956 میں ختم کر دی گئی تھی ۔ (تخلیقی مصنف اور ترقی پسند مصنفین اثر احمد علی ، سیپ کراچی ، شماره 4)

ترقی پسند تحریک کی گولڈن جوبلی ، لندن، کراچی اور لکھنو میں 1986 میں منعقد کی گئی تھی۔

(اردو ادب کی مختصر تاریخ از انور سدید، صفحہ 428)

دسمبر 1932 ء میں شائع ہونے والے افسانوی مجموعے انگارے کو ترقی پسند تحریک کا نقطہ آغاز کہا جاسکتا ہے۔

انگارے

افسانوی مجموعہ انگار نے احمد علی ( دو افسانے) ، سجاد ظہیر ( پانچ ) ، رشید جہاں ( دو افسانے ) اور انگارے محمود الظفر (ایک افسانہ ) کے دس افسانوں کا مجموعہ ہے ۔

یہ ںوجوان مصنف (انگارے میں لکھنے والے افسانہ نگار ) زندگی کی بے کیفی اور یک رنگی سے گھبرائے اور جذباتی انقلابی تصورات سے بھرے ہوئے تھے ۔ (احتشام حسین )

انگارے کی بیشتر کہانیوں میں سنجیدگی اور ٹھہراؤ کم اور سماجی رجعت پرستی اور دقیانوسیت کے خلاف غصہ اور ہیجان زیادہ تھا۔ (سجاد ظہیر )

عزیز احمد نے انگارے کو سماج پر پہلا وحشیانہ حملہ قرار دیا ہے۔

عزیز احمد کے مطابق انگارے کی اشاعت سے نئے ادب نے خود مختاری کا علم بلند کیا۔

نیاز فتح پوری اور عبد الماجد دریا بادی نے انگارے کی مخالفت میں مضامین لکھے تھے ۔

انگارے کو مارچ 1933 ء میں ضبط کیا گیا تھا۔

ترقی پسند تحریک کو اولین فکری اساس اختر حسین راے پوری کے مقالہ ادب اور زندگی نے فراہم کی تھی جس میں گورکی اور ٹالسٹائی کے خیالات کو اردو داں طبقے میں متعارف کرانے کی کاوش کی گئی تھی۔

مضمون ادب اور زندگی رسالہ اردو میں جولائی 1935 میں شائع ہوا تھا ۔ یورپ کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے جن ہندوستانی طلبہ نے جرمنی کے ہٹلر کے فاشزم کی مخالفت کی تھی ان طلبہ کی جماعت نے ایک ادبی حلقے کی شکل 1935ء میں اختیار کی تھی۔

اس ادبی حلقے میں اردو کے ادیب سجاد ظہیر اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر، انگریزی زبان کے ادیب اور ناول نگار ملک راج آنند ، بنگالی کے ادیب ڈاکٹر جیوتی گھوش اور پر مودسین گپتا شامل تھے۔

ان طلبہ نے ہندوستانی ادیبوں کی ایک انجمن بنانے کے خیال سے پہلا باقاعدہ جلسہ لندن کے نان کنگ ریسٹوراں میں کیا تھا اور اس انجمن کا نام ہندوستانی ترقی پسند ادیبوں کی انجمن Indian Progressive Writter’s Association رکھا تھا ۔

(‏ اس انجمن کی تشکیل کے لیے باقاعدہ ایک مینی فسٹو ( منشور ) لندن ہی میں تیار کیا گیا تھا۔

ترقی پسند ادیبوں کی انجمن کے صدر ملک راج آنند منتخب ہوئے تھے ۔

ترقی پسند تحریک میں سجاد ظہیر کا نام اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تحریک کا عروج ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا مرہون منت ہے۔

ترقی پسند تحریک اردو ادب کی اولین تحریک تھی جس کے لیے ایک باضابطہ منشور ( منی فسٹو) تحریر کیا گیا تھا۔

لندن میں ہندوستانی ترقی پسند ادیبوں نے اپنی تحریک کا جو پہلا مینی فسٹو ( منشور ) تیار کیا تھا اس پر ڈاکٹر ملک راج آنند، سجاد ظہیر، ڈاکٹر جیوتی گھوش، ڈاکٹر ایس بھٹ، ڈاکٹر ایس۔ سنہا اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے دستخط تھے۔

لندن میں انجمن کے ایک جلسے میں ڈاکٹر سونیتی کمار چٹرجی ( ماہر لسانیات ) نے شرکت کی تھی اور رومن رسم الخط کی حمایت میں ایک تقریر کی تھی ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: ترقی پسند اردو ناول کا فکری و فنی مطالعہ مقالہ pdf

ترقی پسند تحریک کے مقاصد

اس پہلے مینی فسٹو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا مقصد یہ درج ہے کہ اپنے ادب اور دوسرے فنون کو پجاریوں اور پنڈتوں اور دوسرے قدامت پرستوں کے اجارے سے نکال کر عوام سے قریب تر لایا جائے ۔ انھیں زندگی اور واقعیت کا آئینہ دار بنایا جائے جس سے ہم اپنا مستقبل روشن کرسکیں ۔

ہم ہندوستان کی تہذیبی روایات کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے ملک کے انحطاطی پہلوؤں پر بڑی بے رحمی سے تبصرہ کریں گے اور تخلیقی و تنقیدی اندازے سے ان سبھی باتوں کی مصوری کریں گے جن سے ہم اپنی منزل تک پہنچ سکیں ۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ ہندوستان کے نئےادب کو ہماری موجودہ زندگی کی بنیادی حقیقتوں کا احترام کرنا چاہیے اور وہ ہے ہماری روٹی کا،بد حالی کا ، ہماری سماجی پستی کا اور سیاسی غلامی کا سوال۔

ان جیسے مقاصد کو سامنے رکھ کر انجمن ترقی پسند مصنفین نے مندرجہ ذیل تجاویز پاس کی تھیں :

(1) ہندوستان کے مختلف لسانی صوبوں میں ادیبوں کی انجمنیں قائم کرنا ۔ ان انجمنوں کے درمیان اجتماعی اور پمفلٹوں وغیرہ کے ذریعے ربط و تعاون پیدا کرنا ، صوبوں کی ، مرکز کی اور لندن کی انجمنوں کے درمیان قریبی تعلق پیدا کرنا۔

(2) ان ادبی جماعتوں سے میل جول پیدا کرنا جو اس انجمن کے مقاصد کے خلاف نہ ہوں۔

(3) ترقی پسند ادب کی تخلیق کرنا اور ترجمہ کرنا جو صحت مند اور توانا ہو ۔ جس سے ہم تہذیبی پسماندگا کو مٹا سکیں اور ہندوستانی آزادی اور سماجی ترقی کی طرف بڑھ سکیں ۔

(4) ہندوستان کو قومی زبان اور انڈو رمن رسم الخط کو قوی رسم الخط تسلیم کرنے کا پر چار کرنا ۔

(5) فکر و نظر اور اظہار خیال کی آزادی کے لیے جد و جہد کرنا ۔

(6) ادیبوں کے مفاد کی حفاظت کرنا عوامی ادیبوں کی مدد کرنا جو اپنی کتابیں طبع کرانے کے لیے امداد چاہتے ہوں۔

انجمن ترقی مصنفین کے متعلق اہم معلومات

اس پہلے مینی فیسٹو کو ہندوستان میں پریم چند نے سب سے پہلے خوش آمدید کہا تھا۔

پریم چند نے اس مینی فیسٹو کو اپنے رسالہ ہنس میں شائع کر کے ایک ادار یہ لکھا تھا جس میں ان مقاصد کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ہمارے ادب میں ایک نئے دور کا آغاز ہے ۔

لندن کی انجمن نے اپنا جو مینی فسٹو تیار کیا تھا اسے سائیکلو اسٹائل کر کے سجاد ظہیر نے ہندوستان میں اپنے دوستوں ڈاکٹر اشرف، ڈاکٹر محمود الظفر ، رشید جہاں، پروفیسر ہیرن مکر جی اور احمد علی کو بھیج کر ان کی راے دریافت کی تھی۔

1935 میں سجاد ظہیر کے ہندوستان واپس آنے کے بعد الہ آباد میں فراق گورکھپوری ، ڈاکٹر اعجاز حسین ، ہندی کے ادیب شیودان سنگھ چوہان اور نریندر شرما، احتشام حسین اور سید وقار عظیم نے سجاد ظہیر کے منصوبے کی تائید کی تھی۔

دسمبر 1935 میں الہ آباد میں مولوی عبدالحق منشی پریم چند اور جوش ملیح آبادی نے سجاد ظہیر کے کہنے پر انجمن کے مقاصد سے اتفاق کیا تھا اور انجمن کے مینی فیسٹو پر اپنے دستخط کیا تھا۔

ہندوستان میں سب سے پہلے الہ آباد میں ہی انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں آیا تھا۔

علی گڑھ میں ترقی پسند مصنفین کا پہلا جلسہ خواجہ منظور حسین کے مکان پر 1936 کے اوائل میں ہوا تھا جس میں علی سردار جعفری نے جدید ادب اور نوجوانوں کے رجحانات پر ایک مقالہ پڑھا تھا۔

علی گڑھ میں علی سردار جعفری، جاں نثار اختر ، حیات اللہ انصاری، مجاز ، اختر حسین رائے پوری خواجہ احمد عباس، شاہد لطیف وغیرہ نے اس تحریک کو تقویت بخشی تھی۔

حیدر آباد میں سبط حسن نے ادیبوں کو ترقی پسند تحریک کے لیے منظم کیا تھا۔

ہیرن مکرجی نے بنگال کے ادبیوں سے تبادلہ خیال کر کے کلکتہ میں انجمن کی تشکیل کی تھی۔

امرتسر ، لاہور اور پنجاب میں فیض احمد فیض، محمود الظفر ، رشید جہاں، اختر شیرانی، غلام مصطفیٰ تبسم، میاں افتخار الدین اور فیروز الدین منصور نے ترقی پسند تحریک کو آگے بڑھانے میں نمایاں حصہ لیا تھا۔

بہار میں سہیل عظیم آبادی ، تمنائی اور اختر اور ینوی نے ایک حلقہ قائم کیا تھا۔

لاہور میں 1937ء میں سجاد ظہیر اور ڈاکٹر اشرف نے علامہ اقبال سے ملاقات کر کے تحریک کے مقاصد ان کے سامنے رکھے جس پر علامہ نے بڑی ہمت افزائی کی تھی اور کہا تھا کہ ظاہر ہے کہ مجھے ترقی پسند ادب یا سوشلزم کی تحریک کے ساتھ ہمدردی ہے ۔ آپ لوگ مجھ سے ملتے رہیے ۔

ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کانفرنس

ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کانفرنس 15 اپریل 1936ء کو لکھنو میں منعقد ہوئی تھی جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی۔

اس کا نفرنس میں پریم چند کے علاوہ حسرت موہانی ، جے پرکاش نرائن، کملا دیوی چٹوپادھیاے، میاں افتخار الدین، یوسف مہر علی ، اندولال یا جنگ اور جیندر کمار وغیرہ نے شرکت کی تھی ۔

اس پہلی کل ہند کانفرنس میں سجاد ظہیر کو کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کا جنرل سکریٹری چنا گیا تھا۔

ترقی پسند تحریک کو سب سے زیادہ تقویت اس خطبے سے ملی تھی جو اس کا نفرنس میں پریم چند نے صدارت کرتے ہوئے پڑھا تھا ۔

پریم چند کے خطبہ صدارت کے چند اہم نکات

ادب کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں لیکن میرے خیال میں اس کی بہترین تعریف تنقید حیات ہے۔

جب ادب پر دنیا کی بے ثباتی غالب ہو اور ایک ایک لفظ یاس ، شکوۂ روزگار اور معاشقہ میں ڈوبا

ہوا ہو تو سمجھ لیجیے کہ قوم جمود و انحطاط کا شکار ہو چکی ہے۔

مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ میں اور چیزوں کی طرح آرٹ کو بھی افادیت کی میزان پر تولتا ہوں۔

بے شک آرٹ کا مقصد ذوق حسن کی تقویت ہے اور وہ ہماری روحانی مسرت کی کنجی ہے لیکن ایسی کوئی ذوقی معنوی یا روحانی مسرت نہیں ہے جو اپنا افادی پہلو نہ رکھتی ہو۔

ہمیں حسن کا معیار تبدیل کرنا ہو گا ۔ ابھی تک اس کا معیار امیرانہ اور عیش پرورانہ تھا۔

ہمارا آرٹ شبابیات کا شیدائی ہے اور نہیں جانتا کہ شباب سینے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھنے اور صنف نازک کی کج ادائیوں کے شکوے کرنے یا اس کی خود پسندیوں اور چونچلوں پر سر دھننے میں نہیں ہے۔ شباب نام ہے آئیڈیل کا ، ہمت کا مشکل پسندی کا ، قربانی کا۔

ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ حاضر طبیعت اور رواں قلم ہی ادب کے لیے کافی ہے۔

ہم دوسری زبانوں اور ادبوں کے دستر خوان کے جھوٹے نوالے ہی کھانے پر قناعت نہ کریں بلکہ اس میں خود بھی اضافہ کریں۔

جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدار نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے ، ہم میں قوت اور حرکت پیدا نہ ہو، ہما را جذبہ حسن نہ جاگے، جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کرے وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔


اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔

ادب آرٹسٹ کے روحانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آہنگی حسن کی تخلیق کرتی ہے تخریب نہیں۔

ادب ہماری زندگی کو فطری اور آزاد بناتا ہے۔

اس کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے۔ یہ اس کا مقصد روی ہے۔

پریم چند نے اپنا خطبہ ختم کرتے ہوئے آخر میں یہ الفاظ کہے تھے:

"ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جو ہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو جو ہم میں حرکت ، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے، سلائے نہیں کیوں کہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی ۔”

پہلی کل ہند کانفرنس کے آخری اجلاس میں مولانا حسرت موہانی نے بھی تقریر کی تھی اور انھوں نے ترقی پسند مصنفین کی تحریک اور اس کے اعلان نامے سے پورا اتفاق کیا تھا۔

حسرت موہانی کی تقریر کے چند اہم نکات

ہمارے ادب کو قومی آزادی کی تحریک کی ترجمانی کرنی چاہیے ۔ اسے سامراجیوں اور ظلم کرنے والے امیروں کی مخالفت کرنا چاہیے۔ اسے مزدوروں اور کسانوں اور تمام مظلوم انسانوں کی طرف داری اور حمایت کرنا چاہیے۔

محض ترقی پسندی کافی نہیں ہے ۔ جدید ادب کو سوشلزم اور کمیونزم کی بھی تلقین کرنی چاہیے ۔ اسے انقلابی ہونا چاہیے۔ اسلام اور کمیونزم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

پہلی کل ہند کا نفرنس میں اعلان نامے کے علاوہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا دستور اساسی بھی پیش کیا گیا تھا جو بالاتفاق منظو ہوا تھا ۔

انجمن کے دستور کا مسودہ سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبد العلیم اور محمود الظفر نے مل کر تیار کیا تھا۔

ترقی پسند ادیبوں نے اس پہلی کل ہند کا نفرنس کے اجلاس میں دو قراردادیں بھی پاس کی تھیں۔

پہلی قرارداد میں مسولینی کے حبش پر جارحانہ حملے کی مذمت کی گئی تھی۔

دوسری قرار داد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ادیبوں اور صحافیوں کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مکمل آزادی دے ۔

پہلی کل ہند کا نفرنس میں فراق گورکھپوری نے انیسویں اور بیسویں صدی کی تہذیبی اور اصلاحی تحریکوں پر اور احمد علی نے ترقی پسند ادب پر مقالہ پڑھا تھا۔

سروجنی نائیڈو نے پہلی کل ہند کانفرنس کے لیے ایک پیغام بھیجا تھا جو پڑھ کر سنایا گیا تھا۔

الہ آباد میں ترقی پسنداد بیوں کی پہلی کا نفرنس

پہلی کل ہند کا نفرنس کے بعد ترقی پسندادیوں نے الہ آباد میں پہلی کا نفرنس 1937ء میں کی تھی۔

الہ آباد کی پہلی کانفرنس کی مجلس صدارت کے لیے آچار یہ نریندر دیو، پنڈت رام نریش تر پاٹھی اور مولوی عبدالحق کے نام منتخب کیے گئے تھے۔

الہ آباد کی اس پہلی کانفرنس کے لیے مولوی عبدالحق نہ آسکے تھے لیکن انھوں نے اپنا خطبہ صدارت بھیج دیا تھا۔

الہ آباد کی دوسری کا نفرنس

ترقی پسنداد ادیبوں نے الہ آباد میں دوسری کا نفرنس مارچ 1938ء میں منعقد کی تھی ۔

الہ آباد کی دوسری کانفرنس میں فیض احمد فیض، ڈاکٹر عبدالعلیم ، حیات اللہ انصاری، مجاز، علی سردار جعفری، آنند نرائن ملا، پریم چند کے صاحب زادے امرت رائے ، شاہد لطیف، علی اشرف، فراق ، اعجاز حسین ، احتشام حسین اور وقار عظیم شریک ہوئے تھے ۔

الہ آباد کی دوسری کا نفرنس کی مجلس صدارت کے لیے جوش ملیح آبادی، آنند نرائن ملا اور ہندی کے مشہور شاعر سمتر انندن پنت کا نام چنا گیا تھا۔

الہ آباد کی دوسری کا نفرنس میں پنڈت جواہر لال نہرو نے تقریر کی تھی۔

الہ آباد کی دوسری کا نفرنس کے لیے رابندرناتھ ٹیگور نے ترقی پسند ادیبوں کے نام ایک پیغام بھیجا تھا۔

الہ آباد کی دونوں کا نفرنسوں کے علاوہ ترقی پسند ادیبوں نے دہلی اور ہری پورہ میں بھی دو اہم جلسے کیے تھے۔

دہلی کے جلسے میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی کونسل نے اسپین کی جمہوریت پسندوں کی حمایت اور فاشت فرانکو کی مخالفت میں ایک قرارداد پاس کیا تھا۔

ہری پورہ کے جلسے کی صدارت سروجنی نائیڈو نے کی تھی ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: مارکسزم اور اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک مقالہ pdf

دوسری کل ہند کا نفرنس

ترقی پسند مصنفین کی دوسری کل ہند کا نفرنس دسمبر 1938 میں کلکتہ میں ہوئی تھی ۔

دوسری کل ہند کانفرنس کے افتتاح کے لیے رابندر ناتھ ٹیگور کو بلایا گیا تھا جو بیمار ہونے کی وجہ سے نہ آسکے تھے۔

دوسری کل ہند کا نفرنس کی صدارت ملک راج آنند نے کی تھی۔

دوسری کل ہند کا نفرنس میں جو کلکتہ میں ہوئی تھی سجاد ظہیر، احمد علی ، عبدالعلیم، کرشن چندر ، مجاز اور سردار جعفری وغیرہ شریک ہوئے تھے۔

ترقی پسند ادیبوں نے اپنا رسالہ نیا ادب کے نام سے لکھنو سے 1939ء میں شائع کیا تھا۔

تیسری کل ہند کا نفرنس

انجمن ترقی پسند مصنفین کی تیسری کل ہند کا نفرنس مئی 1942ء میں دہلی میں منعقد کی گئی تھی۔

تیسری کل ہند کانفرنس کی صدارت ڈاکٹر عبدالعلیم نے کی تھی۔

تیسری کل ہند کانفرنس میں ترقی پسند ادیوں میں سے سجاد ظہیر، ڈاکٹر علیم مسرور ، کرشن چندر ، مجاز ، سردار جعفری، سبط حسن اور رشید جہاں شامل تھے۔

تیسری کل ہند کانفرنس میں حلقہ ارباب ذوق لاہور سے تعلق رکھنے والے ادیبوں میں سے ن، م راشد، میراجی ، مولانا صلاح الدین احمد اور قیوم نظر بھی شامل تھے۔ جو ادب کی افادیت کے منکر تھے اور ترقی پسند ادب کی تحریروں کو پرو پیگنڈہ کہتے تھے۔

تیسری کل ہند کانفرنس میں مولانا

عبد المجید سالک اور حفیظ جالندھری بھی شریک ہوئے تھے۔

تیسری کل ہند کانفرنس کا اجلاس ہارڈ نگ لائبریری کے ہال میں ہوا تھا۔

تیسری کل ہند کانفرنس کے اجلاس میں ترقی پسند ادیوں کی طرف سے ایک قرارداد پیش کی گئی تھی۔

جس میں ادیبوں اور فنکاروں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اتحادی اقوام کے ساتھ ہیں اور فاشزم کے خلاف ہیں ۔

ترقی پسند ادیبوں نے دہلی میں ہونے والی تیسری کل ہند کانفرنس میں دوسری جنگ عظیم کے متعلق جو پالیسی بنائی تھی۔

اس کی حمایت میں جوش ملیح آبادی اور ساغر نظامی کے مشترکہ بیانات
اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔

چوتھی کل ہند کانفرنس

انجمن ترقی پسند مصنفین کی چوتھی کل ہند کانفرنس اکتوبر 1945ء میں حیدر آباد میں منعقد ہوئی تھی ۔

چوتھی کل ہند کانفرنس کا افتتاح سروجنی نائیڈو نے کیا تھا۔ یہ کانفرنس لگا تار پانچ دن تک رہی تھی ۔

چوتھی کل ہند کا نفرنس کے مختلف اجلاسوں کے علاحدہ علاحدہ صدر چنے گئے تھے ۔

اردو ہندی کے مسئلے پر چوتھی کل ہند کانفرنس کا جو اجلاس ہوا تھا اس کی صدارت ڈاکٹر تارا چند نے کی تھی۔

شاعری پر چوتھی کل ہند کانفرنس کا جو اجلاس ہوا تھا اس کی صدارت فراق گورکھپوری نے کی تھی۔

جرنلزم پر چوتھی کل ہند کا نفرنس کا جو اجلاس ہوا تھا اس کی صدارت قاضی عبد الغفار نے کی تھی۔

تنقید پر چوتھی کل ہند کانفرنس کا جو اجلاس ہوا تھا اس کی صدارت احتشام حسین نے کی تھی ۔

چوتھی کل ہند کا نفرنس کے عام جلسے کی صدارت حسرت موہانی نے کی تھی۔

چوتھی کل ہند کا نفرنس میں سجاد ظہیر نے اردو، ہندی، ہندوستانی، سبط حسن نے اردو جرنلزم کا ارتقا، سردار جعفری نے اقبال کی شاعری ، احتشام حسین نے اردو میں ترقی پسند تنقید اور ساحر لدھیانوی نے اردو کی انقلابی شاعری کے عنوان سے مقالہ پڑھا تھا۔

چوتھی کل ہند کا نفرنس میں ہی ڈاکٹر عبدالعلیم نے ترقی پسند ادیبوں کے سامنے فحاشی کے خلاف قرار داد پیش کی تھی ۔

اس قرارداد میں یہ کہا گیا تھا کہ اردو ادب میں اس وقت فحاشی کے جو رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں ان کا ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند ادب کے نظریے سے کوئی تعلق نہیں ۔

اس تجویز کی قاضی عبد الغفار اور حسرت موہانی نے مخالفت کی تھی ۔

حسرت موہانی نے کہا تھا کہ ادبی تخلیقات میں لطیف ہوسنا کی کا اظہار کوئی مضائقہ نہیں ۔ ” اس پر یہ قرارداد مسترد ہو گئی تھی۔

پانچویں کل ہند کا نفرنس یا تقسیم ہند کے بعد ترقی پسند ادیبوں کی پہلی کانفرنس

انجمن ترقی پسند مصنفین کی پانچویں کل ہند کانفرنس دسمبر 1947 ء میں پہلی کا نفرنس کی طرح لکھنو میں ہوئی تھی۔ یعنی پہلی اور پانچویں کا نفرنس لکھنو میں ہوئی تھی ۔

پانچویں کل ہند کانفرنس کے مختلف اجلااس گنگا پرساد میموریل ہال میں تین دن تک ہوتے رہے تھے ۔

پانچویں کل ہند کانفرنس کے افتتاح کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد کو بلایا گیا تھا لیکن ان کے عین وقت پر نہ آنے کی وجہ سے ڈاکٹر سید محمود نے افتتاح کی رسم ادا کی تھی ۔

پانچویں کل ہند کانفرنس کے پہلے اجلاس کی صدارت جو عام جلسہ تھا قاضی عبدالغفار نے کی تھی ۔

پانچویں کل ہند کانفرنس کی مجلس مقالات کی صدارت پروفیسر رشید احمد صدیقی نے کی تھی ۔

پانچویں کل ہند کانفرنس کے اس اجلاس کی صدارت جو زبان کے مسئلے سے متعلق تھا نیاز فتح پوری نے کی تھی۔

مشاعرے کی صدارت جعفر علی خان اثر لکھنوی نے کی تھی۔

پانچویں کل ہند کانفرنس کی مکمل رو داد اور اس میں پڑھے جانے والے مضامین نظم و نثر کو جمع کر کے صہبا لکھنوی نے افکار (بھوپال) کا ایک خاص نمبر شائع کیا تھا۔

چھٹی کل ہند کا نفرنس

انجمن ترقی پسند مصنفین کی چھٹی کل ہند کانفرنس مئی 1949 ء بھی بسھیروی (ممبئی کا علاقہ ) میں منعقد ہوئی تھی۔

چھٹی کل ہند کانفرنس کی صدارت ہندی کے مشہور نقاد ڈاکٹر رام بلا اس شرما نے کی تھی۔

چھٹی کل ہند کانفرنس میں ترقی پسند ادیبوں نے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں 1930 کے مینی فسٹو کو نا کافی سمجھ کر ایک نیا مینی فسٹو منظور کیا تھا ۔

بسھیمڑی کی کانفرنس میں ترقی پسند مصنفین کی انجمن نے اپنا جو نیا منشور پیش کیا تھا اس سے اس تحریک کو فائدہ پہنچنے کے بجائے بعض ایسی مشکالات کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے نتائج ترقی پسند

ادیوں کی اس تحریک اور ادبی تخلیقات کی پیداوار دونوں کے حق میں مضر ثابت ہوئے۔

نئے منشور ( مینی فسٹو) کی اشاعت کے بعد بیزاری اور برہمی کا سب سے پہلا اظہار سردار جعفری کی طرف سے ان شاعروں پر ہوا تھا جو اپنے آرٹ میں رمزیت اور تغزل کے قائل ہیں ۔

چھٹی کل ہند کانفرنس میں ہندی کے مشہور نقاد ڈاکٹر رام بلاس شرما کو کل ہند انجمن کا جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا تھا۔

ساتویں کل ہند کانفرنس

انجمن ترقی پسند مصنفین کی ساتویں کل ہند کانفرنس مارچ 1952ء میں تیسری کی طرح دہلی میں ہوئی تھی۔ یعنی تیسری اور ساتویں کل ہند کانفرنس دہلی میں ہوئی تھی۔

ساتویں کل ہند کا نفرنس میں نئے منشور پر نظر ثانی کی گئی تھی۔

ساتویں کل ہند کا نفرنس کی صدارت کرشن چندر نے کی تھی۔

آٹھویں یا آخری کل ہند کانفرنس

انجمن ترقی پسند مصنفین کی آٹھویں اور آخری کل ہند کانفرنس مئی 1956ء میں چوتھی کا نفرنس کی طرح حیدر آباد میں ہوئی تھی۔

ترقی پسند ادب کی مخالفت

کلکتہ کے اخبار اسٹیٹس مین نے اپنے ادارے میں ترقی پسند تحریک کو خطرناک بتایا تھا اور اس پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔

ترقی پسند ادب کی مخالفت میں پہلا مضمون ‘نیا ادب کدھر جا رہا ہے” کے عنوان سے نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی نے لکھا تھا۔

جو ترقی پسند ادیبوں کے رسالہ نیا ادب کی جنوری فروری 1940 ء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔

نیا ادب کدھر جا رہا ہے کا جواب سجاد ظہیر نے سراج مبین کے نام سے لکھ کر اکتوبر 1940ء کے نیا ادب میں شائع کرایا تھا۔

نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی نے کچھ اور مضامین ترقی پسند ادب کی نفسیاتی تحلیل کے عنوان سے ادب لطیف میں لکھے تھے جس میں مغربی مصنفین کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ادب کا اصل مقصد جمالیاتی حظ ہے۔ اسے سماج کی اصلاح و درستی یا عقائد کی تبلیغ و اشاعت

سے کوئی واسطہ نہیں۔

جعفر علی خان کے ان مضامین کا جواب فیض احمد فیض نے رسالہ ادب لطیف ہی میں مضمون لکھ کر دیا تھا۔

ترقی پسند ادبی تحریروں کے سب سے بڑے معترض اور نکتہ چینی پروفیسر رشید احمد صدیقی نے بھی ایک طویل مضمون لکھ کر ترقی پسند ادب پر سخت نکتہ چینی کی تھی جو رسالہ آفتاب علی گڑھ کے خاص نمبر میں شائع ہوا تھا۔

رشید احمد صدیقی کے اس مضمون کے چند اہم اقتباسات:

جدید اور قدیم کی آویزش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ زندگی ۔ اس سے نہ ڈرنا چاہیے اور نہ ڈرانا ۔

ادب سنت اللہ نہیں کہ اس میں تبدیلی ناممکن ہو ۔

شعر و ادب انسانوں کی بنائی ہوئی چیز ہے اور انسانوں کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اسے ڈھالتے رہیں ۔

اگر کوئی شعر و ادب قوم و جماعت کی فکر و نظر کے مطالبات کو پورا نہیں کرتا تو اس شعر و ادب کو جوں کا توں رہنے دینا کبھی کوئی قابل فخر بات نہیں ہے۔

انقلاب دوستی یا ترقی پسندی کے معنی یہ کب ہوئے اور کیوں کر ہوئے کہ فسق و فواحش اور غارت گری ہی زندگی کا حاصل ہے۔ یہ کیسا آرٹ ہے؟ اور کون سا ادب ہے؟ اور کس قماش کی زندگی

ہے جس کا مرکزی اور بنیادی تصور فساد و فحاشی ہو۔

میرا عقیدہ ہے کہ فحش ہی نہیں ہر بات اس طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مذاق سلیم پر بار نہ ہو اور کسی کے دل کو ٹھیس نہ لگے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر اور غیر شاعر ، ادیب اور غیر ادیب ایک دوسرے سے علاحدہ اور ایک دوسرے سے ممتاز ہو جاتے ہے ہیں۔

یاد رہے کہ جعفر علی خان اثر ، رشید احمد صدیقی، محمد حسن عسکری، کلیم الدین احمد حلقہ ارباب ذوق سے تعلق رکھنے والے تمام ادبا و شعر اترقی پسند ادب کے سخت مخالف رہے ہیں۔

ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے شعرا

علی سردار جعفری

مخدوم محی الدین

علی جواد زیدی

اختر انصاری

مسعود اختر جمال

فیض احمد فیض

فراق گورکھپوری

جاں نثار اختر

اختر الایمان

شاد عارفی۔

پرویز شاہدی

محترم حامد مدنی صاحب

ظہیر کاشمیری

ابن انشا

تیغ الہ آبادی

اشعر ملیح آبادی

باقر مہدی

مسعود حسین

حسن نعیم

شہاب جعفری

مظہر امام

قاضی سلیم

دیپ حنفی

شاذ تمکنت

کمال احمد صدیقی

شفیق فاطمہ شعری

جاوید کمال

منظر سلیم

انور معظم

ترقی پسند نظریات کے حامل ناول نویس

پریم چندر

عصمت چغتائی

ہنس راج رہبر

ترقی پسند ڈرامہ نگار:

سجاد ظہیر

خواجہ احمد عباس

عصمت چغتائی

سجاد ظہیر

سعادت حسن منٹو

کرشن چندر

ساگر کی طرح

کرشن چندر

اوپندر ناتھ اشک

مرزا ادیب

ریوتی سرن شرما

ترقی پسند تحریک کے متعلق مختلف اقوال

تحریک کے پہلے پانچ سال ادبی اہمیت سے زیادہ تبلیغی اہمیت رکھتے ہیں ۔ ( آل احمد سرور )

جب سجاد ظہیر کے اعلان نامہ کی نقل ہندوستان کو پہنچی تھی تو اس پر منشی پریم چند، حسرت موہانی، مولوی عبدالحق ، ڈاکٹر عابد حسین، نیاز فتح پوری ، جوش ملیح آبادی، قاضی عبد الغفار، علی عباس حسینی عبدالغفار، علی اور فراق گورکھپوری بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دستخط کر دیے تھے ۔اردو ادب کی تحریکیں: انور سدید، صفحہ 473)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں