موضوعات کی فہرست
علامتی افسانہ
علامتی افسانہ فنی اور تکنیکی اعتبار سے تجریدی افسانے کے مترادف نہیں ہے بلکہ ان دونوں میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ دونوں کی تکنیک الگ الگ ہے۔ اس لیے ہمیں ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا سمجھنا چاہئے۔
علامتی افسانہ کی اساس بالعموم کسی تلمیح قدیم داستان یا مذہبی قصہ پر ہوتی ہے۔ کبھی اس میں متھ (Myth) سے کام لیا جاتا ہے تو کبھی بچوں کی کہانیوں سے لیکن یہ سب کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ماضی کے تناظر میں حالیہ وقوعہ رنگ افروز نظر آتا ہے۔ یہ علامتی افسانہ کی اساسی صفت ہے۔ یہ ماضی پرستی نہیں اور نہ کہنہ روایات کو زندہ کرنا بلکہ ماضی کی روشنی سے حال کی تاریکی اجاگر کی جاتی ہے۔ (۱۸)
افسانہ میں علامت کا مطلب ہے کہ افسانہ نگار زندگی پر روشنی ڈالنے کے لیے کسی ایک علامت سے کام لے کر تمام تر جزئیات کی ترجمانی کر دیتا ہے۔ یہ علامت عام زندگی سے بھی ہو سکتی ہے اور خود ساختہ اور وضع کردہ مہم اور اشکال والی بھی۔ علامت سے لاشعور کی ترجمانی بھی ہو سکتی ہے اور اس سے فرار کا انداز بھی بن سکتی ہے۔ علامت کے انتخاب میں ہر طرح کی آزادی ہے۔ چنانچہ قدیم اساطیر سے لے کر جدید کمپیوٹر تک سب سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ علامتی افسانہ نگار کے نزدیک اجتماعی لاشعور کی بنا پر ماضی کے تمام نفسی وقوعات آج کی نسل کی بھی میراث ہیں ۔ اسی لیے افسانہ نگار اساطیر، داستانوں اور تلمیحات کے اس پہلو کو بطور علامت استعمال کرتا ہے جو آج کی صورت حال کی ترجمانی کے لیے بھی علامت کا کام دے سکتی ہے۔ بالفاظ دیگر ماضی اور حال کے نفسی وقوعات کی تشریح ایک ہی علامت سے کی جاتی ہے۔ ماضی اور حال کے درمیان علامت ایک پل کا کام کرتی ہے۔ (آخری آدمی) انتظار حسین کے افسانے اس سلسلہ میں بہت اچھی مثال پیش کرتے ہیں۔
تجریدی افسانہ
تجریدی افسانہ دراصل تکنیک کا مسئلہ ہے۔ افسانہ نگار ایک خاص تاثر کی تشکیل کے لیے تاثر انگیزی کے تمام مروج قواعد سے انحراف کرتا ہے۔ اب تک افسانہ میں وحدت تاثر پر بہت زور دیا گیا تھا چنانچہ کسی زمانہ میں تو پلاٹ کو نقشہ بنا کر سمجھایا جاتا تھا۔ لیکن تجریدی افسانہ نگار کو پلاٹ کی تعمیر اور کرداروں کے ارتقا سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ زندگی کی وہ بھی ترجمانی کرتا ہے لیکن وہ زندگی کو جس طرح بے ہنگم اور منتشر پاتا ہے اسی روپ میں پیش کر دیتا ہے۔
پہلے افسانہ نگار زندگی کے لیے ربط واقعات کو ایک مربوط سلسلہ میں پروکر ایک خاص تاثر ابھارتے تھے، مگر تجریدی افسانہ نگار ایسا کرنے سے پر ہیز کرتا ہے۔ وہ انتشار کی تصویر انتشار سے ہی ابھارتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو تجریدی افسانہ واقعیت پسندی کے ذیل میں آجاتا ہے۔ لیکن یہ واقعیت پسندی خارجی نہیں بلکہ باطنی ہے۔ تجریدی افسانہ انسان کو متنوع اور بعض اوقات باہم متصادم نفسی کیفیات کے روپ میں دیکھتا ہے اور وہ انسان کو اس کے جسمانی روپ میں پیش کرنے کے بجائے اس کی نفسی تصویر کشی کی کوشش کرتا ہے ، اس مقصد کے لیے جدید نفسیات سے خصوصی استفادہ کیا گیا۔
چنانچہ تلازم خیالات(Association of Ideas)اور شعور کی رو (Stream Consciousness) تجریدی افسانے کے اہم ترین اوزاروں میں سے ہیں۔ ان کی بنا پر افسانہ میں لچک پیدا ہوگئی ۔ تلازم خیالات اور شعور کی رو کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ افسانہ ماضی یا حال کے خانوں میں مقید ہونے کے بجائے زمانی لحاظ سے ماورا ہو گیا۔ تجریدی افسانے نے وقت کا اپنا تصور پیش کیا ہے اور یہ تصور سرا سر داخلی ہے۔ مسعود اشعر کے افسانے اس حوالے سے منفر د مثال کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں ۔
تجریدی افسانہ تجریدی مصوری اور آزاد نظلم سے مشابہت رکھتا ہے۔ تجریدی مصور نے تصویر کی کمپوزیشن میں خطوط کو یکسر ختم کر کے اجزاء کو بکھیر کر اثر کی تخلیق نو کی۔ آزاد نظم اور پابند نظم میں وہی فرق ہے جو تجریدی اور پابند افسانہ میں ہے۔ پابند نظم اور پابند افسانہ دونوں فارم کے قائل ہیں اور اس حد تک کہ فارم پر بعض اوقات تاثر بھی قربان کر دیا جاتا، آزاد نظم کی طرح تجریدی افسانے نے بھی فارم کی قیود سے بغاوت کی ہے۔ جس طرح آزاد نظم میں شعریت قوانی سے نہیں بلکہ انفرادی مصرعوں سے پیدا کی جاتی ہے اسی تجریدی افسانہ میں اسلوب سے شعریت پیدا کی جاتی ہے۔ یہ ہر تجریدی افسانہ نگار کی خصوصیت تو نہیں۔ لیکن بعض افسانہ نگاروں نے اس پر زور دیا ہے۔
بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
” تجریدی افسانوں میں وحدت تاثر کے بجائے انتشار تاثر کا احساس ہوتا ہے یہاں علامتیں ٹوٹتی ہوئی نظر آئیں گی ۔ شاعری کو افسانے سے ملانے کا عمل بھی نظر آئے گا (۱۹)
اپنی خالص صورت میں تجریدی افسانہ کو فلم ٹریلر سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ فلم کے برعکس ٹریلر میں نہ تو واقعات منطقی ربط میں ملتے ہیں اور نہ ہی اس میں وحدت زمان کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ٹریلر تمام فلم کا ایک مجموعی مگر مبہم سا تاثر دے جاتا ہے۔ دیکھنے والا خود اپنی مرضی سے اپنے اندازے اور قیاس کے مطابق بیچ کی کڑیاں جوڑ لیتا ہے۔ یہی حال تجریدی افسانے کا ہے۔
تجرید کی صورت میں افسانہ نگار پہلی مرتبہ وقت کے جبر اور اس کے نتیجے میں جب منہ منطق کی قدغن سے آزاد ہو گیا تو اس کے لیے ان سیال ذہنی لمحات کی ترجمانی آسان ہو گئی جن میں انسانی سائیکی کے تذبذب اور بے یقینی کی بے وزن (Weightlessness) کیفیت نظر آتی ہے۔ چنانچه تجریدی افسانہ میں شعور (حال) اور تحت الشعور ( ماضی) کے ساتھ ساتھ لاشعور بھی گڈ مڈ نظر آتا ہے۔ (۲۰)
ڈاکٹر رشید امجد اکثر اپنے افسانوں میں علامت اور تجرید سے کام لیتے ہیں۔ نجم الحسن رضوی ان کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
"رشید امجد نے اپنے افسانوں میں معاشرے اور فرد کی بے چہرگی کا مرثیہ لکھا ہے۔
تذبذب، تشکیک، بے یقینی ، اور زندگی کی بے معنویت ان کے افسانوں میں طرح طرح سے اپنے جلوے دکھاتی ہے ۔ “ (۲۱)
جدیدیت کی رو میں بہنے والے بیشتر افسانہ نگاروں نے افسانے کی ہئیت اور اس حوالے سے پہلے سے موجود روایت سے بغاوت کی جس کی وجہ سے علامتی اور تجریدی افسانہ اس طرح سامنے آیا کہ اس کے ابلاغ میں کئی دشواریاں حائل ہو گئیں۔ کیونکہ یہ سمجھا جانے لگا کہ علامتی اور تجریدی افسانہ دراصل ہے ہی وہی جو کہ فوری سمجھ میں نہ آئے ۔ جدیدیت کی رو میں بہہ کر کئی افسانہ نگاروں نے افسانے کے بنیادی اصولوں سے گریز کیا ہے۔ جس کی وجہ سے افسانہ نثری متن تو بن جاتا ہے لیکن افسانہ نہیں رہتا۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں