تاثراتی تنقید کی تعریف، تاریخ اور وضاحت
تاثراتی تنقید کو تنقید کہنا صحت سے خالی غیر ذمہ دارانہ قسم کی چیز ہے۔ (کلیم الدین احمد)
تاثرث تنقید یہ دیکھتی ہے کہ کسی فن پارے سے ذہن پر کیا تاثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تنقید نگار کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ انھیں ان کے اصل روپ میں دیکھے اور ان کے بارے
میں اپنے تاثرات بیان کر دے۔ ( والٹر پیٹر)
تاثراتی تنقید کے اہم نقاد نیاز فتح پوری ہیں۔
ارود کے نمائندہ تاثراتی نقاد حسب ذیل ہیں :
محمد حسین آزاد ( آب حیات)
نیاز فتح پوری ( انتقادیات)
مہدی افادی (افادات مهدی) –
فراق گورکھپوری (اندازے)
فراق گورکھ پوری شروع سے آخر یک تاثراتی دبستان سے ہی متعلق رہے۔
کچھ نقاد حسب ذیل ہیں جن کے یہاں تاثراتی تنقید کے نمونے کہیں کہیں مل جاتے ہیں:
شبلی۔
مجنوں گورکھپوری ( تنقیدی حاشیے )
عبد الرحمن بجنوری ( محاسن کلام غالب )
محمد حسن عسکری ( انسان اور آدمی ستارہ یا بادبان)
رشید احمد صدیقی
شاعر کی زبان سے عالم بے خودی میں ایک ترانہ گل جاتا ہے جو سامعہ سے دماغ تک پہنچ کر ہم دارفتہ ہستی کر دیتا ہے ۔ ( رشید احمد صدیقی)
تخورشید الاسلام۔
واضح ہو کہ ہمارے بیشتر نقاد بیک وقت مختلف دبستانوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ خاص کر تاثراتی، رمانی اور جمالیات تنقید کے دبستانوں سے وابستہ ناموں کی فہرست و تقریباً یکسا ہے اس لیے ایک کمیی نام ایک سے زائد دبستانوں میں آپ کومشترک نظر آے گا۔
تنقید کی ایسی قسم جس میں تاثر کو اولیت دی جائے، تاثراتی تنقید کہلاتی ہے۔ انگریزی زبان میں اس کو(Impressionistic Criticism) کہا جاتا ہے۔
اس تنقید کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ ہر قسم کے ادب کی بنیاد تاثر بخشی پر ہوتی ہے۔ ادب خواہ کسی بھی قسم کا ہو اپنے پڑھنے والے پر ایک تاثر مرتب کرتا ہے بلکہ اگر کسی قسم کے تاثر کوفنی خصوصیات کے ساتھ پیش کر دیا جائے تو ادب وجود میں آئے گا۔ جس سے پڑھنے والے کو لطف بھی محسوس ہو گا۔
سپنگاراں نے اس انداز تنقید کو متعارف کرانے کے لیے بہت کام کیا اور اس کے خیال میں تاثراتی انداز تنقید ، جدید انداز تنقید ہے۔
سپنگاراں کے بعد چارلس لیمب اور ولیم ہیزلٹ کے ہاں بھی یہی انداز تنقید دکھائی دیتا ہے۔
تاثراتی تنقید والوں کے خیال میں ادب پیدا کرنے والے حالات سے کوئی سروکار نہیں رکھا اور نہ ہی وہ ادب کے نتائج سے کوئی سروکار رکھتے ہیں۔ اس لیے فن کا افادی پہلو ان کی نظر سے اوجھل رہتا ہے اور صرف جمالیات ہی تک محدود ہو جاتے ہیں۔ مغربی نقادوں میں سے لان جائی نس ، اور کروچے نے اس انداز کی تنقید کی ہے۔
اُردو ادب میں بھی تاثراتی تنقید کا کافی رواج رہا ہے۔ حالی اور شبلی نعمانی کےبعد مہدی افادی اور عبد الرحمن بجنور کے ہاں اس انداز کی تنقید ملتی ہے۔ نیاز فتحپوری تاثراتی سے کام لیا ہے اور وہ شاعری کا تعلق وجدان سے جوڑنے کے بعد اس کا مقصد سوائے لطف اندوزی کے اور کچھ بھی قرار نہیں دیتے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی تنقید، سماجی تنقید، مارکسی تنقید، نفسیاتی تنقید، جمالیاتی
لطف اندوزی بھی اپنی ذات میں ایک تاثر پذیری ہی ہوتی ہے۔
ان کے خیال میں شاعری میں ایک پیغام ہوتا ہے لیکن ضرور نہیں کہ یہ پیغام ملی یا قومی نوعیت کا ہو۔ وہ اپنے اثرات کا بے دھڑک اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے کسی کو قائل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
مومن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں: ” میں اپنی پسندیدگی پر آپ کو مجبور کر سکتا ہوں اور نہ آپ مجھ سے اپنی عدم پسندیدگی کو بہ خبر تسلیم کر اسکتے ہیں۔“
یہی ہے وہ تاثراتی تنقید جو نیاز کے ہاں عام ملتی ہے۔ تاثراتی تنقید لازمی طور پر ذاتی ہوتی ہ اور نقاد اپنے تاثرات کی عینک سے فن پارے کو دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ ہر نقاد کا اپنا مزاج، سوچ کا اور ذہنی کیفیت ہوتی ہے۔
چنانچہ اس کے مطابق تنقید جنم لیتی ہے اور نقاد اپنی ذات مرکزی اہمیت حاصل کر لیتی ہے۔ آج کل اس قسم کی تنقید کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔
مزید یہ بھی پڑھیں: نئی تنقید، تعریف و توضیح اور نئی تنقید کا منصب
بشکریہ ضیائے اردو نوٹس + تنقید اور نئے تنقیدی مباحث
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں