بین المتونیت(Intertextuality) | ڈاکٹر محمد اشرف کمال

پس منظر


ہر تحریر متن پر مشتمل ہوتی ہے۔ کوئی بھی متن آزاد نہیں ہوتا اور ہر متن دوسرے متن سے تعلق رکھتا ہے۔ بین المتونیت کا نظریہ جولیا کرسٹیوا نے دیا ہے۔ اس کے خیال میں کوئی بھی متن خود مختار نہیں ہے۔ ایک متن کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ کسی دوسرے متن کے معنی اور سیاق و سباق کو سامنے رکھا جائے ۔ کیونکہ ہر متن کئی دوسرے متون کی مدد سے وجود میں آتا ہے۔

بین المتونیت کی تعریف

ایک متن کو پڑھتے ہوئے دوسری متن کو حوالہ کے طور پر استعمال کرنا بین المتونیت کہلاتا ہے۔

۱۹۶۶ء میں جولیا کرسٹیوا نے اس حوالے سے اپنے نظریات کا اظہار کیا۔اس کے بقول جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مصنف اور قاری کے درمیان معانی کی تفہیم نہیں ہو رہی ہے تو قاری ان معانی تک نہیں پہنچ پا رہا ہے جن تک مصنف اسے پہنچانا چاہتا ہے تو وہ اس کے لیے دوسرے متون کا سہارا لیتا ہے۔

بین المتونیت کا مواجد

جولیا کرسٹوا کے خیال میں کوئی بھی متن انفرادی اور مکمل طور پر خود مختار نہیں ہوتا بلکہ ہر متن ثقافتی متن سے ترتیب پاتا ہے۔ کرسٹوا کا کہنا ہے کہ دونوں انفرادی متن اور ثقافتی متن جس قسم کے مواد اور عناصر سے ترتیب پاتے ہیں اس کی اصل ایک ہی ہے ۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے ۔ (۱۲)

نئی تنقید اور بین المتونیت

نئی تنقید کے مطابق متن کی ہر بار قرآت نئے معانی کو سامنے لے آئے گی، کیونکہ ہر قاری اپنے پہلے سے پڑھے گئے متون کی روشنی میں اس متن کا مطالعہ کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ انھیں متون کی وساطت سے معنی اخذ کرتا ہے۔

ڈاکٹر محمد اشرف کمال: تنقیدی نظریات اور اصطلاحات سے انتخاب

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں