بشری رحمن سوانح و شخصیت

بشری رحمن کے سوانحی حالات

تحقیق کرتے وقت کسی تخلیق کار کے سوانح سے باخبر ہونا ازحد ضروری ہے۔ سوانح میں ابتدا سے لے کرموجودہ دور یا آخر تک تمام ایسے واقعات اور معلومات ہوتے ہیں جن کا اثر کسی نہ کسی صورت فن پارے میں دکھائی دیتا ہے۔ اسی غرض سے یہاں بھی ڈاکٹر بشریٰ رحمٰن کا سوانحی خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔

بشری رحمن کی پیدائش

بشری رحمن جن کا شمارپاکستانی کی محنتی اور کہنہ مشق لکھاریوں میں ہوتاہے۔جوایک ایسےفن کار کی حیثیت سےمسلسل اور لگاتارفن پارےتخلیق کرتی آرہی ہیں۔وہ ایسےخاندان سےتعلق رکھتی تھیں،جوخودادبی لوگوں سےمتعلق تھا۔

ان کےوالدکانام عبدالرشیدتھاجوایک شاہی طبیب تھے۔انھوں نےابتداہی میں اپنی بیٹی کوکلام اقبال یادکروایاتھا۔جب کہ ان کی والدہ نصرت رشیدخودایک شاعرہ تھیں۔بشریٰ رحمن کی خصوصیات میں سےایک عمدہ خصوصیت یہ تھی کہ الفاظ پرانھیں مکمل عبورحاصل تھا۔

اس لیےان کےبارےمیں کہاگیاکہ الفاظ بشریٰ رحمٰن کےسامنےیوں ہاتھ باندھےکھڑےہوتےگویایہ ان کےسرکےتاج ہوں۔

بشریٰ رحمن ۲۹ اگست ۱۹۴۴ءکوبہاولپورمیں پیداہوئیں۔‘‘(۱)

بہاولپورکی اہمیت یہ ہےکہ بہت ذرخیزخطہ ہے،اس کےخمیرمیں انمول موتےگوندھےگئےہیں،جن میں ایک نایاب اورانمول نگینہ بشریٰ رحمن ہیں۔

جنھوں نےادبی فضااورماحول میں آنکھ کھولی۔بشریٰ رحمن نےپنجاب یونی ورسٹی سےایم ۔اے کی سندحاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: بشری رحمن کی سفر نامہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ | pdf

بشری رحمن کا خاندانی پس منظر

ڈاکٹر بشری رحمن کا خاندان ایک علمی اورادبی خاندان تھا۔انھوں نےجس ماحول میں آنکھ کھولی وہی انھیں ادبی فضا میسرآئی جس سےانھوں نےبھرپوراستفادہ کیا۔ان کےوالدشاہی طبیب کےحیثیت سےجانےجاتےہیں جوکہ ایک جانےمانےطبیب تھے۔

ان کی والدہ نصرت رشیدایک شاعرہ تھیں۔نصرت رشیدکااثران کی بیٹی بشریٰ رحمن پردکھائی دیتاہے۔بشریٰ رحمن نےاپنی ماں سےادبی زبان،شعری وسائل اورالفاظ کےساتھ لفظ کی صوت وغیرہ پرقدرت حاصل کی اوربعدمیں انھوں نےشاعری کا راستہ بھی اپنایا۔

بشری رحمن کی والدہ شاعرہ تھیں ،لیکن ساتھ ان کی بہن فرحت بھی ایک اچھی شاعرہ تھیں۔اس حوالےسےانھوں نےاپنےشعری مجموعے’’صندل میں سانسیں جلتی ہیں‘‘کےپیش میں لکھاہےکہ مجھےشعرسننااورکہنابچپن ہی سےاچھالگنےلگتاتھاکیونکہ میرےگھرمیں پہلے سے دو شاعرات موجودتھیں،بہت کچی عمرمیں،

یہ پکی سی بات میرےذہن میں بیٹھ گئی،کہ اس گھرمیں اپناآپ منوانےکےلیےکوئی منفردراستہ اختیارکرناہوگا،اس عمرمیں توساراجہان گھرکےاندرہی  نظرآتا،منفردراستہ نثرنگاری ہی کاتھا۔

ان کےاس بیان سےان کےہاں شعرکی دل چسپی اورشعرکےبجائےنثرکی طرف مائل ہوناثابت ہوجاتا ہے کہ انھوں نےانفرادیت برقراررکھنےکےلیےنثرنگاری کا راستہ اپنایاکیوں کہ پہلےسےان کےگھرمیں شاعرات موجود تھیں۔جس سےانھوں نے

یہ سبق حاصل کیا کہ مجھےاگراپناآپ منواناہےتومجھےکوئی اورراستہ اپناناہے۔اس لیےوہ نثر نگاری کی طرف مائل ہوئیں۔اورنثرکےحوالےسےانھو ں نےاپنا ایک الگ نام پیداکیا۔وہ اردوادب کاایک جانا پہنچانا نام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بشری رحمن حیات اور ادبی خدمات pdf

بشری رحمن کی ادبی زندگی

یوں تو روزمرہ زندگی میں کتنےلوگ مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ معاشی، سیاسی، سماجی، مذہبی وغیرہ حالات بھی دیکھتےہیں ۔ انسانیت کے درد وکرب میں  ڈوبی آہیں اور سسکیاں بھی سنتے ہیں۔

مگر ان حالات وواقعات کو جب ایک شاعر اپنی نگاہ تخیل سے دیکھتا ہے تو فن شاعری تخلیق ہوتی ہے۔ اس لیے کہ شاعر کی  احساس، حسیت اور مطالعہ ومشاہدہ  عام لوگوں سے  کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

اسے ایک عام واقعے میں بھی ایسی  چیزیں  نظر آتی ہیں جن سے ایک عام آدمی کی چشم خیال اندھی رہتی ہے۔بشریٰ رحمن کےہاں بچپن ہی میں ایک شاعرپوری آب و تاب سےابھرالیکن بعدمیں انھوں نےشاعری کی بجائےاپنی انفرادیت قائم کرنےکی وجہ سےنثرنگاری کارخ کیا۔

بشری رحمن نےادبی زندگی کاآغازایک معنوں میں بچپن ہی سےکرلیاتھا۔انھوں نےابتدامیں مختلف قسم کی کہانیاں لکھیں،مضامین لکھےاورافسانےبھی لکھے۔انھوں نےبچپن میں کہانیاں لکھیں،کہانیوں سےان کا ذہن پھر مضمون کی طرف مائل ہوا اوراس کےساتھ ان کےہاں ذہنی ارتقاکےآثارنظرآتےہیں۔

مضامین اورکہانیوں کے ساتھ انھوں نےافسانہ نگاری میں طبع آزمائی کی ہے۔اس کےعلاوہ انھوں نےشاعری کی طرف بھی توجہ دی اورنظم نگاری کی طرف مائل متوجہ ہوئیں۔

ابتدامیں شاعرانہ ماحول اور شاعرانہ فضا کےساتھ ان کی ادب کی طرف دل چسپی نےانھیں اس مقام تک پہنچایا ،جہاں ان کامن لگاہواتھا۔وہ ادب کوبہت اہمیت دیتی تھیں کہ ادب کسی معاشرےکاعکاس ہوتاہے،ادب میں اس معاشرےکی جھلکیاں نمایاں طورپرنظرآتی ہیں۔یہی وجہ ہےکہ ادیب جوکچھ بیان کرتاہےاس میں سماجی حقائق  بدرجہ اتم موجودہوتےہیں۔

انھوں نےاپنےگھرکےماحول سےفائدہ اٹھاتےہوئےادب کی طرف توجہ دی،لیکن انھیں پھریہ مسٔلہ درپیش رہاکہ ان جیسی شاعرات کےہوتےہوئےوہ اپنی حیثیت یا اپنانام کس طرح پیداکرےیوں انھوں نےنثرکاراستہ چنااوراس پرچل پڑیں۔افسانہ نگاری کےعلاوہ انھوں سب سےزیادہ زورناولوں پہ صرف کیا۔

شاہکار،لگن،پیاس،دل اوردستک،عشق عشق اورلازوال اپنےاپنےدورکےمانےہوئےاورعمدہ ناول ہیں۔انھوں نےسترہ عمرکی برس  میں ایک ناول’’چارہ گر‘‘کےنام سےلکھا۔یہ ناول انھوں نےشادی سےقبل لکھاتھا۔اس ناول میں رومانویت موجودہےبل کہ پوراکاپوراناول رومانویت ہی کےموضوع پرمبنی ہےلیکن ان کاکمال یہ ہےکہ انھوں نےاس ناول میں اخلاقیات کو سرفہرست رکھاہے۔اس کےعلاوہ ان کی کئی  تصانیف منظرعام پرآئیں،ان کےکئی ناولوں کو ٹیلی وژن نےڈرامائی تشکیل بھی دی۔

ان کاایک ناول’’پیاس‘‘ہے۔اس ناول کےمتعلق ناقدین نےخیال کیا ہےکہ یہ ناول دراصل خونِ جگرمیں انگلیاں ڈبوکرلکھی گئےپیاسےجذبوں کی داستان ہے۔اس ناول کے حوالے سے مرزاادیب نےبشریٰ رحمن کےبارےمیں کہاتھا،مرزاادیب کےالفاظ کاخلاصہ کچھ یوں ہے؛بشریٰ رحمن کی کہانیوں کےمطالعےکےبعدبجاطورپرکہاجاسکتاہےکہ وہ کہانی کہنےکابڑااچھابڑامؤثراوربڑاخوبصورت ڈھنگ جانتی ہیں اور یہ کسی بھی تخلیق کارکی بڑی اوراہم خوبی تصورکی جاتی ہے۔

بشری رحمن نےسماج کےمنفی رویوں،معاشی مسائل،سیاسی نظام کی تخریب کاری اورمتعدددیگروجوہات کی بناپرادب کارخ کیااورادب میں ان مسائل کو نہ صرف سامنےلانےکی سعی کی بل کہ انھیں ختم کرنے کےلیے تجاویز بھی پیش کیں۔اس کےعلاوہ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنےہوئی اشیاکاانھوں نےذکربھی کیاہےاورانہیں جڑسےاکاڑپھینکنےکی درس بھی دی۔

کہ ان اشیاکوختم کرکےاورانہیں اپنی زندگی سےنکالنےکےبعدوطن عزیزترقی کی راہ پرگامزن ہوگا۔ان کےہاں ہمیں ذہنی ارتقابھی دکھائی دیتی ہے۔ابتدامیں یا دورشباب میں انسانی فطرت عشق و عاشقی وغیرہ کی طرف بہت مائل ہوتاہے،

یہ دورجنونیت کا دورکہلایاجاسکتاہےکیوں کہ اس دورمیں انسان اپنےہوش وحواس کےبجائےدل کی تقلیدکرتاہے،وہ اپنےنقصان اورفائدےکاہرگزنہیں سوچتا،اسی طرح سماج،اقدار،روایات وغیرہ کی پاسداری بھی نہیں کرتابل کہ من و عن وہی کرتاہےجواسےدل کہتاہے۔لہٰذابشریٰ رحمن کےہاں بھی ہمیں ابتدائی تصانیف میں رومانویت نظرآتی ہے۔اس حوالےسےان کا ناول ’’پیاس‘‘اہمیت کا حامل ہے،جس میں خونِ جگرمیں انگلیاں ڈبوکرپیاسےجذبوں کی کہانی بیان ہوئی ہے۔

جذبات نگاری کالےابتدامیں بشریٰ رحمن کےہاں تیزہےلیکن دھیرےدھیرےان کےہاں ذہنی پختگی اورمشاہداتی عمق نظرآتی ہے۔اس کےبعدان کےوہ دور سامنے آتاہےجس میں انھوں نےسیاست میں قدم رکھا،یہاں تک آتےآتےان کےہاں ادبی حوالےسےذہنی قوت میں اوربھی اضافہ ہوچکاتھا،اس لیےان کی زندگی کےآخری ایام میں لکھےگئےفن پارےمعنویت سے پُر نظر آتےہیں۔ان فن پاروں میں فکری اورفنی لحاظ سےپختگی نظرآتی ہے۔

المختصر بشری رحمن نےبطورشاعرہ ادبی زندگی کا آغازکرناچاہا بل کہ کیالیکن بعدمیں اپنےگھرمیں دوشاعرات جوکہ عمدہ شاعرات تھیں کودیکھ کراس خیال کو ترک کردیااوروہ نثرنگاری کی طرف چلی آئیں۔نثرمیں انھوں نے اپنا نام منوایاہے۔ انھوں نےعمدہ نثرپارےتخلیق کیے،جن کی بناپرانھیں شہرت حاصل ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: بشری رحمن کی سفر نامہ نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ | pdf

بشری رحمن کے تصانیف

بشری رحمن نےکئی ادبی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے،انھوں نےافسانے،سفرنامے،ناول اورناولٹ لکھےہیں۔اس کےعلاوہ انھوں کےشعری  مجموعےبھی شائع ہوئے۔ان کی تصانیف کی فہرست کچھ یوں ہے:

بشری رحمن کے ناول

خوبصورت

کس موڑپرملےہو سن اشاعت ۲۰۰۷ء

تیرے سنگ درکی تلاش میں

پارسا

شرمیلی 

لگن 

لازاول(حصہ اول)

لازوال(حصہ دوم) یہ ناول ۱۹۹۰ءمیں شائع ہوا اوراس کی صفحات کی تعداد۳۹۰ ہیں۔

پیاسی

چارہ گر

بشری رحمن کے ناولٹ

بشری رحمن نےجہاں خوب صورت ناول لکھےوہی انھوں نےعمدہ ناولٹ بھی تخلیق کیےہیں۔انھوں نےناولوں سےجوکام لیاہےوہ ناولٹ کےحصےمیں بھی آیاہے۔ان کےناولٹ کی فہرست درجہ ذیل ہے۔

ایک آوارہ کی خاطر

لالہ صحرائی

پےانگ گیسٹ

بت شکن(۱۹۹۰ء)

بشری رحمن کے افسانے

چپ

بہشت

عشق عشق

پشیمان

قلم کہانیاں بشریٰ رحمن کا یہ افسانوی مجموعہ ۹۲۵صفحات پرمشتمل ہے،جس میں ۵۰  افسانےشامل ہے۔یہ افسانوی مجموعہ ۱۹۸۸ءمیں اشاعت پذیرہوا۔

بشری رحمن سفرنامے

بشری رحمن نےافسانوی ادب کےساتھ ساتھ غیرافسانوی ادب میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔انھوں نےسفرنامہ نگاری کی طرف توجہ دی اوردوخوب صورت سفرنامےلکھے۔

ٹک ٹک دیدم ٹوکیو(۱۹۸۹ء)

درد دیس

اس کےعلاوہ ان کی تصانیف میں اللہ میاں جی،باؤلی بھکارن(۱۹۸۲ء)،بےساختہ،صندل میں سانسیں چلتی ہیں(شاعری)،دانارسوئی،چاندسےنہ کھیلو اورمولاناابوالکلام آزاد،ایک مطالعہ شامل ہیں۔انھوں نےپی۔ٹی وی اورپرائیوٹ پروڈکشن کےلیےڈرامےبھی لکھے۔اس کےعلاوہ’’ روزمانہ جنگ‘‘میں چادرچاردیواری اورچاندنی کےنام سےکالم بھی لکھے۔

’’صندل میں سانسیں جلتی ہیں‘‘ ان کاشعری مجموعہ ہےجوکہ غزل ونظم دونوں پرمشتمل ہے۔ان کی نظمیں اورغزلیں روایتی نہیں دکھائی دیتی بل کہ ان میں جدت اور ندرت پائی جاتی ہے۔ان کےاشعارمیں ہمیں جدت و ندرت کےعلاوہ افکار کی گہرائی اورخیال میں نیاپن نظرآتاہے۔بشریٰ رحمن کوہم عصرشاعرات میں الگ اورمنفردمقام حاصل ہے۔

وہ اپنےہم عصروں سےممتازنظرآتی ہیں۔جس طرح بانوقدسیہ کوآپابانوقدسیہ قرار دیا جاتا تھا۔ان کےبعدبعنیہ بشریٰ رحمن کوبھی آپابشریٰ رحمن کہاجانےلگا۔

المختصرانھوں نےمتعددتصانیف تحریرکیں،اورساتھ ساتھ مختلف اصناف میں بھی طبع آزمائی کی ۔انھوں نےناول،ناولٹ،افسانے ،کالم ،ڈرامے اورسفرنامےضبط تحریرکیے۔

انھیں ادب و صحافت سےلگاؤ تھا،اس لیےبہ یک وقت دونوں کی طرف مائل ہوئیں اورنمایاں خدمات انجام دیے۔ان کےناولوں میں رومانویت،پاکستانی سیاسی نظام،حب الوطنی،معاشرت نگاری،حقیقت پسندی،ترقی پسندی،سماجی حقائق کی عکاسی اوردیگرفنی خصوصیات پائےجاتےہیں۔اس کےعلاوہ ان کےبعض فن پارےفنی و فکری حوالےسےاعلیٰ اورعمدہ ہیں۔

بشری رحمن کی ازدواجی اور سیاسی زندگی

بشری رحمن کی شادی لاہورکےصنعت کارمیاں عبدالرحمٰن سےہوئی۔انھوں نےجب جامعہ پنجاب سےایم۔اےصحافت کی ڈگری حاصل کی تواس کےبعدانھوں نےسیاست کی طرف رخ کیا۔انھوں نےسیاست میں قلمی اورعملی طورپربھی حصہ لیا۔بشریٰ رحمن نےاپناسیاسی سفر۱۹۸۳ءمیں شروع کیا۔

وہ ۱۹۸۵ءمیں رکن پنجاب اسمبلی بنیں اور۱۹۸۸ءمیں بھی۔اس کےعلاوہ ۲۰۰۲ءاور۲۰۰۸ءمیں مسلم لیگ ق کےٹکٹ پررکن اسمبلی بھی بنیں۔سیاسی نظام اورسیاسی حکمت عملی،سیاسی چالوں اورسیاسی گروں کےبارےمیں ان کامطالعہ انتہائی وسیع اورمشاہدہ نہایت عمیق ہے۔

انھوں نےاپنی تصانیف میں بھی سیاسی نظام کاذکرکیاہےاورساتھ ساتھ اپنی ژرف نگاہی کا ثبوت دیاہے۔سیاسی حوالےسےان کےنظریات واضح اورعیاں ہیں۔پاکستانی سیاسی نظام پرانھیں قدرت حاصل ہے،یہاں کی سیاسی شخصیات اوران کےنصب العین کو وہ بخوبی جانتی تھیں۔

بشری رحمن کو دیئے گئے اعزازات

٭ان کےاعلیٰ و عمدہ ادبی و صحافتی خدمات کےاعتراف میں ۲۰۰۴ءمیں ساحرلدھیانوی گولڈ میڈل سےنوازاگیا۔

٭ان کےگراں قدر،عمدہ اور نمایاں ادبی و صحافتی کارناموں و خدمات کےاعتراف میں حکومت پاکستان کےجانب سےانھیں ۲۰۰۷ءمیں صدارتی اعزازستارۂ امتیاز سےنوازاگیا۔(۲)

٭اس کےعلاوہ انھیں ۲۰۱۲ءمیں ادیب انٹرنیشنل لدھیانہ کی طرف سے’’ملکہ سخن‘‘کاخطاب دیاگیا۔

بشری رحمن کی شخصیت

کسی بھی فن کارکی شخصیت اس کےفن پاروں کوسمجھنےکےلیےاگرایک طرف ازحدضروری ہےتودوسری جانب ایک فن کارکی شخصیت سےآگاہی اس کےخیالات اورافکارکوسمجھنےکےلیےبھی لازمی ہے۔

فن کارکی شخصیت اورخدوخال کی اہمیت اس حوالےسےاوربھی بڑھ جاتی ہےکہ اس کےزمانےاورماحول و سماج سےبےخبری کی وجہ سےاس کافن پارہ مبہم ہوجاتاہےاوراس سےوہ مفہوم صحیح معنوں میں نہیں نکلتاجس سےادب کی تعبیرکی جائے۔یعنی شخصیت سےآگاہی نہایت اہم ہے۔اسی ضمن یہاں بھی ڈاکٹر بشریٰ رحمن کی شخصیت کاتجزیہ پیش کیاجائےگااوران کی شخصی خصوصیات کوسامنےلانےکی کوشش کی جائےگی۔

بشری رحمن نےجس گھرمیں آنکھ کھولی۔وہ گھرشاعرانہ فضاسےمملوتھا۔اسی لیےان کےہاں ہمیں بچپن ہی میں شعروادب سےشغف نظرآتاہے۔شعروادب ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔انھوں نےابتدامیں شاعری کی طرف رجحان کیالیکن جلدہی انھوں نےیہ راستہ چھوڑکرنثرکی طرف توجہ مرکوزکی۔

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کی شخصیت شاعری کےلیےتوبنی ہی تھی لیکن شاعری سےزیادہ نثرمیں پیغام رسانی ان کی شخصیت کااہم عنصرتھا۔یہ چیزان کےہاں فطری اورغیرشعوری نظرآتی ہےکہ انھوں نے شاعری کی بجائےنثرکواظہارکاوسیلہ بنایا۔اس کی ایک واضح اورآشکاروجہ یہ بھی تھی کہ ان کی والدہ صاحبہ خودایک شاعرہ تھیں،ساتھ ساتھ ان کی  بہن بھی شاعرہ تھیں۔

لہٰذاہرانسان میں یہ مادہ ہوتاہےکہ وہ خودکودوسروں سےالگ اورممتازثابت کرنےکےلیےسب کچھ کرنےکےلیےتیارہوتاہے،ہاں یہ بات الگ کہ بعض لوگ مثبت راستہ اپناتےہیں اوربعض منفی۔بشریٰ رحمٰن نے جب دیکھاکہ ان کےگھردوشاعرات پہلےسےموجودہیں،توانھوں نےاپنی ذہانت و فطانت سےنثرکاراستہ اپناکراپناایک الگ نام پیداکیا۔ان کی شخصیت کی اہم خصوصیت شعروادب سےلگاؤہے۔

نثرکی طرف آنے کے باوجودان کےہاں ایک شاعرانہ زندہ دکھائی دیتی ہیں۔اس کا اندازہ ان کےشعری مجموعے’’صندل میں سانسیں جلتی ہیں‘‘سےبخوبی لگایاجاسکتاہے۔شعروادب سےان کاشغف اوردل چسپی ان کی شخصیت کاحصہ ہے۔

انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ سماج کے بغیر اس کی زندگی ناممکن ہے۔ سماج میں پہلی درس گاہ جس سے انسان کندن بن کر نکلتا ہے ماں کی گود ہے۔ اس گود سے پیغمبروں سے لے کر عظیم فلاسفروں تک تمام جلیل القدر انسان پروان چڑھے ہیں۔

ماں کے اثرات تمام عمر بچے  کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں بل کہ بچے کا لاشعور ماں ہی کی بدولت تشکیل پذیر ہوتا ہے۔ اکثر بچوں کےلیے ماں محبت کا محور بن جاتی ہے ۔اگر بشریٰ رحمن کی زندگی کا گہرا جائزہ لیا جائے تو ان کےہاں بھی ایک علامت (جوکہ پیارکی علامت ہے)کےطورپرابھرتی ہے۔

ہر فن کار ،شاعر یا ادیب ایک حساس انسان ہوتا ہے۔ بشریٰ رحمن بھی حساس شخصیت کی مالک ہیں۔ وہ انتہائی وسیع مطالعہ اور مشاہدہ رکھتی ہیں۔ انھوں نےابتدامیں ہی کہانیاں اورمضامین لکھناشروع کیا۔ان کی شخصیت کایہ پہلوبہت اہم جس کی بناپربعدمیں وہ سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔

انھوں نےاپنےوسیع مطالعےکی بدولت پاکستانی سیاسی نظام کا گہرائی سےمطالعہ کیااورصحافت میں ایم۔اےکیا۔اس کےبعدانھیں بخوبی اندازہ ہوگیاکہ سیاست کیاہے؟اس کی اصل کیاہے؟اس کا مقصدکیاہوتاہے؟وغیرہ۔یہی وجہ ہےکہ انھوں نےسیاست کا رخ کیااوربطوراسمبلی رکن کئی باران کا انتخاب ہوا۔انھوں نےادبی ناول نگاروں کا مطالعہ بھی کیاتھاکیوں کہ کوئی بھی فن کاراس فن کوسمجھنےسےقبل اس فن میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا،جب تک وہ اسےاپنےتجزبات سےنہ گزارے۔

لہٰذا بشری رحمن نےاردوکےنامی گرامی ناول نگاروں و افسانہ نگاروں کا مطالعہ کرکےہی اتنےعمدہ فن پارےتخلیق کیے۔ان کےہاں ہمیں مشاہدےکی گہرائی بھی دکھائی دیتی ہے۔وہ ایک ایسی فن کارہ ہیں جوکسی شےکوہاتھ سےجانےنہیں دیتی۔وہ چھوٹےسےچھوٹےشےکوبھی نظراندازنہیں کرتی۔ان کا مشاہدہ ہرحوالےسےعمیق ہے۔مطالعےکی وسعت اورمشاہدےکی گہرائی ان کی شخصیت کی اہم خصوصات میں سےایک ہیں۔

وہ ایک گدازاوردردمنددل عورت تھیں۔انھوں نےاپنی تحریروں میں سماج کےمنفی رویوں اورمکروہ رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی عورت جوکہ مثل قربانیوں کاثبوت ہے،اسی موضوع کو اپنی تحاریرمیں جگہ دی ہیں۔جس سےبخوبی عیاں ہوتاہےکہ وہ ایک ایسی عورت تھیں جس کےہاں عورت سےہمدردی،بل کہ انسان سےہمدردی اوردردمندی نظرآتی ہے۔بشری رحمن نےعورت کی عصمت،وقار اورعزت کےلیےقلمی جہادکیاہے۔

عورت کےحقوق کےحوالےسےانھوں نےزیرتحقیق ناول میں بھی آوازبلندکی ہےکہ عورت پرکتناظلم ہوتاہے،وہ صبروتحمل سےاسےسہہ لیتی ہیں۔انھوں نےعورت پرظلم کرنےوالوں کےنام اس ناول میں بھی پیغام بھیجاہےکہ یہ بھی ایک انسان ہے،اس سےبھی انسانوں جیساسلوک کیاجائےنہ کہ حیوانوں جیسا۔اس کےعلاوہ عورت کی مہارت،کفایت شعاری،دوراندیشی،سلیقہ مندی اورنفاست کوبھی انھوں نےاپنی تصانیف کاحصہ بنایاہے۔

حب الوطنی ان کی شخصیت کااہم عنصرہے۔انھیں اپنےوطن،اپنی مٹی اوریہاں کےباشندوں سےبےپناہ لگاؤہے۔وہ اپنےوطن کی خاطرجان و مال قربان کرنےسےبھی احترازنہیں کرتیں۔حب الوطنی ان کی شخصیت میں رچی  بسی ہوئی ہے۔

اس کا کھلاثبوت یہ ہےکہ انھوں  نےطویل مدت تک ’’نوائےوقت‘‘میں ’’چادر،چاردیواری اورچاندنی‘‘کےعنوان سےلکھےگئےکالموں میں پاکستان سےگہرالگاؤ،نظریاتی وابستگی اورقومی سطح  پرشعوروآگہی کےفروغ سےسرشاری کاثبوت دیاہے۔

’’نوائےوقت‘‘سےقبل بھی انھوں نےکالم(روزنامہ جنگ) لکھےجن میں ہمیں وطن عزیزسےمحبت کھلم کھلانظرآتی ہے۔زندگی کےآخری دنوں میں ان کےکچھ کالم ’’روزنامہ ۹۲نیوز‘‘میں بھی شائع ہوئے۔ان کےکالم نگاری کےحوالےسےیہ کہاجاتاہےکہ بعض لوگ بول سکتےہیں لیکن کچھ لکھ نہیں سکتےاوربعض لکھ سکتےہیں لیکن کچھ کہہ نہیں سکتےاوربشریٰ رحمن ان دونوں خصوصیات سےمتصف نظرآتی ہیں۔یہ ان کا کمال ہےکہ وہ نہ صرف بول سکتی ہیں بل کہ لکھنےکاڈھنگ بھی انھیں بخوبی آتاہے۔

ان کی شخصیت میں نڈرپن اور دلیری کی خصوصیت بھی جھلکتی ہے۔ان کا سیاسی سفر۱۹۸۳ءمیں شروع ہوا،اوروہ تین مرتبہ صوبائی اسمبلی پنجاب کی رکن منتخب ہوئیں۔مرادیہ ہےکہ اسمبلی ہو یاتقریبات ان کےہاں ہمیشہ دلیری اور شجاعت نظرآتی ہے۔وہ ہمیشہ نڈرہوکرمبنی بردلائل بات کرتیں۔

ان کی شخصیت میں سچائی کا عنصربھی نمایاں ہے،وہ ہمیشہ گویاہوتیں کہ ہم مجیدنظامی صاحب کےزیرسایہ پل رہےہیں یعنی ’’دورنظامی ‘‘میں،لہٰذاہم بھی سچ کہتےہوئےکبھی نہیں گھبراتے۔وہ کبھی خوف زدہ نہیں ہوئیں کیوں کہ وہ طاقت کےایوانوں میں بھی گونجتی ہوئی نظرآتی ہیں۔لگی لپٹی کی بجائےوہ سچی اورکھلی بات کی قائل تھیں۔مذہبی حوالےسےوہ ایک دین دارعورت بھی دکھائی دیتی ہیں۔اس کا اندازہ ان کی تصانیف کےمطالعےسےبخوبی ہوجاتاہے۔

اس کےعلاوہ ان کی شخصیت میں نیک سیرتی،بہادری اوربڑےدل والی عورت کی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ان مقبولیت کی ایک وجہ ،ان کےلہجےکاحسن اورشیریں بیانی تھیں۔اس لیےوہ سب میں شہرت رکھتی تھیں۔وہ اپنےدورمیں ایک معتبرلکھاری کی بدولت جانی جاتی تھیں۔انھیں عمدہ تخلیقی ہنرکاری اورباکمال و معتبرادبی و صحافتی شخصیت کی بناپرخوب پذیرائی ملی اورانھیں ہمیشہ یادرکھاجائےگا۔

بشری رحمن کی وفات

ادبی و صحافتی حوالےسےایک مستنداورتوانانام رکھنےوالی ڈاکٹر بشری رحمن ۷ فروری ۲۰۲۲ء(۳)میں کوروناکےباعث المناک موت سےدوچارہوئی۔

حوالہ جات۔

آرکائیو۔org

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں