بانو قدسیہ کے ناول پروا کا تنقیدی جائزہ
ناولٹ پر وا:بانو قدسیہ کی تخلیق "پر وا“ اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک اہم کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ یہ ناولٹ ۱۲۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ناولٹ ۱۹۹۵ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ صحیح ہے کہ یہ ناولٹ اُس درجہ کو نہ پہنچ سکا جہاں ناول ”راجہ گدھ“ کھڑا ہے
لیکن پھر بھی اس ناولٹ کو ایک منفرد ناولٹ تسلیم کیا جاتا ہے ۔ بانو قدسیہ کے دیگر ناولوں کی طرح یہ ناولٹ بھی پاکستان کے ارد گرد گردش کر رہا ہے ۔ اس ناولٹ میں مصنفہ نے پیار اور دولت کے مابین کشمکش کو موضوع بنایا ہے علاوہ ازیں اس ناولٹ میں مصنفہ نے سماج میں کھلے عام پل رہی برائیوں سے بھی پردہ اُٹھانے کی بھرپور سعی کی ہے۔
ناولٹ کی شروعات ایک سفید ساڑھی پہنے ہوئے دو شیزہ کے غلطی سے ہوٹل کے اپنے کمرے میں گھسنے کے بجائے کسی دوسرے کمرے میں گھسنے سے ہوتی ہے اور اختر صوفیہ جسے کہانی میں مرکزی کردار کی حیثیت حاصل ہے اسے باقی مردوں کی طرح فلرٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اختر کراچی میں پندرہ دن کی چھٹیاں گزارنے اس ہوٹل میں تشریف آور ہوا ہوتا ہے اور صوفیہ بھی اسی ہوٹل میں روکی ہوتی ہیں۔
پہلی ہی نظر میں اختر صوفیہ کے حُسن پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔دراصل اس ناولٹ میں مصنفہ نے محبت اور دولت کی کشمکش کو بیاں کیا ہے اور اس کے لیے مصنفہ نے مشرقی پاکستان کی صوفیہ اور مغربی پاکستان کے اختر کے ذریعے قصے کو آگے بڑھایا ہے۔ اختر علی خان جو کہ یتیم تھا اور اس کی پرورش اس کے چچا نے کی ہوتی ہے اور عام رواج کی طرح اس کی شادی چچاچ زاد بہن خالدہ سے طے ہوتی ہے اور اختر آج چونکہ اس ہوٹل میں صوفیہ پر مر مٹنے لگتا ہے لیکن یہ مجبوری بھی عجیب چیز ہوتی ہے۔ اختر اگر اپنے دل کی آواز کو اس ناولٹ میں نہ دباتا اور وہی کرتا جو اس کا دل اسے کرواتا تو شاید اس کے ہاتھ سے ساری دولت ،
سارا رتبہ اور شاید وہ سب کچھ جاتا جس کی ضرورت ہر انسان کو اس دنیا میں آنے کے بعد شدت سے پڑتی ہے۔ دراصل مادی دنیا کی عزت پیسے سے ہی ہوتی ہے اور اگر اختر اس رتبے، شان و شوکت کے ہاتھوں مجبور نہ ہوتا تو شاید وہ آج اپنے دل کی سنتا اور اپنی محبت یعنی صوفیہ سے اظہار عشق کرتا اور اپنی زندگی اسی کے سہارے گزارتا ۔ ان کرداروں کے علاوہ اس ناول میں آنا کا کردار بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
” آنا جو کہ شمالی اطالیہ کی رہنے والی ہوتی ہے۔ بانو قدسیہ نے اس کردار کے ذریعے بڑے موثر انداز میں ایک ہی ملک میں زبان کے جھگڑے پر روشنی ڈالی ہے۔ مصنفہ نے ان تینوں کرداروں کے درمیان ہونے والی بات چیت کو موثر طریقے سے پیش کیا ہے۔ اختر جس کا تعلق ایسے ماحول سے ہوتا ہے جہاں بلیک مارکیٹنگ کوئی گناہ نہ تھا لیکن صوفیہ جس ماحول سے تھی وہاں یہ سب گناہ تصور کیا جاتا تھا۔
دراصل ماحول کا اثر بچپن سے ہی ایک بچے کے ذہن پر پڑتا ہے اگر اس کی پرورش ایسے ماحول میں کی جائے جہاں ثواب اور گناہ میں کوئی فرق نہ ہو تو اُسے غلط چیزیں کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی اور وہ ان چیزوں کے اظہار میں بھی کوئی پردہ نہیں کرتا۔اگرچه صوفیہ اختر کو اس غلط کام یعنی بلیک مارکٹنگ سے منع کرتی ہیں
لیکن اختر اس سب کے بدلے مختلف تاویلیں پیش کر کے اپنے اس قول کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس فعل سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ یہ سب کے لیے فائدہ مند ہے۔
دراصل بانو قدسیہ نے اس ناولٹ میں ایک ایسی معاشرتی برائی کو اجاگر کیا ہے جس کی زد میں تقریباً پورا معاشرہ گھیرا ہوا ہے اور اس لت میں ملوث لوگ پیسوں کے خدا بن گیے ہیں اور ان کی زندگی کا واحد مقصد پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ناول میں بانو قدسیہ نے ایمان کو شراب سے مہنگا تصور کر وایا ہے اور ناول ”راجہ گدھ“ کی طرح اس ناول میں بھی حرام اور حلال کا تصور پیش کیا ہے۔
جب ” آنا شراب سے متعلق اختر سے کہتی ہے کہ یہ شراب بہت قیمتی ہے لیکن اختر اگر چه صوفیہ کو ہی موہ لینے کی خاطر لیکن اس بات کا اسرار ضرور کرتا ہے کہ شراب چاہیے کتنی ہی مہنگی ہو لیکن ایمان سے ہرگز مہنگی نہیں ہو سکتی اور ہمارے مذہب میں اس شے کو حرام قرار دیا گیا ہے ؟
” آنا“ ناراضگی کے انداز میں اُسے کہتی ہے کہ سب لوگ اس قیمتی شئے کا لطف اٹھاتے ہیں لیکن اختر نہایت حسین جواب دے کر اُسے خاموش کرواتا ہے کہ وہ جو اس شئے کا مزہ لیتے ہیں دراصل شراب اور ایمان کی قیمت کے اندازے سے بے خبر ہے۔
مصنفہ نے اس ناولٹ میں زندگی کی حقیقتوں کو جس طرح دکھایا ہے وہ پاکستان بننے کے بعد کی حقیقتوں سے بالکل قریب ہیں۔ یوں بھی کہے کہ مصنفہ نے اپنے اسلوب سے پاکستانی معاشرے کی بھر پور عکاسی کی ہے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔
زبان و بیان کا بھر پور جادو اس ناولٹ میں عیاں ہوتا ہے۔ یہ ناولٹ اختصار کا بہترین نمونہ ہے۔ مصنفہ اشاروں کنایوں وغیرہ کا سہارا لے کر اس ناولٹ میں نئی جان ڈالتی ہیں ۔
اس ناولٹ کی ایک خوبی جو اسے زندہ و جاوید بنانے میں پیش پیش ہے وہ اس کی مکالمہ نگاری ہے ۔ اس ناولٹ میں کرداروں کے منہ سے ایسے مکالمے ادا ہوتے ہیں کہ وہ قاری پر ایک حسین تاثر مرتب کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں مناظر کی تصویر کشی کرنے میں بھی مصنفہ نے اپنی ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس ناولٹ کے پلاٹ کی جہاں تک بات کی جائے تو وہ نہایت سادہ ہے۔
بانو قدسیہ کے کرداروں کا انتخاب مثالی حیثیت رکھتا ہے وہ کردار چاہے ان کے افسانوں کے ہوں یا ان کے ناولوں کے ان کے کردار انفرادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ ہوتے ہیں مثلاً اگر ہم ناولٹ "پروا“ کی ہی بات کریں تو صوفیہ اس ناول میں ایسے کردار کا درجہ رکھتی ہے جس کی شخصیت انقلابی خصوصیات سے ماورا ہے۔ اس کے سامنے اس کے اصول ہی سب کچھ ہیں اور وہ ان سے قطعی طور پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی ،
وہ اپنی ان صلاحیتوں سے دوسروں کو اپنا گرویدہ بنانے کا فن بخوبی جانتی ہیں جیسے اختر اس ایک کردار کی وجہ سے تبدیلی کی سیڑھیاں چڑھنے کے لیے گا مزن ہوتا ہے۔
اس طرح یہ کردار نہ صرف اختر کے لیے تبدیلی کا باعث بنتا ہے بلکہ عام قاری بھی اس کردار کی کشش سے خود کو دور نہیں رکھ سکتا ،
یہ کردار نہ صرف انسان دوستی کے جذبے سے سرشار ہو کر اس ناول میں اُبھرا ہے بلکہ وطن کے دیگر لوگوں یا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمام عالم کے دُکھ بانٹنے کی دعوی دار ہے۔ صوفیہ دراصل محبت کی بنیاد روحانی قدروں پر رکھنے کی آرزومند ہے۔
بانو قدسیہ کے اکثر کردار روحانی قدروں سے ہی مملو ہے اور نہ صرف مرکزی کردار بلکہ منی کرداروں کے انتخاب میں بھی بانو قدسیہ پختہ کار ہے۔ اس ناولٹ میں مصنفہ نے کرداروں کے ذریعے اپنے دیس کے گیت کی اہمیت کو بھی اُجاگر کیا ہے ۔ دراصل وطن سے متعلق گیت وطن کی پہچان ہوتی ہے اور کسی دوسرے شخص کو بھی مسحور کرنے کے لیے یہ کافی ہوتے ہیں ۔
بالکل اسی طرح جیسے آنا صوفیہ کے بنگالی گیت سے متاثر ہوتی ہے اور اُسے اس کا ترجمہ انگریزی میں کرنے کی فرمائش کرتی ہیں۔ صوفیہ آنا سے کہتی ہیں کہ اس گیت کے لکھنے والے قاضی نذر الاسلام ہیں اور اس ترجمے کے گیت اختر کے کانوں میں بار بار گردش کرتے ہیں۔ "جانِ تمنا ۔ کیا تم اپنے سنہرے دیس میں اس چاہنے والے کو لے جانے کا ارادہ رکھتی ہو۔ ایک ہتھوڑی تھی کہ مسلسل اس کے ذہن کو کوٹ رہی تھی ۔
آنا کار چلا رہی تھی اور اختر منہ کھولے سوچ رہا تھا کہ یہ سامنے کھلی سڑک نہیں ہولے ہولے چلنے والا گھلا سا دریا ہے۔ اس پر میری کشتی رواں دواں ہے۔ کشتی کا بادبان کھلا ہے اور اس میں پروا کے جھونکے بھرے ہیں ۔”
ناول کے آخری حصے میں اختر صوفیہ کا گیت بار بار یاد کرتا ہے اور اسی گانے کو بار بار سوچتے ہوئے وہ اپنے دیس کی طرف واپس چلا جاتا ہے اور صوفیہ کی نصیحت کا اس پر اثر ہوتا ہے اور وہ اپنے جی کو یہی کہہ کر سمجھاتا رہتا ہے کہ جو لوگ بلیک مارکیٹنگ نہیں کرتے وہ بھی تو زندہ رہتے ہیں۔مختصر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ناولٹ پروا بانو قدسیہ کا بہترین فن پارہ ہے اور اس میں مصنفہ نے جگہ جگہ انگریزی الفاظ کا استعمال کر کے حُسن کاری پیدا کر دی ہے مثلاً :
"روبی اپنی جگہ سجھتی تھی کہ اختر نے اسے propose نہ کر کے اس کی توہین کی ہے اس لیے جب کبھی بھی ان کی ملاقات ہوتی تو وہ اپنے تمام charms داؤ پر لگا کر اسے مسخر کرنے کی کوشش کرتی ۔۔۔۔۔ روبی کی آواز بہت پتلی اور Tone بہت اونچی تھی۔
اس پر کانونٹ کی پڑھی ہوئی انگریزی اور بولتی تو یوں لگتا جیسے مسلسل کانچ ٹوٹ رہا ہے۔ "تعارف تو کروا دو اپنیNew Fans کا اس نے شوخی سے کہا ۔”مکالمہ نگاری میں بھی بانو قدسیہ اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ اس ناولٹ کی مکالمہ نگاری بھی بے حد موثر ہے-جیسے:”اختر علی خان باقی جو کچھ پوچھے خود بتا دینا ۔
کیوں میں اس سے زیادہ نہیں جانتی “ یہیں کراچی میں رہتے ہیں کہ ڈھاکہ میں۔ آنا نے صوفیہ سے پوچھا ۔ جی نہیں لاہور میں رہتا ہوں۔ وہاں ہمارا کاغذ کا کاروبار چلتا ہے واقعی؟ یہ انڈسٹری تو بہت پیسہ دلاتی ہے۔
اس نے کہا ”جی ہاں۔ اور پھر وہ اردو میں صوفیہ سے مخاطب ہوا۔ اور یہ بھی بتا دو کہ ہم سے بڑا کاغذ کا بلیک مارکیٹر سارے پاکستان میں کوئی نہیں ہے۔ ایک لین دین میں ہزاروں کما لیتے ہیں ۔”زبان اور انداز بیان کے لحاظ سے بھی یہ ناول عمدہ ہے مثلاً :
"اختر کباب بن گئے ۔“ اس نے پوچھا ۔ بس یہ تجربہ فیل ہو گیا ہے۔ اختر نے فرائینگ پین کا قیمہ پلیٹ میں اُتار لیا۔ اور نئے سرے سے چند کباب ڈالے ۔ اُدھر قیمہ گھلا اور اُدھر صوفیہ بننے لگی ۔۔۔۔ تم ہنس رہی ہو ۔ اسی لیے کباب جڑ نہیں رہے ۔ "
علاوہ ازیں یہ ناول اپنے دور کی سماجی و تہذیبی زندگی کا آئینہ دار ہے جس میں مصنفہ نے پاکستانی معاشرے میں پھیلے انتشار اور افراتفری جیسی خامیوں کو اُجاگر کر کے معاشرے کی اصلاح کی جانب بار بار توجہ دلائی ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں: بانو قدسیہ کے اسلوب میں علامتی عناصر راجہ گدھ کے خصوصی حوالے سے مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں