بانو قدسیہ کے ناول شہر بے مثال کا تنقیدی جائزہ
شہر بے مثال: 1975ء میں منظر عام پر آنے والا یہ ناول بانو قدسیہ کا اولین ناول ہے ۔ یہ ناول ۲۷۲ صفحات پر مشتمل ہے ، اس ناول کو اگر بانو قدسیہ کے فکری ارتقاء کی پہلی اینٹ قرار دیا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں۔ اس ناول کے جہاں تک اسلوب کی بات کی جائے تو اس ناول کا اسلوب نہایت سادہ ہے۔
اس ناول میں مصنفہ نے لاہور شہر کی ساتھ اور ستر کی دہائی کو موضوع بحث بنا کر جدید پاکستانی معاشرے کے افراد کے درد و کرب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناول میں ایسی اولاد کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے جاگیردارانہ نظام کی زیادتیوں کو اپنے بزرگوں پر ہوتے دیکھا۔ اس دور میں لاہور شہر دوسرے شہروں کے مقابلے میں ترقی یافتہ اور دوسروں کو اپنی طرف کھینچنے والا شہر تصور کیا جاتا تھا
اور چھوٹے شہروں کی لڑکیاں اور لڑکے جب ان شہروں میں حصول تعلیم کی غرض سے آتے تو اس کی روشنی میں کھو کر ان کے لیے اپنے تشخص کو برقرار رکھنا محال ہو جاتا۔ وہ اپنے بزرگوں کی تعلیم و تربیت سے صرف نظر کر کے اس معاشرے میں غوطہ زن ہو جاتے۔ ناول میں مصنفہ نے چھوٹے شہر سے نکلنے والی لڑکی کی بڑے شہر میں داخل ہونے کے بعد اس کی جدوجہد ، رہن سہن ، اس کی مشکلات جیسی باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار بہاولپور کی رہنے والی "رشیدہ” ہے ۔ والد کی وفات کے بعد اگرچہ اس کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن والدہ سے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کی بات کو منوا کر رشیدہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کی خاطر اپنے رشتہ داروں کے یہاں لاہور جیسے بڑے شہر کا رخ کر لیتی ہے۔ رشیدہ جو کہ ایک سیدھی سادھی لڑکی ہوتی ہے لیکن لاہور جیسی نئی دنیا کے رکھ رکھاؤ سے خود کو محفوظ نہیں رکھ پاتی ۔
ناول شہر بے مثال تین ادوار پر مشتمل ہے۔ پہلے دور میں مصنفہ نے بہاولپور کا موازنہ لاہور شہر سے اس طرح کیا ہے ۔”بہاولپور سے لاہور تک وقت اس قدر لمبا ہو جائے گا۔ اس کا رشیدہ کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ جٹ طیاروں کے عہد میں یہ فاصلہ کچھ زیادہ نہ تھا لیکن اس سفر میں رشو جان کو کچھ یوں محسوس ہونے لگا جیسے افریقہ کے جنگلوں سے پکڑ کر کوئی اسے لاس اینجلز کے دل ہالی وڈ میں گھیٹ لایا ہے۔
"اس شہر میں پہنچ کر رشیدہ خود کو اس شہر کے سانچے میں ڈالنے میں مصروف ہو جاتی ہے اور کالج کے ایک لڑکے ظفر میں دلچسپی لینے لگتی ہے لیکن حالات اس کو ایسا مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ظفر کی نصف النہار بنے کی جگہ اس کے والد کی ہو جاتی ہے۔
یہ تقدیر بھی بڑی عجیب چیز ہے پہلے انسان کو وہ سب کچھ دکھاتی ہے جس پر وہ فریفتہ ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اسے وہ سب چھین لیتی ہے جیسے وہ اس کا تھا ہی نہیں۔ یہی حال رشو کا بھی ہو جاتا ہے کہانی میں اگر رشو ظفر کی جگہ اس کے والد کو دیتی ہے لیکن اس کے دل میں وہ خالی پن رہ جاتا ہے جس کو بھرنے کی ذمہ داری اس کے دل نے ظفر کو دی تھی اور یہاں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ دولت ہی زندگی میں سب کچھ نہیں ہوتی
محبت کی ضرورت ایک انسان کو ہر دور میں پڑتی ہے جیسے بچپن میں یہ محبت ماں باپ کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے اسی طرح جوانی کی دہلیز میں قدم رکھتے ہی اس محبت کو ہم اپنے عاشق میں تلاشتے ہیں ۔ رشو اگر چہ ظفر میں دلچسپی لینے پر آمادہ ہوتی ہے لیکن اس قول سے بھی ان کا ممکن نہیں کہ زندگی خالی پیار کے سہارے نہیں کٹتی اور ایک نئے شہر یا انجان شہر میں رہنے کے لئے کئی مسائل پیش آتے ہیں۔
بانو قدسیہ اس ناول میں لاہور شہر کی برتری و بلندی کو یہ کہہ کر ظاہر کرواتی ہیں کہ اگر چہ عام آبادی ایک ہی شہ رگ پر گامزن ہوتی ہے جس سے اس کا لہو گردش میں رہتا ہے لیکن لاہور شہر جو کہ ایک منفرد شہر ہے اس کی رگیں بھی دو تھیں ایک خون کی گردش کے لیے تو دوسری رگ میں احساس برتری دوڑ رہی تھی ۔ناول کے آغاز میں مصنفہ نے انجنئیر کی والدہ سے مسلم عقیدے کے مطابق چھوٹی عمر میں ہو جانی والی شادی کو بھی بہترین قرار دیا ہے۔
ناول کے دوسرے دور میں خالو جان کو اخبار پڑھتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں ہوسٹل بنے کی خبر میں چھپ گئی تھیں۔ اس دور میں ایک عورت کا دوسری عورت کے تئیں ظلم و جبر کو بیان کیا گیا ہے۔ دراصل خالو جان نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گھر کے ہوتے ہوئے رشیدہ ہوسٹل میں رہے لیکن خالہ فیروزہ رشیدہ کو اپنے گھر میں قطا برداشت نہ کر سکتی تھی ۔ ناول کے تیسرے دور میں رشیدہ اپنی والدہ کو خط لکھ کر اس بات سے واقف کراتی ہے
کہ وہ خالہ کا گھر چھوڑ کر سہیلی کے گھر رہنے آئی ہے۔ یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ماحول کے ظلم و جبر کی وجہ سے کسی طرح ایک مجبور انسان اپنی اقدار کی حدیں توڑ کر اپنے آپ کو بے مثال شہر کے رنگ میں رنگ لیتا ہے اس ناول میں طوائفوں کا ذکر کر کے بھی مصنفہ نے اس فعل کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی طرح انوکھے شہر میں آکے طالب علم طوائفوں کی محبت میں مبتلا ہو کر اپنے اصلی مقصد کو حاصل کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
اس ناول کا سچا یا یوں کہے کہ اس ناول کا سب سے شفاف کردار ظفر ہے جو کہ رشیدہ کی سادگی دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے بے لوث محبت کرنے کی سزا اس کے حصے میں اپنی محبوبہ کی ماں کے روپ میں آنے سے ملتی ہے۔
یہ کردار مضبوط اور طاقتور ہے۔ ظفر کی محبت میں ناکامی اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیشہ کچی اور پاکیزہ محبت کرنے والوں کے نصیب میں تنہائی ہی آتی ہے۔ زیر تبصرہ ناول میں مصنفہ نے انسانی رشتوں کی پامالی کی داستان کو بھی بڑے حسین انداز میں بیان کیا ہے کہ کس طرح ایک باپ یعنی ( ملک بختیار ) اپنے بیٹے ( ظفر ) کا حق غصب کرتا ہے۔
یعنی والدین جو کہ اپنے بچوں کی خوشی کی خاطر اگر جان دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے لیکن اس انوکھے شہر میں رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔
ملک بختیار طاقت اور پیسے کے بل پر اپنے بیٹے کی عمر کی لڑکی سے رشتہ ازدواج جوڑ کر اپنے بیٹے کے حقیقی جذبات کو روند ڈالتا ہے۔ رشیدہ کو اگر چہ اس رشتے سے وہ عیش و عشرت نصیب ہوتے ہیں جو کہ ہر ایک لڑکی کا شوق ہوتا ہے اور شادی کے دسویں دن بعد ہی ملک صاحب رشو کو پیسنروڑ سے گلبرگ کی کوٹھی میں لے جاتا ہے
لیکن اتنی ساری آسائشوں کے با وجود رشیدہ کو وہ محبت ، وہ پیار نہیں ملتا جس کی ہر ایک لڑکی کو اپنے ہمسفر یا جیون ساتھی سے تمنا ہوتی ہے۔ ظفر جب آخری بار رشیدہ کو شادی کی مبارک باد دینے آتا ہے تو وہ الفاظ جو رشیدہ کے منہ سے ادا ہوتے ہیں کلیجہ چھلنی کرتے ہیں۔
گو کہ انسان کو دولت اور عیش وعشرت جیسی چیزوں کے علاوہ سچی محبت کرنے والا جیون ساتھی بھی میسر ہونا چاہیے تب جا کر یہ ظاہری خوشیاں بھی اسے راس آسکتی ہیں اور ناول کے آخری حصے میں رشیدہ کا اپنے خاوند کو قتل کرنا اس بات سے پردہ اٹھاتا ہے کہ انسان کی بنیاد جب محبت پر رکھی گئی ہے تو ہم یہ امید کیسے کر سکتے ہیں
ظاہری رکھ رکھاؤ ہی زندگی میں سب کچھ ہے۔ ڈاکٹر سید جاوید اختر شہر بے مثال پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :”شہر بے مثال میں مصنفہ نے اپنے دور کے ناولوں سے ہٹ کر ایک نیا تجربہ کیا ہے کہ قصہ کے متعدد حکایات بیان کی ہیں۔ اساطیری طرز کی یہ حکایتیں بیشتر مقامات پر واقعی اصل داستان کو دو بالا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن کہیں کہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکایت کو زبردستی کہانی میں ٹھو سا گیا ہے جس سے کہانی ہو جھل ہو گئی ہے۔
اس سقم کے باوجود یہ اسلوب بیان اردو ناول نگاری میں بانو قدسیہ کا ایک بالکل منفرد تجربہ ہے۔”دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ مصنفہ نے ڈائری یا خط کی تکنیک کو بھی اپنے ناولوں اور ناولٹوں میں برتا ہے۔ جہاں تک شہر بے مثال کا تعلق ہے تو اس میں رشیدہ کے تئیں ظفر کی محبت خط کے ذریعے عیاں ہوتی ہے
یعنی جب ظفر کے پاس محبت کے اظہار کا کوئی طریقہ نہیں رہتا تو وہ خط کا ہی سہارا لیتا ہے وہ رشیدہ سے بڑے حسین انداز میں خط کے ذریعے کہتا ہے کہ میں تمہیں خط لکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دراصل ظفر رشیدہ کی سادگی کا عاشق ہو گیا تھا اور ہر آن وہ اسی بات کا اسرار کرتا ہے کہ آپ ہمیشہ اسی طرح رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی ناول میں مصنفہ نے لاہور شہر کی سماجی ، ثقافتی زندگی کو خالہ فیروزہ کے گھر کے طرزحیات کی روشنی میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔
جس طرح ان کے گھر کے تمام کام نوکروں کے ذمے ہیں اور خود یہ لوگ شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ عین اسی طرح لاہور شہر کے تمام بڑے لوگ ، افسر طبقہ آرام و آسائش کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ خالہ فیروزہ کے گھر کے ذریعے مصنفہ نے اس دور کی لاہور کی زندگی کو بے نقاب کیا ہے ۔
"خالہ کا چھوٹا سا کنبہ تھا۔ لیکن امور خانہ داری بڑے وسیع و عریض قسم کے تھے۔
باورچی خانے کا کام تنویر باجی کے, چھوٹے موٹے امور اور کپڑے دھونے کی ذمے داری انوری کی اندر باہر کی صفائیاں، بھینسوں کی دیکھ ریکھ مرغیوں کی غور پرواخت کے لیے رمضان۔ کچھ کنال کی کوٹھی میں قلمی اور تخمی آم کے بوٹے، اپنے کینو اور ایچی کے پیڑ اگا۔ لان جھاڑ نے وقت پر تٹیوب لگا کر پانی سے کیا ریاں کھیچنے اور نلائی کے لیے غفور مالی ۔ ان تینوں کے علاوہ غلام رسول کے ذمے متفرق کام تھے۔
وہ ہر تین ماہ کے بعد خالو جمال کی کار کا ٹوکن بنواتا ۔ بجلی کا بل ، ٹیلی فون کا بل، منی آڈر کرانا۔ لفافوں پر ٹکٹیں لگانا ، راشن خریدنا، بنک میں روپیہ جمع کروانا اور نکلوانا ، دعوتی کارڑوں کی وصولی ، اور چپڑاسی کی ڈاک بک میں دستخط کرنا، اپنے گھر کے دعوتی رقعوں کو نمبر اور کونٹی کے پتہ کے مطابق پہنچاتا، کوئلہ اور چاول کے پرمٹ حاصل کرنا ، ہاؤس ٹیکس ادا کرنا، مال کی دوکان کا کرایہ وصول کرنا اور کرایہ داروں سے نپٹنا ، اور پھر ریاض میاں کی مخبری کرنا غلام رسول کی ڈیوٹیوں میں شامل تھا۔”
گو کہ خالہ فیروزہ کے گھر کی حالت سے اس ناول میں لاہور شہر کی طرز معاشرت کی بھر پور تصویر کشی کی گئی ہے اور اس منظر کشی سے لاہور شہر کی ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں نقش ہو جاتی ہے ساتھ ہی اس ناول میں مصنفہ نے بیشتر حکایتیں پیش کر کے اس کے حُسن میں اضافہ کیا ہے۔ مصنفہ نے ملک صاحب کی بیوی کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اللہ نے عورت میں کچھ ایسے اوصاف رکھے ہیں
جن کی وجہ سے وہ مرد کے لیے کشش کا باعث بنتی ہیں لیکن جب اُس سے وہ اوصاف چھن جائے یا اُس سے الگ کر دئے جائے تو اُسے عورت نہ ہونے کا احساس بار بار پریشان کرتا ہے۔
جس طرح ملک صاحب کی بیوی کے رحم نکالنے کے بعد وہ احساس کمتری کا شکار ہوتی ہے۔ دراصل عورت کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ اس میں کئی طرح کی ظاہری و باطنی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ عمر کے گزرنے کے ساتھ ساتھ عورت کی ظاہری تبدیلیاں تو ہر کسی شخص کو نظر آسکتی ہیں لیکن باطنی تبدیلیاں کسی کو بھی نظر نہیں آسکتی ۔
اسی طرح جب عورت کے ساتھ کچھ ایسا ہو جائے جس سے اس کے جسم کے ساتھ ساتھ اُس کی روح بھی گھائل ہو جائے تو وہ کسی دوسرے کو نظر نہیں آتا۔ جس طرح ملک صاحب کی بیوی کی حالت رحم نکالنے کے بعد ہو جاتی ہیں۔ وہ ہر آن یہی سوچتی ہیں کہ اس میں اب عورت کے اوصاف نہیں رہے یعنی وہ اب عورت نہیں رہیں۔جہاں تک اس ناول کے واقعات کی ترتیب کی بات کی جائے تو یہ واقعات ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ان سے مصنفہ کے اسلوب کی انفرادیت عیاں ہو جاتی ہیں۔
اسی طرح اگر ہم اس ناول کے دیگر پہلوؤں کی بات کریں تو کہیں کہیں مصنفہ نے اس ناول میں شعور کی رو کی تکنیک کو بروئے کار لایا ہے اور یہ خصوصیت کہانی کے مرکزی کردار رشیدہ کی سوچ سے عیاں ہو جاتی ہے۔ رشیدہ کے ذہن میں بے تحاشا اور کبھی نہ ختم ہونے والے دکھ درد اٹھ آئے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ تکنیک ظفر کی سوچ سے بھی عیاں ہو جاتی ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعے ظفر اپنے آپ سے کچھ اس طرح کی باتیں کرتا ہے:۔”یہ لڑکی کون ہے؟ اور مجھے کیوں عزیز ہے؟ یہ کہاں سے آئی ہے؟ اور کیوں آئی ہے؟، اگر اس وقت میں اس کا حلق اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دوں تو کیا ہے؟”
اسی طرح اگر اس ناول کی زبان و بیان کی بات کی جائے تو مصنفہ کے اسلوب کی حسین جھلک اس پورے ناول میں دیکھنے کو ملتی ہے یعنی اس ناول کی زبان صاف اور سادہ ہے، اور یوں بھی کہے تو بے جانہ ہو گا کہ بانو قدسیہ نے موضوع کی مناسبت سے اظہار کا نیا تجربہ ایجاد کیا مثلا :
"میں ۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنی غلطی پر پشیماں ہوں ۔۔۔۔۔۔ میں اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اگر تم سے معافی مانگوں تو بھی کچھ فائدہ نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں ، میں جانتی ہوں کہ میرے لئے کوئی امید نہیں پھر بھی ۔۔۔۔۔ میں تم سے معافی کی طلب گار ہوں ۔”اسی طرح مصنفہ کے کرداروں کا انتخاب بھی اس ناول میں انفرادی اہمیت رکھتا ہے ،
ساتھ ہی ساتھ بانو قدسیہ کے اسلوب میں سماجی فکر کی گہرائیاں بدریج اتم موجود ہے ۔ ان کے اسلوب میں جگہ جگہ ماحول کا گہرا شعور دیکھنے کو ملتا ہے ۔ بانو قدسیہ کے اسلوب کے تعلق سے انفرادیت کی جھلک ان کی منظر نگاری اور ماحول کی بھر پور تصویر کشی کرنے سے بھی عیاں ہو جاتی ہے مثلاً :۔
"سردیوں کا دن بڑے آرام سے کروٹیں بدل بدل کر طلوع ہوا تھا تو گھر کی صورت نظر آنے لگی ۔ پہلے ڈمپل نے ایک کمرے کا دروازہ اندر دھکیلا ، آہستہ آہستہ اندر جھانکا اور پھر دبے پاؤں قالین پر چلنے گئی۔ یہ کوئی کسی تو نگر ہندو کی تھی اور کمروں میں قالین ، فرنیچر قیمتی سازوسامان با فراط تھا۔ ایک لوہے کی پیٹی میں سے ملکہ وکٹوریہ کے زمانے کے روپے بھی نکلے۔ لمبی الماریوں میں شنیل اور جارجٹ کے تھان ، اور بستروں کی پیٹی میں سے، مجنون کھیں اور موتی چور کی نئی رضائیاں جگ مگ کرتی نکلیں ۔۔
ہر کمرے میں سیلنگ فین اور قد آور آئینہ تھا۔ ڈرائینگ روم میں باقی ساز و سامان کے علاوہ ایک بڑا سا پیانو بھی تھا جو عرفانی صاحب کی ڈمپل کو سب سے زیادہ پسند آیا۔”ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ تشبیات و استعارات کا بر محل استعمال بھی اس ناول میں دیکھنے کو ملتا ہے جس سے اس ناول کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مثلاً ظفر کا خود کو گیسی غبارہ کہنا ، اس کے علاوہ ظفر کو ایک چھوٹے سے بچے سے تشبیہ دینا،
اور اسی طرح رشو کو جادو گرنی کہنا وغیرہ۔ علاوہ ازیں اس ناول میں یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ جو اشخاص اپنی اخلاقی اقدار کو تہس نہس کرتے ہیں یا ان سے صرف نظر کرتے ہیں وہ زندگی میں کبھی خوش نہیں رہ سکتے اور اگر اس ناول کی زبان کی بات کی جائے تو اس ناول کی زبان نہایت سادہ ہے اگر چہ کہیں کہیں مصنفہ نے ناول میں ایسے کردار پیش کیے جن کی ضرورت اس ناول میں محسوس نہیں کی جاتی لیکن پھر بھی یہ ناول اچھے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بانو قدسیہ کے اسلوب میں علامتی عناصر راجہ گدھ کے خصوصی حوالے سے مقالہ pdf
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں