بانو قدسیہ کی شخصیت اور فن | از ڈاکٹر شاہینہ یوسف

بانو قدسیہ کی شخصیت اور فن

انسان کی زندگی تب پرکشش یا جاذب نظر بنتی ہے جب وہ اپنی زندگی میں متاثر کن تجربات و مشاہدات کرے۔ دنیا میں بے شمار لوگ آتے ہیں اور بے شمار لوگ اپنا کردار ادا کر کے اپنی آخری منزل پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔

غرض روز اول سے آخر تک یہ سلسلہ قائم و دائم ہے۔ لیکن اس طویل مدت کے دوران کوئی شخص سے نظریات ، نئے آہنگ، نئے طریقے ، نئے فلسفے کو اس طرح پروان چڑھا کے جاتا ہے کہ اس سے بچھڑ کر پورا معاشرہ صدمے میں چلا جاتا ہے اور ایسے اشخاص کی تحریریں سب کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہیں۔

ان کے اس منفر طرز سے نہ صرف اپنا دور متاثر ہوتا ہے بلکہ مستقبل میں بھی لوگ ان کے خاص طرز کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔فن کی شمع جو کہ خون جگر کی نمود سے روشن رہتی ہے اور اس شمع کو روشن رکھنے میں اگر چہ ہند و پاک کے مرد حضرات نے کافی اہم رول ادا کیا تو اس طرح خواتین نے بھی اس شمع کو جلائے رکھنے میں اپنا خون جیگر شامل کر دیا۔

یہاں اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ایک بہتر سماج کو اور زیادہ بہتر بنائے رکھنے میں مرد اور عورت دونوں کی اہمیت مسلم ہے، اور ان میں سے ہمیں کسی ایک کے احسان کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ایسی ہی روشن خیال خاتون بانو قدسیہ جو کہ اردو ادب کی ایک تابندہ اور روشن مینار پیکر ہے

۲۸ نومبر ۱۹۲۸ء کو فیروز پور مشرقی پنجاب میں پیدا ہو ئیں ۔ اصل نام قدسیہ بانو اور قلمی نام بانو قد سیہ تھا۔ بانو قدسیہ کے والد بدر الزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال بانو قدسیہ کی عیں بے فکری میں ہو گیا لاہور آنے سے پہلے بانو قدسیہ بھارت کے ایک صوبہ ہماچل پردیش کے دھرم شالہ میں زیر تعلیم رہیں۔

اس طرح سایہ پدری کی وفات کے بعد بانو قدسیہ کو بچپن کے یہ آزاد دن شہروں کے ماحول سے دور دھرم شالہ کی پہاڑیوں کے پہلو میں گزارنے پڑے، اور شاید اسی ماحول نے ان کے ادبی ذوق کو جلا بخشی اور اسی فضا نے کتابوں میں غرق ہونے کے مواقعے فراہم کئے اس طرح ان کی ذہنی وسعت دن بہ دن بڑھتی گئی اور چھوٹی عمر میں ہی ان کی ادبی صلاحتیں ابھر کر سامنے آئیں۔

ان کی والدہ ذاکرہ بیگم خود بھی ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں اور ان کا گھرانہ آٹھ بھائی بہنوں پر مشتمل تھا۔ بانو قدسیہ کے نانا شادی خان اور نانی افضال بی بی نے اپنے سبھی بچوں کی پرورش احسن طریقے سے انجام دے کر اُس دور میں لڑکا اور لڑکی کے درمیان ہو ر ہے بھید بھاؤ کو کافی حد تک ختم کرنے کی کوشش کی۔

اپنی والدہ کی طرح ذاکرہ نے بھی قدسیہ کو بہتر سے بہتر تعلیم دلانے کے لیے نہایت تگ و دو کی اور بانو قدسیہ نے زندگی کے پڑاؤ میں آگے بڑھ کر لاہور کے اسلامیہ کالج سے ایف۔ اے اور کنیر کالج لاہور سے بی۔ اے کیا ۔ جب بانو قدسیہ نے بی ۔ اے کا امتحان دیا اس وقت ۱۹۴۷ء کے فسادات نے ہر ایک چیز کو اپنی تحویل میں لیا تھا اور گورداس پور اور شاہ عالمی بھی اس آگ سے بچ نہ سکے۔

کسی طرح بانو قدسیہ اپنے امتحانات دینے میں کامیاب ہو سکی اور مطمئن ہو کر اپنے خاندان کے ہمراہ گورداس پور جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی میں پناہ گزیں ہوئیں اور یہ سوچ کے کہ شاید یہ علاقہ پاکستان کے حصے میں آجائے گا لیکن انسان جیسا سوچتا ہے ہمیشہ ویسا ہی ہو جائے ممکن تو نہیں، اسی طرح رات کو ہی اعلان ہو گیا کہ گورداس پور پاکستان کے حصے میں نہیں ہے اور یوں بانو قدسیہ اپنے کنبے کے ہمراہ رات کو نکل کر پتن پہنچے جہاں سے رات کو قافلے نکلتے تھے۔ اس طرح بانو قدسیہ بھی اس قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچ گئیں ۔

وہاں پہنچ کر ان کو بی۔ اے کے رزلٹ کی خبر ہوئی کہ وہ کامیاب ہو گئیں ہیں اور ۱۹۴۹ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم ۔ اے میں داخلہ لیا اور یہیں سے ان کی زندگی تبدیلی سے ہمکنار ہو جاتی ہے جب انکی ملاقات اشفاق احمد سے ہو جاتی ہے اور دونوں میں دوستی ہو جاتی ہے جو دھیرے دھیرے پیار میں بدل جاتی ہے۔ چونکہ دونوں کا تعلق ادب سے ہوتا ہے اس لیے بانو قدسیہ ان سے اصلاح لینے لگتی ہے۔ اس سے پہلے بانو قدسیہ کسی سے بھی اصلاح لینے کی زحمت گوارا نہ کرتی تھیں ۔

بانو قدسیہ کے والدین نے اگر چہ اس کا نام قدسیہ بانو رکھا تھا لیکن اُسے ادب میں بانو قدسیہ کے نام سے ہی شہرت نصیب ہوئی اور یہ ایجاد ان کے شوہر کی ہے۔ اس اثنا میں بانو قدسیہ خود کہتی ہیں : "میں جب کالج میں پڑھتی تھی ، اشفاق احمد کے ساتھ تو مجھ سے روز کہا کرتے کہ ادیب بننا ہے تو نام میں ادبیت ضرور ہونی چاہیے۔ ۔ ۔ جب میں قدسیہ بانو چھٹہ تھی تو انہوں نے کہا کہ میں بھی اپنا خان ہٹاتا ہوں تم بھی اپنی ذات ہٹاؤ، میں تمہارا نام بانو قدسیہ کرتا ہوں۔ تو یہ نام مجھے ان کا دیا ہوا ہے، اشفاق صاحب کا ۔ "

۱۹۵۶ء میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ عرصہ دراز سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن بانو قدسیہ کی مقبولیت کو دیکھ کر اگر یہ کہا جائے کہ ہر کامیاب عورت کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے تو بے جانہ ہوگا ۔

بانو قدسیہ کی زندگی میں ان کے شوہر کی ملاقات نہایت اہمیت رکھتی ہیں اور بانو قدسیہ ہر موقع پر اللہ کی اس نعمت کا تشکر کرتی رہی، ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتی ہیں کہ اگر انہیں اشفاق احمد نہ ملے ہوتے تو وہ شاید بانو قدسیہ نہ ہوتی بلکہ کوئی معمولی افسانہ نگار ہوتیں۔ وہ اپنے شوہر کو ہمیشہ اُستاد کے درجے سے نوازتی رہیں۔ اگر چہ شادی کے بعد غم والم نے کئی بار ان دونوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن وہ دونوں طوفانوں سے لڑ کر زندگی کی بازی جیتے رہے

اور اپنی دلیری اور بہادری کے انمٹ نقوش چھوڑ کر اپنے ادبی سفر پر گامزن رہے ۔ شادی کے بعد یہ دونوں اسطرح ادب کی خدمت میں جٹ گئے کہ صرف ایک سال کے قلیل عرصہ میں انہوں نے ”داستان گو ” کے نام سے ایک رسالہ جاری کر کے ادب میں بیش بہا اضافہ کیا ، اور اس رسالے کا سر ورق بانو قدسیہ کے بھائی پرویز جو کہ آرٹسٹ تھے نے ترتیب دے دیا۔ لیکن باقی کام بانو قدسیہ اور اشفاق احمد خود انجام دیتے رہے۔

اگر چہ اس رسالے کے اجرا کے لیے ان دونوں نے چنداں کوششیں کیں لیکن چار سال کے عرصے کے بعد اس رسالے کو بند کرنے کی نوبت آگئی۔ غرض اس رسالے نے اگر چہ کم ہی عمر پائی لیکن پھر بھی بانو قدسیہ کے ادبی ذوق کو نکھارنے میں یہ رسالہ ممدڈ و معاون ثابت ہوا۔گھر کے ماحول کا ایک بچے کی شخصیت پر بے حد اثر پڑتا ہے اور اگر گھر کا ماحول شاداں ہو تو بچے کی زندگی سنور جاتی ہے اور اگر گھر کا ماحول تتر بتر ہو تو بچے کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے

اور اس معاملے میں بانو قدسیہ خوش قسمت رہیں ہیں کیوں کہ انھیں اللہ نے اس نعمت سے سرفراز کیا تھا۔ بانو قدسیہ شاید اسی نعمت کی وجہ سے ایک شفیق بیٹی ، ہمدرد ہمسفر اور ملنسار ماں کے روپ میں سامنے آئی۔ بانو قدسیہ نے اپنے تینوں بیٹوں انیق ، انیس اور اثیر کی پرورش میں چار چاند لگائے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو اخلاقی ودینی تعلیم سے بھی روشناس کیا۔

وہ اپنی اولاد سے کبھی سخت لہجے میں بات نہ کرتی، اللہ کم لوگوں کو ایسا قلب عطا کرتا ہے جسمیں انھیں دوسروں کے دُکھ درد بھی اپنے محسوس ہو اور شاید ایسا ہی قلب اللہ نے بانو قدسیہ کو نصیب فرمایا تھا وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتیں

، ہر ضرورت مند کی حاجت روا کرنا انہیں اولین ذمہ داری محسوس ہوتیں۔بانو قدسیہ ادبی دنیا کی ایک سنجیدہ اور مقبول ادیبہ تصور کی جاتی ہیں انہوں نے ادب کی بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کی جیسے خاکے ، ڈرامے، افسانے ، ناول وغیرہ ۔ اگر چہ انہوں نے ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور ان کا پہلا افسانہ ” واماندگئی شوق”

جو کہ لاہور کے ماہنامہ ادب لطیف میں ۱۹۵۱-۱۹۵۲ء کو چھپ کر سامنے آیا لیکن اردو افسانے میں جس افسانہ سے ان کی شہرت کے پھول کھلنے شروع ہوئے وہ ان کا افسانہ ”کلو” ہے بانو قدسیہ کے مندرجہ ذیل افسانوی مجموعے سامنے آکر داد تحسین حاصل کر چکے ہیں :بازگشت ، کچھ اور نہیں ، آتش زیر پا، سامان وجود، دوسرا دروازہ وغیرہ ۔ افسانوں کے علاوہ آپ نے کئی ڈرامے لکھ کر بھی ڈرامے کی دنیا میں اپنے نقش چھوڑ دیے۔ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد تقریباً نصف صدی تک ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا پر چھائے رہے اور اپنے جلوے دکھا کر لوگوں کو مسحور کرتے رہے۔

افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے فن کے ساتھ ساتھ بانو قدسیہ نے ناول نگاری کے فن کو بھی گراں بار کیا۔ آپ کے قلم سے کئی ایسے ناول اور ناولٹ وجود میں آئے۔ کئی ایسے ناول اور ناولٹ وجود میں آئے جو اردو ناول نگاری کی تاریخ میں بے حد مقبول ہو گئے ۔ ادب جو کہ کائنات کی خوبصورتی کے احساس کا شعور ایک انسان میں پیدا کر دیتا ہے۔

تخلیق کا بھی اس شعور کو الفاظ کا جامہ پہنا کر وہ حقیقت دکھا دیتا ہے اور جو دکھ درد وکرب وہ محسوس کرتا ہے اپنے فن سے قاری کو بھی وہ سب محسوس کروانا انگاروں پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے اور اس سب میں اگر مصنف کا میاب ہوتا ہے تو قاری اور مصنف کے درمیان ایک کڑی جم جاتی ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکا ممکن نہیں کہ بانو قدسیہ کے ذریعے کردار کے نفسیات میں جھانکنے کی جو سعی کی وہ قابل ستائش ہے۔ بانو قدسیہ نے کئی لازوال ناول اور ناولٹ اردو ادب کو دیے۔ اپنی ناول نگاری کا آغاز انہوں نے شہرر بے مثال 1975ء سے کیا۔

اس کے بعد راجہ گدھ ۱۹۸۱ء جیسا زندہ جاوید ناول پیش کر کے اردو ادب میں انمٹ نقوش چھوڑ دیے اس کے علاوہ ” ایک دن ۱۹۹۵ء پر وا ۱۹۹۵ء موم کی گلیاں200پ ، حاصل گھاٹ ۲۰۰۳ء شهر لازوال، آباد یرا نے ۲۰۱۱ء جیسے قیمتی سرمائے سے اردو ادب میں بیش بہا اضافہ کیا۔ایک طرف جہاں آزادی کی مسرت تو دوسری طرف ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم نے دونوں ممالک میں کئی ایسے مسئلے پیدا کیے

جس نے نہ صرف ادیبوں کے اذہان پر نہایت پیچیدہ اثرات مرتب کئیے بلکہ ایک عام آدمی کے ذہن کو بھی جھنجوڑ دیا اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ ادب کے سب جملہ سروکار انسان اور سماج ہی ہیں۔ اس دور کے مشہور ادباء میں قرۃ العین حیدر، انتظار حسین ، خدیجہ مستور، ممتاز مفتی، عبداللہ حسین وغیرہ چوٹی کے ادباء کے ساتھ اپنا نام لکھوا لینا بازیچہ اطفال نہیں

بلکہ اس سب کے لئے اپنا چین وسکون قربان کر کے اپنے آپ کو ایک ایسے معاشرے کے حوالے کر دینا ہوتا ہے جہاں چین وسکون کا فقدان اور طنز و تیر کے لیے ایک ادیب کو سینہ تان کے رہنا پڑتا ہے اور ایسے کرداروں کی نفسیات کو بدرجہ اتم محسوس کرنا ہوتا ہے، تب جا کر جذبوں کی تاثیر کسی دوسرے انسان کے پتھر سے پتھر دل کو موم بنا سکتی ہے اور یہ سب خصوصیات بانو قدسیہ میں پائی جاتی ہیں۔

بانو قدسیہ کا فن انسانی نفسیات ، ایثار وقربانی جیسے جذبوں سے لبریز ہے اور ان کے اس فن کو نکھارنے اور سنوار نے میں ان کے ہمسفر اشفاق احمد کا بھی خون جگر شامل ہے۔ بانو قدسیہ کا فن ان کی شخصیت اور ماحول کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اپنے ادبی کمالات اور صلاحیتوں کے پیش نظر بڑی قد آور شخصیت کے طور پر اردو دنیا میں سامنے آئیں ۔ بانو قدسیہ نے کئی اعزازات بھی حاصل کر کے اپنا نام سنہرے حروف میں اردو ادب کی دنیا میں لکھوایا ۔

۲۰۰۳ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے بانو قدسیہ کو ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ پھر ۲۰۱۰ ء میں پاکستانی حکومت نے بلال امتیاز سے نوازا اور ۲۰۱۶ء میں اس عظیم شخصیت کو ” اعزاز حیات سے نوازا گیا۔بانو قدسیہ کی زندگی میں ہی ان کے فن کی خوب پزیرائی کی گئی اور اس سے بڑھ کر ایک انسان کے لیے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی مقبولیت اور شہرت کے چرچے اس کی حیات میں ہی ہوں

لیکن کوئی اس دنیا میں عرش کو چھوئے یا فرش کو یعنی کوئی کامیاب ہو یا کوئی نا کام مگر موت کے ظالم پنجے کسی بھی انسان کو تا دیر رہنے کی مہلت فراہم نہیں کرتے اور اس طرح برصغیر ہندو پاک کی اس عظیم خاتون کو بھی موت نے اٹھاسی (۸۸) برس کی عمر میں یعنی ۴ فروری ۲۰۱۷ء کو ابدی نیند سلا دیا اور اس طرح ایک روشن مینار پیکر جو کہ کئی دلوں کی دھڑکن تھیں نے انہیں اُداسیوں کے عالم میں چھوڑ دیا۔

(ڈاکٹر شاہینہ یوسف، بانو قدسیہ کے اسلوب میں علامتی عناصر،ص 2)

مزید یہ بھی پڑھیں: بانو قدسیہ کے افسانوں کا فکری تنوع pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں