باغ و بہار کا تنقیدی جائزہ

باغ و بہار کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر سہیل بخاری کی تصنیف باغ و بہار پر ایک نظر پنجاب پریس لابور سے 1968ء میں چھپی انتساب وقار عظیم کے نام ان لفظوں میں رقم کیا گیا ہے۔ "نذر عقیدت استاد محترم جناب سید وقار عظیم صاحب کی خدمت میں جن کے فیض سے میں نے داستانیں پڑھنے کا طریقہ سیکھا”

پیش نظر میں کتاب کا مقصد یہ واضح کیا کہ اصل حقائق کا سراغ لگانا اور باغ و بہار کی ادبی و فنی خوبیوں کو خوش اسلوبی سے واضح کرنا ہے۔

پہلا باب "تخلیق” میں ماخذ، ترجمہ اضافہ اور موازنہ پر بات کی گئی ہے۔ یہ باب خالص تحقیقی نوعیت کا ہے۔ قصہ چار درویش کی الف لیلہ سے مماثلت بلحاظ کردار اور قصہ گوئی دکھائی گئی ہے۔

چہار درویش کا مجموعی پلاٹ زبیده کی کہانی سے حاصل کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد الف لیلہ ی پر استوار ہے۔دوسرا باب فن کی ابتداء میں داستان گوئی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ باغ و بہار کا امتیاز خاص اس کا انداز تکلم بتایا گیا ہے وہ داستان کی ابتدا یوں کرتے ہیں۔

"اب آغاز قصے کا کرتا ہوں ذرا كان دهر كر سنو اور منصفی کرو”

ان جملوں میں میر امن نے لوگوں سے پڑھنے کی نہیں کان دھر کرسننے کی درخواستکی ہے۔ میرا من کا راز پوری کتاب میں برقرار رہتا ہے اور وہ کسی لمحہ قاری قاری کو فراموش نہیں کرتے ہیں۔ اور نہ کو ایسی مہلت دیتے ہیں کہ وہ کہانی کہنے والے کو بھول جائے۔ یہ اس داستان کی ایسی منفرد خصوصیت ہے۔ جس کیا پلاٹ چار قصوں پر مبنی ہے۔

جننے اسے داستانی ادب میں ممتازپوزیشن عطا کیا۔ پلاٹ چھ قصو پر مشتمل ہے بادشاه آزاد بخت کا قصہ مرکزی ہیں۔ ان مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ باقی پانچ قصے اس بڑے مرکزی قصے سے جوڑے گئے ہیں ۔

قصوں کے اندر اور بھی چھوٹے چھوٹے قصے ہیں جیسے پہلے درویش کے قصے میں شہزادی دمشق کیسرگزشت، دوسرے درویش کیکہانی میں حاتم طائی اور چوتھے درویش کے بیان میں اندھے عجمی افضل ہے۔

تمام کرداروں میں سے چوتھے فقیرکی سر گزشت پہلے درویش کا قصہ تمام قصوں سے درویش کا کردار ارتقائی ہے۔ وہ بچپنمیں یتیم بوکر زنان خانے میںپلتا ہے۔ادنی خواص کے تھپڑ سے بوڑھے غلام مبارک سے مل کر روتا ہے وہ غلام سے اپنے چچا کے وحشیانہ ارادے کی خائف ہو جاتا اطلاع پاتے ہوئے لرز جاتا ہے۔

وہ اس قدر خائف ہوجاتا ہے کہ وہ وفادار غلام کی وفاداری پر بھی شک کرتا ہے۔ خواجہ سگ پرست کا کردار مسلسل نقصان اٹھانے کے باوجود اس کے مزاج میں تبدیلی نہیں آتی۔ اس کردار کو سمجھنے کے لیے داستان نگار کا مقصد مدنظر رکھنا ہوگا۔

اس نے اس کہاوت کہ ” ادمی بے وفا بد تر حیوان با وفا سے ہے” ایک کہانی کے روپ میں پیش کیا۔ازاد بخت کے کردار کے علاوہ دیگر ضمنی کردار زیر بحث لائے گئے ہیں۔

تیسرا با ب ماحول” میں مذہبی ماحول مقامی جغرافیہ، معاشرتی اور سیاسی ماحول زیر بحث لائے گئے ہیں۔ باغ و بہار میں دو قسم کا مذہبی ماحول اسلامی اور غیر اسلامی بے۔ داستان نگار خود بھی مسلمان لگتا ہے۔ بارہ اماموں پر سلام بھیجتے ہوئے داستان کے اختتام پر دعا مانگتا ہے۔ الہی جس طرح یہ چاروں درویش اپنی مراد کو پہنچے۔ اسی طرح یر نامراد کو اپنے کرم اور فضل سے

"بہ طفیل پنج تن پاک” مراد کو پہنچا اسلامی ماحول بادشاه آزاد بخت کے کردار سے ظاہر ہے۔ وہ دن بھر روزے رکھتا تھا اور شام کو ایک چھوارے اور تین گھونٹ پانی سے افطاری کرتا تھا۔

غیر اسلامی ماحول کی مثال ہندوانہ ملک سراندیپ ہے۔ اس میں ایک بڑا بت خانہ ہے۔ عورتوں میں پردے کا رواج نہ ہونے کے سبب راجکماری خواجہ کے ہاتھ لگی تھی۔میرا من نے اپنے عہد کی بھرپور نقشہ کشی کی ہے۔ جس میں کھانے،

رہن سہن رسوم و رواج عقائد و میلانات اور موت و زندگی کی عکاسی جا بجا ملتی ہے۔ کھانوں کے نام اور کھانے کا طریقہ دوسرے درویش کی سیر میں ملتا بے بصرے میں ان نعمتوں کو دیکھ کر درویش اس قدر خوش ہوا کہ ہر ایک سے ایک ایک لقمہ لے کر اس کا جی سیر ہو گیا۔ کھانے کی جزئیات یوں بیان کرتا ہے:

"ایک دالان میں اس نے لے جا کر بٹھایا اور گرم پانی منگوا کر ہاتھ پاؤں دھلوائے اور دستر خوان بچھو کر مجھ تن تنہا کے روبرو بکادل نے ایک تورے کے توری چن دیا۔ چار مشقاب ایک میں یخنی پلاؤ دوسری میں قورمہ پلاؤ اور تیسری میں متنجن پلاو، چوتھی میں کوکو پلاو اور ایک قاب زردے کی اور کئی طرح کے قلفے ، دو پیاز نرگسی ، بادامی فروش جوش او رروٹیاں کئی قسم کی باقر خانی (20)

چوتھا باب "زبان” کے متعلق مباحث پر مبنی ہے۔ میرا من زبان پر قدرت رکھتے تھے۔ انھوں نے باغ کی بہار قائم رکھنے کے لیے مترادف الفاظ کا استعمال متنوع ڈھنگ سے کیا ہے۔

مسلسل مترادفات کی مثالیں ملتی ہیں مثلا مطلب اور مراد، غیرت اور حمیت یہ طریقہ مترادف الفاظ کو حرف عطف "اور” سے جوڑتا ہے۔ دوسرے طریقے میں متفاوت مترادفات کا موزوں استعمال بغير حروف عطف کے بے مثلاً شاید اسی شمع کے نور سے میرے بھی گھر کا چراغ روشن ہو اس امر سے معلوم ہوتا ہے کہ میرا من کے پاس الفاظ کا وافر ذخیرہ ہے۔

ڈاکٹر سہیل بخاری کی کتاب باغ و بہار پر ایک نظر داستانوی تنقید میں خاطر خواه اضافہ ہے، کیونکہ اس میں باغ و بہار پر مجموعی تنقیدی جائزہ ہے۔

جس میں پہلا باب تحقیقی نوعیت کا ہے۔ باب دوم نظری تنقید کے مباحث پر مبنی ہے۔ تیسرے باب میں ماحول اور مقامی جغرافیہ و معاشرت کی عکاسی ہے۔ آخری باب میں زبان کے مباحث زیر بحث لائے گئے ہیں۔

مزید یہ بھی پڑھیں: باغ و بہار کی زبان اور اسلوب pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں