ایہام گوئی ، تعریف ، ماخذ ، اسباب، شعراء اور ردعمل

ایہام گوئی کا پس منطر

تحریک ایہام گوئی

ہماری اردو شاعری ہمارے ادب کا سرمایہ ہے۔ اردو شاعری عالمی ادب میں اپنے مخصوص اسالیب ، خصوصیات اور اوصاف کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اگر چہ اس کی عمر دوسری زبانوں سے بہت کم ہے لیکن یہ خصوصیات اسالیب اور موضوع کے لحاظ سے دوسری زبانوں کی شاعری میں بلند تر مقام کی حامل ہے۔اُردو شاعری شروع ہی سے ارتقاء کی منزل کی طرف گامزن رہی ۔ مسعود سعد سلمان اور امیر خسرو کے کلام کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ابتدائی غزل میں ترقی کرنے اور بڑھنے کے روشن امکانات موجود تھے ۔ ولی نے اردو غزل کو فارسی روایات اور اسلوب سے آشنا کیا اور غزل کے دامن میں مزید خوبصورت پھول ڈال دیئے۔شمالی ہند میں ولی دکنی کے زیر اثر اُردو شاعری کی زبان تشکیل پائی اور علمی سطح پر سراج الدین علی خان آرزو نے اسے معتبر بنانے کی کوشش کی اور سلسلہ نقشبندی کے معروف بزرگ مرزا مظہر جان جاناں نے اسے خس و خاشاک سے پاک کرنے کی طرف خاص توجہ دی اور اس ” جاروب کشی نے صفائی اور اصلاح کی ایک مستقل تحریک کی صورت اختیار کر لی مصحفی نے اس بنا پر مظہرجان جاناں کو اُردو کا نقاش اول کہا ہے ۔“اردو شاعری کی ترقی شمالی ہند میں محمد شاہ کے عہد میں شروع ہوئی۔ شمالی ہند میں اُردو شاعری کی ترقی کا دور ایہام گوئی کی تحریک سے شروع ہو جاتا ہے۔ آئے اس سے پہلے کہ یہ دیکھا جائے کہ ایہام گوئی کی تحریک کیسے بنی؟ اس کا پس منظر کیا ہے اور کن اسباب کی بنا پر یہ تحریک معرض وجود میں آئی ، اس تحریک نے اردو شاعری پر کیا اثرات مرتب کیے؟ ہمیں ادبی تحریک کی تعریف اور معنی متعین کر لینے چاہیں۔ اس طرح ہمیں ایہام گوئی تحریک کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

ادبی تحریک سے کیا مراد ہے؟

تحریک جمود کی یک رنگی کو توڑ کر ہمہ رنگی اور تنوع پیدا کرنے کا عمل ہے اور اس کی تہہ میں کوئی نہ کوئی عصر ضرور کارفرما ہوتا ہے۔“معاشرتی، سیاسی اور دینی تبدیلیاں انسانی ارتقا میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انسانی زندگی حرکت اور عمل سے عبارت ہے۔ انسانی زندگی ایک ایسے عمل کا نام ہے جس کا طبی تحریک کبھی ختم نہیں ہوتا اور جس کی صبار فتاری کے آگے کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برگساں نے زندگی کو ایک ایسے صبارفتار گھوڑے سے تشبیہ دی ہے جو افق کی تلاش میں سرگراں کسی مقام پر ٹھہرے بغیر بڑھتا چلا جاتا ہے۔“انسانی زندگی میں تبدیلی اور حرکت کی خواہش زندگی کے تمام میدانوں اور شعبوں میں تبدیلیاں اور تحریک لاتی ہے۔ یہی تبدیلی اور تحرک ہمیں اردو ادب میں بھی ملتا ہے۔ اردو ادب مختلف ادوار میں مختلف تحریکات کا علمبردار رہا ہے۔ انسانی زندگی میں تغیر و تبدیلی کی خواہش سے انسان کے مزاج ، معاشرے اور ادب کو بدلتی رہی ہے۔ ایہام گوئی کی تحریک بھی انسانی زندگی میں تغیر و تبدیلی ۔ حرکت اور تبدیلی کی خواہش سے معرض وجود میں آتی ہے

ایہام گوئی کی تعریف

ایہام عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی وہم میں ڈالنا، راہ سے بے راہ کرنا یا مغالطہ دینا ہے۔ادبی اصطلاح میں ایہام سے مراد وہ ذومعنی لفظ ہے جو شاعر اپنے کلام میں لاتا ہے۔ جس کے دو معنی ہوں ایک قریب کے دوسرے بعید کے عام لوگ تو قریب کے معنی مراد لیتے ہیں۔ لیکن شاعر کی مراد بعید کے معنوں سے ہوں ۔ مثلاً اشعار دیکھیئے ۔ اس کے رخسار دیکھ جیتا ہوں عارضی یہ میری زندگانی ہے۔ان اشعار میں لفظ عارضی کے دو مفہوم ہیں ایک عارض یعنی چہرہ اور دوسرے چند روزہ اور شاعر کا مراد پہلے معنی ہیں ۔ایہام میں جو معنی فورآ سمجھ میں آجائیں معنی قریب کہلاتے ہیں اور جو ذزا غور و فکر کے کے بعد سمجھ میں آئیں معنی بعید کہلاتے ہیں۔

ایہام گوئی کے ماخذ

ایہام گوئی اردو شاعری میں در آئی؟ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی صاحب اسے ایک مسئلہ قرار دیتے ہیں اور پھر اسے مسئلے کا جواب دیتے ہوئے محمد حسین آزاد کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں ۔ محمد حسین آزاد لکھتے ہیں۔”سنسکرت میں ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہیں۔ اس واسطے اس میں اس برج بھاشا میں دو متعین الفاظ پر دوہوں کی بنیاد ہوتی تھی۔ فارسی میں یہ صنعت ہے۔ مگر کم ۔ اردو میں پہلے پہل شعر کی بنیاد اس پر رکھی گئی ہے۔” آزاد کا یہ خیال اس حقیقت پر مبنی نظر آتا ہے کہ سنسکرت میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی موجود ہیں۔ سنسکرت میں اس صنعت کا نام شلخش ہے۔ شلخش ایسے لفظ کو کہتے ہیں جس کے دو معنی ہوں۔ ہندی ادب پر سنسکرت کا اثر مسلمہ ہے۔ ہندی شاعری خصوصاً دوہوں میں ذو معنی الفاظ کا استعمال ایک حقیقت ہے۔ یہ بھی مسلمہ بات ہے کہ محمد شاہی عہد میں فارسی، اردو شعروں کے ساتھساتھ ہندی دو ہے زبان زد عام و خاص تھے ۔ شلخش کی دو قسمیں ہیں۔ اوسمال سہنگ جس میں لفظ سالم رہتا ہے۔ دوم ایہنگ جس میں لفظ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے یہ صنعت پیدا کی جاتی ہے۔ڈاکٹر حسن اختر مولوی عبدالحق کے مضمون ” اردو شاعری میں ایہام گوئی ” مطبوعہ حمیدہ ہم قلم جون 1961ء ص 9 کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ صنعت ہندی میں سنسکرت سے آئی ہے۔ اور ہندی شاعروں نے اسے کثرت سے استعمال کیا ہے ۔ ” امیر خسرو اردو شاعری میں صنعت ایہام استعمال کرنے والے پہلے شاعر ہیں۔ پہلے انہوں نے فارسی میں اس صنعت کو استعمال کیا اور پھر فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں اس سے فائدہ اٹھایا۔

ایہام گوئی کے اسباب

دنیا میں کوئی چیز بھی بغیر کسی علت اور سبب کے نہیں ہوتی ، اس کی تخلیق وجود، کار کردگی ، ارتقاء نشو ونما اور عروج و زوال کے کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ بعض وجوہات اور اسباب کسی چیز کا عمل اور تحریک کا سبب بنتے ہیں تحریک ایہام گوئی بھی چند مخصوص اسباب کی بنا پر وجود میں آئی۔ ان اسباب کا اجمالی خاکہ مختصر لفظوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

اردو ادب کے ارتقاء کے خلاف ردعمل

ولی دکنی کا دیوان جب دہلی پہنچا اور اس کے شعر زبان زد عام ہوئے ۔ عوام کی اپنی زبان انہیں ان میں اپنے شعر دلوں میں اترنے لگے تو لوگوں کونئے پن کا احساس ہوا۔ولی دکنی کی تجربہ پسندی نے اردو زبان کو جونئی کروٹ دی اس سے دلی میں اردو شاعری کا چشمہ پھوٹ لگا ۔ چنانچہ جب اردو زبان کا ادبی عروج شروع ہوا تو اس کے خلاف رد عمل بڑے مضحک انداز میں ادبی محلوں اور مشاعروں میں ابھر نے لگا۔ فارسی شعراء نے ریختہ گو شعراء کے متعلق اہانت آمیز باتیں کرنا شروع کر دیں اور جعفر زٹلی نے اس زبان کا مضحک زاویہ پیش کر کے اس کی قدر و قیمت کم کرنے کی کوشش کی۔ فارسی شعراء کے متذکرہ بالا منفی رویے کے خلاف اولین رد عمل خان آرزو کے ہاں پیدا ہوا اور انہوں نے فارسی کو ترک کر کے ریختہ کے مشاعرے کرانے شروع کر دیئے ۔ ان مشاعروں میں جب اردو کو فارسی کا مقابلہ مجلسی سطح پر کرنا پڑا تو لا محالہ اظہار نےشعر گوئی کا وہ طریق اختراع کیا جس سے کہنہ مشق اور قادر الکلام شعراء بھی عہدہ برآ ہو سکتے تھے۔ چنانچہ ایہام کا فروغ جس نے ذو معنی الفاظ کے فنکارانہ استعمال سے شعر کو نئی ذہنی ورزش کا وسیلہ مہیا کر دیا۔

کند تلواریں اور تیز زبان

محمد شاہ کے دور تک پہنچتے پہنچتے مغل تلواریں کند ہو گئیں تھیں ۔ جب انسان بے عمل ہو جائے تو اس کی زبان تیز ہو جاتی ہے۔ جب مغعل تلواریں کند اور بیکار ہو گئیں تو الفاظ تیز ہوگئے ۔وہ کام جو تلوار میں کرتی تھیں اب زبان کرنے لگی۔ جب رزم کا میدان بزم میں آراستہ ہوا تو گفتار کے غازی شہرت عام سے سرفراز ہوئے ۔ ان میں زیادہ تعداد سپاہی پیشہ لوگوں کی تھی۔ شاہ حاتم بھی پیشے کے لحاظ سے سپاہی تھے۔ جب پیشہ سپہ گری باعث عزت نہ رہا تو سپاہیوں نے اپنے جو ہر شاعری کے میدان آزمائے اور لفظوں سے پنجہ آزمائی شروع کر دی۔ ایہام کی تحریک میں سپاہیانہ جوہر کی اس عطا کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سیاسی گھٹن

محمد شاہ کا دور سیاسی اور معاشرتی طور پر افراتفری قتل و غارت اور گٹھن کا موسم تھا۔ لوگنادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں سے عاجز آگئے تھے۔ زندگی لوگوں کے لیے بے ثبات ہو گئی تھی اور ہر کوئی زندگی کی حقیقت سے فرار کا راستہ تلاش کرتا تھا۔ اس دور کے افراد اپنے ماحول کی سیاسی گٹھن سے فرار کے راستے عیش و نشاط میں تلاش کرتے تھے۔ خود محمد شاہ کا رویہ بھی ایسا ہی تھا۔اس عہد کی عیش کوش سوسائٹی کے لیے اردو شاعری بھی عیش کا سامان بن گئی تھی۔ لوگ اس شاعری عیاشی کا ایک رکن سمجھتے تھے۔ چنانچہ ایہام گوئی سفلی جذبات کی آسودگی کا باعث بنی۔

ایہام گو شعراء کی جسمانی خامیاں

ایہام گو شعراء کی جسمانی خامیاں و ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو جسمانی طور پر کسی نہ کسی خاص نقص یا کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں وہ دوسروں کی توجہ اپنے نقائص اور جسمانی کمزوری سے ہٹانے کے لیے غیر معمولی باتیں اور کام کرتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت ہمیں محمد شاہی دور کے ایہام گو شعراء میں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر انور سدید اس سبب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ایہام کے فروغ میں فطرت کے قانون تلافی کا بھی خاصہ عمل دخل نظر آتا ہے۔ مرہٹوں کی یلغار اور ابراہوں کے حملے نے عوام الناس کو ذہنی بے چارگی ہی سے دوچار نہیں کیا تھا بلکہ جب سپہ گری پر زوال آیا اور قوت بازو سے ناموری حاصل کرنے کے امکانات ختم ہو گئے تو وہ تمام فطری خامیاں جو شعراء میں موجود تھیں نمایاں ہونے لگیں۔ ان شعراء کی شخصیت پر نگاہ پڑتی ہے تو ان کی بعض جسمانی خامیاں پہلے توجہ کھینچتی ہیں اور یہی بات شعراء کے مابین چشمک کا وسیلہ بھی نظر آتی ہیں ۔ چنانچہ مبارک آبرو ایک آنکھ سے معذور تھے۔ شاکر ناجی آبلہ رو تھے۔ مضمون کے دانت ترلے سے جھڑ گئے تھے اور خان آرزو انہیں از راہ مذاق ” شاعر بے دانہ کہا کرتے تھے۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ شعراء کی جسمانی خامی کی تلافی بلا واسطہ طور پر تحریک ایہام کے فروغ کا باعث بنی۔“

تحریک ایہام گوئی کے خلاف ردعمل

تحریکیں سماجی اور سیاسی حالات کی پیداوار ہوتی ہیں ۔ جب معاشرتی، سیاسی،اقتصادی اور لسانی(زبان) تقاضے بدلتے ہیں تو تحریکیں آہستہ آہستہ کمزور ہو کر ختم ہو جاتی ہیں۔ایہام گوئی تحریک عہد محمد شاہ میں شروع ہوئی اور اسی عہد میں ختم ہو گئی۔ یہ تحریک 1147 ھ تک رائج رہی۔ 1152ھ میں نادر شاہ کے حملے کے بعد ایہام گوئی کے خلاف رد عمل شروع ا اور لوگ ایہام گوئی کو چھوڑنے لگے حتی کہ 1159ھ میں ایہام گوئی کے بانی شاہ حاتم بھی یہ کہنے پرمجبور ہو گئے کہتے ہیں

ایہام گوئی کی تحریک کے خلاف اگر چہ رد عمل شروع ہوا اور نئی نسل کے لیے نئی راہیں بھی کھلیں ۔ لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ایہام گو شعراء نے الفاظ کے پیکر تراشنے میں نمایاں حصہ لیا۔ ایک لفظ بیک وقت کتنے مفہوم ادا کر سکتا ہے، محاورہ کا جزو بن کر کس کس طرح اس میں معنوی تبدیلی آجاتی ہے۔ الفاظ کس طرح دوسرے الفاظ سے مربوط ہو کر اپنے معنی تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان سب لطیف نکات کی طرف جس طرح ایہام گو شعراء نے توجہ کی اس سے قبل نہیں کی گئی تھی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں