عرصہ دراز سے احمد فیکٹری میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ فیکٹری کا مالک سنگ دل اور جابر انسان تھا جو ہمیشہ مزدوروں پر ظلم اور تشدد4 کرتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ کام لینا اس کی عادت بن گئی تھی ۔ ہر مزدور اس سے تنگ آچکا تھا، کوئی بھی کام نہ ملنے کی وجہ سے احمد اس فیکٹری کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ معمولی تنخواہ تھی مگر پھر بھی اچھا خاصا اپنا گھر چلا رہا تھا۔ احمد دین پور کے گاؤں میں اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کا خاندان چار افراد پر مشتمل تھا، جس میں اس کی بیوی عذرا اور دو بچے تھے۔ ان کا پیٹ پالنے کی خاطر اسے فیکٹری مالک کی ہر بات سہنا پڑتی تھی۔
احمد اکثر یہ سوچنے لگ جاتا کہ فیکٹری مالک ہمارے ساتھ اتنا ظلم کیوں کرتا ہے؟ ضرورت سے زیادہ ہم سے کام کیوں لیتا ہے؟ ہمارے اوپر کبھی رحم کیوں نہیں کرتا ؟ ۔۔۔ عادل پر ہر وقت دولت کا بھوت کیوں سوار رہتا ہے؟۔۔احمد اسی سوچ میں گم تھا کہ عذرا نے اس سے اچانک پوچھا:عذرا: کوئی اور پسند آگئی ہے جو اتنے گم سم بیٹھے ہو!
احمد: تم بھی ناں! نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
عذرا: مجھ سے کیوں چھپا رہے ہو؟ ، بتاؤ کیا بات ہے؟۔ احمد: بس ! سوچ رہا تھا فیکٹری کا مالک ہم مزدوروں سے زیادہ کام کیوں لیتا ہے؟۔۔۔ اتنے میں ایمن اور بلال بھی آگئے ۔۔۔ احمد نے اپنے دونوں بچوں کو پیار کیا اور کہا ‘پڑھ لو کچھ پھر کھیلنے چلے جانا’ ۔۔۔ بلال کی توجہ پڑھائی پر کم دوستوں کے ساتھ فضول وقت گزارنے میں زیادہ تھی ، جبکہ ایمن کی توجہ زیادہ تر پڑھائی کی طرف تھی ۔۔۔ وہ پڑھ لکھ کر کچھ بنا چاہتی تھی ۔ پڑھائی سے فارغ ہو کر دونوں اپنے ہم جولیوں کیساتھ کھیلنے چلے گئے ۔۔۔ ایمن کی ایک سہیلی نادیہ تھی جو ایمن کے ساتھ کھیلتی اور اس کی اچھی دوست بھی تھی ، وہ دونوں کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بھی بٹاتی تھیں۔
رات تھم چکی تھی ، سورج کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں ۔ سورج کی کرنیں پڑتے ہی احمد اٹھ بیٹھا اور فیکٹری جانےکے لیے تیار ہوتے وقت عذر اسے کہنے لگا:۔
احمد: جلدی سے ناشتہ تیار کرو مجھے فیکٹری سے دیر ہو رہی ہے اور کاشف میرا انتظار کر رہا ہوگا۔
عذرا: جی میں نے آپ کے اٹھنے سے پہلے ہی ناشتہ تیار کر لیا تھا۔ احمد نے معمول کے مطابق ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور کا شف کی طرف چل پڑا ۔ کاشف احمد کا انتظار کر رہا تھا اور بہت غصے کی حالت میں تھا۔۔۔ کاشف کے پاس پہنچتے ہی اس نے غصے سے کہا:۔
کاشف: اتنی دیر کیوں کر دی آپ نے؟
احمد: بس یا را! اٹھنے میں تھوڑی دیر ہوگئی ۔۔۔
کاشف: اچھا! کل سے جلدی اٹھنا۔۔۔
احمد: ٹھیک ہے بابا !۔۔۔ اب چلیں؟
کاشف: چلو چلو۔۔۔
دونوں فیکٹری کی طرف چل پڑے ۔ احمد سوچنے لگا کہ عادل اگر غصے کی حالت میں ہوا تو آج خیر نہیں ہماری ۔ فیکٹری میں داخل ہوتے ہی عادل نے ان دونوں کو اپنی طرف بلایا ۔۔۔
عادل: کہاں سے آرہے ہو؟ یہ وقت ہے کام پر آنے کا !!!
کاشف: صاحب ! احمد کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ احمد: صاب جی! کل سے دیر نہیں ہوگی ۔۔۔ آج کے لیے معذرت
عادل: آئیندہ احتیاط کرنا ورنہ۔۔۔ جاؤ کا کرو۔۔۔
دونوں کام کرنے میں مصروف ہو گئے ۔۔۔ احمد سوچنے لگا کہ عادل آج کچھ سکون میں تھا۔۔۔ ورنہ دونوں کی خیر نہیں تھی ۔۔۔ شکر ہے اللہ میاں! ہمیں اس ظالم سے بچالیا۔۔۔ ایمن اور بلال سکول سے پڑھ کر گھر آئے تو ان کی ماں گھر پر نہیں تھی ۔۔۔ وہ اکثر اپنی پڑوسن رقیہ کے گھر چلی جایا کرتی تھی ۔۔۔ رقیہ ابھی ابھی زیارات سے واپس آئی تھی۔اس لیے پہلے کہ حال احوال پوچھتی ایمن نے اپنی ماں کو دروازے سے داخل ہوتے ہی آواز دے دی:۔
‘امی جلدی گھر چلو! بہت بھوک لگی ہے ۔ ۔ ۔ آج سکول میں کینٹین بھی بند تھی۔
عذرا؛ اللہ! اچھا چلو میں آتی ہوں ۔۔۔ ایمن اور بلال نے پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد سکول کا کام مکمل کیا اور باہر کھیلنے چلے گئے ۔ ۔ ۔ ایمن نادیہ کے پاس کھیلنے چلی گئی اور بلال اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔ رات کو احمد اپنے گھر پہنچا اور بہت تھکاہوا تھا۔۔ صبح جلدی اٹھانے کے لیے اپنی بیوی کو کہتے ہوئے بستر میں لیٹ گیا۔۔۔ اگلے دن کاشف اور احمد دونوں وقت پر فیکٹری پہنچ گئے اور عادل کے آنے سے پہلے اپنے اپنے کام میں مصروف ہو گئے ۔۔۔ جب عادل آیا تو دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کیونکہ آج وہ اس سے بھی پہلے آگئے تھے۔
تنخواہ بہت کم ہے اب تو گھر کا نظام چلانا مشکل ہو گیا ہے کیوں نہ مل کر عادل صاب سے تنخواہ کے بارے میں بات کریں ہو سکتا ہے کہ عادل صاب کے دل میں رحم پیدا ہو جائے۔۔۔ دونوں نے واپسی پر ایک دوسرے کہا۔ دوسرے دن جب کاشف اور احمد نے مل کر عادل سے بات کی تو وہ بہت ہی غصے کی حالت میں ان سے کہنے لگا ‘اگر کام کرنا ہے تو کرو ورنہ دفع ہو جاؤ! مجھے مزدوروں کی کوئی کمی نہیں ۔۔۔ ‘دونوں چپ چاپ واپس آگئے ۔۔۔ جب احمد گھر آیا تو بہت پریشانی کی حالت میں تھا۔۔ عذرا نے اس سے پوچھا مگر وہ خاموش رہا۔۔۔ عذرا نے دوبارہ پوچھا:۔
‘احمد کیا بات ہے؟ ۔ ۔ ایسے پریشان کیوں بیٹھے ہو؟ ۔ سب خیریت تو ہے ناں؟
احمد: اب اس تھوڑی سی تنخواہ سے گھر چلانا مشکل ہو گیا ہے۔۔۔آج کا شف اور میں نے عادل سے تنخواہ بڑھانے کے سلسلے میں بات کی تھی۔۔۔ اس نے ہمیں جھاڑ پلا دی۔۔۔ کہتا کام کرنا ہے تو کرو ورنہ دفعہ ہو جاؤ میرے پاس مزدوروں کی کوئی کمی نہیں ۔۔۔
عذرا: اچھا پریشان نہ ہوں ۔۔۔ اللہ اس کا بہتر حل نکالے گا۔۔۔ اس پر بھروسہ رکھو
نادیہ: کیسی چل رہی تمہاری پڑھائی ؟ ۔۔۔ نادیہ نے اپنی ایمن سے پوچھا جو اس کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔
ایمن: بہت اچھی ۔۔ تمہاری دعا ہے ۔۔۔
نادیہ: اللہ آپکو آپکی محنت کا اجر ضرور دے گا ۔۔۔ ان شاء اللہ ایمن ان شاء الله
ایمن اپنے آپ میں سوچنے لگی کہ وہ پڑ ھ لکھ کر اعلی عہدہ حاصل کرے گی اور اپنے والدین کا نام روشن کرے گی ۔ نادیہ نے اس سے پوچھا کہ کیا سوچ رہی ہو؟ تو امین نے ہنتے ہوئے جواب دیا کہ خیالی پلاؤ پکا رہی ہوں ؟ ۔۔۔ مطلب ؟۔۔۔ ایمن نے بھی مسکراتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ مطلب اپنے مستقبل کا سوچ رہی۔۔۔ ایمن نے جواب دیا۔ ابھی سے اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی ہو ۔۔۔ نادیہ یہ بات کہتے ہوئے سنجیدہ ہوگئی ۔ چلو میری دعا ہے اللہ تمہیں کامیابی دے۔۔۔آمین۔۔۔ شکر یہ ایمن بولی۔
رات کو سب اکٹھے بیٹھے تو احمد نے اپنے بچوں سے حال احوال اور پڑھائی کے بارے میں پوچھا تو بچوں نے کہا کہ بابا سب ٹھیک ہے بس آپ کی خیریت چاہتے ہیں۔
ایمن: ابا جان آپ بہت تھکے ہوئے ہوتے ہیں کافی دنوں سے آپ نے ہمارے بارے میں پوچھا ہی نہیں ۔۔
ابا جان: ہاں بیٹا ! کام ہی ایسا ہے کہ فارغ ہونے کے بعد کسی سے بات کرنے کو دل بھی نہیں کرتا ۔۔۔ تھکاوٹ بہت زیادہ ہوتی ہے۔۔۔ تو اس لیے جلدی سو جاتا۔
ایمن: ابا جان! بس تھوڑے دن اور پھر میں پڑھ لکھ کر زیادہ پیسے کماؤں گی اور آپکی مدد کروں گی ۔۔۔ ان شاء اللہ
ابا جان: ہئی شاوش اے! ماشاء اللہ، انسان اگر سچے دل سے محنت کرے تو اس کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
ایمن جوانی کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو احمد کی پریشانیاں بھی روز بروز بڑھتی گئیں ۔۔۔ بلال پڑھائی کی طرف کم اور دوستوں کے ساتھ فضول وقت گزارنے میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ عذرا اپنے بچوں کی بہت حفاظت کرتی اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ۔۔۔ رات کے وقت بلال نے امی سے کہا:۔
بلال: امی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔
امی: جی بیٹا بولو
بلال: امی میں پڑھنا نہیں چاہتا
امی: کیوں نہیں پڑھنا؟
بلال: بس امی میرا دل نہیں کرتا
امی: بے وقوف انسان!۔۔۔ پڑھ لکھ کر بڑا بڑا آدمی بن جاؤ گے۔
بلال: امی بس مجھے نہیں پڑھنا
عذرا کے ذہن میں اپنے بیٹے کے بارے میں پریشانی پیدا ہوگئی کہ اس کو اچانک کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ اگر یہ پڑھے گا نہیں تو یہ ساری زندگی کرے گا کیا ۔۔۔ اچانک عذرا کے ذہن میں آیا کہ رقیہ کا بیٹا دانش بھی اسی طرح ہو گیا تھا تو وہ کسی پیر صاب کے پاس گئی تھی جس کی دعا سے وہ دوبارہ پڑھنے لگ گیا تھا۔ ۔ ۔ صبح میں رقیہ کو ساتھ لے کر اس پیر کے پاس جاؤں گی۔ صبح ہوتے ہی عذرا نے حسب معمول ناشتا بنایا۔۔۔ احمد فیکٹری اور ایمن اسکول چلی گئی ۔۔۔ گھر کے کام کرنے کے بعد عذرا بلال کو لے کر رقیہ کے پاس چلی گئی ۔۔۔ عذرا نے ساری بات من و عن رقیہ کو سنا دی تو رقیہ نے عذرا کو تسلی دی کہ وہ پریشان نہ ہو ابھی اس پیر کے پاس چلتے ہیں پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔
دونوں بہنیں پیر صاحب کی طرف کی چل دیں ۔۔۔ پیر کا گھر ان کے گھر سے ۱۰ میل کے فاصلے پر تھا۔ پیر صاحب کو ساری داستان سنائی گئی تو وہ بلال سے کہنے لگا:۔
پیر: پڑھنا ہے یا نہیں؟
بلال: نہیں بالکل نہیں۔۔ کوئی فائدہ نہیں پڑھائی کا
پیر: بیٹا پڑھو گے نہیں تو بڑے آدمی کیسے بنو گے
بلال: نہیں نہیں مجھے نہیں بنتا بڑا آدمی۔
دو ٹوک جواب سن کر پیر نے دو تعویذ بنا کر عذرا کو دے دیئے۔۔۔ ایک بلال کے گلے میں باندھنا تھا اور دوسرا اس کو پلانا ۔۔۔ یہ دونوں تعویذ استعمال کرو پھر ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ پیر نے عذرا کوتسلی دی۔ واپس گھر آکر عذرا نے ویسا ہی کیا جیسا کہ پیر نے کہا تھا ۔۔۔ لیکن کچھ دنوں بعد عذرا کو احساس ہوا کہ پیر کے تعویزوں کا بلال پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
رات کے وقت سب اکٹھے بیٹھے تھے کہ ایمن نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ وہ کوئی خوشخبری سنانے والی ہے۔۔۔۔ایمن نے بتایا کہ وہ کلاس میں اول آئی ہے اور اسے انعام ملا ہے۔۔۔۔یہ سن کر عذرا اور احمد بہت خوش ہوئے اور ایمن کی مزید کامیابیوں کے لیے دعا دی۔
اگلے دن احمد فیکٹری جاتے ہوئے کاشف سے کہا وہ اسے کچھ کہنا چاہتا ہے:احمد: ! آج میں کچھ کہنا چاہتا ہوں
کاشف: ہاں ہاں بھائی بے فکر ہو کر کہو جو کہنا چاہتے ہو۔
احمد: یار میرا اب کام کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔
کاشف: کیوں کیا ہوا ؟
احمد:ہوا تو کچھ نہیں ابس اب بہت تھک گیا ہوں آرام کرنا چاہتا ہوں ۔
کاشف: اچھا!۔۔۔اگر آرام کی بات ہے تو پھر ٹھیک ہے کچھ دن گھر پر رہو۔دونوں فیکٹری میں داخل ہو گئے تو عادل نے دیکھ لیا اور احمد کو بلایا۔
عادل: احمد تم پریشان لگ رہے ہو ۔
احمد: جی صاحب کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔۔۔
اچھا چلو کام پر لگ جاؤ۔۔۔ اب احمد کی ہمت ساتھ نہیں دیتی تھی۔ زیادہ عرصہ کام کرنے کی وجہ سے اس کی طبیعت نڈھال ہو چکی تھی ۔ اس کو آرام کی ضرورت تھی مگر مالی حالات ساتھ نہیں دے رہے تھے لہٰذا مجبوراً اسے کام کرنا پڑ رہا تھا۔ کاشف نے جب احمد کی اس صورت حال کو دیکھا تو بہت پریشان ہو گیا ۔۔۔ گھر آکر اس نے ساری بات اپنی بیوی رقیہ کو بتادی ۔۔۔ رقیہ نے بھی بتایا کہ پچھلے دنوں عذرا اس کے پاس آئی تھی اس کے ساتھ بلال بھی تھا تو کہنے لگی کہ رقیہ بہن میرا بیٹا اب پڑھنا نہیں چاہتا تو پھر میں ان دونوں کو پیر صاحب کے پاس لے گئی۔۔۔ اس نے تعویذ دیئے۔ عذرا بھی اپنے بیٹے کو لے کر کافی پریشان ہے اور اب آپ احمد کا بتارہے ہو یہ سن کر تو مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے بیچاری عذرا ۔۔۔ اب ان کا گھر کیسے چلے گا، اللہ پاک سب کچھ ٹھیک کرے گا تم پریشان نہ ہو کا شف نے اپنی بیوی کو دلاسا دیا۔
عادل کی فیکٹری ان دنوں کام کے سلسلے میں دوسری فیکٹریوں کی نسبت اول جارہی تھی کیونکہ اس فیکٹری میں احمد اور کا شف جیسے محنتی، قابل اور ایماندار مزدور کام کر رہے تھے جو اس فیکٹری کی شان سمجھے جاتے ۔ کاشف نے احمد سے اس فیکٹری کے بارے میں پوچھا کہ یہ کب سے ہے مجھے تو اس میں کام کرتے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے۔۔ لیکن آپ تو کافی عرصے سے یہاں کام کر رہے ہیں، تو اس پر احمد نے کاشف کو بتایا کہ کافی عرصہ پہلے اس فیکٹری میں میرے والد صاحب اطور منیجر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں ۔۔۔ اس وقت میری عمر صرف 12 سال تھی اور میں اسکول میں پڑھتا تھا۔ جب میری عمر 16 سال ہوئی تو میرے والد صاحب بیماری کی حالت میں کام نہیں کر سکتے تھے۔ تب میرے لیے آگے پڑھنا بہت مشکل ہو گیا تھا اس لیے میں پڑھائی چھوڑ کر والد کی خدمت کرنے لگ گیا ۔۔۔ میری شادی کے بعد والد صاحب زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے سکے ۔۔۔ گھر کی ساری ذمہ داری مجھے پر آگئی جس وجہ سے مجھے بھی اس فیکٹری میں کام کرنا پڑ گیا ۔۔۔ جب میری اولاد ہوئی تو پھر میں خاندان سے الگ ہو گیا ، دن رات محنت کر کے اولاد کا پیٹ پالا۔۔ مگر اب ہمت نہیں رہی کام کرنے کی ، مجھے تھوڑا آرام کرنا چاہیے۔۔۔ کاشف نے احمد کو حوصلہ دیا۔
شام کے وقت گھر آئے تو کاشف کو پریشانی کی حالت میں بیوی نے دیکھا تو وجہ پوچھی:کاشف: میرے خیال میں احمد اب زیادہ دن کام نہیں کر پائے گا۔۔۔اس کی حالت اب زیادہ خراب ہو گئی ہے۔
رقیہ: کیوں کیا ہوا؟
کاشف: احمد کہتا ہے کہ مجھ سے اب کام نہیں ہوتا ۔۔۔
رقیہ:کیا مطلب کام نہیں ہوتا؟۔۔۔گھر کا نظام کیسے چلے گا۔
کاشف: اللہ پاک کوئی وسیلہ بنادے گا ۔۔۔ ان شاء اللہ
عذرا کو محسوس ہوا کہ اس کے خاوند کچھ زیادہ ہی پریشان رہتے ہیں کافی دنوں سے کسی سے بھی صحیح طرح سے بات نہیں کرتے ۔ اس نے سوچا کہ وہ صبح رقیہ کے گھر جائے گی اور کا شف سے احمد کی اس حالت کی وجہ پوچھے گی ۔۔۔
صبح ہوتے ہی وہ ناشتا تیار کر کے سیدھی رقیہ کے گھر چلی گئی ۔۔۔ خیر و عافیت پوچھنے کے بعد اس نے رقیہ کو ساری بات بتائی۔۔۔ رقیہ نے عذرا کو بتایا کہ مجھے پچھلے دنوں کاشف نے بتایا تھا کہ احمد آج کل بہت پریشان رہتا ہے میں نے اس سے وہ بھی پوچھی تو کہنے لگا کہ احمد کہتا ہے کہ اب وہ کام نہیں کر سکتا بلکہ وہ آرام کرنا چاہتا ہے۔ پتا نہیں احمد بھائی کو کیا ہو گیا ہے۔۔ اچھا خاصا کام کرتے تھے، اچانک کیا بنا۔۔۔ یہ سب سن کر عذرا رونے لگ گئی ، اب گھر کا نظام کیسے چلے گا ایک ہی سہارا ہے۔ ایمن کی پڑھائی رک جائے گی اور بلال پہلے پڑھائی چھوڑ چکا۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ میرے بچوں کا مستقبل خراب ہو۔ ۔ ۔ رقیہ نے عذرا کو تسلی دی کہ پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ ویسے بھی اب بلال کافی بڑا ہو گیا ہے اب اسے ابو کی مدد کرنی چاہیے ۔۔۔ رقیہ میرے لیے دوہری پریشانی ہے ایک طرف بلال پڑھائی چھوڑ رہا اور دوسری طرف احمد کا یہ حال ۔۔۔ ان تعویذوں سے بھی بلال پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔ عذرا نے رقیہ سے کہا۔
رقیہ نے کہا کہ اب وہ پڑھائی تو کر نہیں رہا اب اسے کوئی ہنر سیکھنا چاہیے کیوں نہ وہ ابو کی جگہ فیکٹری چلا جائے۔۔۔ اس طرح وہ اپنے گھر کو سنبھال لے گا۔۔۔ یہ سب سننے کے بعد عذرا روتے ہوئے اپنے گھر چلی گئی۔۔۔ کیونکہ اب وہ محسوس کر رہی تھی کہ اب گھر شاید پہلے جیسا نہ رہے کیوں کہ احمد بالکل بیمار ہو چکا ہے اور بلال ابھی تک بچوں والی سوچ رکھتا ہے۔۔۔ اب عذرا پہلے کی نسبت اپنے شوہر کا بہت زیادہ خیال رکھنے لگی اور سوچنے لگی کہ احمد کو کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک کروائے ۔۔۔ گھر پہنچتے ہی اس نے بلال اور ایمن کو سب کچھ بتا دیا دونوں بہت پریشان ہو گئے کہ اب ہمارا کیا ہوگا۔ عذرا نے دونوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ کل ہی دین پور کے بہت اچھے اور قابل ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے ان شاء اللہ تمہارے ابو بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔ عذرا نے اپنے بیٹے بلال کی طرف دیکھا اور کہا: بلال کل سے تم اپنے ابا جان کی جگہ کام پر جاؤ گئے’۔
بالال: کہاں؟
عذرا: جہاں فیکٹری میں تیرے ابو کام کرتے تھے۔
بلال مجھے فیکٹری میں کام کرنا نہیں آتا۔
عذرا: پریشان مت ہو۔۔۔ چاچو کاشف آپ کو سب کچھ بتا دے گا۔
بلال: جی اچھا!عذرا نے اپنی ایمن کی طرف مخاطب ہوئی اور کہا:’ایمن پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟“
ایمن: امی الحمد اللہ ٹھیک چل رہی۔ پڑھائی کے حوالے سے مجھے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے اور ان شاء اللہ بہت جلد میں کچھ بن کر دکھاؤں گی۔
صبح ہوتے ہی احمد نے بلال کو اپنے پاس بلایا اور اس کو بہت زیادہ پیار کیا اور کہا کہ بیٹا دیکھ فیکٹری میں میری بہت عزت ہے جو میں نے کئی سال کام کر کے کمائی ہے تم اس کا خیال رکھنا کوئی بھی ایسی غلطی نہ کرنا جس سے تمہیں شرمندگی ہو اور میری عزت کو نقصان بھی۔ ابا جان آپ بے فکر ہو جائیں میں فیکٹری میں ایسا کوئی کام نہیں کروں گا جسسے آپ کی عزت نفس مجروح ہو۔۔۔ بلال نے ابو کو یقین دلایا۔ احمد نے خوش ہو کر پیار کیا اور شاباش دی۔
بلال کاشف کے ساتھ فیکٹری میں آپہنچا۔ دونوں کو دیکھتے ہی عادل نے کاشف سے پوچھا:کا شف: یہ لڑکا کون ہے۔۔ تمہارے ساتھ اسے تو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
کاشف: جی صاب یہ احمد کا بیٹا بلال ہے۔
عادل: تو احمد کہاں ہے وہ کیوں نہیں آیا کام پر۔۔۔
کاشف: جی وہ بہت کمزور اور بیمار ہو گیا ہے اس سے اب مزید کام نہیں ہوتا اس لیے اس نے اپنے بیٹے کو آج سے کام پر بھیجا ہے۔
عادل: اچھا تو اب وہ بیما ر بھی ہو گیا ؟
کاشف: جی صاحب!
بلال کا فیکٹری میں پہلا دن تھا تو بہت اداس اور خوفز مدہ تھا۔خود کو اکیلا محسوس کر رہا تھا کبھی فیکٹری میں چلنے والی مشینوں کو دیکھتا تو کبھی اپنے ہاتھوں کو ۔۔۔ پہلے دن وہ کوئی خاص کام تو نہ کر سکا بس فیکٹری کا بغور مشاہدہ کرتا رہا۔ عادل کو محسوس ہوا کہ لڑکا بہت پریشان ہے اس سے کام نہیں ہو پائے گا تو غصے میں کاشف کو بلایا اور کہا:’یہ لڑکا تو بالکل کام نہیں کر رہا ایسے منہ اٹھا کر تم اسے فیکٹری میں لے کر آ گئ تو۔’
کاشف: نہیں صاب! پہلا دن ہے ناں تو اس لیے تھوڑا گھبرایا ہوا ہے۔ کل یہ صیح کام کرے گا۔
عادل:چلو کل بھی دیکھ لیں گے۔
واپس گھر آنے پر کاشف نے بلال کو راستے میں سمجھایا کہ بیٹا آج تو عادل نے کچھ نہیں کہا لیکن وہ بہت ظالم اور جابر انسان ہے غصے کی حالت میں یہ نہیں دیکھتا کہ بچہ ہے یا بڑا کل سے تم کام کرو گے ورنہ عادل فیکٹری سے نکال دے گا۔ تمہارے ابو پہلے بیمار ہیں پھر گھر کا سارا نظام کیسے چلاؤ گے۔ جی میں کل سے اپنے کام کی طرف توجہ دوں گا،بلال نے کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
بلال نے گھر پہنچتے ہی سب کو سلام کیا ابا جان کی خیریت دریافت کی۔ عذرا نے بتایا کہ کل تمہارے ابو کودین پور کے ڈاکٹر امان اللہ کے پاس لے جانا ہے ۔ ۔ تمہارا کیسا رہا پہلا دن ۔۔۔ بس گزر گیا ، بلال نے جواباً کہا۔ بلال کا رنگ پہلے سے بہت پیلا ہو گیا تھا۔۔۔ احمد نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ
بیٹا بتاؤ کام کیسا رہا؟
بلال: ابا جان کچھ خاص ٹھیک نہیں رہا آج پہلا دن تھا جس کی وجہ سے کام کی طرف بالکل توجہ نہیں کر پایا لیکن آپ فکر نہ کریں کل سے پوری توجہ سے کام کروں گا۔
احمد: کام میں اگر کسی قسم کی وقت ہو تو اپنے چچا کاشف سے بلا جھجک پوچھ لینا ۔ وہ ضرور مدد کریں گے۔
بلال: جی اچھا!۔
دوسرے دن جب کا شف اور بلال فیکٹری میں گئے تو آتے ہی عادل نے کاشف کو بلا لیا: ‘اگر آج اس نے کام نہ کیا تو کل سے اسے ساتھ نہ لانا میں نے اس کی جگہ ایک اور مزدور کا بندو بست کر لیا ہے’ ۔ جی صاب! کاشف نے ندامت کے ساتھ جواب دیا۔
کاشف سوچ میں گم ہو گیا کہ اگر آج بلال نے کام نہ کیا تو عادل اسے نکال دے گا اور ان کے گھر کا چولھا جلنا بند ہو جائے گا۔ ‘بیٹا سن لیا عادل صاحب کا حکم کاشف نے بلال کو یاد دلایا ۔ ” جی چاچو ا آج کچھ بھی ہو جائے میں اپنی پوری طاقت سے کام کروں گا بلال نے یقین دلایا۔
کام کرنے کے بعد بلال گھر آیا تو احمد نے بیٹے کی طرف دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ احمد نے بلال سے پوچھا بیٹا کیا ہوا رو کیوں رہے؟ بلال: ابو کام بہت سخت ہے اور میرے ہاتھ بہت نازک میرے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہاتھوں میں خون جم گیا ہو۔
احمد نے بیٹے کو پیار کیا دونوں ہاتھوں کو دیکھا ان پر چھالے واضح دکھائی دے رہے تھے۔ احمد نے بیٹے کے ہاتھوں کا بوسہ لیا ہے تو اس کی اپنی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔۔۔ اور کہنے لگا بیٹا اگر مجھ میں ہمت ہوتی تو میں تمہیں اس عمر میں کبھی کام کرنے نہ بھیجتا۔ بیٹا مجھے معلوم ہے تمہاری یہ عمر کھلنے کی ہے نہ کہ مشینوں میں ہاتھ ڈالنے کی۔ بیٹا مجھے معاف کر دو میں تمہیں اچھا مستقبل نہ دے سکا ۔۔۔ بلال نے اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے اور ابو کو حوصلہ دیا کہ وہ پریشان نہ ہوں جب دو کام کا عادی ہو جائے گا تو پھر یہ چھالے نہیں بنیں گے۔ اور اب آپ میرا سہارا ہیں میرے حوصلے کو مت توڑیں میں سب ٹھیک کر دوں گا۔
صبح ہوتے ہی عذرا، کاشف اور بلال احمد کو لے کر دین پور کے ڈاکٹر امان اللہ کے پاس گئے جب وہ کلینک میں داخل ہوئے تو امان اللہ کلینک میں مریضوں کے ہجوم سے گھرے ہوئے تھے۔ یہ لوگ بھی اپنی باری کا انتظار کرنے لگ گئے ۔۔ ۔ کافی دیر انتظار کے بعد جب ان کا نمبر آیا تو امان اللہ نے احمد کا چیک اپ کیا۔
ڈاکٹر امان اللہ: جی صاحب ! کیسے ہو؟
احمد: ڈاکٹر صاحب طبیعت کافی دنوں سے خراب ہے۔
ڈاکٹر امان اللہ: اللہ پاک کرم فرمائے گا۔۔۔ ان شاء اللہ
امان اللہ ایک رحمدل انسان تھا۔ اس نے احمد کو اچھی طرح دیکھا اور کا شف کو اپنے قریب بلایا : ‘احمد آپکا کیا لگتا ہے ؟’
کاشف: میرا سب سے اچھا دوست ہے۔
ڈاکٹر امان اللہ : آپ کے دوست کی حالت بہت نازک ہے ۔
کاشف: مطلب؟
ڈاکٹر امان: مطلب گردوں میں تکلیف کلی وجہ سے اس کی حالت بہت خراب ہے۔ اگر آپ پہلے آجاتے تو شاید یہ دوا کے ساتھ ٹھیک ہو جاتے ۔ ۔ لیکن اب اس کا آپریشن کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر کچھ دن میں آپریشن نہ کیا تو احمد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
کا شف یہ سن کر بہت پریشان ہو گیا اور پوچھا کہ آپریشن کے لیے کتنے پیسوں کی ضرورت ہو گی ؟
ڈاکٹر ر امان الله: کم از کم پچاس ہزار کی ضرورت ہوگی ۔۔۔ جتنا جلدی ہو سکے اس کا اب آپریشن کرنا ہوگا ور نہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔
کاشف: جی ہم کچھ کرتے ہیں ۔
واپس گھر آئے تو احمد کا حال سننے کے لیے سب کے کان ترس رہے تھے۔ کاشف نے بتایا کہ احمد کی حالت بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ ڈاکٹرامان اللہ نے آپریشن کا کہا ہے اور اس کے لیے پچاس ہزار روپے کی ضرورت ہے اور کہا ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے اس کا آپریشن کروائیں ورنہ احمد کا جینا مکن نہیں ۔ یہ سن کر سب رونے لگ گئے ۔ بلال نے کاشف کی طرف دیکھا اور کہا کہ اب کیا ہوگا۔ کاشف نے کہا کہ اب ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ ہم عادل صاحب سے پچاس ہزار روپے کا قرض لیں تا کہ احمد کی جان بچاسکیں۔ بلال نے کہا کہ وہ کل عادل صاحب سے قرض مانگے گا اور اپنے ابو کی جان بچائے گا۔۔
اگلے دن جب کا شف اور بالال فیکٹری گئے تو انہوں نے عادل سے التجا کی کہ احمد کی حالت بہت خراب ہے اس کا آپریشن کروانا ہے جس کے لیے پچاس ہزار روپوں کا قرض چاہیے ۔ ” بلال اپنی تنخواہ سے ادا کر دے گا’ کاشف نے یقین دلایا۔ لیکن عادل نے قرض دینے سے انکار کیا۔ بلال بہت رو رہا تھا اس نے عادل کی منت سماجت کرنا شروع کردی ۔ عادل کو قصہ آگیا کہ تم بچے کیسے قرض واپس کرو گے کام تو ٹھیک سے کرنا آتا نہیں، کہاں سے لاؤ گے اتنی بڑی رقم ۔ جب بلا نے یقین دلایا کہ وہ کسی بھی طرح سے رقم واپس کر دے گا تو عادل نے کہا کہ وہ ایک شرط پر تمہیں قرض دے گا ۔
بقول:ڈاکٹر احسن علی خان، اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ
ناول سماجی حقیقت نگاری کی ترجمانی کے لیے عمدہ صنف ہے، بلکہ سماجی حقائق کی صحیح تر ترجمانی صنف ناول ہی میں ہو سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی ادب میں ناول کی اب بھی مقبولیت باقی ہے، اردو ادب میں ناول پژمردگی کا شکار ہے، اگر ایسے حالات میں کوئی محمد عمران شاہ جیسا ناول نگار کچھ لکھنے کی جرات کرتا ہے تو یہ اردو ناول کے لیے حوصلہ افزا بات ہے.یہ ناول ہمارے سماج کے اس متوسط سے بھی نچلے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو جیے تو کیا جیے بس جینے کی کوشش کر رہا ہے، اگر وہ اپنی حالت بھی کسی کے سامنے بیان کرتے ہیں تو زمانے کے پاس نہ دل ہے اور نہ آنکھیں ہیں کہ ان کے درد کا مداوا ہو، پورا خاندان حالات کی چکی میں پس رہا ہوتا ہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا،احمد اس ناولٹ کا مرکزی کردار ہے جو بیک وقت مزدوری، بچوں کی تعلیم، بیماری اور خاندان کی کفالت جیسی پریشانیوں کا سامنا کر رہا ہے پھر اس مالک کے رویے کو بھی برداشت کر رہا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے جسے اپنے مفاد کے سوا کسی اور کے حالات دکھائی نہیں دیتے جو فقط اپنی دولت کے نشے میں مست ہےعمران شاہ کی عمدہ کاوش ہے، اس نے غریب طبقہ کے سماجی، معاشی اور نفسیاتی مسائل کی عمدگی سے جھلک دکھائی ہے، تاہم ایک بات ضروری ہے کہ ان سے ناولٹ کا اختتام نہیں ہو سکا جس موقع پر لا کر انہوں نے چھوڑا ہے یہاں بات واضح نہیں ہوتی، پھر بھی اچھی کوشش کی ہےڈاکٹر احسن علی خان اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں