انتظار حسین کے ہاں یاد ماضی کا ذکر

انتظار حسین کے ہاں یاد ماضی کا ذکر

ماضی انسانی زندگی کا گزرا ہوا وقت ہے۔ اس میں موجودہ لمحے سے پہلے کے واقعات اور تجربات شامل ہوتے ہیں انہی واقعات یعنی ماضی کو تبدیل یا کالعدم نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی کو صرف یادوں کی صورت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ماضی ہماری ذاتی اور اجتماعی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ ماضی ہمارے حال اور مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ادب کا ماضی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

ادیب ادب میں وہ کچھ پیش کرتا ہے جو واقع ہو چکا ہوتا ہے۔ ادب ماضی کی عکاسی سے ہماری مستقبل کی سوچ کو تشکیل دیتی ہے، ادب کے ذریعے ہم تاریخی واقعات اور ثقافتی سیاق و سباق سے گہری واقفیت حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ ماضی اور ادب کے درمیان ایک گہرا رشتہ قائم ہے۔ ماضی ہر انسان کے لیے اہمیت رکھتی ہے لیکن ادبا زیادہ حساس ہوتے ہیں اس لیے ادیبوں میں یہ رجحان اکثر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

بعض اوقات ماضی کی یادیں ادیب پر اتنی غالب آجاتی ہیں کہ یہ اس کے لیے ایک نفسیاتی بیماری بن جاتی ہے جس کو پھر ناسٹلجیا کہا جاتا ہے۔ کسی ادیب کے لیے ماضی سے محبت کے متعدد وجوہات ہوسکتے ہیں مثال کے طور پر پرانی یادیں، ماضی سے محبت اور ماضی کی بازگشت سنانے کی ایک وجہ پرانی یادوں سے محبت ہے۔

ایک اور وجہ تخیلاتی دنیا یعنی (آئیڈیل آئزیشن) ہے۔ بعض رومانوی ادبا اور شعرا تخیلاتی دنیا میں چلے جاتے ہیں ان کے لیے بھی ماضی زیادہ اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ ایک اور اہم وجہ ماضی کی بہ نسبت حال کی ابتری ہے جب ماضی کا وقت اچھا گزر جاتا ہے اور پھر حال میں برا وقت آ جاتا ہے تو اسی صورت میں کسی ادیب کے لیے ماضی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔

اردو کے اکثر ادیبوں کی تحریروں میں ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے ان ادیبوں میں ایک اہم نام انتظار حسین کا بھی ہے۔

انتظار حسین کی تمام تصانیف ماضی کے داستانوں اور قصوں کی بازگشت ہے۔ ان کی تحریروں میں یاد ماضی، پچھتاوے، کلاسیکیت سے محبت، ماضی پر نوحہ خوانی، ماضی پرستی اور روایت میں پناہ لینی کی تلاش نمایاں ہے۔ ماضی سے انتظار حسین کی محبت کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ قدیم تہذیب ہے اور یہ تو ظاہرہے ک قدیم تہذیب کا تعلق ماضی سے ہے.

انتظارحسین کو اسی تہذیب سے انس ہے وہ اپنی تہذیبی جڑوں سے محبت کرتے ہیں۔ انتظار حسین کو پرانی اقدار کے بکھر جانے اور نئی اقدار کی سطحی اور جذباتی ہونے کا شدید احساس تھا اور بہت سے جگہوں پر ان کا انداز بیان اور لہجہ ترش ہو جاتا ہے اس ضمن میں "جستجو کیا ہے؟” سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

”کیا زمانے نے ایک ایک کر کے ساری نشانیاں مٹا ڈالیں۔ میں ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں۔ بازار میں یہاں سے وہاں تک بھیڑ ہی بھیڑ ہے۔ سب اجنبی صورتیں اور در و دیوار وہ بھی سب اجنبی ۔ وہ پچھلے دیوار کہاں گئے۔“(39)

اس اقتباس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انتظار کو ماضی سے کس قدر محبت تھی۔ "جستجو کیا ہے؟” کے اس اقتباس کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کس قدر انتظار حسین ماضی کو حال پر ترجیح دیتے تھے۔

بعض اوقات ماضی کی یادیں انسان کے لیے عذاب بن جاتی ہے کیونکہ ماضی کو تو ہم بدل نہیں سکتے اور جب حال سے اس کا موازنہ کیا جاتا ہے تو حال انسان کو کم تر نظر آتا ہے لیکن انسان کے پاس افسردگی کے سوا کچھ نہیں بچتے۔ جس طرح انتظار حسین کہتے ہیں:

” اور ہاں میرے خوابوں ہی کی تجدید نہیں ہوئی، میرا حافظہ بھی پھر سے جاگ اٹھا تھا۔ ارے میں تو جب اپنا ناولٹ "دن” لکھ لیا تو جانا کی بستی کے نام میری یادوں پر آخری خط کھینچ گیا۔۔۔۔

مگر پتہ چلا کہ مرض دب گیا تھا گیا نہیں تھا۔؎ چشم خوں بستہ سے ہے کل رات لہو پھر ٹپکاہم نے جانا تھا کہ اب تو یہ ناسور گیایادوں کا ناسور پھر ابل پڑا۔ بھلا یہ کونسا وقت ہے بیتے لمحوں کو یاد کرنے کا مگر یادیں کسی منطق کو نہیں مانتیں یا شاہد یادوں کی اپنی منطق ہوتی ہے اور حافظہ اپنی حساب سے کام کرتا ہے۔“(40)

انتظار حسین نے "جستجو کیا ہے” میں ماضی کے واقعات کو جس انداز میں پیش کیا ہے اس کے اس کے لہجے سے اس کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔اٹھارہ سو ستاون میں ہندوستانی تہذیب کے بکھر جانے کے حوالے سے انتظار حسین رقم طراز ہیں:

” اب میں سوچ رہا ہوں کہ 1857ء میں جب جہان آباد تاراج ہوا تھا تو اسے رونے والے بہت تھے ۔کتنے اہل دل نے یہ کارِعبث انجام دیا اور آنسوؤں سے تر بتر اس اجڑے دیار کے یادیں قلمبند کیں ۔ “(41)

اس کے بعد انتظار حسین 1947 ء میں ہندوستان کی رہی سہی تہذیب کی مٹ جانے پر لکھتے ہیں:

” شاہد بڑی تہذیبوں کے مقدر ہی میں یہ لکھا ہے کہ وہ جلتے ہوئے اپنے پیچھے کچھ نوحہ گر چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔1947ء میں جہان آباد کی باقیات کو سنگھوانے والی دہلی برباد ہوئی تو کتنے خانہ بردار چار آنسو بہا کر اپنے اپنے کام سے لگ گئے۔“(42)

مختصر یہ کہ ماضی پرستی اور ماضی سے محبت جس طرح انتظار حسین کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے اس طرح ان کی تخلیقات میں اور ان کی آپ بیتی "جستجو کیا ہے؟” میں بھی اس کو اہمیت حاصل ہے۔

مزید یہ بھی پڑھیں: انتظار حسین کا فکشن موضوع اسلوب اور تکنیک مقالہ pdf

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں