انتظار حسین کے ہاں ہجرت کا کرب

انتظار حسین کے ہاں ہجرت کا کرب

اردو ادب کے اہم موضوعات میں سے ایک موضوع ہجرت کا ہے۔ ہجرت چاہے عارضی ہو یا مستقل یہ ایک محسوس ہونے والی چیز ہے۔ اپنے ملک شہر اور گاؤں سے ہر شخص کو محبت ہوتی ہے یوں اس کو چھوڑنا اور دوسری جگہ ہجرت کرنا ایک مشکل امر ہے۔

ہجرت صرف ظاہری طور پر اپنی مٹی کو چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ اس سے انسان اپنی تہذیبی اور تمدنی جڑوں سے الگ ہوجاتا ہے اور ہمیشہ کے لیے انسان کا المیہ بن جاتا ہے پھر ہجرت کے دوران انسان کو جن غیر متوقع حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ ہجرت کے اس المیے کو مزید بڑا المیہ بنا دیتا ہے۔

تاریخ انسانی میں ء1947 کی ہجرت ایک بڑا المیہ تھا جس میں کثیر تعداد میں لوگ قتل ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ہجرت کی۔ اس المیہ نے اردو ادب کے لکھنے والوں کو بہت متاثر کیا کیونکہ ادب معاشرے کا عکاس ہوتا ہے اور بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے اس کا بطور موضوع کا انتخاب کیا۔

جن ادیبوں نے ہجرت اور اس کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا اور اس پر لکھا ان ادیبوں میں ایک اہم نام انتظار حسین کا بھی ہے۔ انتظار حسین کا ادبی سفر ہجرت کے فوراً بعد شروع ہوا ”ان کا پہلا افسانہ "قیوما کی دکان” جسے انہوں نے ہجرت کی ٹھیک ایک سال بعد لکھا جو رسالہ "ادب لطیف” میں 1948ء میں شائع ہو کر مقبول عام ہوا۔“(31)

اس موضوع کو نہ صرف انہوں نے اپنے افسانوی ادب میں پیش کیا ہے بلکہ ان کی آپ بیتی "جستجو کیا ہے؟” میں بھی جگہ جگہ پر قاری کو ہجرت کا احساس ہوتا ہے۔ 1947ء میں لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اچھے مستقبل کی امید لے کر ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کی مگر وہاں انہیں محرومی ہی محرومی کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ ہجرت کے مسائل کا ذکر انتظار حسین اپنی آپ بیتی میں کچھ اس طرح کرتے ہیں:

”کوئی ایک قافلہ ہرج مرج کھینچتا، مرتا کھپتا، خاک دھول میں رلتا شہر میں آن وارد ہوتا۔ کچھ ٹھکانے کی تلاش میں ٹوہتے ٹوہتے شہر سے نکل کر کسی پاس کے نگر میں جا پسا رتے۔ کچھ یہں کوچہ کوچہ خاک چھانتے کسے کونے کھڈے میں سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈ نکالتے۔“(32)

اس اقتباس کو پڑھ کر قاری کو احساس ہوتا ہے کہ ہجرت کے دوران اور ہجرت کے بعد پیش آنے والے حالات اور پریشانیوں کو مصنف نے بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ہجرت کے بعد کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور جگہ انتظار حسین لکھتے ہیں:

”یہاں آکر بے گھر، بے در، بھٹکتا پھرتا، کسی جھگی میں وقت گزارتا پھر شاید کچھ سوچ بچار کرتا۔“(33)

انتظار حسین نے ہجرت کی اس المیہ کو شدت سے محسوس کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ ہجرت صرف ظاہری ہجرت یعنی ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ آباد ہونا نہیں تھا بلکہ اس کے نتیجے میں وہ اپنی تہذیبی جڑوں سے الگ ہو گئے اس لیے انتظار حسین پوری زندگی ہجرت کی اس المیے کو نہ بھول سکے۔ اس ضمن میں "جستجو کیا ہے؟” سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

”میری ایک عادت بہت اچھی ہے۔ تقریبوں میں جو کہتا ہوں وہ بھی یاد نہیں رہتا۔جو سنتا ہوں وہ بھی یاد نہیں رہتا، بس ایک سوال یاد رہ گیا ہے۔

وہ سوال ہی ایسا ہے کہ ہندوستان میں جاؤ اور تقریب میں مہمان خصوصی بن کر بیٹھو تو یہ سوال کسی نہ کسی صورت ضرور کیا جائے گا کہ جناب تقسیم کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ غلط ہوئی یا صحیح ہوئی۔ ارے یہ ظالم سوال آخر کب تک پوچھا جائے گا۔۔۔ میں نے عرض کیا، عزیزو یہ سوال کرنے کا وقت گزر گیا ہے۔ بہت دیر ہو گئی۔ جب برصغیر کی تاریخ موڑ مڑنے کے لیے تلی کھڑی تھی اس وقت یہ سوال بہت برمحل تھا۔“(34)

اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتظار حسین چاہتے تھے کہ نہ تقسیم ہوتا نہ ہجرت ہوتی تو اچھا ہوتا۔ انتظار حسین 1947ء کی ہجرت کو مسلمانوں کی قدیم تاریخ سے جوڑتے ہیں کیونکہ انتظار حسین موجودہ حال کی بازیافت ماضی کے واقعات سے کرتے ہیں اور یوں ہجرت کو بھی مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم حصہ گردانتے ہیں

جس نے مختلف ادوار میں بار بار خود کو دہرایا ہے۔ انتظار حسین کے ہاں ماضی جامد نہیں بلکہ ایک نامیاتی طاقت ہے۔ 1947ء کی ہجرت اور ہندوستان سے نکلنے کو انتظار حسین مسلمانوں کی قدیم ترین تاریخ سے جوڑتے ہوئے لکھتے ہیں:

”دراصل میں اور منیر نیازی جنت سے ایک ہی وقت میں نکالے گئے تھے۔۔۔۔ مگر ہمارا حافظہ ہمارا دشمن بن گیا۔ حافظے نے بی بی حوا کو بھی بہت ستایا تھا۔ جنت سے نکلنے کے بعد انہیں جنت ایک عمر تک یاد آتی رہی۔ انہوں نے جنت کو بہت یاد کیا اور بہت روئیں جنت کی یاد میں بہنے والے آنسو جو زمین پر گرے ان سے مہندی کے پیڑ اگے۔“(35)

ہجرت کا درد و کرب پوری زندگی انتظار حسین کا پیچھا نہ چھوڑا آخر عمر تک یہی درد برقرار رہا خود انتظار حسین "جستجو کیا ہے؟” کے آخر میں لکھتے ہیں:

”مگر میں تو پھر اداس ہوں۔ وہ خوشی عارضی نکلی۔ کھوئی ہوئی چیز کہاں ملتی ہے۔ مگر کونسی کھوئی ہوئی چیز یہ بھی تو یاد نہیں ہے کہ وہ شے کیا تھی جو میں وہاں سے نکلتے وقت رواروی میں چھوڑ آیا تھا۔ بہت کچھ یاد آتا ہے بس وہی شے یاد نہیں آتی سو درد ہجرت برقرار ہے۔“(36)

مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ "جستجو کیا ہے؟” میں انتظار حسین کی دوسری تخلیقات کی طرح ہجرت کاکرب بدرجہ اتم موجود ہے۔

مزید یہ بھی پڑھیں: انتظار حسین کے ہاں یاد ماضی کا ذکر

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں